آڑھا ٹیڑھا لکھ کر پہلے ہمیں ذاتی مکالمہ میں بھیج دیں۔۔۔
وہاں ہم تصحیح کرلیں پھر لوگ صحیح معنی میں ہنسیں گے۔۔۔
ورنہ اس طرح اوٹ پٹانگ ہنسنا بھی ہنسنا ہے کوئی ہنسنے میں!!!
جناب
مفتی صاحب کی تخلیقی صلاحیتوں نے چار چاند لگا دیے ۔۔۔۔
بہت ساری دعائیں سلامت رہیے شاد و آباد رہیے اور ہمارے اور ہمارے بھیا
سید عاطف علی کے ساتھ کیرالہ جانے کی تیاریوں میں ہر گھڑی تیار و کامران رہیے
جون 2009 میں ہم بڑی بیٹی کی شادی کی تیاریوں میں مصروف تھے۔سروس کے ساتھ گھر کی ذمہ داریاں بھی تھیں۔ ہماری پوری کوشش تھی کہ خوش اسلوبی سے اپنی ساری ذمہ داری نبھائیں۔ اُس زمانے میں آئی آئی چند ریگر روڈ پر کھدائی کا کام جاری تھا۔ ہم پلازا سے اپنے دفتر محمدی آفس جلد از جلد پہنچنا چاہتے تھے۔تیز قدمی کی وجہ سے ہمارا پاؤں مڑ گیا اور جب ہم دو منزل سیڑھیاں چڑھ کر اپنے آفس پہنچے تو بالکل نہیں چلا جا رہا تھا۔کسی نہ کسی طرح ہمت کرکے گھر کے قریب والے ہسپتال پہنچے۔ایکسرے کروایا تو پتہ چلا کہ ہڈی ٹوٹ گئی ہے پلاسٹر چڑھانا پڑے گا۔ اس وقت ہمیں اپنی اسٹیٹ آف مائنڈ سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ یہ فرسڑیشن ہے، ٹینشن ہے کہ ڈپریشن۔
اللہ اللہ کرکے خیر سے بیٹی کی شادی ہوئی، رضا پردیس سدھارے اور رباب اپنی یونیورسٹی۔ اور ہم آٹھ ہفتے بیڈ ریسٹ پر آگئے۔ ٹیوشن تو ہم اپنی پڑھائی کے دوران بھی پڑھاتے رہے تھے، لیکن وہ اسٹوڈنٹس تقریباً ہماری ہم عمر تھیں، پھر وہ اسٹوڈنٹ لائف تھی۔ ایک تو ایڈونچر کرنے کا شوق تھا اور دوسرا اپنا جیب خرچ نکالنا تھا۔ لیکن اب ہمارا مقصد کسی کی مدد کرنا تھا، ان لوگوں کی مدد کرنا جن کے لیے اپنی محدود آمدنی سے ٹیوشن کے ہیسے نکالنا مشکل تھا۔
وہ تین بچے تھے۔ دو لڑکے، ایک لڑکی۔ لڑکے پڑھائی میں کمزور تھے جبکہ بچی ماشا ء اللّہ پڑھنے میں بہت اچھی بلکہ یہ کہنا
سچ ہوگا کہ کافی جینیس تھی تو اس پر کم محنت کرنی پڑی۔ البتہ بچوں پر وقت اور انرجی دل کھول کر خرچ کرتے تھے۔لیکن اس وقت بڑا سکون ملتا جب اُن کی ماں ہمیں بہت دعائیں دیتی کہ باجی میں تو مایوس ہوگئی تھی کہ یہ بچے پڑھ نہیں سکتے۔
پر جو پاپڑ ہمیں بیلنے پڑے وہ ہم جانتے یا ہمارا دل۔ کبھی لالچ سے بہلاتےکبھی ڈانٹ سے سمجھاتے، بڑے کو تو پھر بھی ڈرا دھمکا کے راہ راست پر لے آتے پر چھوٹا اتنا کھوٹا تھا کہ ناکوں چنے چبوادیتا۔مس مس یہ سمجھ میں نہیں آرہا، ابھی پڑھاؤ ابھی دس منٹ میں بھول جائے۔ کبھی کبھی تو ہمیں رونا آجاتا تھا۔رباب یونیورسٹی سے آکر کہتیں ماں کیوں اپنے آپ کو تھکا تی ہیں، ہم دیکھ لیتے ہیں ان کا سبق، پھر شور کرتیں کہ ماں آپ ان کو کیسے پڑھاتی ہیں، یہ تو بہت کند ذہن بچے ہیں۔
پر بچے من کے سچے۔ سب سے چھوٹو کو ہم نے بڑے جتنوں سے سنبھالا۔ روز ایک چاکلیٹ دیتے وہ بھی اپنی پسندیدہ bounty 😎پر ایک bounty پر اگر کوئی پڑھنے کی طرف راغب ہو تو مہنگا سودا نہیں۔ہم کبھی کبھی ہادی چھوٹو کو زور سے ڈانٹتے تو اُن کا رونا شروع ہوجاتا اور ساتھ ساتھ مس مس میں کل سے نہیں آؤں گا کی رٹ بھی ریں ریں کے ساتھ جاری ہوجاتی۔ پر ہم نے بھی تہیہ کرلیا تھا کہ اسے پڑھا کر ہی دم لیں گے۔
ایک روز کی روداد تو یادگار اور مزے دار ہے۔ ہم جب بھی یاد کرتے ہیں مسکراتے ہیں۔ حسب معمول اسے کبھی ڈانٹ اور کبھی پیار سے سبق یاد کرانے میں مصروف تھے کہ ہادی میاں نے پورا volume کھول کے رونا شروع کردیا، ساتھ ساتھ ہچکیوں میں روتے ہوئے بولا: "مس مس ہمیں بابا کو مت دیجے گا، ہم ابھی یاد کرکے lessons آپ کو سناتے ہیں۔‘‘
تھوڑی دیر تو ہمیں سمجھ میں نہ آیا کہ ہوا کیا ہے۔بعد میں جب اصل بات پتہ چلی تو ہنس ہنس کے ہم ماں بیٹی کا بُرا حال ہوگیا۔اصل میں ہرجمعرات کو ایک فقیر بڑی درد بھری زور دار آواز لگا کر بڑے کرب سے بھیک مانگتا تھا۔ ہادی میاں یہ سمجھے کہ اس بابا کو ہم نے بلایا ہے اور سزا کے طور پر ہم اُس کو فقیر کے حوالے کررہے ہیں۔ اس جمعرات کو ہادی دیر سے آئے تھے اور فقیر کی زور دار صدا اُس کے کانوں تک پہنچ گئی تھی جس نے بہترین کام کیا۔بس پھر کیا تھا، ایک اچھا گر ہمارے ہاتھ لگ گیا، ہادی کی دکھتی رگ ہمارے ہاتھ آگئی۔ اب ہادی نے ہماری ڈانٹ اور چاکلیٹ سے زیادہ فقیر کے ڈر سے پڑھنا شروع کردیا😅😅😅😅