خالد محمود چوہدری
محفلین
جب ایک طلاق سے بھی طلاق ہو جاتی ہے اور مطلقہ خاتون دوسری شادی کر سکتی ہیں تو ایک ساتھ تین طلاق دینے کی ضرورت ہی کیا ہے۔
میں تو ہر لڑی میں اچھے انداز میں شرکت کرتی ہوں۔۔۔آپ نے اس لڑی میں اچھے انداز میں شراکت کی ہے اور ایک مختلف زاویہ ہمارے سامنے آیا ہے۔ اِس لڑی میں ہر ایک کی اپنی اپنی رائے ہے اور ہمیں سب کی رائے کا احترام کرنا چاہیے۔ سلامت رہیں!
فاروق صاحب از روئے قرآن حلالہ کا کیا حکم ہے؟مناسب قانون سازی کی ضرورت ہے ، اس بدمعاشی اور ٹھگی کی روک تھام کے لئے۔ وہ کس طرح؟ اس کے لئے ہماری قوم بہت تیز ہے۔
فاروق صاحب از روئے قرآن حلالہ کا کیا حکم ہے؟
میں اخلاقی جواز کی بات نہیں کر رہا۔ کسی بھی آزاد ملک میں آئینی ترامیم کیلئے ایک بڑی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور بھارت ہندو اکثریت ملک ہونے کے ناطے ان تھیوری مسلمانوں کیخلاف آئینی ترامیم کر سکتا ہے۔اور میں نے بات اخلاقی جواز کی کی تھی ۔ مسلمانوں کے پرسنل لاء میں مداخلت کسی غیرمسلم کو زیب نہیں دیتی چاہے وہ کابینہ ہو یا پارلیمان یہ معاملہ مسلمانوں پر ہی چھوڑ دینا چاہئے کہ وہ ایسے کسی قضیئے کا کیا فیصلہ کرتے ہیں۔
غیرقانونی یا غیر آئینی؟ہر ایک کو اپنے اپنے حدود میں رہنا چاہئے۔ چاہے اسلامی ریاست ہو یا سیکولر ملک، کسی کا بھی دوسروں کے معاملات (مسلم پرسنل لاء) میں مداخلت غیر قانونی ہے۔ اور یہ غلطی ہندوستانی حکومت بار بار کر رہی ہے۔ ایک مسلمان ہونے کے ناطہ اسلامی غیرت اور دینی حمیت کا پایا جانا لازمی ہے۔
اور عموماً حلالے کیلئے اپنے ہی جسم خاکی کی پیشکش کرتے ہیں۔ جو اکثر وپیشتر قبول بھی ہو جاتا ہے۔ اسی قسم کے کثیر واقعات کی روک تھام کیلئے بھارت میں تین طلاقوں کے خلاف قانون پاس ہوا ہے۔ جس کا سب سے زیادہ نقصان انہی مولوی حضرات کو ہوا ہے جو حلالے کروانے میں پیش پیش تھےہدایات پر کون عمل کر رہا ہے؟ طلاق دینے والے مسلمان مردوں کو جو زیادہ تر جاہل ہیں بس اتنا معلوم ہے کہ تین دفعہ طلاق، طلاق، طلاق بول دینے سے مرد اور عورت میں ازدواجی رشتہ باقی نہیں رہتا. ایسی صورت میں خواتین جن مولویوں کے پاس جاتی ہیں وہ حلالہ واحد حل بتاتے ہیں. بھلا یہ حل کسے پسند آئے گا
کیونکہ مسلم حکومتوں نے اسکام کی ذمہ داری انہی مولوی حضرات کو سونپی ہوئی ہے جو بڑے وثوق سے حلالے کرواتے ہیں۔مجھے حیرت ہے کہ انڈین گورنمنٹ اور عدالت اس مسئلے پر قانون سازی کا سوچ رہی ہے لیکن مسلم حکومت کیوں نہیں سوچ رہی؟ تین طلاقیں بیک وقت دینا شرعا ناپسندیدہ فعل تو ہے ہی، نتائج کے لحاظ سے بہت سنگین بھی ہے۔
مسلم حکومتوں نے یہ ذمہ داری کب کسی کو تفویض کی ہے؟کیونکہ مسلم حکومتوں نے اسکام کی ذمہ داری انہی مولوی حضرات کو سونپی ہوئی ہے جو بڑے وثوق سے حلالے کرواتے ہیں۔
اسکے دو ہی حل ہیں۔قرآن و سنت میں زانی کو کوڑا لگانا ،اڈلٹری کرنے پر سزائے موت اور چور کا ہاتھ کاٹنے جیسے احکامات ہیں اس کے باوجود انڈیا میں اور شاید آپ کے یہاں بھی کریمنل لا مختلف ہے، اس پر عمل نہیں کیا جاتا. اس بارے میں کیا خیال ہے
یہ مزے کی بات اسلئے ہے کیونکہ ہندو اکثریت سیکولر ملک نے قانون میں تبدیلی کی ہے۔ مسلم حکومتیں یہی کام کریں تو وہی قانون حلال ہو جاتا ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ انڈیا میں تین طلاقیں ختم ہونے پر گرجنے والے یہ بھول رہے ہیں کہ ان کے پاکستان اور کویت میں پہلے ہی سے یہ غیر قانونی ہے
زیادہ دور نہ جائیں۔ پاکستانی آئین میں جتنے بھی مذہبی شقیں شامل ہیں سب ان ہی مولوی حضرات کی مرہون منت ہیں۔ عام پارلیمنٹیرین کو تو بنیادی سورتیں زبانی نہیں یاد، وہ کیا اسلامی قانون سازی کرتے۔مسلم حکومتوں نے یہ ذمہ داری کب کسی کو تفویض کی ہے؟
کیونکہ مسلم حکومتوں نے اسکام کی ذمہ داری انہی مولوی حضرات کو سونپی ہوئی ہے جو بڑے وثوق سے حلالے کرواتے ہیں۔
مسلم حکومتوں نے یہ ذمہ داری کب کسی کو تفویض کی ہے؟
زیادہ دور نہ جائیں۔ پاکستانی آئین میں جتنے بھی مذہبی شقیں شامل ہیں سب ان ہی مولوی حضرات کی مرہون منت ہیں۔ عام پارلیمنٹیرین کو تو بنیادی سورتیں زبانی نہیں یاد، وہ کیا اسلامی قانون سازی کرتے۔
تاہم، ایسا کچھ نہیں ہے کہ مسلم حکومتوں نے مولوی حضرات کو یہ 'ذمہ داری' تفویض کر رکھی ہو۔ کسی کے انفرادی فعل کا اطلاق پورے طبقے، معاشرے یا ریاست پر کرنا درست نہیں ہے۔
- ختم نبوت بل کے پیچھے مولوی حضرات
- حدود آرڈیننس کے پیچھے مذہبی جماعتیں
- توہین رسالت بل کے پیچھے یہی لوگ
- لمبی گنتی ہے، ہر مذہبی قانون کے پیچھے آپ کو کوئی نہ کوئی مولوی ملے گا، عام مسلمان نہیں
محترم حلالہ کے خلاف قرآن کا کیا حکم ہے مطلب حلالہ کی حرمت پر از روئے قرآن دلیل؟طلاق کی ابتداء طلاق کے اعلان، اور اس کے بعد مدت کے لازمی شمار سے شروع ہوتی ہے ۔ اور مدت مکمل ہونے پر طلاق واقع ہوتی ہے۔ کوئی بھی فرقہ ایک عورت کی طلاق کو بناء عدت کے مکمل نہیں قرار دیتا۔ اس طرح تین بار طلاق کا شروع اور اختتام ، ایک سال کی مدت پر محیط ہے
طلاق کے اعلان کے بعد چار ماہ کی مدت کا پراسیس بار بار ہو تو تیسری بار مرد اور عورت کے پاس ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کا حق ختم، اس کے بعد جب تک کہ خاتون ایک نئے شخص سے شادی نا کریں اور اگر یہ نئی شادی ، کسی وجہ سے ازادانہ طور پر ، نارمل حالات میں طلاق پر انجام پذیر ہو تو اس کے بعد ہی ایک خاتون ، اپنے پہلے سابقہ شوہر سمیت کسی سے بھی شادی کرسکیں گی۔
عموماً ملاء اس سارے معاملے کو شارٹ سرکٹ کرتے ہیں اور خود اپنی خدمات پیش کرتے ہیں کہ آج نکاح ، کل طلاق، اور خاتون محترم دوبارہ پہلے شوہر کے شادی کرنے کے قابل ، ملاء اس عمل کو حلالہ کا نام دیتے ہیں ، جو کہ ایک حرام فعل ہے۔ ایسا شارٹ سرکٹ حلالہ نہیہں بلکہ حرامہ ہے اور قابل مذمت ہے۔
یہ ضروری ہے کہ طلاق کے اعلان اور اس کی مدت انتظار کا حترام کیا جائے، تاکہ باہمی صلح کا موقع مل سکے ، تاکہ خاندان کے مخلص ماں اور باپ اپنے خاندان کی بہبود کے لئے کام کرتے رہیں۔
یا حیرت! یہ قومی دباؤ و مزاج جھوٹ، کرپشن، چوری چکاری، غربت، افلاس، بیروزگاری، ناخواندگی وغیرہ کیخلاف نہیں اٹھتا۔ الغرض یہ ہمارے قومی ایشوز نہیں۔قوانین عوامی دباؤ اور معاشرے کی مجموعی فکر اور مزاج کے زیرِ اثر ہی وجود میں آتے ہیں۔ اِن کو صرف مولویوں کے کھاتے میں ڈال دینا درست نہیں۔
پھر یہ کافی جدید ملا ہونگے کیونکہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے پاکستان میں اس وقت یعنی 1978 یا 1979ء میں صرف ڈائل والے فون ہوتے تھے جن میں نہ سکرین ہوتی تھی اور نہ ہی سپیکر فون۔بہت اچھا کیا کہ آپ نے پوچھا۔ میں ایک بہت ہی مشہور ملاء کے پاس بیٹھا تھا۔ نام نہیں لوں گا، یہ بات ہے 1978 یا 1979 کی ، ایک فون آیا اور اس ملاء نے فون کا سپیکر کا بٹن دبا کر جے ! کہا، دوسری طرف کا ملاء بولا، جو پٹاخہ تم نے حلالے کے لئے بھیجی تھی، کیا زبردست تھی، سوچتا ہوں اس کو رکھ لوں۔ اس ملا نے فوراً فوں اٹھا کر کہا کہ وہ ابھی مصروف ہے، بعد میں بات کریں گے۔ رب کرے کہ میرے کانوں کا دھوکہ ہو۔
اور عموماً حلالے کیلئے اپنے ہی جسم خاکی کی پیشکش کرتے ہیں۔ جو اکثر وپیشتر قبول بھی ہو جاتا ہے۔ اسی قسم کے کثیر واقعات کی روک تھام کیلئے بھارت میں تین طلاقوں کے خلاف قانون پاس ہوا ہے۔ جس کا سب سے زیادہ نقصان انہی مولوی حضرات کو ہوا ہے جو حلالے کروانے میں پیش پیش تھے