ابن سعید
خادم
بھئی ہم تو دیہاتی آدمی ہیں جہاں کارڈ وغیرہ کا کوئی رواج نہیں ہوتا تھا۔ چاند رات کو کوئلے والی استری سے کپڑے پریس کرنا، خواتین کا مہندی لگانا، میوے کاٹنا، آخری وقت میں کپڑوں میں بٹن لگانا، ازار بند ڈالنا پھر صبح اٹھ کر غسل کر کے مارے خوشی کے نئے کپڑے پہننا (جس میں اکثر درزی نے جلوے بکھیرے ہوتے تھے)، عطر لگانا اور عیدی لے کر عید گاہ جانا۔ نماز عید کے بعد مٹھائی، کھلونے اور خاص کر چاٹ و گول گپے میں عیدی کا بیشتر حصہ قربان کر کے گھر لوٹ آنا، یہی کچھ ہوتا تھا ہمارے بچپن میں۔
انٹر استعمال کرنا سیکھا تو 123 گریٹنگ ڈاٹ کام والے گریٹنگ سے دو ایک سال شغل کیا ہو گا لیکن کبھی ایسے کارڈ پر نہ تو اشعار بھیجے اور نہ ہے وصول کیے۔ دو برس قبل غالباً پہلی بار فرزانہ نیناں اپیا کی جانب سے عید کی منظوم مبارکباد موصول ہوئی تھی۔ جس کے الفاظ کچھ یوں تھے:
اس کے جواب میں ہم نے دس پندرہ منٹ کی دماغ سوزی کر کے درج ذیل تک بندی ارسال کی
بعد میں انکشاف ہوا کہ انھوں نے اپنا شعر نہیں بھیجا تھا بلکہ کسی دوسرے شاعر کا شعر نقل کر دیا تھا۔ اس پر ہمیں اپنی تک بندی پر صرف ہونے والے وقت کا افسوس بھی ہوا تھا۔
انٹر استعمال کرنا سیکھا تو 123 گریٹنگ ڈاٹ کام والے گریٹنگ سے دو ایک سال شغل کیا ہو گا لیکن کبھی ایسے کارڈ پر نہ تو اشعار بھیجے اور نہ ہے وصول کیے۔ دو برس قبل غالباً پہلی بار فرزانہ نیناں اپیا کی جانب سے عید کی منظوم مبارکباد موصول ہوئی تھی۔ جس کے الفاظ کچھ یوں تھے:
کون سی چیز میں اس عید کا تحفہ بھیجوں
پیار بھیجوں کہ دعاؤں ذخیرہ بھیجوں
بربط قلب کی پر سوز صدائیں بھیجوں
دل مجروح کی پاکیزہ دعائیں بھیجوں
اس کے جواب میں ہم نے دس پندرہ منٹ کی دماغ سوزی کر کے درج ذیل تک بندی ارسال کی
پیار بھی بھیج دیں بے لاگ دعاؤں کے بدوش
چند کلیاں بھی تبسم کی ہواؤں کے بدوش
شفقتیں بھیج دیں خوش رنگ تمنا کے سوا
دل مجروح کی اک نیش دواؤں کے بدوش
بھیج دیں آپ سبھی کچھ کوئی ساماں ہو جائے
رونق دار بڑھے گھر میں چراغاں ہو جائے
بعد میں انکشاف ہوا کہ انھوں نے اپنا شعر نہیں بھیجا تھا بلکہ کسی دوسرے شاعر کا شعر نقل کر دیا تھا۔ اس پر ہمیں اپنی تک بندی پر صرف ہونے والے وقت کا افسوس بھی ہوا تھا۔