میں بھی حیران ہو رہی ہوں کہ کیا سائنس نے اتنی ترقی کر لی ہے، کہ اب اردو کے الفاظ کو جمع اور ضرب کیا جانے لگا ہے۔
تو مابدولت کو کس نے امورِ سلطنت نپٹانے سے روکا ہے۔میرے اندازوں کو جاننے کے لیے اگر آپ بیٹھے رہے تو پھر بیٹھے کے بیٹھے ہی رہ جائیں گے۔
ماوراء ، جمع اور ضرب پر ہی موقوف نہیں ۔ انگریزی نے تو اسے تفریق کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔اور اس کو مختلف اور پیارے پیارے لہجوں میں ہم پہلے ہی سے تقسیم کر چکے تھے۔
ہمارے جاننے والوں میں ایک صاحب مجھے اردو میں راستہ سمجھا رہے تھے۔ کہنے لگے "آپ یہاں سے رکشہ پکڑیں ( ذرا غور کریں کہ موصوف نے "پکڑیں" کا کیسا بر محل استعمال کیا)۔ اور ایوب چوک میں اتر جائیں اس کے بعد دائیں ہاتھ جائیں گے تو تھوڑی دُور جا کر آپ کو گندے پانی کا ایک "ٹوڑا" "ملے" گا۔اگر آپ کی مادری زبان پنجابی نہیں تو بتا دوں کہ "ٹوڑا" گڑھے کو کہا جاتا ہے اور اس سے چھپڑ بھی مراد لیا جاتا ہے۔ اب آپ سوچئیے کہ موصوف کے الفاظ کے مطابق چھپڑ ہمیں ملے گا۔"
بس آخر میں خدا لگتی کہوں کہ ان کی اس گفتگو پر مجھے افسوس اس لئیے ہوا کہ موصوف ایم اے اردو کے آخری سمسٹر میں تھے اور ایک مقامی سرکاری سکول میں گیارہویں سکیل کے استاد بھی تھے۔ اور میں "دہ جماعت پاس" ان کی اس اردو دانی پر خود کو کوس رہا تھا اور احساس کہتری میں گھِر گیا کہ میں نے بھی مزید چار جماعتیں کیوں نہ پڑھ لیں ۔ کم از کم ان جیسی معیاری اردو بولنے کے قابل تو ہو جاتا۔