یاخُدا ۔۔!۔خط کے اِس آخیر حصے میں حضرت نےجہاز کے سرزمینِ عرب میں داخل ہونے پر دل کی کیفیت جن الفاظ اور جس انداز میں بیان کی ہے، اُس کی صحیح تصویر اُتارنا سہل نہیں۔میں خط کا یہ حصہ قدرے مختصر کرکے یہاں نقل کردیتا ہوں:
’’اب ساحل قریب آتا جاتا ہے اور چند گھنٹوں میں ہمارا جہاز عدن جاپہنچے گا۔ ساحلِ عرب کے تصّورنے جو ذوق و شوق اِس وقت دل میں پیداکردیا ہے اُس کی داستان کیاعرض کروں۔بس دل چاہتا ہے زیارت سے اپنی آنکھوں کو منور کروں:
اللہ رے !خاکِ پاکِ مدینہ کی آبرو
خورشید بھی گیاتو اُدھر سرکے بل گیا
اے عرب کی مقدس سرزمین ، تجھ کو مبارک ہو! تو ایک پتھر تھی جس کو دنیا کے معماروں نے رد کردیا تھا مگر ایک یتیم بچے نے خدا جانے تجھ پر کیا افسوں پڑھ دیا کہ موجودہ دنیا کی تہذیب وتمدّن کی بنیادتجھ پر رکھی گئی۔تیرے ریگستانوں نے ہزاروں مقدس نقشِ قدم دیکھے ہیں اور تیری کھجوروں کے سائے نے ہزاروں ولیوں اور سلیمانوں کو تمازتِ آفتاب سے محفوظ رکھا ہے ۔کاش میرے بدکردار جسم کی خاک تیری ریت کے ذرّوں میں مل کر تیرے بیابانوں میں اُڑتی پھر ے اور یہی آوارگی میری زندگی کے تاریک دنوں کا کفارہ ہو!کاش میں تیرے صحراؤں میں لُٹ جاؤں اور دنیا کے تمام سامانوں سے آزاد ہوکر تیری تیز دھوپ میں جلتا ہوا اور پاؤں کے آبلوں کی پروا نہ کرتا ہوا اُس پاک سرزمین میں جاپہنچوں جس کی گلیوں میں بلال ؓ کی عاشقانہ آواز گونجتی تھی۔‘‘
از عدن ، بتاریخ 12ستمبر
راقم، محمداقبال۔