اوپر والی بٹر سکاچ مچلز کمپنی کی ہے۔ یہ اب بھی مل جاتی ہےبگ بٹر ٹافی۔۔۔ دودھ مکھن سے بنی (کمپنی کا دعوٰی) اس ٹافی کے اوپر اک بادام بھی لگا ہوتا تھا۔بٹر سکاچ ٹافی جو پہلے اس ریپر میں آتی تھی۔۔بعد میں زمانے کی ترقی کے سبب اس کے ریپر نے بھی رنگ روپ بدل لیا۔۔۔
اس کا نام اینرجک کینڈی enargic candyہےہائے ہائے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ظالم ، کیا زمانہ یاد کرادیا تم نے۔۔۔ ۔
نیرنگ خیال ، چالیس سال پرانی یادوں پر جمی گرد جھاڑنا آسان کام ہے کیا؟؟؟؟
ہمارے زمانے میں میڈیا لوگوں کی زندگی میں اس طرح اثر انداز نہیں ہوتا تھا جیسے اب ہے ، اور دوسری بات یہ کہ ہمارے والدین بہت اصول پسند تھے ، اس لئے بچوں کو بازار سے پھل وغیرہ خود لاکر کھلانا بہتر سمجھتے تھے ، نہ کہ بچوں کے ہاتھ میں پیسے دیکر انہیں بازار کی چیزیں کھانے کے لئے کھلا چھوڑ دینا۔۔۔ یہ انہیں پسند نہ تھا اس لئے ہمیں بازار کی چیزوں کی عادت ہی نہیں پڑی
بس بہت زیادہ عیاشی کی تو ایک ٹافی ہوتی تھی جس کا نام تو پتہ نہیں کیا تھا ، ہم اسکو " گائے کی ٹافی " کہتے تھے اور ایک فانٹا کی ٹافی کھاتے تھے
یہ دونوں ٹافیاں بھی کبھی کبھار کھاتے تھے
ہمارا بچپن الحمدللہ بہت صبر، شکر اور قناعت کا دور تھا اور والدین بھی بچوں کی اچھے انداز میں تربیت کرکے انہیں آگے آنے والے مصائب و مسائل کا سامنا کرنے کی ہمت اور حوصلہ پیدا کرتے تھے ۔ بچوں کی ہر خواہش پوری کرنے سے بچوں میں بگڑنے کی امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں اور ان میں صبر کا مادہ پیدا نہیں ہوپاتا جو انکے اندر ایک بے چینی اور بے قراری بھر دیتا ہے اور پھر انسان اللہ کی نعمتوں کی شکر گزاری کرنے کے بجائے ناشکری کے کلمات ادا کرنے لگتا ہے
کم از کم میرا تجربہ اور مشاہدہ تو یہی کہتا ہے کہ خاص طور پر بچوں کی جا و بیجا خواہشات پوری کرنے سے انکے اندر اور اور اور کی خواہش مزید شدت اختیار کر جاتی ہے اور نعمتوں کی قدر ہونے کے بجائے نعمتوں کی ناقدری کا رجحان تقویت پاتا ہے
اسی لئے پہلے کے بزرگ بچوں کی ہر خواہش پوری کرنے کے بجائے انکے اندر صبر و استقلال پیدا کرنے کے لئے بہت سی وہ خواہشات بھی جو وہ پوری کرسکتے ہوں ، نہیں کرتے تھے ۔ اس طرح خواہشات کے منہ زور دریا پر بند باندھنا آسان ہوجاتا ہے
دیکھا ناں۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ ٹھہرے ہوئے پر سکوت سمندر میں ایک پتھر پھینکنے کا انجام دیکھ لیا؟؟؟؟؟؟؟
کتنی لمبی اور کڑوی تقریر برداشت کرنی پڑی تم کو ۔۔۔ ۔۔۔ ۔اب بھگتو
مرنڈے نہیں خیال بھائی کریکٹ ورڈ مرونڈے ہےراک این رولا۔۔۔ جس کے اندر کافی سارا کھوپرا بھرا ہوتا تھا۔۔۔ہمارے بچپن تو مرنڈے کھاتے گزرا۔۔۔ چاول والے۔۔ دال والے ۔۔۔ گڑ والے مرنڈے۔۔۔ اب تو مرنڈے شاید نہیں ملتے۔۔ یا پھر ملتے ہونگے میں نے نہیں دیکھے۔۔۔ کم از کم اسلام آباد میں لوگ مرنڈے سے آشنا نہیں۔۔۔
ظاہر ہے پھوپھو بن چکی ہو۔ لیکن تم نے کبھی بتایا نہیں تھا۔پر بچی بھی نہیں اب
اور ایک اور مزے کی ببل گم۔۔۔ ۔ ڈنگ ڈونگ بھی بھول گئے ۔۔۔ ۔۔ چلو میں ریمائینڈ کراتی ہوں ۔۔۔ ایک بلی موٹی تازی تھی جو مزے سے ڈنگ ڈونگ کھاتی تھی ۔۔چوہوں نے مل کر سوچا یہ ۔۔بلی کو دیں گے دھوکہ یہ ۔۔ بلی کو باندھیں گے گھنٹی اور کھائین گے مل کے ۔۔۔ ڈنگ ڈونگ بلی نے گھنٹی پہن کر،،،مزے سے ڈنگ ڈونگ کھا کر ۔۔۔ پھر چوہوں سے لی ٹکر اور گایا پھر یہی سونگ ۔۔ڈنگ ڈونگ ۔۔ڈنگ ڈونگ ببل اس بلی نے بھی بہت کھائی ہے یہ ڈنگ ڈونگ
تھینکیو عسکری بھائی ۔۔۔ہیوٹ سوئیٹ کی بھی پکچر لگائیں
میرا بھیتجا تو چھے سال کا بھی ہوگیا ہے چچا جی اب تو اسکول بھی جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ظاہر ہے پھوپھو بن چکی ہو۔ لیکن تم نے کبھی بتایا نہیں تھا۔
اور کیا بھیا ۔۔نہیں کیاگڑیا واقعی میں ٹیگ نہیں کیا تمہیں؟
بہت بہت زبردست
اور شکریہ کوئی نہیں ان مسکانوں کا۔۔۔ یہ تو فرض تھا مانو گڑیا
میں بھی یہ کھاتی تھیاور یہ بھی ملتا تھا مصالحہ لگا کر
بہت کھایا ہے یہاور یہ بھی ملتا تھا مصالحہ لگا کر
میں نے کئی سال سے نہیں کھایا اب کتنے کا ہو گیا ہے ؟ اسلام آباد مین اور باہر؟بہت کھایا ہے یہ
اور "ملتا تھا" سے کیا مطلب
اب بھی ملتاہے۔یہاں اسلام آباد میں بھی لیکن مہنگا بہت ہوتا ہے یہاں
ہمارے کالج کے باہر بھی ملتا ہے بھیااور یہ بھی ملتا تھا مصالحہ لگا کر
اسلام آباد میں 20 کا مل جائے تو غنیمت ہےمیں نے کئی سال سے نہیں کھایا اب کتنے کا ہو گیا ہے ؟ اسلام آباد مین اور باہر؟