قرض دار اور قرض خواہ:
قرض دینے کے بعد قرض خواہ میں ایک ہیکڑی پیدا ہوجاتی ہے جو قرض دار کے ساتھ روا رکھنا وہ فرضِ عین سمجھتا ہے جبکہ قرضدار میں عاجزی اور انکساری اس درجہ بڑھ جاتی ہے کہ جہاں قرض دہندہ کو دیکھا زمین بوس ہوگیا۔خدا ہمیں قرضہ لینے کی علت سے محفوظ رکھے یہ وہ جال ہے جس میں پھنسنا آسان ہے اور نکلنا دشوار ۔
کہاں تو حکم یہ کہ شریعت قرض لینے کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔۔
دوسری طرف شریعت نے قرض دینے کے بہت سے فضائل بیان کیے ہیں۔ یہاں تک کہ :
۔۔۔۔ قرض دینا آدھے صدقے کے برابر ہے۔
۔۔۔وقت آ جانے کے بعد غریب کو مہلت دینے پر ہر دن دو گنا صدقہ کرنے کا اجر ملے گا۔
۔۔۔احادیث سے ثابت ہے اور مفہوم بالکل واضح ہے کہ قرض دینا ایک نیک عمل ہے۔۔۔جس پر اللہ تعالی کی طرف سے قرض دینے والے کے لیے دنیا و آخرت کی سہولت اور صدقہ سے زیادہ اجر و ثواب عطا فرمانے کا وعدہ ہے۔بس جو کچھ پڑھا ہے اس سے یہ بات واضع ہے کہ جب قرض دے دیا جائے تو دل بڑا کر لیا جائے ۔۔۔شریعت قرض دینے والے کا حق ضائع نہیں کرنا چاہتی ۔۔اسی لیے لکھنے کاحکم ہے یعنی معاہدہ ۔۔گواہان۔۔اداہیگی کی تاریخ کا تعین ۔۔
تمام شرائط کے باوجود اگر قرضہ ادا کرنا مشکل ہوجائے ۔۔تو مہلت دینا معاف کردینا بہترین عمل کا حصہ قر ار پایا ۔۔۔
اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ر ڑ ز ژ س ش ص ض ط ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے۔
ا۔ب۔پ ۔۔۔۔۔ کھیل نمبر 62