ثمرین سے پوچھا :’’لوگوں کا علم وہنر سے یہ کاپی پیسٹ والا ظالمانہ سلوک کب تک؟‘‘ ثمرین بڑی پیاری بچی ہے اِتنی چھوٹی سی عمر ہی میں سمجھ چکی ہے کہ جب تک ایجاد و اختراع کے کاموں اورعلم وہنر کی باتوں میں جان ماری کے عناصر نہوں،یہی ہوگا، جھٹ بولی:’’ازماست کہ برماست۔۔۔۔۔۔‘‘میں نے کہا بی بی اِس مقولے کی اُردُوہو تو کہو۔تو کہا :’’اِسے ہماری چھپی ہوئی صلاحٰیتوں کا کھلا تماشا کہیے۔۔۔۔‘‘​
 
آخری تدوین:
جادو کی نگری، طلسمات کا گڑھ اور عجائبات کی دنیاہے زمین کایہ کر ّہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گزشتہ قرنوں میں اُس عہد کے تعجب خیز مظاہرہوں گے جن پر تعجب کی رسم ادا کی جاتی ہوگی۔ ہمارے زمانے میں اور اور چیزیں ہیں جن پر حیرت سے دم گھُٹا جاتا ہے۔۔۔۔۔​
دم گھٹا جاتا ہے سینے میں پھر بھی زندہ ہیں​
 
آخری تدوین:
’’چاند کی کونسی تاریخ ہے ؟‘‘میں نے ثمرین سے پوچھا۔ثمرین میں یہ خاص بات ہے کہ جب اخبار اُٹھاتی ہے تو اخبار کی لوح پر سب سے پہلے نظر کرتی ہے ۔دن تاریخ اور سال پڑھ کر پھرآگے بڑھتی ہے۔ثمرین نے بتایا آج ربیع الثانی کی دو اور اکتوبر کی پانچ تاریخ ہے ،اسلامی سال 1446ھجری اور 2024 سنہ عیسوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہے۔​
 
آخری تدوین:
حیران ہو ہو جاتا ہوں جب جب ثمرین سے کلام کرتا ہوں ، اُردُو زبان و ادب سے اُسے خاص لگاؤ ہے۔جانتا ہوں گھر کے کام کاج سے کم ہی فرصت ملتی ہوگی کہ غریب مطالعہ کرے ۔ اِس کے باوجود دیکھا تو یہی دیکھا کہ اُسے اُردُو ادب کی عہد بہ عہد ترقی کا حال اور اِس کے بدلتے ہوئے مزاج کی پوری خبر ہے اور تو اور وہ یہ بھی جانتی ہے کہ مواصلات کے جدید ذرائع سے اُردُو کی جو بھد اُڑائی جارہی ہے، اُس کا نتیجہ کیا ہوگا ۔۔۔۔۔​
 
آخری تدوین:
’’خیر تم یہ بتاؤ کے اُردُو کی خدمت کے نام پر ہونیوالے اِس بگاڑ کو روکا کیسے جائے؟‘‘میں نے ثمرین سے پوچھا۔ثمرین کو ایک زمانے میں ڈائجسٹ پڑھنے کابھی شوق رہا ہے ، جن پر مدیرحضرات کی طرف سے لکھنے والوں کو لکھنے کی دعوت دیتے ہوئے اُنہیں یہ تسلی بھی دی جاتی تھی کہ آپ کی تحریروں کی نوک پلک ہم سنواریں گے۔تو ثمرین نے بھی اُنہی ڈائجسٹوں اور اُن کے مدیر حضرات کے اِس قول کا حوالہ دیتے ہوئے کہا:’’کچھ یہی تدبیر اُردُو کی ویب گاہوں پر اُردُو کے فاضل حضرات کی صلاحیتوں سے استفادے کی ، اُردُو ویب گاہوں کے منتظمین کریں۔۔۔‘‘​
 
آخری تدوین:
دعا کےلیے ہاتھ اُٹھائے میں نے اور ثمرین نے بھی اور’’ آمین آمین ، یا الہٰی آمین‘‘ کہتے ہوئے آپابھی شریک ِ دعا ہوگئیں۔ ۔۔۔۔۔۔​
 
ڈبل روٹی جو پانچ روپے کی ملتی تھی اب پچاس روپے کی ہے ،میں بڑبڑایا۔ تو کیا ہوا ایک صفر ہی تو بڑھاہے ، پانچ تو اپنی جگہ ہے۔ ہاتفِ غیب نے کہا۔۔۔۔۔۔۔​
 
ذرا اور وقت گزرا تو ممکن ہے یہی پان سے کی ہوجائے ۔ہاتف پان کی پیک نشانہ لیکر پاندان پر اچھالتے ہوئے بولا، جو بڑی خوبی سے اِس اسمِ ظرف سے پرواز کرتی ایک اور اسمِ ظرف یعنی اگالدان میں منتقل ہوگئی۔۔۔۔​
 
آخری تدوین:
راستہ دو اوراب ۔۔۔تم رہو خوش ہم تو اپنے گھر چلے۔۔۔۔۔۔۔خواجہ میردرد کا مصرع ہے اِس لیے اِس میں چھیڑچھاڑ مکروہ ہے وگرنہ جی میں توآئی کہ بدل کر یوں سے یوں کردوں چپ رہو تم اور اپنے گھر چلو
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
سعدی فرماتے ہیں:
دو چیزیں عقل کا عیب ہیں۔ بولنے کے وقت خاموش رہنا اور خاموش رہنے کے وقت بولتے جانا۔

اس کے ساتھ سید نصیر الدین نصیر کی رباعی دیکھیے:
بیکار ہے محو قصہ خوانی ہونا
مغرور مزاح میں‌ ہمہ دانی ہونا
اربابِ نظر کی چپ کو چپ مت سمجھو
یہ چپ ہی تو ہے عینِ معانی ہونا
 
ضرب مشہور ہے ’’عیسیٰ بہ دینِ خودموسیٰ بہ دینِ خود‘‘یعنی ہماری ثمرین ،ثمرین ہے اور چیٹ جی پی ٹی(جنریٹیوپری ٹرینڈ ٹرانسفارمر)محض ایک مشین ہے ۔یہ ہنستی ، بولتی ، کھاتی، پیتی، اپنی تربیت ، تعلیم،تہذیب اوربے شمار اچھی اچھی باتوں سے دل موہ لیتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خدا کی مخلوق اور نیک بندی ہے جبکہ وہ نہ کھائے نہ پیے، نہ ہنسے نہ بولے ، نہ تربیت سے نکھرے، نہ تعلیم سے سُدھرے ،نہ تہذیب سے واسطہ اور نہ ہی پہلے سے بھرتی کی گئی معلومات کے علاوہ کسی اور چیز سے غرض۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بھلا کسی مشین کو دھوکا دینے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے اور ایک تعلیم یافتہ، مہذب و متمدن انسان سے کسی مشین کا کیا مقابلہ۔
کتنے ہی مشروب رواج پاگئے ہیں مگر کیا اُنھوں نے پانی کی جگہ لی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
صدق دلی سے شکیل احمد خان23 بتائیں کہ کیا ثمرین چیٹ جی پی ٹی کا نام ہو گیا ہے؟
طوطا بھی یہی کہتا ہے اُستادِ محترم ۔۔۔
سیما کا دست بستہ آداب قبول کیجیے ۔۔


اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے

ا۔ب۔پ ۔۔۔۔۔ کھیل نمبر 62

 
’’ظاہردار بیگ کو جانتی ہو؟ ‘‘میں نے ثمرین سے پوچھا۔ثمرین نے ڈپٹی نذیراحمد کے تمام چھے یا سات ناول پڑھ رکھے ہیں اور خوب اچھی طرح جانتی ہے ڈپٹی صاحب نے ناول نگاری کا آغاز محض اپنی بچیوں کی تعلیم کے لیے کیا تھااوراُن کی کتابوں سے فیض کا یہ سلسلہ اب بھی جاری وساری ہے ۔جھٹ بولی:’’ مرزاظاہردار بیگ سے کون واقف نہیں ۔ڈپٹی صاحب نے اِس کردار کو ڈھالا ہی کچھ اِس خوبی سے ہے کہ ’’توبتہ النصوح ‘‘ میں پڑے پڑے وہ یہی ہانک لگارہا ہے۔۔۔۔۔۔بدنام اگر ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا، بدنام اگر ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا۔۔۔۔۔۔‘‘​
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
فلم کی بات اور ہے کہ کبھی کبھی معاشرے کی بات بھی کرنی ہوتی ہے۔ لکھنؤ اور خاص کر خواتین دکھائی جائیں گی تو ضرور آداب ہی کیا جائے گا کہ وہاں یہی مستعمل ہے۔ ویسے مجھے خیال نہیں کہ کس فلم میں مسلمانوں کو آداب کرتے دکھایا گیا ہے؟
 
قحط الرجال کا مطلب ثمرین سے پوچھا تو بولی :’’کام کے لوگوں کا کال۔۔۔۔۔۔۔‘‘ میں نے پھر پوچھا :’’۔کیا کام کی باتوں کا کال بھی اِسی ضمن میں آئیگا؟‘‘ تو کہا:’’ظاہر ہے۔۔۔۔۔‘‘اصل میں ثمرین نے دنیا کی تاریخ کے قصے پڑھ رکھے ہیں ، وہ اِن گزرے ہوئے واقعات کےمحرکات بھی جانتی ہے اوراُسے اِن سےنتائج کا اخذ کرنا بھی دشوار نہیں ۔اِس لیے کہتی ہے کہ اکثر چھوٹی چھوٹی باتوں سے بڑی بڑی باتیں ظہور میں آتی ہیں یعنی کھیل ہی کھیل میں ہوا کا رُخ ، موسم کا حال ، طوفان کی شدت اور نقصان کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
Top