نام نہاد صوفی اسلام جس کو رسول مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ پر کھڑا کیا جارہا ہے اس کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ اس میں بندوں سے محبت کا پیغام ہے یہ کسی سے تفریق نہیں کرتا؛ مگر یہ سب تو عام مسلمان بھی جانتا ہے کہ یہ تعلیمات اسلام کا بنیادی حصہ ہیں، اللہ رب العالمین اوراللہ رحمن ورحیم اور رسول رحمة للعالمین اورامت مسلمہ خیرامت برائیوں سے روکنے والی اور بھلائیوں کا حکم دینے والی ہے؛ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ شرک، کفر، ظلم، نافرمانی، سود، زنا پر سزا نہیں دے گا یا امت مسلمہ کو ان برائیوں پر گرفت نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ اور رسول کے احکامات چھوڑ کر بندوں کو خوش کرنے کے لیے دہلی کے مشہور صوفی شاعر مرزا بیدل کا واقعہ یاد آرہا ہے جب ان کے ایک ایرانی معتقد نے دہلی میں ان سے ملاقات کی اور انھیں حجام کی دوکان پر داڑھی منڈاتے دیکھا تو ان کے ذہن میں جو تصور تھا کہ جس شاعر کا کلام عرفانِ خدا سے اتنا معمور ہے، وہ داڑھی منڈارہا ہے تو انھوں نے مرزا سے کہا تو مرزا نے جواب دیا کہ داڑھی منڈا رہا ہوں کسی کے دل پر تو استرا نہیں چلا رہا ہوں اس پر ایرانی معتقد نے کہا: ہاں، مگر انسانیت کی سب سے حساس شخصیت کے دل پر تو استرا چلوارہے ہو، یہ سننا تھا کہ مرزا بیہوش ہوگئے اور جب ہوش میں آئے تو پھر سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خلاف ورزی نہیں کی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کو ناقابل معافی جرم قرار دیا اور اس شرک کی بنیاد پر اٹھنے والی تہذیب کے ہر خلافِ شرع رسوم ورواج سے بچنے کی تاکید کی مثلاً ۱۰/محرم الحرام کے روزہ کو اپنایا مگر یہودیوں سے مخالفت کے لیے، ۹ یا۱۱/محرم الحرام کو بھی روزہ رکھنے کے لیے کہا اور خلاف شرع عنصر سے پرہیز کرایا۔