سیما علی
لائبریرین
کیوں نہ مختار مسعود صاحب کی بات کی جائےقحط الرجال کا مطلب ثمرین سے پوچھا تو بولی :’’کام کے لوگوں کا کال۔۔۔۔۔۔۔‘‘ میں نے پھر پوچھا :’’۔کیا کام کی باتوں کا کال بھی اِسی ضمن میں آئیگا؟‘‘ تو کہا:’’ظاہر ہے۔۔۔۔۔‘‘اصل میں ثمرین نے دنیا کی تاریخ کے قصے پڑھ رکھے ہیں ، وہ اِن گزرے ہوئے واقعات کےمحرکات بھی جانتی ہے اوراُسے اِن سےنتائج کا اخذ کرنا بھی دشوار نہیں ۔اِس لیے کہتی ہے کہ اکثر چھوٹی چھوٹی باتوں سے بڑی بڑی باتیں ظہور میں آتی ہیں یعنی کھیل ہی کھیل میں ہوا کا رُخ ، موسم کا حال ، طوفان کی شدت اور نقصان کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
قحط میں موت ارزاں ہوتی ہے اور قحط الرجال میں زندگی۔ مرگ انبوہ کا جشن ہو تو قحط، حیات بے مصرف کا ماتم ہو تو قحط الرجال۔ ایک عالم موت کی ناحق زحمت کا دوسرا زندگی کی ناحق تہمت کا۔ ایک سماں حشر کا دوسرا محض حشرات الارض کا۔ زندگی کے تعاقب میں رہنے والے قحط سے زیادہ قحط الرجال کا غم کھاتے ہیں۔
بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بے کسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں
آخری تدوین: