جی ہاں وارث صاحب آپ نے ٹھیک فرمایا میرے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہو رہا ہے ” اب اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں عروض سیکھ گیا ہوںبس آپ دیکھتے جایئے راجا صاحب کہ کیا ہوتا ہے آپ کے ساتھجیسے جیسے آپ عروض میں آگے بڑھتے جائیں گے آپ کو ہر گانا، ہر گیت، ہر نغمہ اپنی طرف متوجہ کرے گا اور اپنی بحر بتائے گا، بجائے کلام کی دل کشی کے آپ کا دھیان ان کی بحروں میں الجھے گا
![]()
میری طرف سے ہری جھنڈی ہے خرم/ بے شک دوسری کوئی بحر شروع کر دو۔ وارث کا مشورہ چاہیے کہ ان کے خیال میں اب کون سی بحر لی جائے۔
میرا خیال ہے بحرِ خفیف شروع کی جائے؟
اگر ٹن ٹن ٹن ٹن ٹن ہے تویہ گھنٹی کی آواز کس بحر میں ہوتی ہے؟
یہ گھنٹی کی آواز کس بحر میں ہوتی ہے؟
واہ کیا بات ہے !اچھا سوال ہے نظامی صاحب۔
ایک بحر ہے مُتَدارِک، اس کو رقض الخیل بھی کہتے ہیں، عربی (فارسی، اردو) عروض کے علاوہ یہ بحر ہندوستانی نظامِ عروض جسے پنِگل کہتے ہیں اس میں بھی موجود ہے اور وہ اس بحر کر 'تِربھنگہ' کہتے ہیں، اس کا وزن 'فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن' ہے۔
اس بحر متدارک کی ایک مزاحف شکل ہے جسے متدارک مثمن مقطوع کہتے ہیں اسکا وزن
فَعلُن فَعلُن فَعلُن فَعلُن
یعنی
22 22 22 22
اب گھنٹی کی آواز 'ٹن ٹن ٹن ٹن' کی اس بحر کے وزن پر تطبیق کریں۔
اور اسی وجہ سے اس متدارک مثمن مقطوع کو عربی میں 'صوت الناقوس' بھی کہتے ہیں۔
بحر الفصاحت علم عروض پر کلاسیکی ماسٹر پیس ہے اور میر شمس الدین فقیر کی حدائق البلاغہ اس موضوع کی بائبلز میں سے ایک۔
بحر الفصاحت سے اقتباس دیکھیئے گا۔
"حدائق البلاغہ میں میر شمس الدین فقیر نے لکھا ہے کہ وزن متدارک مثمن مقطوع کا نام صوت الناقوس بھی ہے اور وجہ تسمیہ حضرت عبداللہ بن جعفر انصاری سے اسطرح منقول ہے کہ ایک روز حضرت امیر المومنین علی کرم اللہ وجہہ ملکِ شام کو تشریف لیے جاتے تھے، راہ میں ایک ترسا ناقوس بجا رہا تھا، آپ نے فرمایا کہ ناقوس کہتا ہے:
حقّاً حقّاً حقّاً حقّا
صدقاً صدقاً صدقاً صدقا "
والسلام