عظیم

محفلین
رہنے دیں اب نرخوں کی بات! یہاں تو دھاندلی کا شور ہے سوشل میڈیا پر، یہ کہا جا رہا ہے کہ حکومت بجلی کے بلوں میں ہیر پھیر کر رہی ہے
 
خیریت ہوئی ہم نے سوچا جلدی میں کہیں غلط نہ لکھا ہو فورا دیکھا۔۔۔۔۔۔
ڑے آپ نے کیوں تردد کیا، میں نے تو اپنی کم علمی کا اظہار کیا تھا۔
 
زاہدان کے بارے میں جومعلومات آپا جی نے دی ہیں بس علم میں آنے کے بعد فلم سی چل رہی ہے دماغ میں اُن خیالات کے ڈھیر ہونے کی جو عرصے سے قائم تھے ۔
 

سیما علی

لائبریرین
ڑے آپ نے کیوں تردد کیا، میں نے تو اپنی کم علمی کا اظہار کیا تھا۔
ژوب سے بلا لیا بھیا آپ نے ارے کم علم ہوں آپکے دشمن ۔۔۔اتنے اچھے شاعر ہیں اور ساتھ ساتھ نثر اتنی بہترین لکھتے ہیں ہم ڈر گئے کہ کہیں غلط نہ لکھ گئے ہوں ۔۔آپ سب کے ساتھ بالکل جاہل تصور کرتے ہیں اپنے آپ کو۔۔😎
 

سیما علی

لائبریرین
شمار کیا کیجیے سسرال کے فضائل کو ۔۔۔سسرال بھی کیا افلاطونی ہے کہ نصیحت بھی ہے فضیحت بھی ۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
زاہدان کے بارے میں جومعلومات آپا جی نے دی ہیں بس علم میں آنے کے بعد فلم سی چل رہی ہے دماغ میں اُن خیالات کے ڈھیر ہونے کی جو عرصے سے قائم تھے ۔
صحیح باتیں ہمیں ہمیں یہ زاہدان کی زبیدہ سے معلوم ہوئیں جوہماری پڑوسن بھی تھیں وہ ایرانی ایمبیسی میں کام کرتیں تھیں ہمارے اوپر والے اپاڑٹمنٹ میں رہتیں تھیں دونوں میاں بیوی انتہائی ملنسار تھے ۔۔تھوڑی انگریزئ جانتی تھیں توبات چیت میں آسانی تھی بچے انکے تھے نہیں تو ہماری چھوٹی بیٹی رباب سے بیحد پیار کرتیں کہتیں یہ ایرانی نام ہے ۔۔جب بھی زاہدان جاتیں اسکے لئے تحائف لاتیں ہمارے اپاڑٹمنٹ میں خاصے ایرانی رہتے تھے ۔۔
 
ظنِّ غالب اور گمانِ غالب:
ہمارے ہاں تحریرو تقریر میں قوی امکان کے لیے عام طور پر گمانِ غالب کی ترکیب زیادہ مستعمل ہے ،ظن غالب کا استعمال کم کیا جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:
عقل و خِرد کے تماشے:
جہاں جائیں چائنا کا سامان آپ کا استقبال کرے گا اور جو چیز اُٹھائیں اُس پر ساختہ چین لکھا ملے گا۔ یہ ہے وہ بلندی جو چین کو نصیب ہوئی اور ایک زمانہ تھا کہ پوری قوم اپناحال بدلنے کے لیے کل کی تعمیر میں جٹی ہوئی تھی ، حتی ٰ کہ اِس دُھن میں چینی عورتیں میک اپ کرنا بھول گئی تھیں۔آج چین کی نئی نسل بغیرمیک اپ کے کیسی گوری چٹی اور حسین نکلی ہے ۔اُن کے پیروں کی چاپ سے خوشحالی کی آواز آتی ہے جو کہہ رہی ہے :’’میری سُنو جو ’’پاؤں‘‘ نصیحت نیوش ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
عقل و خِرد کے تماشے:
جہاں جائیں چائنا کا سامان آپ کا استقبال کرے گا اور جو چیز اُٹھائیں اُس پر ساختہ چین لکھا ملے گا۔ یہ ہے وہ بلندی جو چین کو نصیب ہوئی اور ایک زمانہ تھا کہ پوری قوم اپناحال بدلنے کے لیے کل کی تعمیر میں جٹی ہوئی تھی ، حتی ٰ کہ اِس دُھن میں چینی عورتیں میک اپ کرنا بھول گئی تھیں۔آج چین کی نئی نسل بغیرمیک اپ کے کیسی گوری چٹی اور حسین نکلی ہے ۔اُن کے پیروں کی چاپ سے خوشحالی کی آواز آتی ہے جو کہہ رہی ہے :’’میری سُنو جو پاؤں نصیحت نویش ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غیر ضروری ئوجاتیں ہیں ۔۔سب چیزیں جب آپ کی مصنوعات پوتی دنیا پر راج کر رہیں ہوں انگلینڈ میں جب بھی ہم کوئی چیز خرید رہے ہوتے تو خاص طور پر دیکھتے کہ شاید یہ چیز چین کی بنی ہوئی نہ ہو پر ناکامی ہوتی ۔۔بلا شبہ
چین نے زندگی کے ہر شعبے میں بے پناہ ترقی کی ۔اس مقام پر پہنچنے کے لئے دوسری قوموں کو شاید صدیاں لگیں ۔۔
ایسے لگتا ہے کہ چینی قوم نے بانی پاکستان قائد اعظم کے قول ''کام کام اور بس کام'' پر صحیح معنوں میں عمل کیا۔ کاش ہم بابائے قوم کے احکامات پر عمل کرتے تو آج ترقی کر چکے ہوتے۔
 
قرض دار اور قرض خواہ:
قرض دینے کے بعد قرض خواہ میں ایک ہیکڑی پیدا ہوجاتی ہے جو قرض دار کے ساتھ روا رکھنا وہ فرضِ عین سمجھتا ہے جبکہ قرضدار میں عاجزی اور انکساری اس درجہ بڑھ جاتی ہے کہ جہاں قرض دہندہ کو دیکھا زمین بوس ہوگیا۔خدا ہمیں قرضہ لینے کی علت سے محفوظ رکھے یہ وہ جال ہے جس میں پھنسنا آسان ہے اور نکلنا دشوار ۔
 

سیما علی

لائبریرین
قرض دار اور قرض خواہ:
قرض دینے کے بعد قرض خواہ میں ایک ہیکڑی پیدا ہوجاتی ہے جو قرض دار کے ساتھ روا رکھنا وہ فرضِ عین سمجھتا ہے جبکہ قرضدار میں عاجزی اور انکساری اس درجہ بڑھ جاتی ہے کہ جہاں قرض دہندہ کو دیکھا زمین بوس ہوگیا۔خدا ہمیں قرضہ لینے کی علت سے محفوظ رکھے یہ وہ جال ہے جس میں پھنسنا آسان ہے اور نکلنا دشوار ۔
کہاں تو حکم یہ کہ شریعت قرض لینے کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔۔
دوسری طرف شریعت نے قرض دینے کے بہت سے فضائل بیان کیے ہیں۔ یہاں تک کہ :
۔۔۔۔ قرض دینا آدھے صدقے کے برابر ہے۔
۔۔۔وقت آ جانے کے بعد غریب کو مہلت دینے پر ہر دن دو گنا صدقہ کرنے کا اجر ملے گا۔
۔۔۔احادیث سے ثابت ہے اور مفہوم بالکل واضح ہے کہ قرض دینا ایک نیک عمل ہے۔۔۔جس پر اللہ تعالی کی طرف سے قرض دینے والے کے لیے دنیا و آخرت کی سہولت اور صدقہ سے زیادہ اجر و ثواب عطا فرمانے کا وعدہ ہے۔بس جو کچھ پڑھا ہے اس سے یہ بات واضع ہے کہ جب قرض دے دیا جائے تو دل بڑا کر لیا جائے ۔۔۔شریعت قرض دینے والے کا حق ضائع نہیں کرنا چاہتی ۔۔اسی لیے لکھنے کاحکم ہے یعنی معاہدہ ۔۔گواہان۔۔اداہیگی کی تاریخ کا تعین ۔۔
تمام شرائط کے باوجود اگر قرضہ ادا کرنا مشکل ہوجائے ۔۔تو مہلت دینا معاف کردینا بہترین عمل کا حصہ قر ار پایا ۔۔۔

اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض‌ ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے۔

ا۔ب۔پ ۔۔۔۔۔ کھیل نمبر 62​

 
Top