بھارتی کابینہ نے بیک وقت تین طلاق دینے پر تین سال قید کے بل کی منظوری دے دی!

شریعت کیا ہے؟ اس کا ذکر جنہوں نے چھیڑا ان سے پوچھیں.
میرا تو سادہ سا سوال ہے کہ حلالہ کی ممانعت یا حرمت کے بارے میں آپ کا مدلل موقف؟
اور آپ آئیں بائیں شائیں کر رہے ہیں.
اس آئیں بائیں شائیں سے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ گویا حلالہ کی کچھ اقسام کو آپ بھی روا سمجھتے ہیں؟
یا. محض ایک طبقہ کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا آپ مقصد ہے ورنہ لاشعوری طور پر ہی سہی درحقیقت آپ حلالہ کو درست سمجھتے ہیں.

جیسے ایک مخصوص طبقہ کے خلاف آپ خم ٹھوک کر دو ٹوک. موقف رکھے ہوئے ہیں میری گزارش ہے کہ ایسے ہی دوٹوک انداز میں اپنا مدلل موقف واضح کیجئے.
آپ ان سوالات کا جواب دیجئے، آپ کو تشفی بخش جواب مل جائے گا
 

ربیع م

محفلین
آپ ان سوالات کا جواب دیجئے، آپ کو تشفی بخش جواب مل جائے گا
دیکھئے! میرے نزدیک نہ تو آپ کوئی مفتی ہیں جس سے میں سوال کر کے اپنے کسی ذاتی مسئلہ کے بارے میں رہنمائی لوں گا اور نہ ہی اس خانگی مسئلہ کی کوئی ایک دو شکلیں ہیں کہ ان کے بیان سے اس سارے مسئلہ کا احاطہ ہو جائے.

اس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں.

البتہ آپ اپنا مدلل موقف اگر آپ کو مناسب لگے تو واضح کر دیجئے اس کے بعد اگر ہمیں کوئی اشکال ہو گا تو اس بارے میں سوال کر لیں گے.
 

فرقان احمد

محفلین
ایک وقت میں تین طلاقیں دینا نہایت ناپسندیدہ بات ہے۔ تین طلاقیں واقع ہو جائیں تو بیوی شوہر کے لیے مکمل طور پر حرام ہو جاتی ہے اور نکاح ختم ہو جاتا ہے؛ رجوع کا حق بھی ختم ہو جاتا ہے اور تجدیدِ نکاح کا آپشن بھی باقی نہیں رہتا ہے۔ اس کے بعد محض یہی ایک اتفاق ہو سکتا ہے کہ طلاق شدہ عورت کسی اور مرد سے شادی کرنے کے بعد اس سے طلاق لے یا اس کا شوہر فوت ہو جائے تو وہ عدت گزار کر پھر سے اس مرد کے لیے حلال ہو سکتی ہے جس نے پہلے اسے طلاق دی تھی۔ یہ معاملہ استثنائی نوعیت کا ہے اور عام زندگی میں شاذ و نادر ہی ایسا ہو سکتا ہے۔

تاہم، ہمارے معاشرے میں عام طور پر یوں ہوتا ہے کہ ایک ایسا مرد جو عورت کو طلاق دے کر پچھتا رہا ہو، وہ ایسے طریقے ڈھونڈتا ہے جو کہ کم از کم ہمارے خیال میں قطعی طور پر حرام ہوں گے اور ایسے کاموں میں اعانت فراہم کرنے والے بھی یقینی طور پر شرعی قوانین کا مذاق ہی اڑا رہے ہوں گے جو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت طلاق شدہ عورت کو پھر سے پہلے مرد کے لیے حلال کرنے کی خاطر یہ 'فریضہ' سرانجام دے رہے ہوں؛ ہمارے خیال میں اس حرام کام کو 'حلالہ' کہنا بھی مناسب نہیں ہے۔

اس قبیح فعل کی بہرصورت مذمت کی جانی چاہیے۔ علمائے کرام بھی ایسا ہی کیا کرتے ہیں۔ تاہم، اگر کوئی انفرادی سطح پر ان قبیح حرکات میں ملوث ہو تو اس کا کیا علاج؟ وہ جانے اور رب جانے۔ تاہم، کسی کے انفرادی فعل پر علمائے کرام کو مطعون کرنا غیرمناسب ہے۔ یا تو علمائے کرام کی جانب سے ایسے فتاویٰ پیش کیے جائیں جو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اس کام کو جائز تصور کرتے ہوں اور اگر ایسے فتاویٰ موجود نہیں تو علمائے کرام کسی کے انفرادی فعل کے ذمہ دار کیسے ہو سکتے ہیں؟
 
ایک وقت میں تین طلاقیں دینا نہایت ناپسندیدہ بات ہے۔ تین طلاقیں واقع ہو جائیں تو بیوی شوہر کے لیے مکمل طور پر حرام ہو جاتی ہے اور نکاح ختم ہو جاتا ہے؛ رجوع کا حق بھی ختم ہو جاتا ہے اور تجدیدِ نکاح بھی ممکن نہیں رہتا۔ اس کے بعد محض یہی ایک اتفاق ہو سکتا ہے کہ طلاق شدہ عورت کسی اور مرد سے شادی کرنے کے بعد اس سے طلاق لے یا اس کا شوہر فوت ہو جائے تو وہ عدت گزار کر پھر سے اس مرد کے لیے حلال ہو سکتی ہے جس نے پہلے اسے طلاق دی تھی۔ یہ معاملہ استثنائی نوعیت کا ہے اور عام زندگی میں شاذ و نادر ہی ایسا ہو سکتا ہے۔

تاہم، ہمارے معاشرے میں عام طور پر یوں ہوتا ہے کہ ایک ایسا مرد جو عورت کو طلاق دے کر پچھتا رہا ہو، وہ ایسے طریقے ڈھونڈتا ہے جو کہ کم از کم ہمارے خیال میں قطعی طور پر حرام ہوں گے اور ایسے کاموں میں اعانت فراہم کرنے والے بھی یقینی طور پر شرعی قوانین کا مذاق ہی اڑا رہے ہوں گے جو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت طلاق شدہ عورت کو پھر سے پہلے مرد کے لیے حلال کرنے کی خاطر یہ 'فریضہ' سرانجام دے رہے ہوں؛ ہمارے خیال میں اس حرام کام کو 'حلالہ' کہنا بھی مناسب نہیں ہے۔

اس قبیح فعل کی بہرصورت مذمت کی جانی چاہیے۔ علمائے کرام بھی ایسا ہی کیا کرتے ہیں۔ تاہم، اگر کوئی انفرادی سطح پر ان قبیح حرکات میں ملوث ہو تو اس کا کیا علاج؟ وہ جانے اور رب جانے۔ تاہم، کسی کے انفرادی فعل پر علمائے کرام کو معطون کرنا غیرمناسب ہے۔ یا تو علمائے کرام کی جانب سے ایسے فتاویٰ پیش کیے جائیں جو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اس کام کو جائز تصور کرتے ہوں اور اگر ایسے فتاویٰ موجود نہیں تو علمائے کرام کسی کے انفرادی فعل کے ذمہ دار کیسے ہو سکتے ہیں؟
فرقان بھائی خوب فرمایا۔
لیکن میں معذرت کے ساتھ عرض کروں کہ یہاں معاملہ دوسرا ہے۔ یہ اصولی باتیں ایک سے زیادہ مرتبہ یہاں دہرائی جاچکی ہے لیکن یہاں "کوئی کارواں سے ٹوٹا کوئی بدگماں حرم سے" والا معاملہ ہے۔ اور یار لوگ اپنی دل پسند باتوں کو "لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم" کے مصداق دہراتے جارہے ہیں جس کا کوئی جواب نہیں۔
 

عثمان

محفلین
ایک وقت میں تین طلاقیں دینا نہایت ناپسندیدہ بات ہے۔ تین طلاقیں واقع ہو جائیں تو بیوی شوہر کے لیے مکمل طور پر حرام ہو جاتی ہے اور نکاح ختم ہو جاتا ہے؛ رجوع کا حق بھی ختم ہو جاتا ہے اور تجدیدِ نکاح کا آپشن بھی باقی نہیں رہتا ہے۔ اس کے بعد محض یہی ایک اتفاق ہو سکتا ہے کہ طلاق شدہ عورت کسی اور مرد سے شادی کرنے کے بعد اس سے طلاق لے یا اس کا شوہر فوت ہو جائے تو وہ عدت گزار کر پھر سے اس مرد کے لیے حلال ہو سکتی ہے جس نے پہلے اسے طلاق دی تھی۔ یہ معاملہ استثنائی نوعیت کا ہے اور عام زندگی میں شاذ و نادر ہی ایسا ہو سکتا ہے۔

تاہم، ہمارے معاشرے میں عام طور پر یوں ہوتا ہے کہ ایک ایسا مرد جو عورت کو طلاق دے کر پچھتا رہا ہو، وہ ایسے طریقے ڈھونڈتا ہے جو کہ کم از کم ہمارے خیال میں قطعی طور پر حرام ہوں گے اور ایسے کاموں میں اعانت فراہم کرنے والے بھی یقینی طور پر شرعی قوانین کا مذاق ہی اڑا رہے ہوں گے جو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت طلاق شدہ عورت کو پھر سے پہلے مرد کے لیے حلال کرنے کی خاطر یہ 'فریضہ' سرانجام دے رہے ہوں؛ ہمارے خیال میں اس حرام کام کو 'حلالہ' کہنا بھی مناسب نہیں ہے۔

اس قبیح فعل کی بہرصورت مذمت کی جانی چاہیے۔ علمائے کرام بھی ایسا ہی کیا کرتے ہیں۔ تاہم، اگر کوئی انفرادی سطح پر ان قبیح حرکات میں ملوث ہو تو اس کا کیا علاج؟ وہ جانے اور رب جانے۔ تاہم، کسی کے انفرادی فعل پر علمائے کرام کو معطون کرنا غیرمناسب ہے۔ یا تو علمائے کرام کی جانب سے ایسے فتاویٰ پیش کیے جائیں جو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اس کام کو جائز تصور کرتے ہوں اور اگر ایسے فتاویٰ موجود نہیں تو علمائے کرام کسی کے انفرادی فعل کے ذمہ دار کیسے ہو سکتے ہیں؟
اس مسئلے کی تشریح کون کرتا ہے اور لوگ راہنمائی کے لیے کن کے پاس جاتے ہیں؟
 

محمد وارث

لائبریرین
اس مسئلے کی تشریح کون کرتا ہے اور لوگ راہنمائی کے لیے کن کے پاس جاتے ہیں؟
میرے تو خیال میں انسان کا ضمیر اور اس کی نیت سب سے بہتر راہنمائی کرتی ہے۔ اگر طلاق دے دی اور اتفاق سے کچھ عرصے بعد پھر ایسے حالات بن گئے کہ وہ دونوں دوبارہ نکاح کر سکیں تو کچھ غلط نہیں۔ لیکن اگر طلاق کے چوتھے روز ہی پشیمانی میں دیواروں سے سر ٹکرانے کو جی چاہے اور پھر شارٹ کٹ ڈھونڈا جائے تو ایسی صورت میں اس فعل کی نیت غلط اور کام حرام ہوگا چاہے اس کا نام حلالہ ہی کیوں نہ ہو، معاونت کرنے والے تو بے شمار مل جاتے ہیں۔
 
اب حلالہ کی تعریف بھی نہیں آپ کو معلوم؟
جی نہین ، میرا کوئی ارادہ حلالہ کی تعریف سیکھنے کا نہیں، جن ناہنجار لوگوں نے یہ اصطلاح ایجاد کی کہے ، جو ہم سب کی عزت کے درپے ہیں ، میں یقیناً ان ہی لوگوں کے خلاف لکھتا ہوں۔ اس میں آپ کو کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے،

اس میں شبہ نہیں کہ
دیکھئے! میرے نزدیک نہ تو آپ کوئی مفتی ہیں جس سے میں سوال کر کے اپنے کسی ذاتی مسئلہ کے بارے میں رہنمائی لوں گا اور نہ ہی اس خانگی مسئلہ کی کوئی ایک دو شکلیں ہیں کہ ان کے بیان سے اس سارے مسئلہ کا احاطہ ہو جائے.
بہت ہی شکریہ، جی نا میں مفتی ہوں اور نا ہی کوئی دوسرا فرد مفتی ہو سکتا ہے۔

ایک وقت میں تین طلاقیں دینا نہایت ناپسندیدہ بات ہے۔ تین طلاقیں واقع ہو جائیں تو بیوی شوہر کے لیے مکمل طور پر حرام ہو جاتی ہے اور نکاح ختم ہو جاتا ہے؛ رجوع کا حق بھی ختم ہو جاتا ہے اور تجدیدِ نکاح بھی ممکن نہیں رہتا۔

برادر من فرقان آپ کا بہت ہی شکریہ کہ آپ نے 'تین طلاق ' کی مروجہ تعریف لکھی۔ یہ قرآنی تعریف نہیں ہے ۔ کہ تین مرتبہ طلاق کے لفظ کی ادائیگی کی اور اللہ تعالی کا قرار دیا ہوا بھاری بھرکم رشتہ ختم ۔ یہ اس طبقے کی پھیلائی ہوئی بات ہے جو ہم سب کی عزت سے کھلنے کا خواہاں ہے۔


جب کوئی شخص تین مرتبہ طلاق کے الفاظ ادا کردیتا ہے، اور ابھی عدت پوری نہیں ہوئی ہے یعنی طلاق مکمل نہیں ہوئی ہے۔ تو اس صورت میں آپ خود جا کر کسی بھی ملاء سے پوچھ لیجئے، اس کا جواب یہی ہوگا کہ جناب طلاق واقع ہو چکی ہے۔ اب اس شخص کی بیوی کسی اور سے نکاح کرے پھر وہ نیا شوہر طلاق دے تو آپ شادی کرسکتے ہیں ۔۔ پھر ان کی سیلز پچ آگے بڑھتی ہے کہ 'نام نہاد شریعت' میں اس طلاق دینے والے شخص کے لئے آسانی ہے کہ اس کی طلاق یافتہ بیوی اب کسی اور سے شادی کرلے اور جناب وہ طلاق دے دے ۔ تو ملاء پوچھتا ہے کہ آپ کا کوئی دوست ہے؟ جو ایک دو دن کی شادی کرسکے؟ بلکہ خاتون سے بھی پوچھا جاتا ہے کہ کیا آپ کی کسی سہیلی کا شوہر 'حلالہ ' کی یہ خدمت انجام دے سکے گا؟ آپ اس کا جواب جانتے ہیں کہ اس 'طلاق یافتہ ' جوڑے کا جواب نفی میں ہی ہوگا۔ اس موقعہ پر ملاء خود اپنی یا اپنے کسی 'شریف دوست ملاء' کی خدمات پیش کرتا ہے۔ ( آپ کو کتنے یو ٹیوب کے وڈیو دیکھ کر اس کا یقن آئے گا؟)

میں یہاں اللہ تعالی کے فرمان قرآن حکیم کے احکامات آپ تک پہنچا رہا ہوں۔ تاکہ آپ یہ جان سکیں کہ کیا آیا شادی یعنی 'عقد نکاح' یعنی میریج کنٹریکٹ باقی ہے یا ختم ہوگیا؟ اگر عقد النکاح یعنی میریج کنٹیکٹ باقی ہے تو دونوں مرد و عورت شادی شدہ ہیں۔ اللہ تعالی نے شادی شدہ عورت سےنیا عقد النکاح کنے کو منع کیا ہے۔ لہذا ایک شادی شدہ عورت کی ایک رات کی شادی کسی دوسرے فرد سے کرانے والا، ملاء ، آپ کی عزت کا خواہاں ہے۔ قرآن حکیم پر ایمان نہیں رکھتا اور ہماری ماؤں بہنوں کو بے عزتی میں مبتلا کرنا چاہتا ہے کہ وہ اپنی عزت نفس بھی کھو بیٹھیں اور کبھی کسے کے سامنے کھڑی بھی نا ہوسکیں۔

مجے یقین ہے ہے کہ درج ذیل سوالات اور ان کے جوابات پڑھ کر آپ اس قابل ہو جائیں گے کہ کسی بھی 'حلالہ' تجویز کرنے والے ملاء کو منہہ توڑ جواب دے سکیں گے۔

سوال عقد النکاح یعنی شادی کے معاہدے کی اللہ تعالی کی نگاہ میں کیا اہمیت ہے؟
4:20 اور اگر تم ایک بیوی کے بدلے دوسری بیوی بدلنا چاہو اور تم اسے ڈھیروں مال دے چکے ہو تب بھی اس میں سے کچھ واپس مت لو، کیا تم ناحق الزام اور صریح گناہ کے ذریعے وہ مال (واپس) لینا چاہتے ہو

4:21 وَكَيْفَ تَأْخُذُونَهُ وَقَدْ أَفْضَى بَعْضُكُمْ إِلَى بَعْضٍ وَأَخَذْنَ مِنكُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا
اور تم اسے کیسے واپس لے سکتے ہو حالانکہ تم ایک دوسرے سے پہلو بہ پہلو مل چکے ہو اور وہ تم سے پختہ عہد (بھی) لے چکی ہیں

4:21 میں لفظ مِّيثَاقًا غَلِيظًا پر غور فرمائیے
یہ الفاظ اس بھاری میثاق کی طرف توجہ دلاتے ہیں ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان معاہدے کے لئے اللہ تعالی نے استعمال کیا ہے

33:7 وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا
اور جب ہم نے نبیوں سے عہد لیا اورآپ سے اورنوح اور ابراھیم اور موسیٰ اور مریم کے بیٹے عیسیٰ سے بھی اور ان سے ہم نے پکا عہد لیا تھا

اللہ تعالی کے فرمان القرآن حکیم کے مطابق شادی کا معادہ یعنی عقد النکاح ایک بھاری معاہدہ ہے۔ یہ معاہدہ ، ایک مرد و عورت کے درمیان ہے ، اس مقدس معاہدے کا مقصد محترم خاتون کی حفاظت ہے، عقد النکاح یعنی شادی کے اس بھاری معاہدے کا مقصد محصنات بنانا یعنی عفت شعاری ہے نا کہ سفاحت یعنی بد کاری۔

5:5 لْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلاَ مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ وَمَن يَكْفُرْ
آج تمہارے واسطے سب پاکیزہ چیزیں حلا کی گئی ہیں اور اہلِ کتاب کا کھانا تمہیں حلال ہے اور تمہارا کھانا انہیں حلال ہے اور تمہارے لیے پاک دامن مسلمان عورتیں حلال ہیں اوران میں سے پاک دامن عورتیں جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی ہےجب ان کے مہر انہیں دے دو ایسے حال میں کہ نکاح میں لانے والے ہو نہ بدکاری کرنے والے اورنہ خفیہ آشنائی کرنے والے اورجوایمان سے منکر ہوا تو اس کی محنت ضائع ہوئی اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا

اللہ تعالی کا فرمان کہ شادی شدہ عفت شعار عورتیں شادی کے معادے یعنی عقد النکاح میں لانے کے لئے حرام قرار پائیں۔

4:24 وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلاَّ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ كِتَابَ اللّهِ عَلَيْكُمْ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَلِكُمْ أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا
اور شوہر والی عورتیں (بھی تم پرحرام ہیں) سوائے ان (کافروں کی قیدی عورتوں) کے جو تمہاری مِلک میں آجائیں، (ان احکامِ حرمت کو) اللہ نے تم پر فرض کر دیا ہے، اور ان کے سوا (سب عورتیں) تمہارے لئے حلال کر دی گئی ہیں تاکہ تم اپنے اموال کے ذریعے طلبِ نکاح کرو پاک دامن رہتے ہوئے نہ کہ شہوت رانی کرتے ہوئے، پھر ان میں سے جن سے تم نے اس (مال) کے عوض فائدہ اٹھایا ہے انہیں ان کا مقرر شدہ مَہر ادا کر دو، اور تم پر اس مال کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جس پر تم مَہر مقرر کرنے کے بعد باہم رضا مند ہو جاؤ، بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے

ہم نے یہ واضح طور پر دیکھ لیا کہ شادی یعنی عقد النکاح یعنی شادی کے معادے کا مقصد عفت شعاری ہے اور سفاحت یعنی بدکاری سے واضح طور پر منع کیا گیا ہے۔ ایک رات کی شادی 'حلالہ' کا مشورہ دینے والے اور اپنا جسم بیچنے والے بدکاروں میں کیا فرق ہے؟

اب جب ہم نے شادی کے مقدس ہونے کے بارے میں جان لیا اور شادی شدہ عورت سے شادی کی ممانعد کے بارے میں جان لیا تو اب دیکھتے ہیں کہ طلاق کیا ہے، کون دے سکتا ہے ، کون لے سکتا ہے اور طلاق کب شروع ہوتی ہے اور کب مکمل ہوتی ہے اور اس کا طریقہ کیا ہے؟

طلاق یعنی دائمی علیحدگی کا معاہد کون کرسکتا ہے؟
سورۃ النساء کی آیت نمبر 29 ، اللہ تعالی شادی کے معاہدے کو باہمی رضامندی کی تجارت قرار دیتے ہیں
4:29 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ إِنَّ اللّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا
اے ایمان والو! تم ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ تمہاری باہمی رضا مندی سے کوئی تجارت ہو، اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بیشک اللہ تم پر مہربان ہے۔

لہذا کسی بھی تجارتی معادے کو توڑنے کا حق دونوں فریقین کو حاصل ہے۔ عورت اور مرد کی ناچاقی کی صورت میں دائمی علیحدگی یعنی طلاق حاصل کرنے کے لئے کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے؟ اس کا حکم ہم کو اللہ تعالی کے فرمان القرآن حکیم میں ان آیات میں ملتا ہے کہ مرد یا عورت دونوں کو دائمی علیحدگی کا حق حاصل ہے۔ یہ کام عورت ور مرد دونوں کی طرف سے ایک ایک فیصلہ کرنے والا مقرر کرکے کیا جاسکتا ہے۔ یہ ہوا طلاق کا اعلان، چاہے یہ اعلان ان افراد کے سامنے محترم خاتون نے کیا ہو یا اس کے شوہر نے۔

4:35 وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُواْ حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلاَحًا يُوَفِّقِ اللّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا
اور اگر اندیشہ ہو تم کو ناچاقی کا، میاں بیوی کے درمیان تو مقّرر کرو ایک ثالث مرد کے خاندان سے اور ایک ثالث عورت کے خاندان سے، اگر چاہیں گے وہ دونوں اصلاحِ احوال تو موافقت پیدا کر دے گا اللہ اُن دونوں کے درمیان، بے شک اللہ ہے سب کچھ جاننے والا، ہر بات سے باخبر۔


اللہ تعالی حکم دیتے ہیں کہ طلاق یا شقاق یعنی ناچاقی کی صورت میں دائمی علیحدگی کے معلوم ہوجانے ہا اعلان ہوجانے کے بعد مدت کو شمار کیا جائے۔ اس مدت میں کے اختتام تک طلاق مکمل نہیں ہوئی، محترم خاتون شادی کا نیا معادہ نہیں کرسکتی ہیں۔ لہذا، تین پانچ طلاق کے اعلان کے ساتھ ہی، میعد کی تکمیل تک ، کسی ملاء کا حلالہ کا مشورہ دینا اپنی جگہ خود حرامہ ہے کہ ایک شادی شدہ عورت، جس کی عدت مکمل نہیں ہوئی ، جس کو دوسرےعقد النکاح کا حق ابھی حاصل نہیں ہوا ، اس کو یہ مشورہ دینا کہ تم ایک عارضی نکاح کرلو، جس کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے
'اگر چاہیں گے وہ دونوں اصلاحِ احوال تو موافقت پیدا کر دے گا اللہ اُن دونوں کے درمیان،'

اس اعلان اور حکم کے مقرر ہونے کے بعد، کتنا عرصہ دیا جائے کہ وہ دونوں افراد دائمی علیحدگی کے مستحق ہوجائیں؟
65:1 اے نبی جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے موقع پر طلاق دو اور عدت گنتے رہو اور الله سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے نہ تم ہی ان کو ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود ہی نکلیں مگر جب کھلم کھلا کوئی بے حیائی کا کام کریں اور یہ الله کی حدیں ہیں اور جو الله کی حدوں سے بڑھاا تو اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا آپ کو کیا معلوم کہ شاید الله اس کے بعد اور کوئی نئی بات پیدا کر دے

طلاق کے اعلان کے بعد معیاد کی تکمیل ضروری ہے۔ اس دوران شادی کا معاہدہ ختم نہیں ہوا۔ اس لئے نا تو شادی ختم ہوئی نا ہی طلاق یعنی دائمی علیحدگی کا حق حاصل ہوا۔ جب ایک طلاق ہی مکمل نہیں ہوئی تو یہ کیسے کہا جائے گا کہ تین طلاقیں مکمل ہوگئی ہیں؟

اس عدت کی تکمیل تکمرد و عورت دونوں باہمی رضامندی سے ایک دوسرے کے ساتھ رہ سکتےہیں۔ اس علیحدگی یا ملاپ کے لئے دو عدد گواہوں کی شرط ضروری ہے۔
65:2 س جب وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انہیں دستور سے رکھ لو یا انہیں دستور سے چھوڑ دو اور دو معتبر آدمی اپنے میں سے گواہ کر لو اور الله کے لیے گواہی پوری دو یہ نصیحت کی باتیں انہیں سمجھائی جاتی ہیں جو الله اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو الله سے ڈرتا ہے الله اس کے لیے نجات کی صورت نکال دیتا ہے۔

عدت کا دورانیہ کتنا ہے؟
65:4 اور تمہاری عورتوں میں سے جن کو حیض کی امید نہیں رہی ہے اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہیں اور ان کی بھی جنہیں ابھی حیض نہیں آیا اور حمل والیوں کی عدت ان کے بچہ جننے تک ہے اور جو الله سے ڈرتا ہے وہ اس کے کام آسان کر دیتا ہے

اس بھاری معاہدے کے ختم ہونے کے اعلان سے طلاق کے طریقہ کار کی شروعات ہوتی ہے، اور معیاد کی تکمیل پر طلاق یعنی باہمی علیحدگی کی تکمیل۔ ہم کو قرآن میں کہں بھی ایسا نہیں ملتا کہ ایک مرد اپنی مرضی سے طلاق کے الفاظ تین بار دہرائے اور پھر اس میعاد کو تین بار یعنی تقریباً ایک سال کرلے۔ لہذا، تین طلاق، کسی طور ممکن ہی نہیں ہے کہک ایک بار میں دی جاسکے اور 12 مہینے عدت کے رکھ لئے جائیں۔


تو پھر تیسری طلاق کیا ہے؟
اللہ تعالی نے فرما دیا کہ طلاق دو بار ہے۔ جب پہلی بار طلاق کا اعلان ہوا تو مدت کے اختتام سے پہلے دونوں مرد و عورت باہمی رضامندی اور دو گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ اپنا ازدواجی رشتہ شروع کرسکتے ہیں۔ اور اس معیاد (4 مہینے، 3 مہینے یا وضع حمل) کی تکمیل کے بعد دوبارہ شادی کا معادہ یعنی عقد النکاح یا مییج ایگریمینٹ کر سکتے ہیں۔ اگر یہ دوسری بار کی ہوئی شادی ان دونوں کے درمیان پھر طلاق پر ختم ہوتی ہے تو یہ دونوں تیسری بار بھی شادی کرسکتےہیں ، شادی کے معاہدے اور طلاق کا طریقہ کار یہی رہے گا۔ اگر تیسری بار بھی طلاق کی نوبت آتی ہے تو پھر طلاق کے اعلان، دونوں طرف کے ایک ایک فیصلہ کرنے والا مقرر کرنے کے ساتھ ہی مزید شادی کا ختم اس لئے کہ ایسا دو بار پہلے ہو چکا ہے۔

یہ بات بہت واضح ہے کہ ایک شادی شدہ فرد کی زبان سے یا اخبار میں دس ہزار کی تعداد سے طلاق مکمل نہیں ہوتی بلکہ طلاق کے اعلان اور میعاد کی تکمیل سے ہی طلاق مکمل ہوتی ہے۔ کوئی بھی مسلمان ، ایک عورت جس کی عدت مکمل نہیں ہوئی ہے۔ یہ مشورہ نہیں دے گا کہ ایک رات کی شادی کرلو۔ لہذا ، دونوں میاں بیوی کے پاس لگ بھگ 6 سے 8 مہینے کی مدت موجود ہے کہ وہ طلاق یعنی دائمی علیحدگی کے دو میعادوں سے گذریں۔

اب جب ہم عقد النکاح، اور علیحدگی کے بارے میں اللہ تعالی کے فرمان پڑھ چکے ہیں ، تو بات کرتے ہیں ان افراد کی جو تین طلاق کا لفظ سن کر محترم خاتون کو مشورہ دیتے ہیں کہ اب تو حلالہ ضروری ہے اور اس مشورہ دینے والے فرد کی خدمات کچھ رقم کے عوض حاصل کی جاسکتی ہیں۔ بنیادی طور پر ایسا فرد ایک شادی شدہ پاک دامن ، عفت شعار عورت کو اپنے ساتھ بد کاری میں مبتلاء ہونے کا سفاحت بھرا مشورہ دے رہا ہے۔

اگر یہ دونوں میان بیوی طلاق پراسیس کو 3 بار مکمل کرچکے ہیں تو بھی ایک رات کی شادی کا مشور دینا محصنات بنانا نہیں بلکہ بدکاری پھیلانا ہے۔ ضروری ہے کہ ایسی خاتون، جو اپنے شوہر سے تین بار طلاق مکمل کرچکی ہیں، وہ کہیں اور شادی کریں اور ناچاقی کی صورت میں اگر وہ طلاق پاتی ہیں اور باہمی رضامندی سے یہ طلاق مکمل ہوجاتی ہے تو پھر ان خاتون کو اپنے پہلے طلاق واقع کرنے والے شوہر سے دوبارہ شادی کا حق ہے۔


میں اس طبقے کے خلاف لکھتا ہوں، اور قرآن حکیم کے حوالوں کے ساتھ ضروری بحث بھی۔ اس لئے کہ ایک طرف تو تین طلاق کی توپ مسلمان کے ایمان کا حصہ بنا کر یہ ملاء ٹولہ ، ہماری عزت سے کھیلتا ہے۔ دوسری طرف اسی ملاء ٹولے نے زکواۃ وصول کرن ےکے نام پر ہماری دولت لوٹی ہے۔

میں نے جو آیات یہاں درج کی ہیں وہ بہت ہی صاف اور واضح ہیں۔ اپ ان ایات کی روح، اوپن برہان پر 27 ترجموں کی مدد سے حاصل کرسکتے ہیں۔

ملاء ٹولے ، پاکستان میں ہندوستانی ٹھگوں کی ماناند ہیں ۔ آپ ان سے صرف دو سوال کرکے ان کی اصلیت جان سکتے ہیں۔ ان سے پوچھئے کہ آپ کے ایک دوست نے تین مرتبہ اپنی بیوی کو طلاق کہا، کیا طلاق واقع ہوگئی؟ ملاء یہ بھی نہیں پوچھے گا کہ عدت مکمل ہوئی یا نہیں ۔ اور فوراً کہے گا کہ 'طلاق مغلظہ' واقع ہو گئی۔ یہ الفاظ 'میثاق غلیظا' ' کو ختم کرنے لئے ملاء استعمال کرتا ہے۔ آپ ملاء سے دوسرا سوال پوچھئے کہ زکواۃ کی مقدار ڈھائی فی صد کس نے مقرر کی ، اس کا جواب ہر جگہ گھومے گا لیکن یہ آپ کو زکواۃ کی درست مقدار نہیں بتائے گا۔ اس لئے کہ ملاء عصمت اور دولت دونوں کے لوٹنے والے مذہب ملاء ازم کا پجاری ہے۔

والسلام
 
دوبار پہلے شوہر سے تیسری طلاق کے بعد پھر نیا عقد النکاح یعنی شادی کا معاہدہ ، کب یہ حق ختم اور کب دوبارہ جائز ہے؟
2:229 الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ وَلاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُواْ مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلاَّ أَن يَخَافَا أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ فَلاَ تَعْتَدُوهَا وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللّهِ فَأُوْلَ۔ئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
طلاق دو مرتبہ ہے پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا نیکی کے ساتھ چھوڑ دنیا ہے اور تمہارے یے اس میں سے کچھ بھی لینا جائز نہیں جو تم نے انہیں دیا ہے مگر یہ کہ دونوں ڈریں کہ الله کی حدیں قائم نہیں رکھ سکیں گے پھر اگرتمہیں خوف ہو کہ دونوں الله کی حدیں قائم نہیں رکھ سکیں گے تو ان دونوں پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ عورت معاوضہ دے کر پیچھا چھڑالے یہ الله کی حدیں ہیں سو ان سے تجاوز نہ کرو اورجو الله کی حدوں سے تجاوز کرے گا سو وہی ظالم ہیں

2:230
فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّى تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
پھر اگر اس نے (تیسری مرتبہ) طلاق دے دی تو اس کے بعد وہ اس کے لئے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر کے ساتھ نکاح کر لے، پھر اگر وہ (دوسرا شوہر) بھی طلاق دے دے تو اب ان دونوں (یعنی پہلے شوہر اور اس عورت) پر کوئی گناہ نہ ہوگا اگر وہ (دوبارہ رشتۂ زوجیت میں) پلٹ جائیں بشرطیکہ دونوں یہ خیال کریں کہ (اب) وہ حدودِ الٰہی قائم رکھ سکیں گے، یہ اﷲ کی (مقرر کردہ) حدود ہیں جنہیں وہ علم والوں کے لئے بیان فرماتا ہے

ضروری ہے کہ دوسرے شوہر سے یہ نکاح انہی اسولوں پر ہو جو پچھلے پیغام میں درج کئے گئے ہیں۔ ایک رات کی شادی کا مشورہ ایک شادی شدہ عورت کو جس کی طلاق کی مدت کی تکمیل نا ہوئی ہو، سراسر بدکاری ہے۔ وہ لوگ بدکار ہیں جنہوں نے آپ کی سوچ میں اس کو 'حلالہ' کا نام دیا۔ 2:230، دوبارہ ایک عفتا شعاری کے نکتہ نظر اور خاندان بسانے کے نکتہ نظر سے ایک نئے فرد کے ساتھ شادی کا حکم دیتی ہے نا کہ ایک رات کی شادی کی سراسر سفاحت کاحکم

والسلام
 

فرقان احمد

محفلین
برادر من فرقان آپ کا بہت ہی شکریہ کہ آپ نے 'تین طلاق ' کی مروجہ تعریف لکھی۔ یہ قرآنی تعریف نہیں ہے ۔ کہ تین مرتبہ طلاق کے لفظ کی ادائیگی کی اور اللہ تعالی کا قرار دیا ہوا بھاری بھرکم رشتہ ختم ۔ یہ اس طبقے کی پھیلائی ہوئی بات ہے جو ہم سب کی عزت سے کھلنے کا خواہاں ہے۔
صاحب! یہ کیا بات ہوئی! ہم نے تو عمومی انداز میں بات کی تھی؛ یعنی تین طلاقیں واقع ہونے کے بعد کی صورت حال پیشِ نظر تھی۔ آپ نے اپنے تمام دلائل کا رخ کسی اور ہی طرف موڑ دیا یعنی ہم پھر سے وہیں پر آ کر 'جام' ہو گئے۔ آگے بڑھیے، صاحب! خدارا، آگے بڑھیے! :) آپ یہ منظرنامہ سامنے رکھیے کہ تین طلاقیں واقع ہو چکیں۔ اس پسِ منظر کو سامنے رکھتے ہوئے یہ فرمائیے کہ کیا حلالہ کے حق میں علمائے کرام نے دلائل دے رکھے ہیں یا مفتیوں نے فتاویٰ جاری کر رکھے ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کیا اس بابت انہیں موردِ الزام ٹھہرانا کسی بھی طور مناسب ہے!
 
دوبار پہلے شوہر سے تیسری طلاق کے بعد پھر نیا عقد النکاح یعنی شادی کا معاہدہ ، کب یہ حق ختم اور کب دوبارہ جائز ہے؟
2:229 الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ وَلاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُواْ مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلاَّ أَن يَخَافَا أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ فَلاَ تَعْتَدُوهَا وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللّهِ فَأُوْلَ۔ئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
طلاق دو مرتبہ ہے پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا نیکی کے ساتھ چھوڑ دنیا ہے اور تمہارے یے اس میں سے کچھ بھی لینا جائز نہیں جو تم نے انہیں دیا ہے مگر یہ کہ دونوں ڈریں کہ الله کی حدیں قائم نہیں رکھ سکیں گے پھر اگرتمہیں خوف ہو کہ دونوں الله کی حدیں قائم نہیں رکھ سکیں گے تو ان دونوں پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ عورت معاوضہ دے کر پیچھا چھڑالے یہ الله کی حدیں ہیں سو ان سے تجاوز نہ کرو اورجو الله کی حدوں سے تجاوز کرے گا سو وہی ظالم ہیں

2:230
فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّى تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
پھر اگر اس نے (تیسری مرتبہ) طلاق دے دی تو اس کے بعد وہ اس کے لئے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر کے ساتھ نکاح کر لے، پھر اگر وہ (دوسرا شوہر) بھی طلاق دے دے تو اب ان دونوں (یعنی پہلے شوہر اور اس عورت) پر کوئی گناہ نہ ہوگا اگر وہ (دوبارہ رشتۂ زوجیت میں) پلٹ جائیں بشرطیکہ دونوں یہ خیال کریں کہ (اب) وہ حدودِ الٰہی قائم رکھ سکیں گے، یہ اﷲ کی (مقرر کردہ) حدود ہیں جنہیں وہ علم والوں کے لئے بیان فرماتا ہے

ضروری ہے کہ دوسرے شوہر سے یہ نکاح انہی اسولوں پر ہو جو پچھلے پیغام میں درج کئے گئے ہیں۔ ایک رات کی شادی کا مشورہ ایک شادی شدہ عورت کو جس کی طلاق کی مدت کی تکمیل نا ہوئی ہو، سراسر بدکاری ہے۔ وہ لوگ بدکار ہیں جنہوں نے آپ کی سوچ میں اس کو 'حلالہ' کا نام دیا۔ 2:230، دوبارہ ایک عفتا شعاری کے نکتہ نظر اور خاندان بسانے کے نکتہ نظر سے ایک نئے فرد کے ساتھ شادی کا حکم دیتی ہے نا کہ ایک رات کی شادی کی سراسر سفاحت کاحکم

والسلام
فاروق صاحب آپ کی بہت سی اصولی باتوں سے ہمیں اتفاق ہے۔ اور اگر اختلاف ہے تو صرف اس سے کہ آپ جن باتوں کو "ملا ٹولے" سے منسوب کرتے ہیں، ممکن ہے کہ کچھ لوگوں نے ایسا مشورہ کسی کو دیا ہو کہ فلاں سے (یا ہم سے) ایک رات کے لیے شادی کرلی جائے۔۔
لیکن آپ کی پرابلم یہ ہے کہ آپ اس واقعہ کو بلا استثناء ایک پورے طبقہ کی طرف منسوب کر رہے ہیں جو یقینا ایک خلاف حقیقت بات ہے اور غیر محتاط طرز عمل ہے، چاہے آپ کتنا ہی زور قلم صرف کر لیں۔
شنیدہ کے بود مانند دیدہ!
شاید آپ کا اور ہمارا اختلاف اصولی نوعیت کا نہیں بلکہ جنرل نالج کا ہے۔ کہ آپ کا واسطہ جن لوگوں سے پڑا وہ شاید ایسا ہی مشورہ دیتے ہوں اور جن کو ہم جانتے ہیں وہ سیدھی رہنمائی کرتے ہوں۔
سو نہ ہی آپ کو سب پر حکم لگانے میں غیر محتاط ہونا چاہیے اور نہ ہی دوسروں کو آپ کی تردید میں یہ کہنا چاہیے کہ کچھ بھی غلط نہیں ہو رہا۔ :))اور میرے علم میں کوئی ایسا کہہ بھی نہیں رہا۔)
 
صاحب! یہ کیا بات ہوئی! ہم نے تو عمومی انداز میں بات کی تھی؛ یعنی تین طلاقیں واقع ہونے کے بعد کی صورت حال پیشِ نظر تھی۔ آپ نے اپنے تمام دلائل کا رخ کسی اور ہی طرف موڑ دیا یعنی ہم پھر سے وہیں پر آ کر 'جام' ہو گئے۔ آگے بڑھیے، صاحب! خدارا، آگے بڑھیے! :) آپ یہ منظرنامہ سامنے رکھیے کہ تین طلاقیں واقع ہو چکیں۔ اس پسِ منظر کو سامنے رکھتے ہوئے یہ فرمائیے کہ کیا حلالہ کے حق میں علمائے کرام نے دلائل دے رکھے ہیں یا مفتیوں نے فتاویٰ جاری کر رکھے ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کیا اس بابت انہیں موردِ الزام ٹھہرانا کسی بھی طور مناسب ہے!

ایک بار پھر بہت شکریہ۔ آپ ایک کام کیجئے کہ کسی ملاء کے پاس جائیے ، اپنی پسند کے اور اسسے پوچھئے کہ آپ کے دوست نے ایک ہی نششست میں تین طلاق کی توپ چلادی ہے، اب کیا کیا جائے؟

تین طلاقیں واقع ہو چکیں۔ اس پسِ منظر کو سامنے رکھتے ہوئے یہ فرمائیے کہ کیا حلالہ کے حق میں علمائے کرام نے دلائل دے رکھے ہیں یا مفتیوں نے فتاویٰ جاری کر رکھے ہیں؟

جواب سنئے اور پھر ہم سب کو بتائیے کہ جواب کیا ملا؟ اس وقت تک کے لئے صبر کیجئے، اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت عطا فرمائیں۔ یہ دھاگہ تھا ہندوستانی قانون کے مطابق تین طلاق کی توپ چلا کر بیوی سے نجات حاصل کرلینا درست ہے یا نہیں ہے۔

ہندوستان کے سارے علماء اور مفتی اس کے خلاف کورٹ میں جاچکے ہیں اور منہہ کی کھا چکے ہیں۔ ان مفتیوں نے کیا دلائیل دیے ہیں اور کیا فتوے جاری کئے ہیں۔ وہ ہم سب کے سامنے ہیں لہذا یہ سوال مجھ سے دہرانا ، وقت کا ضیاع ہے برادر محترم۔ اس جھگڑے میں ، ملاء ازم کے شکار ملاء اور مفتی ، ہندوستانی کورٹ میں بی قرآنی آیات کے سامنے ہار چکے ہیں۔ شائید آپ جانتے ہیں یا نہیں کہ ہندوستانی مقدمہ میں قرآن حکیم سے حوالے حکومت نے پیش کئے؟

ملاء کی ایک خوبی ہے کہ وہ بیانات دے کر پھر جاتا ہے فتوے نشر کر کے مکر جاتا ہے اور ملاء ازم کو فالو کرتے ہوئے اپنے آپ کو دیگر ملاؤں سے الگ بھی کرلیتا ہے ۔۔ لیکن اس کا ایمان انہیہ نکات پر رہتا ہے جو دیگر ملاؤں نے نشر کیا ہوتا ہے ۔ کچھ ایسا ہی یہاں بھی ہورہا ہے۔ پہلے تو ان ملاؤں نے خوب فتوے دیے، خوب دلائیل دئے اب یہاں لوگ کہہ رہےہیں کہ ایسا تو بالکل نہیں۔ ان کو ہم کیسے مؤرد الزام تھیرا سکتے ہیں؟

ملاء کی پہچان بہت ہی آسان ہے۔ زکواۃ کی مقدار قرآن کریم کے مطابق کتنی ہے؟ اور کیا تین طلاق کی توپ چلانے سے ایک مقدس اور بھاری معاہدہ فیالفور ختم ہوجاتا ہے؟

جو جواب نا دے وہ یا تو لاعلم ہے یا پھر ملاء ہے۔ جو تین طلاق کی توپ اور زکواۃ کی ڈھائی فی صد مقدار کا قائیل ہے وہ بھی قرآن کا انکاری ملاء ہے ۔
 
جی یقیناً ایسا ہی ہے
البتہ ہم اس آڑ میں ایک طبقہ کے خلاف اندھا دھند گرجنے برسنے والوں کا مدلل موقف جاننا چاہتے ہیں.

اس طبقے کے خلاف بولنے کی بہت ہی سادہ وجوہات ہیں۔ ایک یہ مسلمان کی عزت کا خواہاں ہے، اور دوسرے یہ مسلمان کے مال کا خواہاں ہے۔ یہی ملاء ازم ہے اور اس ٹولے کے بھیانک ارادوں کو قرآن کی روشنی میں سامنے لانا ضروری ہے۔

ملاء اتنا عیار ہے کہ کبھی اپنا مؤقف پیش نیہں کرتا اور سوالات سے کام چلانے کی کوشش کرتا ہے۔ آپ ملاء ہیں یا لا علما ہیں؟

آپ کا مؤقف تین طلاق کی توپ پر کیا ہے؟ اور زکواۃ کی مقدار کتنی ہے؟ میں جانتا ہوں کہ آپ کوئی بھیھ مدلل جواب نہیں دے سکیں گے۔ اس لئے کہ آپ کی سوچ آپ کے سوالات اور استعمال شدہ الفاظ سے واضح ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
ایک بار پھر بہت شکریہ۔ آپ ایک کام کیجئے کہ کسی ملاء کے پاس جائیے ، اپنی پسند کے اور اسسے پوچھئے کہ آپ کے دوست نے ایک ہی نششست میں تین طلاق کی توپ چلادی ہے، اب کیا کیا جائے؟



جواب سنئے اور پھر ہم سب کو بتائیے کہ جواب کیا ملا؟ اس وقت تک کے لئے صبر کیجئے، اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت عطا فرمائیں۔ یہ دھاگہ تھا ہندوستانی قانون کے مطابق تین طلاق کی توپ چلا کر بیوی سے نجات حاصل کرلینا درست ہے یا نہیں ہے۔

ہندوستان کے سارے علماء اور مفتی اس کے خلاف کورٹ میں جاچکے ہیں اور منہہ کی کھا چکے ہیں۔ ان مفتیوں نے کیا دلائیل دیے ہیں اور کیا فتوے جاری کئے ہیں۔ وہ ہم سب کے سامنے ہیں لہذا یہ سوال مجھ سے دہرانا ، وقت کا ضیاع ہے برادر محترم۔ اس جھگڑے میں ، ملاء ازم کے شکار ملاء اور مفتی ، ہندوستانی کورٹ میں بی قرآنی آیات کے سامنے ہار چکے ہیں۔ شائید آپ جانتے ہیں یا نہیں کہ ہندوستانی مقدمہ میں قرآن حکیم سے حوالے حکومت نے پیش کئے؟

ملاء کی ایک خوبی ہے کہ وہ بیانات دے کر پھر جاتا ہے فتوے نشر کر کے مکر جاتا ہے اور ملاء ازم کو فالو کرتے ہوئے اپنے آپ کو دیگر ملاؤں سے الگ بھی کرلیتا ہے ۔۔ لیکن اس کا ایمان انہیہ نکات پر رہتا ہے جو دیگر ملاؤں نے نشر کیا ہوتا ہے ۔ کچھ ایسا ہی یہاں بھی ہورہا ہے۔ پہلے تو ان ملاؤں نے خوب فتوے دیے، خوب دلائیل دئے اب یہاں لوگ کہہ رہےہیں کہ ایسا تو بالکل نہیں۔ ان کو ہم کیسے مؤرد الزام تھیرا سکتے ہیں؟

ملاء کی پہچان بہت ہی آسان ہے۔ زکواۃ کی مقدار قرآن کریم کے مطابق کتنی ہے؟ اور کیا تین طلاق کی توپ چلانے سے ایک مقدس اور بھاری معاہدہ فیالفور ختم ہوجاتا ہے؟

جو جواب نا دے وہ یا تو لاعلم ہے یا پھر ملاء ہے۔ جو تین طلاق کی توپ اور زکواۃ کی ڈھائی فی صد مقدار کا قائیل ہے وہ بھی قرآن کا انکاری ملاء ہے ۔
صاحب! بصد معذرت عرض ہے کہ آپ سے متفق نہ ہوں۔ وجہ صاف اور سیدھی ہے۔ مسلکی اختلافات کے باعث ایسا ہوتا ہے اور شاید ہوتا چلا جائے گا۔ تاہم، ہمارا سوال اپنی جگہ قائم ہے؛ یہ فرمائیے کہ کیا کسی بھی مسلک کے کسی بھی مفتی یا عالم نے 'حلالہ' کے حق میں فتویٰ جاری کیا ہے یا دلیل دی ہے؟ :)
 

عثمان

محفلین
میرے تو خیال میں انسان کا ضمیر اور اس کی نیت سب سے بہتر راہنمائی کرتی ہے۔ اگر طلاق دے دی اور اتفاق سے کچھ عرصے بعد پھر ایسے حالات بن گئے کہ وہ دونوں دوبارہ نکاح کر سکیں تو کچھ غلط نہیں۔ لیکن اگر طلاق کے چوتھے روز ہی پشیمانی میں دیواروں سے سر ٹکرانے کو جی چاہے اور پھر شارٹ کٹ ڈھونڈا جائے تو ایسی صورت میں اس فعل کی نیت غلط اور کام حرام ہوگا چاہے اس کا نام حلالہ ہی کیوں نہ ہو، معاونت کرنے والے تو بے شمار مل جاتے ہیں۔
اگر تمام عمل لازما دستاویزی اور وقت لینے والا ہو تو یہ مسئلہ خود بخود ہی حل ہوجائے۔
ویسے اگر دو افراد ایک دوسرے کی رفاقت اور شراکت چاہتے ہیں ایسے کہ کسی اور کی کوئی حق تلفی نہ ہو تو کسی مزید فرد یا نظام کو ان کے رشتے میں رکاوٹ ڈالنے کا اختیار کیوں ہے؟
 
آخری تدوین:
صاحب! بصد معذرت عرض ہے کہ آپ سے متفق نہ ہوں۔ وجہ صاف اور سیدھی ہے۔ مسلکی اختلافات کے باعث ایسا ہوتا ہے اور شاید ہوتا چلا جائے گا۔ تاہم، ہمارا سوال اپنی جگہ قائم ہے؛ یہ فرمائیے کہ کیا کسی بھی مسلک کے کسی بھی مفتی یا عالم نے 'حلالہ' کے حق میں فتویٰ جاری کیا ہے یا دلیل دی ہے؟ :)

یہ فرمائیے کہ کیا کسی بھی مسلک کے کسی بھی مفتی یا عالم نے 'حلالہ' کے حق میں فتویٰ جاری کیا ہے یا دلیل دی ہے؟
جی، یہ معاملہ ملاء ازم اور مفتیوں کی کتب میں بھرا پڑا ہے۔ آپ حلالہ گوگل کرلیجئے :) خاطر خواہ معلومات حاصل ہو جائیں گی

تین طلاق کی توپ چلانے والے تمام مفتی اور علماء، ہندوستان میں تین طلاق کے الفاظ کی ادائیگی کے بارے میں اپنے دلائیل اور فتوے دے چکے ہیں، ان کا بنیادی مقصد حلالے کے قبیح عمل کو جاری رکھنے کے لئے تین طلاق کا نظریہ قائم رکھنا ہے، کیوں کہ طلاق کے قرآنی پراسیس میں حلالے جیسی کسی قبیح رسم کی گنجائش نہیں ۔ آپ اس مقدمے کی تفصیلات خود پڑھ لیجئے۔ ، اور حلالے سے متفق ہونے والوں کے بارے میں کے بارے میں آپ خود معلومات حاصل کیجئے، ان لوگوں سے جو اس قبیح مشورے پر اتفاق رکھتے ہیں۔ میں اس کا مخالف ہوں اور ایک طویل مراسلہ اس بارےمیں لکھ چکا ہوں ۔ لہذا یہ جاننے کے بعد، آپ یہ سوال ان سے کیجئے جو حلالے کے حق میں ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
یہ فرمائیے کہ کیا کسی بھی مسلک کے کسی بھی مفتی یا عالم نے 'حلالہ' کے حق میں فتویٰ جاری کیا ہے یا دلیل دی ہے؟
جی، یہ معاملہ ملاء ازم اور مفتیوں کی کتب میں بھرا پڑا ہے۔ آپ حلالہ گوگل کرلیجئے :) خاطر خواہ معلومات حاصل ہو جائیں گی

تین طلاق کی توپ چلانے والے تمام مفتی اور علماء، ہندوستان میں تین طلاق کے الفاظ کی ادائیگی کے بارے میں اپنے دلائیل اور فتوے دے چکے ہیں، ان کا بنیادی مقصد حلالے کے قبیح عمل کو جاری رکھنے کے لئے تین طلاق کا نظریہ قائم رکھنا ہے، کیوں کہ طلاق کے قرآنی پراسیس میں حلالے جیسی کسی قبیح رسم کی گنجائش نہیں ۔ آپ اس مقدمے کی تفصیلات خود پڑھ لیجئے۔ ، اور حلالے سے متفق ہونے والوں کے بارے میں کے بارے میں آپ خود معلومات حاصل کیجئے، ان لوگوں سے جو اس قبیح مشورے پر اتفاق رکھتے ہیں۔ میں اس کا مخالف ہوں اور ایک طویل مراسلہ اس بارےمیں لکھ چکا ہوں ۔ لہذا یہ جاننے کے بعد، آپ یہ سوال ان سے کیجئے جو حلالے کے حق میں ہیں۔
صاحب! ایک فتویٰ ہی دکھا دیجیے۔ :) گوگل چچا کو کل سے تکلیف دے رکھی ہے۔ :) ناکامی ہی مقدر بنی ہے! :)
 
Top