سیما علی

لائبریرین
ضروری ہے وعلیکم السلام کہنا
وجی بھیا کو


اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ا۔ب۔پ ۔۔۔۔۔ کھیل نمبر 62

 
طاؤس و رباب کے الفاظ میں حضرت علامہ نے کیا ہی بلیغ استعارے دئیے ہیں ،ہمیں اِن کی قدر کرنی چاہیے۔اور نہیں تو ، اور نہیں تو،اور نہیں ہم اِ ن اِستعاروں سے برِ صغیر کی حالیہ تاریخ پر پڑی محض چند صدیوں کی دھول ہٹانے کے لیے جھاڑن کا کام تولے ہی سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔​
 
آخری تدوین:
ظہیر الدین بابر، ہمایوں ، اکبر، جہانگیر، شاہجہاں اور پھر اورنگ زیب عالمگیر چھے مضبوط مغل بادشاہ تھے ۔ میں بابر کے پاس گیا اور کہا مجھے اپنے نام سےب دیدیں ، اُنھوں نے دیا۔میں ہمایوں سے ہ لے آیا ، اکبر سے الف ، جہانگیرسے ج ، شاہجہاں سے ش اور اورنگ زیب سے بھی الف لاکر اِن مفرد حروف کو سُرخ رنگ سے رنگ دیا ؛ب ہ ا ج ش ا، پھر اِنھیں جوڑ کر دو لفظ بنالیے بہاج شا۔اب مجھے اِن دوالفاظ سے چھے مضبوط مغل بادشاہوں کے ناموں کا یاد رکھنا آسان معلوم ہوتا ہے۔مگر اِن کے بعد جوشہزادے بادشاہ بن کر آئے اُن کی فہرست قدرے طویل ہے ۔حیران ہوں اُنھیں کیسے یادداشت کے دام میں لاؤں۔۔۔۔۔​
 
آخری تدوین:
عقل تو فتنہ گرِ جسم و جاں ہے ۔ میں بات کررہا ہوں دل کی۔۔۔۔۔دنیا میں جتنے بڑے کام ہوئے ہیں اُن کا آغاز دیوانگی کے عالم میں دل سے ہواہے۔ پھر رفتہ رفتہ یہ کام عقل کے سپرد ہوئے اور عقل نے اِن ایجادات میں وہ وہ رنگ بھرے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اہلِ دل حیران رہ گئے تومطلب یہ کہ ایجاد دل کا کام ہے اور اختراع عقل کا حصہ بقدرِ جثہ۔۔۔
حاصلِ کلام:
عقل اگر دل سے مشورہ نہ کرے تو غارت گرِ جسم و جاں ہے اور کرلے تورونقِ بزمِ جہاں ہے

 
غدرمچ چکنے کے بعد یعنی 1857ء کا ہنگامہ تھمنے کے بعد اُردُو زبان و ادب کے حوالے سے جو بڑے بڑے کام ہوئے ہیں اُن میں ایک بڑا کارنامہ اُردُو کی سب سے بڑی لغت، جس کا مقام انسائیکلو پیڈیا سے بھی ارفع ٰ ہے ،کی تیاری اور پیشکش ہے اور وہ ہے ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘ ۔یہ مولوی سیداحمد کی تالیف کردہ ایسی شہکار لغت ہے جسے اُردُو کی تمام لغات کی سرخیل اور سردار کہنا چاہیے، واہ ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘ اور واہ مولوی صاحب سید احمد۔۔ ۔۔۔ہیکلِ عزم وہمت (علمی مہمات میں )او ر پیکرِ صدق و صفا(فرض کی ادائی میں )۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
آخری تدوین:
قبلہ نازاں سولاپوری فرماگئے ہیں :

جھوم برابر جھوم شرابی جھوم برابر جھوم
کالی گھٹا ہے مست فضا ہے ، جام اُٹھا کر
گھوم ۔۔۔۔۔۔۔گھوم۔۔۔۔۔۔گھوم
جھوم برابر جھوم شرابی جھوم برابر جھوم
 
آخری تدوین:
مکاتیبِ اقبالؒ:ایک خط اور کئی کئی رنگ ، واہ،جیسا شعر ویسی ہی انشا ء، سبحان اللہ ۔!
میرے سامنے علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے مکاتیب کی جلد اوّل دھری ہے ، اِ س میں وہ خط جو اُنہوں نے مولوی انشاء اللہ خان کو تحریر کیا ہے ، میں ابھی پڑھ کر فارغ ہوا ہوں ۔ عام طورپرشعر کہنے والوں کی بات چیت، گفتار اور کلام بھی شاعری کی طرح رنگ وآہنگ لیے ہوتا ہے اور نثری تحریروں میں توایک ایک لفظ اُن کی اِس خداداد صلاحیت کی سند اور ثبوت بن کر ابھرتا ہے۔
یہ خط جس کا ذکرکیاہے اور جس کے بارے میں اور بھی کچھ کہنا چاہتاہوں ، حضرت علّامہ نے اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان جاتے ہوئے بحری جہاز سے سفر کے دوران لکھا۔کہنے کو یہ ایک خط ہے مگراِسےحضرت علّامہ کی شخصیت،اُن کے شاعرانہ میلان، اُن کی گل وگلزار نثر اور باغ و بہار انشاءپردازی کی ایسی دستاویزسمجھنا چاہیے جس میں طلباے ادب اور علماے ادب، دونوں طبقات کے لیے تحریرو ترقیم کے ضمن میں ایک عینی معیار بننے کی بھرپور صلاحیت ہے۔۔۔۔​
 
آخری تدوین:
ناطقہ سربہ گریباں ہے اِسے کیا کہیے!
تو میں مکاتیبِ اقبالؒ کے ضمن میں لکھی اِس تحریرکو آگے بڑھاتاہوں ۔ خط جو حضرت علامہ نے سفرانگلستان کے دوران مولوی انشاء اللہ خان کو لکھا تھا۔مولوی انشاء اللہ خان کے بارے میں وِکی پیڈیاتو یہ بتاتا ہے کہ وہ ایک اعلیٰ درجہ کے محقق، مورخ، مفسر صحافی اور صاحبِ اُسلوب ادیب تھے اور اُن کی کتابوں میں ترجمہ انجیل برناباس،تاریخ ِ خاندانِ عثمانیہ،واقعاتِ روم وغیرہ وغیرہ کے نام لیتا ہے ۔ ظاہر ہے علامہ جیسی عالم فاضل ہستی کا حلقہ ٔ احباب بھی اُنھی کے پاے کی شخصیات سے سجا ہوگا۔
خط کے آغاز میں لاہور سے بذریعہ ٹرین دہلی پہنچنے کا ذکر ہے،خواجہ حسن نظامی ؒ اور شیخ نذر محمداسسٹنٹ مدارس سے ملاقات کا تذکرہ ہے اور اُن کے ہمراہ حضرت نظام الدین اولیاؒ کے مزار پر حاضری اورپھر تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا یعنی غالؔب کی قبرکی زیارت کا حال رقم ہے ۔شہنشاہ ہمایوں کی مرقد اور اُسے کے لاڈلے بیٹے داراشکوہ کی تُربت پر فاتحہ خوانی کا قصہ بھی اِس میں ہے۔۔۔۔۔​
 
آخری تدوین:
وہاں سے چلے تو بمبئی پہنچے ۔بمبئی کے بازار، وہاں کی رونقیں، ہوٹلوں کا منظر،بھانت بھانت کی بولیاں ،جگہ جگہ کے لوگ اور طرح طرح کی چیزیں ، اِن کی روداد مزے لے لیکر بیان کی ہیں۔بقول اقبال بمبئی میں دنیا کی ہر چیز مل جاتی ہے۔ نہیں ملتی تووہ فرصت ہے جو یہاں شاید ہی کسی کو میسر ہو۔مقررہ دن اور طے شدہ وقت پرحضرت علامہ ڈاکیارڈ پہنچے اوراور اس سے ملحق بندرگاہ سے اپنے جہاز پرسوار ہوکر عازمِ لندن ہوئے۔جہاز ساحل سے جدا ہوکر بحیرۂ عرب کے نیلے پانیوں سے ہم آغوش ہوا اور اِس کی نرم و لطیف سطح پر رستہ بناتا آگے بڑھا۔۔۔۔۔۔۔​
 
آخری تدوین:
ہمارے قومی شاعر حضرت علامہ اقبال نے اپنے مکتوب میں جہاں دہلی کااحوال اور بمبئی کی رودادبیان کی ہے وہیں دیوقامت اور شہر نمابحری جہاز کی صورتِ حال بھی نہایت دلچسپ انداز میں تحریر کی ہے ۔ساختہ فرانس یہ جہاز اور اِس کے فرانسیسی عملے کے شائستہ ا طوار دیکھ کر اِنہیں اہلِ لکھنو یا د آگئے ۔جہاز میں صفائی پر مامور عملہ ایک ذراکچرا ، ردّی یا جھاڑ جھنکار جہاز پر رہنے نہ دیتا لہٰذا جہاز نشیں خواتین و حضرات عرشہ پر اور جہاں چاہتےہیں بیفکری و فراغت سے گھومتے سیر کرتے نظر آتے ہیں اور تھک جاتے ہیں تو اِنہیں فرش پر دراز ہوجانے میں بھی تکلف نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
آخری تدوین:
یاخُدا ۔۔!۔خط کے اِس آخیر حصے میں حضرت نےجہاز کے سرزمینِ عرب میں داخل ہونے پر دل کی کیفیت جن الفاظ اور جس انداز میں بیان کی ہے، اُس کی صحیح تصویر اُتارنا سہل نہیں۔میں خط کا یہ حصہ قدرے مختصر کرکے یہاں نقل کردیتا ہوں:
’’اب ساحل قریب آتا جاتا ہے اور چند گھنٹوں میں ہمارا جہاز عدن جاپہنچے گا۔ ساحلِ عرب کے تصّورنے جو ذوق و شوق اِس وقت دل میں پیداکردیا ہے اُس کی داستان کیاعرض کروں۔بس دل چاہتا ہے زیارت سے اپنی آنکھوں کو منور کروں:​
اللہ رے !خاکِ پاکِ مدینہ کی آبرو
خورشید بھی گیاتو اُدھر سرکے بل گیا​
اے عرب کی مقدس سرزمین ، تجھ کو مبارک ہو! تو ایک پتھر تھی جس کو دنیا کے معماروں نے رد کردیا تھا مگر ایک یتیم بچے نے خدا جانے تجھ پر کیا افسوں پڑھ دیا کہ موجودہ دنیا کی تہذیب وتمدّن کی بنیادتجھ پر رکھی گئی۔تیرے ریگستانوں نے ہزاروں مقدس نقشِ قدم دیکھے ہیں اور تیری کھجوروں کے سائے نے ہزاروں ولیوں اور سلیمانوں کو تمازتِ آفتاب سے محفوظ رکھا ہے ۔کاش میرے بدکردار جسم کی خاک تیری ریت کے ذرّوں میں مل کر تیرے بیابانوں میں اُڑتی پھر ے اور یہی آوارگی میری زندگی کے تاریک دنوں کا کفارہ ہو!کاش میں تیرے صحراؤں میں لُٹ جاؤں اور دنیا کے تمام سامانوں سے آزاد ہوکر تیری تیز دھوپ میں جلتا ہوا اور پاؤں کے آبلوں کی پروا نہ کرتا ہوا اُس پاک سرزمین میں جاپہنچوں جس کی گلیوں میں بلال ؓ کی عاشقانہ آواز گونجتی تھی۔‘‘​
از عدن ، بتاریخ 12ستمبر
راقم، محمداقبال۔​
 
Top