بعض افراد کو یہ اس لیے مبالغہ لگتا ہے کہ وہ بعض تیکنیکی باتوں سے واقف نہیں ہوتے ۔ میری گزارش ہے کہ دوسری جانب کا موقف بھی جانیے۔
مثلا: چھ لاکھ احادیث کا مطلب چھ لاکھ اسانید ہے ، متن نہیں۔ ایک حدیث اگر دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے راوایت ہے تو وہ محدث کے نزدیک دس اسانید ہوں گی ، بھلے متن ایک ہو ، لیکن عام انسان کے لیے وہ ایک ہے کیوں کہ اسے متن سے مطلب ہے وہ سند کو سمجھتا ہی نہیں ۔ اس طرح چھ لاکھ احادیث متن کے اعتبار سے محض چند ہزار ہو سکتی ہیں ۔ اور ان میں سے منتخب کر کے قریبا دو ہزار احادیث کو الگ کر لینا اس میں کیا مبالغہ ہے؟ )صحیح بخاری کی احادیث مکررات سمیت سات ہزار اور تکرار کے بغیر قریبا دو ہزار ہیں(۔
سولہ سال طلب علم میں بھی کوئی مبالغہ نہیں ہے ۔ آج کل ایک فیلڈ میں سپیشلائزیشن کرکے ساری عمر اس میں تحقیق و تصنیف میں لگے رہنے والا شخص کتنے سال دیتا ہے؟ کم از تیس سے پینتیس سال کی عمر میں صرف ڈاکٹریٹ ہوتا ہے جو دنیائے تحقیق میں پہلا قدم ہے ۔
کتاب میں احادیث درج کرتے وقت باوضو ہو کر دونفل پڑھنے میں ان کو کوئی مبالغہ نظر نہیں آئے گا جو ہر وقت با وضو رہنے کی سنت پر عمل کی کوشش کرتے ہیں اور ساتھ میں ہر اہم کام سے قبل دو رکعت نماز کے عادی ہیں ۔ البتہ یہ دعوی کرنا کہ ہر حدیث کے لیے نفل پڑھے گئے اس کا مجھے علم نہیں ۔ یہ عمومی بات ہے کہ جب کتاب مرتب کرنے بیٹھتے تو باوضو ہو کر استخارہ کر کے ۔
اگر بالفرض ہر حدیث کے لیے بھی نفل گنے جائیں تو دو ہزار نفل پڑھنا کیا ایک انسان کے لیے ناممکن ہے ؟ ہم ہر رمضان کریم میںٓ ٹھ تراویح کے حساب سے ۲۴۰ نفل پڑھ جاتے ہیں۔ اب اس کو اپنی اب تک کی زندگی سے ضرب دے کر دیکھیں ، یہ سال میں صرف ایک مہینہ عبادت کرنے والے کا معاملہ ہے ۔ اور جو ہمیشہ تہجد، اشراق اور استخارہ کے نوافل ادا کرنے کے عادی ہوں ان کے کتنے نفل ہوئے ؟ ،
سوچنے کی بات ہے ۔
ان سب میں کوئی مبالغہ نہیں ہے والحمدللہ۔