سید عمران
محفلین
گنگا کی محبت میں ڈبکی!!!مطلب کنگا میں ڈبکی۔توبہ ، توبہ
کیسی باتنا کرتے ہو جی۔
گنگا کی محبت میں ڈبکی!!!مطلب کنگا میں ڈبکی۔توبہ ، توبہ
کیسی باتنا کرتے ہو جی۔
یہ تو خودکشی ہوئی ۔گنگا کی محبت میں ڈبکی!!!
آخرش عشق بازی کا انجام یہی ہے!!!یہ تو خودکشی ہوئی ۔
آخرش عشق بازی کا انجام یہی ہے!!!
گنگا میں ڈبکی کا کوئی فائدہ نہیں، عالمی اداروں کی رپورٹ کے مطابق گنگا اب پوتر نہیں رہی ۔گنگا کی محبت میں ڈبکی!!!
خیال و خواب ہوئی ہیں محبتیں کیسیجب شوق والا ہی نہ رہے تو شوق کا کیا کرنا حضرت!
ایک ہو گئی یا اکٹھی تین ہیں؟
اب نہیں 85 میں گندی ہو چکی تھی اس وقت "رام تیری گنگا میلی" ہندی فلم آئی تھیگنگا میں ڈبکی کا کوئی فائدہ نہیں، عالمی اداروں کی رپورٹ کے مطابق گنگا اب پوتر نہیں رہی ۔پولیوشن کئی ہزار درجے زائد ہو چکی ہے
ایک مسلمان کے لئے شریعت کسی بھی ملک کے قانون سے بالا تر ہوتی ہے۔
آپ نے پیدا ہونے سے پہلے ہی وہ فلم دیکھ لی تھی ؟اب نہیں 85 میں گندی ہو چکی تھی اس وقت "رام تیری گنگا میلی" ہندی فلم آئی تھی
آپ کی بات درست ہے صاحب لیکن یہاں معاملہ کچھ اور ہے۔ ایک اسلامی ملک (دار السلام) میں اگر شریعت ہر پہلو سے اور ہر معاملے میں نافذ نہ ہو تو یہ مقامِ فکر اور مقامِ شرم ہے لیکن جو ممالک اسلامی نہیں ہیں اور وہاں مسلمان رہتے ہیں تو اس صورت میں ان مسلمانوں پر وہاں کے مقامی دساتیر یا قوانین پر عمل کرنے کا کیا حکم ہے؟ یہ وہ مسئلہ تھا جو قرنِ اول کے مسلمانوں کے سامنے آیا جب کچھ مسلمان جنگی قیدی بنائے گئے یا کچھ دیگر معاملات کے سلسلوں میں ان غیر اسلامی ممالک میں رہنے پر مجبور ہوئے اور اس کا حل دار السلام، دار الکفر اور دار الحرب جیسی اصطلاحیں اور ان کے احکام وضح کر کے کیا گیا۔میں یہ تحریر اور اس پر ریٹنگز اور وارث بھائی کا تبصرہ پڑھ کر خود سے سخت شرمندہ ہو ریا ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک مسلمان کے لیے شریعت الہیہ کسی بھی انسان کے بنائے ہوئے ضابطے سے بڑھ کر ہونی چاہیے، لیکن وارث بھائی ٹھیک کہتے ہیں کہ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے اور نہ ایسا ہورہا ہے۔
اس لیے کہ اسلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے فرمان کے مطابق اس درجہ غریب ہوگیا ہے کہ لوگ اسے قابل عمل نہیں سمجھتے۔
اس کی مختصر وضاحت یہ ہے کہ اسلام میں شریعت کا اصل مفہوم صرف نجی زندگی میں ہی منحصر نہیں بلکہ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو نجی زندگی سے باہر نکل کر سیاست، معیشت، معاشرت وغیرہ کے تمام شعبوں پر لاگو ہوتا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
الیوم اکملت لکم دینکم۔۔۔۔
آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کو کامل کردیا، تم پر اپنی نعمت مکمل کردی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین (طریقہء زنگی) پسند کرلیا۔
اور یہ بات صرف مفروضہ نہیں بلکہ عملا ایک عرصہ دراز تک مسلمانوں نے اس کو نجی زندگیوں سے بڑھ کر ملکی قوانین اور لاء میں رائج کیا اور اس کے ثمرات کو حاصل کیا ہے۔
اسلامی لاء شریعت کا ایک مکمل باب ہے جس میں مفصل قوانین موجود ہیں، لیکن ہماری بدعملی نے آج یہ زوال دکھایا ہے کہ ہم وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے ساتھ اسلام کے اصولوں کی عملی تطبیق نہ کرسکے، اور ملکی معاملات، عائلی قوانین، سیاست اور معیشت کے متعلق قانون سازی میں اسلامی تعلیمات کی یہ نعمت ہم سے کھوگئی۔
آج اسلام محدود ہوتے ہوتے نجی زندگیوں میں بند ہوگیا ہے۔
اس لیے اب اگر کوئی کہتا ہے کہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام، سوشلزم اور کمیونزم کے مفاسد کا سد باب اسلام میں موجود ہے تو لوگ ہنستے ہیں کہ کتنا سادہ آدمی ہے؟ بھلا اسلام میں ایسی کیا خاص بات ہے۔ یہ تو صرف نماز روزے کا نام ہے۔
بالکل یہی حال عائلی قوانین کا بھی ہے۔
غرض یہ کہ شریعت بلاشبہ ہمارے لیے ہر انسانی قانون سے بالا تر ہے لیکن ہم ہی نے اس کو نجی زندگی میں محدود کردیا اور اس کو عملا ناممکن بنا دیا ہے۔
بالکل متفق! دار الحرب کے رہنے والوے مسلمانوں کے لیے احکام شریعت میں تخفیف تو بہرحال موجود ہے۔آپ کی بات درست ہے صاحب لیکن یہاں معاملہ کچھ اور ہے۔ ایک اسلامی ملک (دار السلام) میں اگر شریعت ہر پہلو سے اور ہر معاملے میں نافذ نہ ہو تو یہ مقامِ فکر اور مقامِ شرم ہے لیکن جو ممالک اسلامی نہیں ہیں اور وہاں مسلمان رہتے ہیں تو اس صورت میں ان مسلمانوں پر وہاں کے مقامی دساتیر یا قوانین پر عمل کرنے کا کیا حکم ہے؟ یہ وہ مسئلہ تھا جو قرنِ اول کے مسلمانوں کے سامنے آیا جب کچھ مسلمان جنگی قیدی بنائے گئے یا کچھ دیگر معاملات کے سلسلوں میں ان غیر اسلامی ممالک میں رہنے پر مجبور ہوئے اور اس کا حل دار السلام، دار الکفر اور دار الحرب جیسی اصطلاحیں اور ان کے احکام وضح کر کے کیا گیا۔
باقی پھر وہی کہ ایک اسلامی ملک میں شریعت کا نافذ نہ ہونا بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔
آپ گنگا جمنا والی گنگا کی بات کررہے ہیںاب نہیں 85 میں گندی ہو چکی تھی اس وقت "رام تیری گنگا میلی" ہندی فلم آئی تھی
تو کیا آپ سر گنگا رام ہسپتال والی گنگا سمجھے ہیں ڈاکٹر صاحب؟!آپ گنگا جمنا والی گنگا کی بات کررہے ہیں
قطر میں ہر قوم کے افراد ہیں، گنگا تو کافی عام نام ہےتو کیا آپ سر گنگا رام ہسپتال والی گنگا سمجھے ہیں ڈاکٹر صاحب؟!
ابھی تک نہیں دیکھی، گنگا میں گندگی کے موضوع پر یاد آ گئیآپ نے پیدا ہونے سے پہلے ہی وہ فلم دیکھ لی تھی ؟
ہمارے یہاں بعض غیر مسلم دارالحرب دار الکفر جیسے الفاظ سے واقف ہیں. ایک غیر مسلم کسی تقریر میں بول رہے تھے یہ لوگ جب تک کسی ملک میں اقلیت میں ہوں تو چپ رہتے ہیں جب اکثریت بن جاتے ہیں تو اپنی اصلیت بتاتے ہیں اور غیر مسلموں پر ظلم کرنے لگتے ہیں.ویسے ایک سرسری سا جملہ کہیں میری نظر سے گزرا تھا جس میں ایک ہندوستانی مفتی صاحب نے فتویٰ دیا تھا کہ ہندوستان نہ دارالحرب ہے نہ ہی دار الکفر۔ تفصیل ملے تو دلچسپ فتویٰ ہوگا یہ۔ شاید اس وجہ سے دیا گیا ہوگا کہ ہندوستان میں 'مسلم پرسنل لا' کے تحت مسلمانوں کے شرعی مسائل ان کی شرعیت کے مطابق ہی حل ہوتے ہیں۔
بڑے پرانے ہو بھائی جاناب نہیں 85 میں گندی ہو چکی تھی اس وقت "رام تیری گنگا میلی" ہندی فلم آئی تھی