بخاری محدث کے بارے میں ایک کتاب : قرآن مقدس اور بخاری مقدس

وضاحت کیلئے شکریہ۔ چونکہ موضوع کا تعلق صحیح بخاری اور قرآن پاک کے درمیان مبینہ اختلافات سے تھا، اور آپ نے اجماع کی بات کی تو اس سے یہ وہم پیدا ہورہا تھا کہ کتاب صحیح بخاری کے بارے میں شائد علماء یا فقہاء کا اجماع منعقد ہوچکا ہے۔ دوسرے یہ کہ آپکی پہلی پوسٹ میں اجماع سے انحراف کو کفر بتایا گیا تھا لیکن آپکی اس پوسٹ سے بات کلئیر ہوگئی کہ یہ کفر نہیں بلکہ گمراہی ہے۔ :)
 

ظفری

لائبریرین
جب بھی آپ اس موضوع میں کھمبا نوچنے کے علاوہ کوئی مفید پوسٹ کریں گے جواب مل جائے گا۔ پھکڑپن کا شغل جاری رکھیے ۔ یہاں بھی میں نے وضاحت کی تو ایک اور غلط فہمی پر معذرت کریں گے ۔
میں نے اپنی غلط فہمی پر نہیں ، بلکہ آپ سےمسلسل بے مقصد بحث پر معذرت کی تھی ۔آپ پر اس پوسٹ میں جھنجھلاہٹ طاری ہے ۔ اس لیئے آپ کی چند آخری پوسٹ کے جوابات کے بعد آپ سے کسی بھی بحث کے لیئے ایک بار پھر معذرت ۔ :notworthy:
 

ظفری

لائبریرین
بار بار معذرت سے بہتر ہے انسان غلط فہمیاں پالنا چھوڑ دے اور کسی کے متعلق ازمپشنز کی بجائے صرف اتنی بات کرے جو یقینی ہو۔
میں اس معذرت کے زمینی حقائق اوپر بیان کرچکا ہوں ۔ مگر آپ کسی معذرت سے بہت خوش ہوتیں ہیں تو میں پھر معذرت کرتا ہوں ۔ :)
 

ظفری

لائبریرین
وضاحت کیلئے شکریہ۔ چونکہ موضوع کا تعلق صحیح بخاری اور قرآن پاک کے درمیان مبینہ اختلافات سے تھا، اور آپ نے اجماع کی بات کی تو اس سے یہ وہم پیدا ہورہا تھا کہ کتاب صحیح بخاری کے بارے میں شائد علماء یا فقہاء کا اجماع منعقد ہوچکا ہے۔ دوسرے یہ کہ آپکی پہلی پوسٹ میں اجماع سے انحراف کو کفر بتایا گیا تھا لیکن آپکی اس پوسٹ سے بات کلئیر ہوگئی کہ یہ کفر نہیں بلکہ گمراہی ہے۔ :)
شکریہ محمود احمد غزنوی صاحب ۔ ان صاحب کی اسی بات کو بلکہ باقاعدہ سرخ رنگ سے واضع کرکے یہی بات کہنے کی میں نے کوشش کی تھی ۔ مگر وہ غامدی اور دیگر غیر ضروری چیزوں کی طرف چلے گئے ۔ جب آپ کو معلوم ہی نہیں کہ موضوع کیا ہے ۔ کسی اور کی بات کا مفہوم کیا ہے تو پھر گفتگو کیسے چلے گی ۔ لہذا ان کے سوال اور پھر مسلسل اس کی تکرار کو نظرانداز کرکے ایک طرف ہوجانا پڑا ۔ ابھی انہوں جو پوسٹ کی ہے ۔ اس کا بھی جواب ہے مگر خاموشی ابھی بہرحال بہتر ہے کہ یہ سامنے والے کی بات سمجھنا تو درکنار ، سُننے کے لیئے بھی تیار نہیں ہے ۔ تو ایسی صورتحال میں کوئی گفتگو ہونہیں سکتی ۔
 
وضاحت کیلئے شکریہ۔ چونکہ موضوع کا تعلق صحیح بخاری اور قرآن پاک کے درمیان مبینہ اختلافات سے تھا، اور آپ نے اجماع کی بات کی تو اس سے یہ وہم پیدا ہورہا تھا کہ کتاب صحیح بخاری کے بارے میں شائد علماء یا فقہاء کا اجماع منعقد ہوچکا ہے۔ دوسرے یہ کہ آپکی پہلی پوسٹ میں اجماع سے انحراف کو کفر بتایا گیا تھا لیکن آپکی اس پوسٹ سے بات کلئیر ہوگئی کہ یہ کفر نہیں بلکہ گمراہی ہے۔ :)

اجماع پر کفر کے حوالے سے جو بات بھی نقل کی وہ حوالے کے ساتھ ہے۔ اور گمراہی کا مطلب شاید سمجھانے کی ضرورت نہیں کیونکہ جو گمراہ ہوا اسے کفر تک پہنچنے میں کوئی زیادہ پاپڑ نہیں بیلنے پڑینگے۔ :) کفر کرنا اور کافر ہوجانا دونوں میں فرق ہے۔ اکثر لوگوں کے عقائد میں بعض عقائد کفریہ ہوتے ہیں لیکن انہیں کھلا کافر نہیں کہا جاسکتا حتی کہ کوئی ایسی بات ہو جو انسان کو دائرہ اسلام سے خارج ہی کردے۔ :)
مثلاً کوئی کہے کہ میں عمر کو صحابی اور سچا مؤمن تو مانتا ہوں مگر ان کے فیصلوں کو سچا نہیں قبول کرتا۔ یہ کفریہ چیز ہے مگر اس پر کسی کو کافر نہیں ٹحہرایا جائے گا۔ مگر یہ بھی یقینی بات ہے کہ وہ گمراہ ہے۔ :)
اسی طرح اور باتیں جو کفریہ تو ہیں مگر ان سے انسان دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔ ہاں اگر کوئی کہے کہ میں اللہ کو نہیں مانتا یا نبیؑ کو اللہ کا نبی نہیں مانتا یا مانتا تو ہوں مگر آخری نبی نہیں مانتا تو یہ انسان کافر ہے۔ اور اسے دوبارہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہونے کی ضرورت ہے۔یہی بات اجماع امت سے انحراف کی بھی ہے۔
حدیث ابن عمر کو بغور پڑھیں تو وہاں یہی بات ہے کہ اکیلے آدمی کے ساتھ دوسرا شیطان ہوتا ہے۔ تو اس میں کوئی بعید نہیں کہ وہ شیطان اسے کافر تک کردے:) تو اس رو سے اجماع سے انحراف بھی کفر ہی ہوا۔ یہی بات اس آیت کی تفسیر مکی میں بھی موجود ہے۔ امید ہے اب زیادہ واضح ہوگیا ہوگا :)
 

طالوت

محفلین
ائمہ کی تمامتر محنت و عظمت اپنی جگہ مگر بقول جاوید احمد غامدی
"ابھی یہ بات بہت تفصیل کے ساتھ ہوئی ہے کہ اسلامی شریعت اور اسلامی قانون کیا چیز ہے؟ وہ اللہ ، اللہ کے رسول کے حکم کا نام ہے ، ہمارے ائمہ ہم سب کے لئے قابل احترام ہیں ، انھوں اسلامی قانون کی تعبیر و تشریح کی ہے ، اس تعبیر و تشریح میں کوئی غلطی ہو گئی تو اسے دور ہونا چاہیے ۔ یہ تو اللہ اور اللہ کے پیغمبروں کے بعد بعض دوسرے لوگوں کو بھی پیغمبر کا درجہ دینا ہے ۔ وہ انسان تھے انھوں نے ہماری بڑی خدمت کی ہے اور ہمارے قانون کے بارے میں بہت سی اعلٰی درجے کی تصنیفات پیچھے چھوڑی ہیں ، بہت اعلٰی علمی کام چھوڑا ہے، اس سے ہمیں استفادہ کرنا چاہیے ۔ لیکن یہ بات کہ وہ غلطی نہیں کر سکتے ؟ یہ میری سمجھ میں نہیں آتی۔ میں نے اس کے اوپر جو تنقیدیں کی ہیں وہ چھپی ہوئی موجود ہیں آپ اس کو پڑھیئے اور دیکھئے کہ ان تنقیدوں میں کوئی وزن ہے یا نہیں ہے ؟ امام ابو حنیفہ اما م مالک امام شافعی امام احمد بن حنبل سب ہمارے ائمہ ہیں لیکن یہ سب کے سب انسان ہیں ان میں سے پیغمبر کوئی بھی نہیں ۔ اگر کسی معاملے میں یہ اتفاق کر کے بھی کوئی انٹرپٹیشن پیش کرتے ہیں تو ہمیں دیکھنا ہو گا کہ وہ قران و سنت کے دلائل پر مبنی ہے کہ نہیں ہے ، اس میں کوئی غلطی تو نہیں ہو گئی ۔ انسانی سطح پر غلطیاں ہو سکتی ہیں" ۔

قران کے اول روز سے اب تک جوں کا توں چلے آنے کے تو کئی دلائل اور ثبوت موجود ہیں اور پھر اللہ کا اس کتاب کی حفاظت کا وعدہ بھی موجود ہے۔ مگر روایتوں اور فقہ کا معاملہ سراسر مختلف ہے ۔ اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ائمہ سے بھی کسی قسم کی غلطی نہیں ہوئی تو بھی اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ان کی تصنیفات ، تشریحات و تعبیرات ایک طویل زمانے تک کسی قسم کے بیرونی اضافے یا کمی سے محفوظ رہی ہوں گی؟
مقدمہ فتح الباری میں امام بخاری کے متعلق یہ خبر ہے کہ انھوں نے سولہ کی محنت کے بعد چھ لاکھ حدیثوں کی چھان پھٹک کے بعد صحیح بخاری مدون کی اور ہر حدیث کی چھان پھٹک کے لئے سلسلہ میں سلسلہ سند اور حالات رجال وغیرہ کو ملحوظ خاطر رکھنے کے علاوہ باوضو ہو کر دو رکعت نفل نماز اور استخارہ بھی کیا ، ذرا وقت کی تقسیم کی جائے تو باآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کیسی کیسی مبالغہ آرائیاں کی گئی ہیں۔
بہرحال تمام تر اتفاقات و اختلافات کے باوجود جاوید احمد غامدی کی یہ دلیل سیدھی سادھی اور پر امن ہے کہ
"اختلاف صرف اللہ اور اللہ کے پیغمبر سے نہیں کیا جا سکتا باقی ہر شخص سے اختلاف ہو گا اور دلائل کی بنیاد پر کیا جائے گا اور اگر ان کی بات معقول ہے تو آپ ان کی دلیل پیش کیجئے ، سوسائٹی قبول کر لے گی"
اگر ہم اس بات سے بھی متفق نہیں تو معاف کیجئے گا اجماع امت یا اتباع ائمہ جیسی دلیلیں ایسی ہرگز نہیں کہ جن کی بنیاد پر اتحاد بین المسلمین ممکن ہو یا موجودہ دور میں مسلمانوں کے مسائل کا حقیقی حل سوچا بھی جا سکتا ہو۔
 
ظفری صاحب با دلیل بات کریں تو ضرور بات ہوگی.. میں آپ کی خاموشی کا احسان اپنے کاندھوں پر لیکر کنہگار نہیں ہونا چاہتا حضور.:)

طالوت صاحب بیشک آپ انکار کریں. حدیث اور قران کا بھی. کی فرق پیندا؟ :D
 
اجماع اور فقہ وغیرہ کے موضوعات اور انکی ابحاث کافی وسیع ہیں۔ اگر ہم زیرِ نظر موضوع تک ہی محدود رہ کر بات کریں تو شائد کوئی کام کی بات ہوسکے۔
موضوع کاتعلق صحیح بخاری کی بعض روایات سے بعض ذہنوں میں پیدا ہونے والا منفی تاثر ہے۔ چنانچہ ان میں سے کچھ لوگ اس منفی تاثر سے بچنے کیلئے ان روایات کا انکار کردیتے ہیں۔ جن لوگوں کے ذہن میں وہ منفی تاثر پیدا ہوتا ہے اور گاہے بگاہے اگر وہ اسکا اظہار کردیتے ہیں تو علماء یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ انکے اس منفی تاثر کی نفی کی جائے۔ اور یہ ایک مستحسن اور قابلِ قدر رویہ ہے

لیکن اگر علماء کی کوشش کے باوجود مذکورہ افراد اپنی رائے سے رجوع نہ کریں تو اسکی دو تین وجوہات ہوسکتی ہیں۔
1- علماء کی وضاحت ان لوگوں کو ناکافی لگی۔ یعنی دوسرے الفاظ میں یوں کہ وہ علماء کی پیش کردہ وضاحت سے مطمئن نہیں ہوئے اور وہ منفی تاثر زائل نہیں ہوسکا۔ اور چونکہ اس منفی تاثر کی وجہ سے انبیاء (جو معصوم ہوتے ہیں) کی عظمتِ کردار پر حرف آتا ہے،اور وہ لوگ اس بات کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں کہ بجائے اللہ اور اسکے انبیاء کی بارگاہِ اقدس کے حوالے سے کوئی غلط عقیدہ رکھا جائے جو انکی عظمتِ شان کے منافی ہو،ایسی روایات کی صحت Authenticity کا انکار کردیا جائے۔
2-دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مذکورہ افراد کی عقل و فہم اس درجے کی صفائی نہ رکھتی ہو کہ کسی حدیث کے اسرار کو درست طور پر سمجھ سکے۔ایسےلوگوں کو معذور رکھنا چاہئیے کیونکہ لا یکلف اللہ نفساّ الّا وسعھا۔
3- تیسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جو روایت سند کے اعتبار سے قابلِ قبول ہے لیکن متن کے اعتبار سےکسی طور بھی قابلِ قبول نہیں لگ رہی، تو ہوسکتا ہے کہ اسکے راویوں میں سے کسی سے غیر ارادی طور پر کوئی غلطی ہوئی ہو بھول چوک، یا معاملے کو پوری طرح نہ سمجھ سکنا، سننے میں غلطی ہوجانا۔ ان سب باتوں کو ہم انسانی غلطی کہہ سکتے ہیں ۔
لیکن ایسا اکثر دیکھا گیا ہے کہ اس باب میں جو شخص علماء سے پورے طور پر متفق نہیں ہوتا، اسے منکرِ حدیث کہہ دیا جاتا ہے یہی نہیں بلکہ اسکے ایمان کو مشکوک بنا کر اسے منافقین، ضالین یا کافرین کے درجے میں رکھ دیا جاتا ہے۔
ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ کسی بھی دینی معاملے میں قولِ فیصل رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ ہے۔ وہ کسی آیت کی جو تشریح کردیں اسی کو معتبر سمجھا جانا چاہئیے۔ چنانچہ صحابہ کرام بھی اپنی عقل کو مدار نہیں بناتے تھے بلکہ جاکر رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیتے تھے۔ اور آپ کے فرمان کے بعد اس کو تسلیم نہ کرنا کفر کہلاتا ہے۔ اگر یہ مبینہ منکرینِ حدیث رسولِ پاک کے زمانے میں ہوتے اور آپکے فرمان کو اپنی توجیہہ کے مقابلے میں مسترد کرتے تو ان لوگوں کے کفر میں کوئی شک نہ ہوتا۔۔کفر یہی ہے کہ اپنی بات کو رسول کی بات پر فوقیت دی جائے۔۔۔
اگر ہم ان لوگوں سے سوءِ ظن نہ رکھیں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ بھی رسول کی بات کو قولِ فیصل اور حرفِ آخر مانتے ہیں بشرطیکہ وہ بات حقیقتاّ رسول ہی کی بات ہو۔۔۔:)
 

ظفری

لائبریرین
شکریہ طالوت ہمیشہ کی طرح مختصر مگر جامع بات لکھنے کا ۔
اصل میں ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اختلاف کرنے کے شائستہ آداب سے واقف ہی نہیں ہیں ۔ ہم اختلاف کو مخالفت بنا لیتے ہیں ۔ ہمارے ہاں اختلاف کا مطلب تعصب ہے ، عناد ہے ، نفرت ہے ۔ ہم نے کچھ مذہبی فقرے یا گالیاں ایجاد کی وہ ہوئی ہیں ۔ جب ہم اختلاف کرتے ہیں تو وہ دوسروں کو دینا شروع کردیتے ہیں ۔ ہم نے اپنے اندر کبھی یہ ذوق پیدا ہونے ہی نہیں دیا کہ ہم دوسرے کی بات کو تحمل سے سنیں ۔ جیسا وہ کہتا ہے ویسا اس کو سمجھیں ۔ کم از کم اس سے سوال کرکے پوچھ لیں کہ تم کیا کہنا چاہتے ہو ۔یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ہم اپنے ذہن سے کسی کی بات کا ایک نقشہ تیار کرتے ہیں ۔ پھر اس کو مخالف پر تھوپ دیتے ہیں ۔ ہم نے کچھ مخصوص قسم کی باتیں طے کر رکھیں ہیں ۔ جو ہم کہنا شروع کردیتے ہیں ۔ جیسے کسی کو فاسد قرار دینا ، کسی کو کافر قرار دینا وغیرہ وغیرہ ۔ یہ اصل میں ہمارا مزاج بن چکا ہے ۔ آپ اختلافات ختم نہیں کرسکتے ۔ اختلافات تو ہوا اور پانی کی طرح ہماری ضرورت ہے ۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ آپ سارے انسانوں کو کسی ایک نکتہ فکر پر متفق کرلیں ۔ انسانی تخلیق میں اختلاف ودیعت کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالی نے جس اصول پر یہ دنیا بنائی ہے اس میں انسان کو اپنے عقل وشعور کے ذریعے اپنے اختلافات کی جانچ پڑتال کرنی ہے ۔ اسی پر سزا و جزا کے قانون کا اطلاق ہونا ہے ۔ اختلافات تو تحقیق کا ذریعہ بنتے ہیں ۔ ہم اگر اختلاف کو شائستہ اختلاف تک رکھیں تو وہ ہمارے لیئے تہذہبی راہیں کھولے گا ، علم کے ارتقاء کا باعث بنے گا ۔ اگر اس کو عناد بنا لیں ، مخالفت بنا لیں تو سوائے خجالت اور پستی کے سوا ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
 
مقدمہ فتح الباری میں امام بخاری کے متعلق یہ خبر ہے کہ انھوں نے سولہ کی محنت کے بعد چھ لاکھ حدیثوں کی چھان پھٹک کے بعد صحیح بخاری مدون کی اور ہر حدیث کی چھان پھٹک کے لئے سلسلہ میں سلسلہ سند اور حالات رجال وغیرہ کو ملحوظ خاطر رکھنے کے علاوہ باوضو ہو کر دو رکعت نفل نماز اور استخارہ بھی کیا ، ذرا وقت کی تقسیم کی جائے تو باآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کیسی کیسی مبالغہ آرائیاں کی گئی ہیں۔
بعض افراد کو یہ اس لیے مبالغہ لگتا ہے کہ وہ بعض تیکنیکی باتوں سے واقف نہیں ہوتے ۔ میری گزارش ہے کہ دوسری جانب کا موقف بھی جانیے۔​
مثلا: چھ لاکھ احادیث کا مطلب چھ لاکھ اسانید ہے ، متن نہیں۔ ایک حدیث اگر دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے راوایت ہے تو وہ محدث کے نزدیک دس اسانید ہوں گی ، بھلے متن ایک ہو ، لیکن عام انسان کے لیے وہ ایک ہے کیوں کہ اسے متن سے مطلب ہے وہ سند کو سمجھتا ہی نہیں ۔ اس طرح چھ لاکھ احادیث متن کے اعتبار سے محض چند ہزار ہو سکتی ہیں ۔ اور ان میں سے منتخب کر کے قریبا دو ہزار احادیث کو الگ کر لینا اس میں کیا مبالغہ ہے؟ )صحیح بخاری کی احادیث مکررات سمیت سات ہزار اور تکرار کے بغیر قریبا دو ہزار ہیں(۔​
سولہ سال طلب علم میں بھی کوئی مبالغہ نہیں ہے ۔ آج کل ایک فیلڈ میں سپیشلائزیشن کرکے ساری عمر اس میں تحقیق و تصنیف میں لگے رہنے والا شخص کتنے سال دیتا ہے؟ کم از تیس سے پینتیس سال کی عمر میں صرف ڈاکٹریٹ ہوتا ہے جو دنیائے تحقیق میں پہلا قدم ہے ۔​
کتاب میں احادیث درج کرتے وقت باوضو ہو کر دونفل پڑھنے میں ان کو کوئی مبالغہ نظر نہیں آئے گا جو ہر وقت با وضو رہنے کی سنت پر عمل کی کوشش کرتے ہیں اور ساتھ میں ہر اہم کام سے قبل دو رکعت نماز کے عادی ہیں ۔ البتہ یہ دعوی کرنا کہ ہر حدیث کے لیے نفل پڑھے گئے اس کا مجھے علم نہیں ۔ یہ عمومی بات ہے کہ جب کتاب مرتب کرنے بیٹھتے تو باوضو ہو کر استخارہ کر کے ۔​
اگر بالفرض ہر حدیث کے لیے بھی نفل گنے جائیں تو دو ہزار نفل پڑھنا کیا ایک انسان کے لیے ناممکن ہے ؟ ہم ہر رمضان کریم میںٓ ٹھ تراویح کے حساب سے ۲۴۰ نفل پڑھ جاتے ہیں۔ اب اس کو اپنی اب تک کی زندگی سے ضرب دے کر دیکھیں ، یہ سال میں صرف ایک مہینہ عبادت کرنے والے کا معاملہ ہے ۔ اور جو ہمیشہ تہجد، اشراق اور استخارہ کے نوافل ادا کرنے کے عادی ہوں ان کے کتنے نفل ہوئے ؟ ،​
سوچنے کی بات ہے ۔​
ان سب میں کوئی مبالغہ نہیں ہے والحمدللہ۔​
 

طالوت

محفلین
بعض افراد کو یہ اس لیے مبالغہ لگتا ہے کہ وہ بعض تیکنیکی باتوں سے واقف نہیں ہوتے ۔ میری گزارش ہے کہ دوسری جانب کا موقف بھی جانیے۔​
مثلا: چھ لاکھ احادیث کا مطلب چھ لاکھ اسانید ہے ، متن نہیں۔ ایک حدیث اگر دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے راوایت ہے تو وہ محدث کے نزدیک دس اسانید ہوں گی ، بھلے متن ایک ہو ، لیکن عام انسان کے لیے وہ ایک ہے کیوں کہ اسے متن سے مطلب ہے وہ سند کو سمجھتا ہی نہیں ۔ اس طرح چھ لاکھ احادیث متن کے اعتبار سے محض چند ہزار ہو سکتی ہیں ۔ اور ان میں سے منتخب کر کے قریبا دو ہزار احادیث کو الگ کر لینا اس میں کیا مبالغہ ہے؟ )صحیح بخاری کی احادیث مکررات سمیت سات ہزار اور تکرار کے بغیر قریبا دو ہزار ہیں(۔​
سولہ سال طلب علم میں بھی کوئی مبالغہ نہیں ہے ۔ آج کل ایک فیلڈ میں سپیشلائزیشن کرکے ساری عمر اس میں تحقیق و تصنیف میں لگے رہنے والا شخص کتنے سال دیتا ہے؟ کم از تیس سے پینتیس سال کی عمر میں صرف ڈاکٹریٹ ہوتا ہے جو دنیائے تحقیق میں پہلا قدم ہے ۔​
کتاب میں احادیث درج کرتے وقت باوضو ہو کر دونفل پڑھنے میں ان کو کوئی مبالغہ نظر نہیں آئے گا جو ہر وقت با وضو رہنے کی سنت پر عمل کی کوشش کرتے ہیں اور ساتھ میں ہر اہم کام سے قبل دو رکعت نماز کے عادی ہیں ۔ البتہ یہ دعوی کرنا کہ ہر حدیث کے لیے نفل پڑھے گئے اس کا مجھے علم نہیں ۔ یہ عمومی بات ہے کہ جب کتاب مرتب کرنے بیٹھتے تو باوضو ہو کر استخارہ کر کے ۔​
اگر بالفرض ہر حدیث کے لیے بھی نفل گنے جائیں تو دو ہزار نفل پڑھنا کیا ایک انسان کے لیے ناممکن ہے ؟ ہم ہر رمضان کریم میںٓ ٹھ تراویح کے حساب سے ۲۴۰ نفل پڑھ جاتے ہیں۔ اب اس کو اپنی اب تک کی زندگی سے ضرب دے کر دیکھیں ، یہ سال میں صرف ایک مہینہ عبادت کرنے والے کا معاملہ ہے ۔ اور جو ہمیشہ تہجد، اشراق اور استخارہ کے نوافل ادا کرنے کے عادی ہوں ان کے کتنے نفل ہوئے ؟ ،​
سوچنے کی بات ہے ۔​
ان سب میں کوئی مبالغہ نہیں ہے والحمدللہ۔​
:):)
میرا نہیں خیال کہ احادیث و اسناد کوئی ملتی جلتی چیزیں ہیں جن سے دھوکہ کھایا جا سکے ، لیکن میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ بقول آپ کے یہ چھ لاکھ احادیث نہیں بلکہ چھ لاکھ اسناد ہیں تو بھی خاتون بیان کے مطابق چھ لاکھ اسناد کے لئے دو رکعت نفل اور استخارہ کیا گیا ہے ، کیونکہ ایک مسلسل جملے میں پہلے حدیث سے مراد سند ہو پھر حدیث سے مراد روایت ہو تو یہ بات کچھ مناسب معلوم نہیں ہوتی ۔ اور میں یہ بھی بتانا چاہوں گا کہ میرے نوٹس کے مطابق یہ بیان صحیح بخاری جلد اول (نظر ثانی مولانا محمد داؤد راز) ناشر "مرکزی جمعیت اہلحدیث ، ہند " سے مختصرا نقل کیا ہے۔
انھی نوٹس میں ، میں نے کچھ یہ بھی لکھ رکھا ہے
"ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری 13 شوال 194ہجری کو بخارا میں پیدا ہوئے اور قریبا 62 برس کی عمر پائی۔ دس برس کی عمر میں مکتبی تعلیم ختم کی اور حدیثیں یاد کرنے کا شوق چرایا اور سولہویں سال 210 ہجری میں حج کے لئے سفر کیا اور اس سفر سے پہلے ہی آپ کو 70،000 حدیثیں یاد تھیں بمعہ سلسلہ سند ، حالات رجال وغیرہ ۔ علاوہ ازیں اقوال صحابہ و تابعین کے بارے میں بھی علم رکھتے تھے کہ کن قرانی آیات و احادیث سے ماخوذ ہیں۔ اور رات کے آخری حصے میں 13 رکعت اور تہجد معمول رہا۔

بہرحال میرا مقصد یہاں کسی لمبی بحث سے نہیں بلکہ محض وہ باتیں بیان کرنا ہے جو ہماری نظر سے عموما نہیں گزرتیں۔ اس سارے معاملے کا آغاز فاروق سرور خان کے جس لنک سے ہوا بلاشبہ ایسی بہت سی کتب موجود ہیں اور ان کے جواب میں بھی بے شمار کتابیں لکھی گئیں بلکہ ایک ایک کتاب کے مقابلے میں پانچ پانچ کتب بھی لکھی گئیں اور کچھ پڑھنے کا اتفاق بھی ہوا ہے مگر مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ ان میں ، میں نے ایسی کوئی دلیل نہیں پائی کہ جسے معترض کے اعتراض پر مطمئن کر دینے والا جواب کہہ سکوں ۔ بلکہ میں تو ان کی صاف گوئی کی زیادہ قدر کرتا ہوں جو یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ بھائی کچھ گڑ بڑ ضرور ہوئی ہے مگر ہم کتب روایت (خصوصا بخاری) پر یہ دروازہ (تنقید کا) نہیں کھول سکتے کہ اس سے صحیح احادیث پر بھی تنقید کا دروازہ کھل جائے گا اور یہ فتنے کا سبب ہو گا۔
ظفری صاحب با دلیل بات کریں تو ضرور بات ہوگی.. میں آپ کی خاموشی کا احسان اپنے کاندھوں پر لیکر کنہگار نہیں ہونا چاہتا حضور.:)

طالوت صاحب بیشک آپ انکار کریں. حدیث اور قران کا بھی. کی فرق پیندا؟ :D
فرق پیندا اے پائی آن :) کیونکہ میں نے تو حدیث کا انکار نہیں کیا میں نے تو ائمہ حضرات سے ممکنہ غلطی کی حمایت یا بعد میں آنے والے فتنی ادوار کا رونا رویا ہے ، اور قران کا انکار کب اور کیسے ہو گیا ۔ اگر آپ اسی روایتی طریقے سے یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ میں قران یا حدیث کا انکار کر رہا ہوں تو گذارش ہے کہ محمود غزنوی اور ظفری کے اوپری مراسلے بالترتیب پھر پڑھیے۔
 
:):)
میرا نہیں خیال کہ احادیث و اسناد کوئی ملتی جلتی چیزیں ہیں جن سے دھوکہ کھایا جا سکے ، لیکن میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ بقول آپ کے یہ چھ لاکھ احادیث نہیں بلکہ چھ لاکھ اسناد ہیں تو بھی خاتون بیان کے مطابق چھ لاکھ اسناد کے لئے دو رکعت نفل اور استخارہ کیا گیا ہے ، کیونکہ ایک مسلسل جملے میں پہلے حدیث سے مراد سند ہو پھر حدیث سے مراد روایت ہو تو یہ بات کچھ مناسب معلوم نہیں ہوتی ۔ اور میں یہ بھی بتانا چاہوں گا کہ میرے نوٹس کے مطابق یہ بیان صحیح بخاری جلد اول (نظر ثانی مولانا محمد داؤد راز) ناشر "مرکزی جمعیت اہلحدیث ، ہند " سے مختصرا نقل کیا ہے۔
انھی نوٹس میں ، میں نے کچھ یہ بھی لکھ رکھا ہے
"ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری 13 شوال 194ہجری کو بخارا میں پیدا ہوئے اور قریبا 62 برس کی عمر پائی۔ دس برس کی عمر میں مکتبی تعلیم ختم کی اور حدیثیں یاد کرنے کا شوق چرایا اور سولہویں سال 210 ہجری میں حج کے لئے سفر کیا اور اس سفر سے پہلے ہی آپ کو 70،000 حدیثیں یاد تھیں بمعہ سلسلہ سند ، حالات رجال وغیرہ ۔ علاوہ ازیں اقوال صحابہ و تابعین کے بارے میں بھی علم رکھتے تھے کہ کن قرانی آیات و احادیث سے ماخوذ ہیں۔ اور رات کے آخری حصے میں 13 رکعت اور تہجد معمول رہا۔
بہرحال میرا مقصد یہاں کسی لمبی بحث سے نہیں بلکہ محض وہ باتیں بیان کرنا ہے جو ہماری نظر سے عموما نہیں گزرتیں۔ اس سارے معاملے کا آغاز فاروق سرور خان کے جس لنک سے ہوا بلاشبہ ایسی بہت سی کتب موجود ہیں اور ان کے جواب میں بھی بے شمار کتابیں لکھی گئیں بلکہ ایک ایک کتاب کے مقابلے میں پانچ پانچ کتب بھی لکھی گئیں اور کچھ پڑھنے کا اتفاق بھی ہوا ہے مگر مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ ان میں ، میں نے ایسی کوئی دلیل نہیں پائی کہ جسے معترض کے اعتراض پر مطمئن کر دینے والا جواب کہہ سکوں ۔ بلکہ میں تو ان کی صاف گوئی کی زیادہ قدر کرتا ہوں جو یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ بھائی کچھ گڑ بڑ ضرور ہوئی ہے مگر ہم کتب روایت (خصوصا بخاری) پر یہ دروازہ (تنقید کا) نہیں کھول سکتے کہ اس سے صحیح احادیث پر بھی تنقید کا دروازہ کھل جائے گا اور یہ فتنے کا سبب ہو گا۔
اپنا نقطہ نظر واضح کرنے کا بہت شکریہ طالوت ۔
میرا نہیں خیال کہ احادیث و اسناد کوئی ملتی جلتی چیزیں ہیں جن سے دھوکہ کھایا جا سکے
ارے بھیا اس میں دھوکا ہے بھی نہیں ۔ آپ میری بات پر مت جائیے۔ اپنے پاس موجود مصطلح الحدیث کی کوئی عام سی کتاب دیکھ لیجیے : حدیث ، اور سند کے مختلف معنی اور ان کا اصطلاحی استعمال آپ کو مل جائے گا۔ زیادہ تفصیلی کتاب ہو تو یہ بھی مذکور ہو گا کہ متقدمین کی اصطلاح کیا ہے اور متاخرین کی کیا ہے ۔ان شاء اللہ آپ کو سمجھ آ جائے گا ۔
آپ نے مولانا داود راز دہلوی رحمہ اللہ کا اقتباس کیوں لیا ہے مجھے سمجھ نہیں آئی۔
ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری 13 شوال 194ہجری کو بخارا میں پیدا ہوئے اور قریبا 62 برس کی عمر پائی۔ دس برس کی عمر میں مکتبی تعلیم ختم کی اور حدیثیں یاد کرنے کا شوق چرایا اور سولہویں سال 210 ہجری میں حج کے لئے سفر کیا اور اس سفر سے پہلے ہی آپ کو 70،000 حدیثیں یاد تھیں بمعہ سلسلہ سند ، حالات رجال وغیرہ ۔ علاوہ ازیں اقوال صحابہ و تابعین کے بارے میں بھی علم رکھتے تھے کہ کن قرانی آیات و احادیث سے ماخوذ ہیں۔ اور رات کے آخری حصے میں 13 رکعت اور تہجد معمول رہا۔
اگر اس جملے کی وجہ سے تو اس میں وضاحت سے ذکر ہے کہ یہ سلسلہ سند سمیت ہے ۔ اس میں مجھے کچھ وضاحت طلب نہیں لگا۔
اصل میں چھ لاکھ احادیث میں ہر ایک کے لیے نفل والا قول آپ نے کہاں سے لیا ؟ کیا آپ حوالہ دے سکتے ہیں ؟
بہرحال میرا مقصد یہاں کسی لمبی بحث سے نہیں بلکہ محض وہ باتیں بیان کرنا ہے جو ہماری نظر سے عموما نہیں گزرتیں۔
صحیحین یا کتب ستہ پر تنقید عام لوگوں کی نظر سے نہ گزرتی ہو گی ہماری نظر سے تو ضرور گزرتی ہے بلکہ سلیبس میں شامل ہے ۔ محدثین کے ہاں کتب ستہ کو کبھی بھی تنقید سے بالاتر مقدس صحیفے نہیں مانا گیا ، کون نہیں جانتا کہ یہاں برصغیر میں کتب ستہ کو صحاح ستہ کہہ کر اس کی ہر حدیث کو تنقید سے بالاتر قرار دینے والے بھی تھے ۔ یہ برصغیر کے محدثین کی علمی امانت ہے کہ انہوں نے کتب ستہ کو صحاح نہیں بننے دیا ۔ رہی صحیحین تو ان پر تنقید ہوئی ہے اور مباحثے بھی جو آج تک جاری ہیں ۔ لیکن مجھ جیسی طالبہ علم بھی اس بات سے واقف ہے کہ امام دارقطنی کی تنقید اور احمد سعید ملتانی کی تنقید میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔
اس سارے معاملے کا آغاز فاروق سرور خان کے جس لنک سے ہوا بلاشبہ ایسی بہت سی کتب موجود ہیں اور ان کے جواب میں بھی بے شمار کتابیں لکھی گئیں بلکہ ایک ایک کتاب کے مقابلے میں پانچ پانچ کتب بھی لکھی گئیں اور کچھ پڑھنے کا اتفاق بھی ہوا ہے مگر مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ ان میں ، میں نے ایسی کوئی دلیل نہیں پائی کہ جسے معترض کے اعتراض پر مطمئن کر دینے والا جواب کہہ سکوں ۔ بلکہ میں تو ان کی صاف گوئی کی زیادہ قدر کرتا ہوں جو یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ بھائی کچھ گڑ بڑ ضرور ہوئی ہے مگر ہم کتب روایت (خصوصا بخاری) پر یہ دروازہ (تنقید کا) نہیں کھول سکتے کہ اس سے صحیح احادیث پر بھی تنقید کا دروازہ کھل جائے گا اور یہ فتنے کا سبب ہو گا۔
اگر کسی نے ذاتی احتیاط کی خاطر ایسا کہا ہے تو اس کی اپنی مرضی لیکن محدثین کے ہاں یہ مباحث موجود ہیں اور جیسے میں نے کہا کہ کورس میں شامل ہیں۔ اس لیے میرے لیے یہ کوئی صہیونی پروٹوکولز جیسی پراسرار شے نہیں ہے جس کے متعلق بات کرنا منع ہو۔ البتہ یہ درست ہے کہ اس سطح کا مباحثہ علم حدیث و علوم حدیث کو ایک حد تک جاننے والوں میں ہی ممکن ہے ۔ ظاہر ہے جو ابتدائی باتیں بھی نہ جانتا ہو وہ ائمہ کے فن پر کیا تنقید کرے گا؟ آپ دنیا کے کسی علم کی مثال لے لیں : علم عروض و قوافی سے نابلد انسان سے آپ کسی ماہر شاعر کے کلام پر کیا بحث کریں گے؟ جو عربی کی نحو نہیں سمجھتا اس سے قرآن کی بلاغی باریکیوں پر کیا تبادلہ خیال ہو گا ؟
اس ساری بحث سے مجھے زمانہ طالبعلمی کا واقعہ یاد آ رہا ہے یونیورسٹی کی سطح پر ایک سیمینار کے قواعد کچھ یوں تھے کہ بی اے جنرل کی طالبات سوال نہیں کر سکیں گی ۔ بی اے کے سپیشلائزیشن والی سٹوڈنٹس سوال کر سکیں گی یا ماسٹرز کی سٹوڈنٹس ۔ مجھے کنڈکٹ کرنا تھا ، میں نے اس قانون کو تھوڑا نظر انداز کر کے ساتھی طالبات سے ذرا ہمدردی کا ثبوت دیا اور بی اے جنرل والوں کو سوال کی اجازت دے دی ۔ دو سوالات نے ہی تقریب کے علمی اور سنجیدہ ماحول کو درہم برہم کر دیا اور ہمارے ایک استاذ مکرم نے تبصرہ کیا کہ ان سب کو میتھڈالوجی آف محدثین کا کورس ری وائز کرنا چاہیے ۔ ان کو معلوم نہیں تھا کہ میں نے کیا کیا ہے اس لیے وہ سمجھے کہ ان کی طالبات کی استعداد اتنی خراب ہو چکی ہے کہ وہ ایسی بنیادی بات نہیں جانتیں ۔ بات یہی ہے کہ علم سطح اور عوامی سطح کے مباحثوں میں ہمیشہ ایک واضح فرق موجود ہوتا ہے ۔ ہر علم و فن کی باریکی اس کے ماہرین ہی جانتے ہیں ۔
 

Ukashah

محفلین

ساجد

محفلین
اپنی اپنی بات کی وضاحت کے لئے مہذب انداز اختیار کیجئے۔
علماء کرام کے لئے ان کے مرتبے کے مطابق الفاظ استعمال کیجئے۔
مکتبہ فکر کے اختلاف کے باعث کسی کے بیان یا تحریر پر عامیانہ انداز میں تنقید سے باز رہیں۔
 

ساجد

محفلین
جب بھی آپ اس موضوع میں کھمبا نوچنے کے علاوہ کوئی مفید پوسٹ کریں گے جواب مل جائے گا۔ پھکڑپن کا شغل جاری رکھیے ۔ یہاں بھی میں نے وضاحت کی تو ایک اور غلط فہمی پر معذرت کریں گے ۔
اس قسم کے اندازِ کلام کی اب مزید کوئی گنجائش نہیں۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
اس شد و مد کے ساتھ بحث کو دیکھ کر میرا بھی جی چاہا کہ ایک سوال داغ دوں جو نہ جانے کب سے میرے ذہن میں کلبلا رہا ہے:
بخاری ہی کی ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے(ایک اہم ترین بات جس کا تعلق امت کے آئندہ گمراہ ہونے یا نہ ہونے سے تھا لکھ کر دینے کے لیے) قلم کاغذ طلب کرنے پرایک صحابی رسول کا قول "حسبنا کتاب اللہ" نقل کیا گیا ہے جسے غلام احمد پرویز صاحب نے بھی اپنے موقف کی حمایت میں بڑے شدو مد سے کوٹ کیا ہے اور انکی کتاب "شاہکار رسالت"(جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سوانح حیات پر لکھی گئی ہے) کا مرکزی تھیم یہی قول ہے۔
  • اول کیا صحابی رسول کے قول کو درست مانتے ہوئےاس قول کی روشنی میں حدیث رسول کا انکار کیا جا سکتا ہے؟
  • دوم کیا حدیث رسول کی اہمیت کو جانتے اور مانتے ہوئے صحابی رسول کے قول کو رد کر کے دیوار پر دے مارا جا سکتا ہے؟
  • سوم سابقہ دونوں باتوں کے بر عکس صحیح بخاری کی اس روایت کی صحت سے انکار کر کے حدیث رسول اور قول صحابی دونوں کے مقام اور مرتبہ کو تسلم کیا جا سکتا ہے؟
تینوں میں سے ایک صورت ایسی بتایئے گا جو ایک مسلمان اور مومن کے لیے قابل قبول ہو

  1. انکار حدیث؟
  2. کسی صحابی کے قول کا انکار؟
  3. یا صحیح بخاری کی روایت کا انکار؟
کونسی بات کم خطرناک اور قابل قبول ہوگی؟
 
تینوں میں سے ایک صورت ایسی بتایئے گا جو ایک مسلمان اور مومن کے لیے قابل قبول ہو
  1. انکار حدیث؟
  2. کسی صحابی کے قول کا انکار؟
  3. یا صحیح بخاری کی روایت کا انکار؟
کونسی بات کم خطرناک اور قابل قبول ہوگی؟

آخر ایک ’مومن‘ کو ’انکار‘ ہی سے کیوں اتنی دل چسپی ہے ؟ جمع ، تطبیق، توفیق، ترجیح نام کی کچھ اشیاء بھی ہوتی ہیں ۔ ان کو بھی بطور آپشن کیوں نہ آزما لیا جائے؟
 
قران کے اول روز سے اب تک جوں کا توں چلے آنے کے تو کئی دلائل اور ثبوت موجود ہیں اور پھر اللہ کا اس کتاب کی حفاظت کا وعدہ بھی موجود ہے۔ مگر روایتوں اور فقہ کا معاملہ سراسر مختلف ہے ۔ اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ائمہ سے بھی کسی قسم کی غلطی نہیں ہوئی تو بھی اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ان کی تصنیفات ، تشریحات و تعبیرات ایک طویل زمانے تک کسی قسم کے بیرونی اضافے یا کمی سے محفوظ رہی ہوں گی؟
طالوت یہ عام طور پر پائی جانے والی ایک اور غلط فہمی ہے کہ صرف اللہ کی کتاب کی حفاظت کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ فی الحقیقت یہ وعدہ پوری شریعت اسلامیہ کے لیے ہے ۔
اس سلسلے میں ایک تحریر پہلے ارسال کی تھی جس میں صرف قرآنی آیات سے استدلال کیا گیا ہے ۔
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/حفاظتِ-حدیث-كا-ذمہ-دار-کون؟.48611/
 

شاکرالقادری

لائبریرین
آخر ایک ’مومن‘ کو ’انکار‘ ہی سے کیوں اتنی دل چسپی ہے ؟ جمع ، تطبیق، توفیق، ترجیح نام کی کچھ اشیاء بھی ہوتی ہیں ۔ ان کو بھی بطور آپشن کیوں نہ آزما لیا جائے؟
تو بسم اللہ کیجئے! ایک "مومن" کو انکار سے بچانے کے لیے اگر کسی "مومنہ" کے پاس کوئی حل موجود ہے تو لایئے
چشم ما روشن دل ما شاد
 
Top