نام تو اردو کی محبت کا تھا محفل کی تشکیل کے وقت، لیکن عملی طور پر پیار محبت بھی بانٹا جا رہا ہے محفل میں جس کا فقدان نظر آتا ہے دوسری جگہوں پر
وحدت الوجود اور وحدت الشہور:
صوفیائے کرام کی اِصطلاح کو عنوان بناکر اُردُو اور اُردُو سے اہلِ اُردُو کے رویے پر کچھ کہناچاہوں گا۔
اُردُو کی بعض دیگر ویب سائٹس پر بیشک اُردُو کی خدمت کے نام پر اُردُو پر جو ظلم ڈھایاجارہا ہے ، یہ ہمارے اُن بچوں کو زیادہ متاثر کررہا ہے جو انگلش میڈیم میں چل رہے ہیں۔وہ سمجھیں گے بالکل کو بلکل لکھنا دُرست،مرکب الفاظ میں اضافت کی علامت لگانا غیرضروری اور اپنی تحریروں کو لکھ کردوبارہ پڑھنا اور اُنھیں غلطیوں سے پاک کرکے نشرکرنا فضول ہے۔بس لکھو اور پیل دو اور دعویٰ کر و اُردُو سے محبت کا اور زیادہ چڑھ جائے تو خدمت کا دعویٰ بھی جڑدو۔
اُردُو سے تعلق کے حوالے سے ہمیں وحدت الشہود پر ایقان کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ یعنی ہمارے سامنے ہماراہی بویاآتا ہے ، کل بھی یہی ہوااور اب بھی جو کچھ سامنے ہے اُس پر اُردُو سے ہمارے ظالمانہ سلوک کا ہی پرتو ہے۔تو بجائے لگی لپٹی رکھنے کے صاف کیوں نہ کہہ دیا جائے کہ نہ تو ہمیں اپنی زبان سے محبت ہے اور نہ ہی جدیدوسائل کے ذریعے ہم اِس کی کوئی خدمت کر کےمجاہدینِ اُردُو یعنی اکابرینِ اُردُو کی قربانیوں کا قرض اُتاررہے ہیں بلکہ اپنے قلم سے (کی بورڈ سے) ان کے کارناموں پر پرخاک ڈال رہے ہیں۔
ہم پر کھیل ہی کھیل میں اُردُو کی ایک سطر کا بھی اِس کے علمی اور ادبی تقاضے پورے کرتے ہوئے لکھنادوبھر ہے کہ ہمارے بچوں کی تعلیم ہوجائے اور اُن کے سامنے اچھی اچھی تحریروں کے وہ نمونے آجائیں جنھیں اچھا لکھنے کی مشقوں کی بنیاد بنایا جاسکے۔