تو ابھی کونسا تم دادی اماں ہوگئی ہو
میں بچپن میں یہ بسکٹ کھتی تھی اور ایک ٹافی بھی تھی کوفی والی نام تو مجھے یاد نہیں ہے اور بھی کافی چاکلیٹ کھاتی تھی میں بچپن میں، میں نے ہر طرح کی چاکلیٹ کھائیں ہیں۔۔۔ ۔ میرے ابو اور میرے بھائی میرے لئے لاتے تھے۔۔۔
کوئی نہیں۔۔۔تو ابھی کونسا تم دادی اماں ہوگئی ہو
ابھی بھی بچپن ہی چلنگ تمہارا
تو کیا ابھی تم دادی اماں ہوگئی ہوکوئی نہیں۔۔۔
پر بچی بھی نہیں ابتو کیا ابھی تم دادی اماں ہوگئی ہو
ہاں ابھی تم بڑی ہوگئی ہو نہپر بچی بھی نہیں اب
ہاہاہاہاہا غصہ میں نے کب کیاہاں ابھی تم بڑی ہوگئی ہو نہ
میڈم کنول غصے والی
کیا کرو نہہاہاہاہاہا غصہ میں نے کب کیا
پاگل لگوں گی۔۔۔۔کیا کرو نہ
آنکھیں بھینچ کر اور تھوڑا ایسے کہ ناک سے شوں شوں کی آوازیں آئیں
ایویں ہی لگو کی پاگلپاگل لگوں گی۔۔۔ ۔
ویسے میں غصہ بہت کم کرتی ہوں لیکن جب آتا ہے تو بہت زیادہ آتا ہے۔۔۔ایویں ہی لگو کی پاگل
کبھی کر کے دیکھنا کتنی دبنگ لگتی ہو
اور کیا کرتی ہو پھر تم غصے میںویسے میں غصہ بہت کم کرتی ہوں لیکن جب آتا ہے تو بہت زیادہ آتا ہے۔۔۔
نہیں اب نہیں روتی بس جس پر آتا ہے پھر اسکی خیر نہیں ہوتیاور کیا کرتی ہو پھر تم غصے میں
رونے تو نہیں لگتی نہ
کیا جھاڑو سے پٹائی کردیتی ہو اس کینہیں اب نہیں روتی بس جس پر آتا ہے پھر اسکی خیر نہیں ہوتی
یہ تو میں بھی بہت شوق سے کھاتی تھیشروع کرتے ہیں میرے بچپن کی سب سے مشہور ٹافی سے۔۔ کالے ریپر میں لپٹی بون بون اک بہترین عیاشی تھی بچپن کیمیرے بچپن میں دوسری مقبول ترین ٹافی بون بون کے بعد۔۔۔ مہنگی ہونے کی وجہ سے یہ دوسرے نمبر پر تھی۔۔۔
اور یہ بھی کھاتی تھی چائے میں ڈبو ڈبو کےاور چینی والا بسکٹ نائس جو ٹرانسپیرنٹ پیکنگ میں آتا تھابعد میں ملبوس بدل کر اس طرح کی شکل میں آگیا۔۔۔اور پھر کچھ عرصہ بعد ملبوس بدل کر اس شکل میں بھی بکتا رہا۔۔۔ ۔
کیا خوب تھے وہ دن بھی ۔۔۔۔۔بچپن ۔۔۔
ہمارا بچپن ان چیزوں کا محتاج نہیں تھا کیونکہ ہمیں پیسے کی کوئی چاہ نہیں ہوتی تھی یا شاید ہمیں اس وقت پیسے کی وقعت ، طاقت کا اندازہ نہیں ہوگا جو ہمیں ایسی یا کسی چیز کی تمنا ہوتی ۔
ہم لاہور میں لوہاری دروازے کے اندر رہتے تھے ۔بچپن ہمارا وہیں گلیوں محلوں میں ہنستے کھیلتے گذرا ۔ بھوک لگتی تو کہیں سے بھی ،کسی گھر میں سے بھی کوئی چیز کھا لیتے۔ضرورت پوری ہو جاتی،اس لئے پیسے کی کبھی تمنا نہ رہی۔
شاید اچھا دور تھا،لوگ '' انسان '' تھے اور اچھے تھے ۔دکھ سکھ سانجھا تھا
زمانہ اب بدل چکا ، پیسے کی ضرورت شدید تر ہو گئی ہے
لوگوں سے دنیا بھری پڑی ہے ، انسان خال خال نظر آتے ہیں
سو ایسے میں ہمارا بھی شمار انسانوں میں نہیں ہوتا