حلقہ ٔ ارباب ذوق ایک ادبی تنظیم تھی (اب پتا نہیں ہے کہ نہیں ہے کیونکہ اور اور انجمنوں کی طرح اِس کا بھی بس نام ہی نام رہ گیا ہے یا کہیں دفتر بھی ہے)تو اِس کا پرانانام یعنی اِس کے دنیا میں وجود پاتے ہی ، اِسے جو نام دیا گیا وہ عجیب مضحکہ خیز اور غیر رومانی تھا یعنی ’’مجلسِ داستان گویاں‘‘داستان کا لفظ غالباً اشفاق احمد نے بھی استعمال کیا تھا ، شاید سرا کے لاحقے کے ساتھ اپنے دفتر یا پھر رہائش کےلیے ۔
مجھے تعجب یہ ہے کہ جدید داستانوں کا دور تو باغ وبہار سے شروع ہوکر مِراۃ العروس پر ختم ہوگیا تھا یہ بیسویں صدی کے ادیبوں کو اِس لفظ اوراِس ادبی صنف میں ایسی کیا جاذبیت نظر آتی ہے کہ شیر محمد خان معروف بہ ابنِ انشاء کی شروع تحریروں کا اسٹائل بھی مزاح کے رنگ میں سہی داستانی ادب سے ماخوذتھا۔