عظیم

محفلین
عرض آداب اور شکریہ آپکا استاد جی :bighug:
آئندہ خیال رکھیں گیں
ویسے آپ ہمیں کیا مولوی کہ رہے ہیں :idontknow:
فقط غم ہی کیا جا سکتا ہے اس بات پر کہ "مولوی" کہا جانا بھی ایک توہین سمجھا جانے لگا ہے پاکستان میں۔ ہر طبقہ اپنی تباہی کا خود ذمہ دار ہے، خواہ وہ "داڑھیوں والے" حضرات ہوں یا کسی اور گروہ کے اشخاص۔ دعا ہے کہ تمام "مولویوں" کی عزت بحال ہو
 
گاہ بگاہ پرانی کتابیں دیکھنے کی جو ایک لت سی ہے تو اُس میں رجب علی بیگ سُرورکا قصہ’’فسانہ ٔ عجائب ‘‘پیشِ نظر ہے۔ فسانہ ٔ عجائب تو نام ہے یوں کہو جیتا جاگتا لکھنو پیشِ نظر ہے۔ معلوم نہیں اب وہ لکھنو باقی بچا یا مرورِ وقت نے سارے نقش اُس کے دھو دئیے اور انقلابِ زمانہ نے کچھ کس بل رہنے بھی دئیے کہ سب نکال دئیے۔۔۔۔۔۔خدا کرے اہل ِ شہر اب بھی ویسے ہی شاد ہوں جیسا سُروربتاگئے ہیں۔۔۔۔۔۔​
 
آخری تدوین:
’’باغ و بہار‘‘ پڑھو تو دہلی اُٹھ کر ہاتھ پاؤں چومنے لگتا ہے ۔سادہ دل ، قدرتی طوراورفطری انداز لیے دہلی ’’باغ وبہار ‘‘ میں یوں محفوظ ہے کہ وقت کتنی ہی کروٹیں لے چُکا یہ مگر ویسا ہی تازہ اور پُربہار ہے جیساتھا۔ خدا اِس کے رہنے والوں کو بھی شادو آباد رکھے ۔۔۔۔۔۔۔​
 
پافراز، پاپوش ، پیزار ۔۔۔اِن سب کا مطلب ایک ہے یعنی نعلین یعنی جوتا، یعنی چپل۔ لیکن پاافشار کھڑاؤں کو کہیں گے کیونکہ یہ چلتے وقت پیر /پاؤں سے ایک خاص طرح کی مشقت اپنی گرفت قائم رکھنے کے لیے لیتی ہے ۔یعنی چلتی جاتی ہے اوراپنے پہننے والے سے خراج قسم کی چیزبھی وصول کرتی جاتی ہے۔
اللہ لوک، درویش منش، صوفیاکرام،متقی و پرہیزگار ،نیک ، صالح اور قناعت پسندلوگ چپل کی جگہ کھڑاؤں پسند کرتے تھے ۔چلتے وقت اِس کی کھڑ کھڑ کھڑ کی آواز سے ہی شاید اِس کا نام کھڑاؤں پڑا۔سچی بات تو یہ ہے کہ اِن حضرات کو دنیا ، دنیا کی زیب وزینت ، دنیا کے عیش و آرام اور اِس کے معاملات سے واقعی لاتعلق اور بے غرض پایا۔
خواجہ حسن نظامی ؒ اپنے اُس دور میں جب پورا ہندُستان اُن کی کتابوں کے سحر میں جکڑا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمعصروں نے اُن کا اُس وقت کا جوحلیہ بیان کیا ہے تو لگتا ہے جیسے اُنھوں نےحیواۃ الدنیا سے قطعی کنارہ کشی اختیار کرلی تھی۔اللہ اللہ وقت کا ہیرو اور خود کو زیرو سمجھے ۔۔۔۔۔۔یہ منصبِ بلند ملا جس کو مل گیا ۔۔۔علامہ اقبال نے اُن کے طرزِ تحریر کو خراج ِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا: ’’۔اگر میں خواجہ صاحب جیسی نثر لکھ سکتا تو شاعری چھوڑدیتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘​
 
آخری تدوین:
تو اب تک اُستاذی محترم وطن پہنچ گئے ہوں گے۔علے الصباح ہے اور ۲نومبرکی علی الصباح، ان شاء اللہ اِس وقت وہ اپنے گھر میں ہوں گے ۔تقسیم کی لکیرپڑی پَٹ پَٹا رہی ہے ورنہ ہم بھی اُنھیں لینے راجیوگاندھی ائیرپورٹ جاتے ، علیک سلیک اور مزاج پُرسی کے بعد یہ سوالنامہ اُن کے آگے رکھتے:
1۔کَے دِن امریکہ میں رہے؟
2۔(راتیں تو یقیناًسو کر یا عبادت میں گزاری ہونگی مگر)دن کیسے گزرے؟
3۔امریکہ کی بڑی بڑی عمارتوں ، تفریح گاہوں، عجائب گھروں اور درسگاہوں کی تصویریں تو عام دستیاب ہیں وہاں کے گلی محلوں ،اڑوس پڑوس،عام دکانوں ،’’لوگ باگ‘‘ اور اِن کے آپس میں تعلقات کی کہیں وہ کس نوع کے ہوتے ہیں؟
4۔صبح کا آغاز، دوپہرکی سرگرمیاں،شام کی افراتفری اور شب کا نورسڑکوں کی زبانی سنائیں تو حال معلوم ہو
5۔عام امریکی کابھی وہاں کے نیوز چینلز، رسالوں اور اخبارات کی طرح باواآدم نرالا ہےیا وہی ہے جو ہوتا ہے(مٹک مٹک کر بولنا اور ہر خبر پر اپنے چہرے کے تاثرات سے رائے دینا)؟
6۔ایسا تو نہیں ہے کہ ہر امریکی ارب پتی ہو، غریب غرباء بھی ہوں گے اور اپنی شکلوں ، اپنے حلیوں ،اپنے گھروں اوراپنی گلیوں سے پہچان لیےجاتے ہوں گے ۔آپ اُن سے ملے یا اُنھیں بس ڈھونڈتے رہ گئے کہ امریکہ ایسا تونگر ہےجہاں مفلس کا بسیرانہیں
7۔کیا عام امریکی بھی غیرامریکی کےلیے وہی جذبہ ٔ خیرسگالی رکھتا ہے جواُن کے برسرِ اختیار طبقے کے بیانات میں بیانات کی حد تک نظر آتاہے
8۔مقامی ادیبوں ، شاعروں، قلمکاروں اور فنکاروں کی دھن بھی پیسہ کمانارہ گئی ہے یا آرٹ کی خدمت کا جذبہ ٹھاٹھیں مارتا نہیں تو کروٹیں لیتا بھی کہیں نظر آتا ہے؟
9۔کتاب سے ایک عام امریکی کے لگاؤ کابھی وہ حال ہے جو یہاں صاحب ِ کتاب کو بھی شاید ہو توایسے میں کیا ہر محلے کی اپنی لائبریری ہے یا مرکزی لائبریریاں ہی یہ ضرورت پوری کرتی ہیں؟
10۔مجھے معلوم ہے استادِ محترم اِن میں سےایک سوال کا بھی جواب شاید ہی دیں مگر بہرحال سوالنامہ حاضر ہے۔۔۔​
(یہ مراسلہ کل ہی لکھ لیا تھا مگر نظرِثانی کی فرصت نہیں تھی اِس لیے پوسٹ نہیں کیا تھا۔آج اِسے دوبارہ پڑھ کر اور نوک پلک دُرست کرکے پوسٹ کررہا ہوں)​
 
آخری تدوین:
ٹھہرئیے !گمان نے کہا، ہم دیتے ہیں آپ کی باتوں کے جواب:
1۔استادِ محترم گرین کارڈ ہولڈر ہیں ۔امریکہ اُن کا دوسرا گھر ہے ۔جب جاتے ہیں تو مہینوں ہی رہتے ہیں۔آپ کے مراسلات سےبھی کچھ یہی عندیہ ملتا رہتا ہے۔
2۔امریکہ وہ ملک ہے جہا ں ہمیشہ دن رہتا ہے۔رنگوں ، روشنیوں ، رونقوں ، رتجگوں میں کیا دن اور کیاراتیں۔جس کا جب جی چاہے کام کرے جب چاہے آرام۔۔۔۔
3۔امریکہ کے عام گلی محلے بھی ایسے ہیں کہ تصویرلے لو اور اپنے غریب خانوں کی آرائش کااِن سے کام لو
4۔صبح ، دوپہر، شام اور رات یہاں کی سڑکیں ٹریفک کےلیے دیدہ و دل فرشِ راہ کیے رہتی ہیں ۔یہی وہ سڑکیں ہیں جن پر چل کر گھر پہنچیں تو راستے میں قدم قدم پر کہکشائیں آپ کا ساتھ دیتی ہیں
5۔یہ عہد ہے باڈی لینگوئج کا ۔ہم زبان سے جو کچھ کہتے ہیں ہاتھ پیر سے اُس کی تصدیق میں حلفیہ بیان بھی دلاتے جاتے ہیں ۔ٹی وی کے مذاکروں اور خبروں میں بھی یہی عالم ہے ،جس پر حیران ہونے کی ضرورت نہیں
6۔مفلس اور اور معنوں میں ہوں توہوں روپے پیسے یعنی ڈالر پینی کے حوالے سے یہاں کوئی ایسا نہیں ، مفلس کہیں جسے
7۔دنیا کا چلن ہر جا بلکہ جابجا ہے ۔؏سارے عالم میں بھررہا ہےعشق
8۔فروغِ علم مطمحِ نظر ہے سب کا
9۔کتاب سے گہرے تعلق نے ہی امریکہ کو بامِ عروج عطاکیا ہے
10۔اب آپ جو چاہے گمان کریں۔​
 
آخری تدوین:
Top