رکابیوں اور پلیٹوں کی ایک قسم غوری بھی ہوا کرتی تھی۔عام پلیٹوں سے کچھ گہری اور کناروں پر کنگورے ۔عام طور پر تانبے کے برتن برتے جاتے تھے جن کی سال چھ مہینے میں قلعی کرائی جاتی اور قلعی گر بنفسِِ نفیس خود گھر آکر یہ خدمت انجام دیا کرتا تھا اور اپنا کام ایسے انہماک سے انجام دیتا تھا کہ جس دروازے کے آگے بیٹھتا تھا اپنے کام کے آگے اُس کی بھی خبر اُسے نہ ہوتی تھی اور نہ آنے جانے والوں کی آمد ورفت میں خلل پڑتا تھا یوں لگتا تھا جیسے کہہ رہا ہو:
ہم سے تہذیب کادامن نہیں چھوڑا جاتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دشتِ وحشت میں بھی آداب لیے پھرتے ہیں