پہلے سوال پوچھنے کا حق حاصل کریں
عامر خاکوانی
سوال صرف یہ نہیں کہ بھارتی طیارے اتنا اندر تک کیسے آ گئے؟
یہ سوال بنتا ہے، ضرور پوچھیں، آپ کا حق ہے۔
مگر آپ پر کچھ فرائض بھی عائد ہوتے ہیں۔ آپ کا فرض یہ ہے کہ بھارت کو اس کا بھرپور اور موثر جواب دینا ہے۔ ایسی ضرب جو ان بدبختوں کو ہمیشہ یاد رہے اور آئندہ ایسی بزدلانہ حرکت نہ کریں۔
آپ کے گھر پردشمن حملہ کرے، آپ کو یا آپ کے بھائی ، بھانجے کو پتھر مار کر زخمی کر دے۔ پریشانی کا معاملہ ہے۔ جب آپ ، آپ کے گھروالے بیٹھ کر اس پر غور کریں گے تویقینا پہلے یہ بات ہوگی کہ دشمن یہ وار کیسے کر گیا، اس نے دیوار پھلانگ کر یا دیوار پر چڑھ کر پتھر کیسے پھینکا۔ اس پر لازمی بات ہوگی، مگر ایک دو منٹ سے زیادہ نہیں، اصل بات اس پر ہوگی اور ہونی چاہیے کہ اب جواب کیا دینا ہے۔ بدلہ کیسا لیں؟ ایسا بدلہ جو دشمن کا منہ توڑ دے ، اس کے حوصلے پست کر دے، اعصاب تباہ دے۔
جس گھر میں بدلہ لینے کی بات نہ ہو، دشمن سے انتقام لینے کی منصوبہ بندی نہ کی جائے بلکہ صرف پہرہ دینے والے بیٹوں کو طعنے دئیے جاتے رہیں کہ تمہاری غلطی سے یہ زخم لگا۔ اس گھر پر تف ہے۔ تف ہے اس بزدلانہ سوچ اور منافقت پر۔
ایک منٹ کے لئے مان لیتے ہیں کہ پاکستانی حکومت یا فوجی ترجمان غلط ہے اور بھارتی حکومت اور ان کا فوجی ترجمان درست ہے۔ تب کیا آپ سانپ چلے جانے کے بعد لکیر ہی کو پیٹتے رہیں گے یا پھر بدلہ لینے کی بات کریں گے۔
جی صرف بات کرنے کا مطالبہ ہی آپ سے کیا ہے، لڑنا اور بدلہ تو انہی جنگجوئوں نے لینا ہے، جن پر آپ طنز کے تیر برسا رہے ہیں۔
آپ سے ہمارا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ اس مرحلے پر تو کم از کم کھل کر بھارت کو دشمن قرار دیں۔ یہ کہہیں کہ اس موزی پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا، یہ ہم پر کسی بھی وقت حملہ کرے گا، ضرب لگانے کی کوشش کرے گا۔ اس دشمن کو برباد کرنے کی پلاننگ کرنی چاہیے۔ چاہے اس کے لئے پراکسی وار لڑیں، چاہے، مزید خطرناک ہتھیار بنائیں، چاہے جہادی تنظیموں کو دوبارہ زندہ کریں۔
ایسے لوگوں کو بالکل حق حاصل ہے کہ اپنے جوانوں سے سوال پوچھیں، اپنی دفاعی صلاحیت کا احتساب کریں تاکہ آئندہ پھر کبھی ایسا نہ ہوسکے۔ ایسے غیرت مند پاکستانیوں کو ہم سوال پوچھنے کا حق دیتے ہیں۔
جو لوگ آج بھی بھارت کے خلاف کچھ نہیں کہتے، جو اسے اپنا دوست سمجھتے ہیں، جن کا خیال ہے کہ مطالعہ پاکستان کی کتابیں غلط لکھی گئیں جو اپنے بچوں کو بھارت کی دوستی کا درس دیتے ہیں، ان بے غیرتوں، بے شرم ، پیپ سے بھرے ناسوروں کو کوئی حق نہیں کہ وہ اپنی زہریلی زبانیں کھولیں۔
جو سال بھر فوج کے خلاف، ہمارے نیوکلیئر پروگرام، اینٹی بھارت سٹانس کے خلاف بولتے رہتے ہیں، جن کے خیال میں دفاعی بجٹ کم کر دینا چاہیے، فوج کی تو ضرورت ہی نہیں،بھارت سے ہمیں تجارت اور دوستی رکھنی چاہیے۔ ہم سب ایک ہیں، ایک ہی طرح کے کھانے کھاتے ، ایک ہی کلچر ہے۔ وہ جنہیں نظریہ پاکستان سے چڑ ہے، دوقومی نظریے کا سن کر ہی جوآگ بگولا ہوجاتے ہیں، جو آج بھی کانگریسی مولویوں کو اپنا رہنما اور لیڈر سمجھتے ہیں۔ انہیں آج بولنے کا کوئی حق نہیں۔ انہیں کہہ دیا جائے کہ یہ زندہ پاکستانیوں کا ایشو ہے۔ ہم اپنی غلطیاں بھی خود سدھاریں گے اور بدلہ بھی دشمن سے ایسا کاری لیں گے کہ وہ برسوں اس پر خارش زدہ جانوروں کی طرح بلبلاتا رہے گا۔