بھارتی کابینہ نے بیک وقت تین طلاق دینے پر تین سال قید کے بل کی منظوری دے دی!

سین خے

محفلین
بے انتہا ادب کے ساتھ میں ایک بات کہنا چاہوں گی کہ بحث تو عام زندگی میں ہزار مسائل پر صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ بے فائدہ بحث برائے بحث کسی کو بھی پسند نہیں آتی ہے لیکن جب ایک طبقہ بے انتہا تکلیف اٹھا رہا ہو تو کبھی نا کبھی لوگ بولیں گے۔ میرے سامنے ناجانے کتنی آنکھوں دیکھی کہانیاں ہیں کہیں بہنیں بھائی کو بہکا کر طلاق دلو دیتی ہیں کہ بھابھی تو پورا دن بیٹھی رہتی ہے، ایک صاحب کو لگا کہ انکی ساس نے کچھ ان کو دیکھ کر منہ بنایا ہے تو طلاق پکڑا دی اور پھر بعد میں حلالہ کروا کر دوبارہ نکاح کر لیا۔

یہ دو مثالیں میرے پڑوس کی ہیں۔ میرے اپنے خاندان میں طلاقیں ہوئیں اور بعد میں سب پچھتائے کہ یہ نہیں ہونا چاہئیے تھا۔ بہت جگہ پر عورت کی بھی غلطی ہوتی ہے لیکن بات وہیں آکر اٹک جاتی ہے کہ جب بعد میں نقصان اٹھانا ہی پڑتا ہے تو آخر ایک ناپسندیدہ کام کے سلسلے میں کچھ پابند وغیرہ کیوں نا کیا جائے؟

اگر کچھ لوگ صرف یہی کہتے رہیں کہ شریعت میں دخل دیا جا رہا ہے اور اسلام کے خلاف بات ہو رہی ہے تو ہم سب کو ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ ایک طرف اللہ کے ہی کچھ بندے بے انتہا تکلیف بھی اٹھا رہے ہیں اور یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ ہر مظلوم کی سنتا ہے۔ یہ کہہ دینا کہ کچھ بھی برا نہیں ہو رہا اور کوئی کسی جائز کام سے اپنی خود غرضی کی وجہ سے فائدہ نہیں اٹھا رہا صرف ہمارے کسی مسئلے کو ایک ہی زاویے سے دیکھنے اور سمجھنے کو ظاہر کرتا ہے۔ حقیقت بہرحال اپنی جگہ موجود رہتی ہے۔

دین میں آسانی کا حکم ہے اور میرا یہ یقین ہے کہ دین کے اندر ہی رہ کر ہم مسائل کا حل تلاش کر سکتے ہیں۔
 
حق مہر شوہر کو ہر صورت میں شادی کی رات ادا کرنا واجب ہے۔حق مہر کسی صورت میں معاف نہیں کروایا جاسکتا اگر شوہر انتقال کرگیا تو بیٹا حق مہر ادا کرے ۔ہاں اگر بیوی اپنی رضا سے معاف کردے تو وہ معاملہ الگ ہے مگر ادائیگی معاف کروانے کے لیے کسی بھی قسم کی زور زیادتی کرنا منع ہے۔
 

سین خے

محفلین
حق مہر شوہر کو ہر صورت میں شادی کی رات ادا کرنا واجب ہے۔حق مہر کسی صورت میں معاف نہیں کروایا جاسکتا اگر شوہر انتقال کرگیا تو بیٹا حق مہر ادا کرے ۔ہاں اگر بیوی اپنی رضا سے معاف کردے تو وہ معاملہ الگ ہے مگر ادائیگی معاف کروانے کے لیے کسی بھی قسم کی زور زیادتی کرنا منع ہے۔

میری بھی یہی معلومات ہیں کہ نکاح کے وقت مہر ادا کرنا ہی احسن عمل ہے۔
 
ایسی صورت دیکھنے کا اتفاق آج تک نہیں ہوا کہ سارا ہی غیر معجل لکھا گیا ہو۔
عموما ایک حصہ معجل کی صورت میں لکھا جاتا ہے جو نکاح کے وقت ادا کر دیا جاتا ہے اور کر دینا ضروری ہوتا ہے۔
اور ایک غیر معجل ہوتا ہے، وہ بھی معاف نہیں ہے، دینا ضروری ہوتا ہے، وقت متعین نہیں ہوتا، البتہ طلاق کی صورت میں طلاق سے پہلے ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔
 

سین خے

محفلین
ایسی صورت دیکھنے کا اتفاق آج تک نہیں ہوا کہ سارا ہی غیر معجل لکھا گیا ہو۔
عموما ایک حصہ معجل کی صورت میں لکھا جاتا ہے جو نکاح کے وقت ادا کر دیا جاتا ہے اور کر دینا ضروری ہوتا ہے۔
اور ایک غیر معجل ہوتا ہے، وہ بھی معاف نہیں ہے، دینا ضروری ہوتا ہے، وقت متعین نہیں ہوتا، البتہ طلاق کی صورت میں طلاق سے پہلے ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔

یہ شائد اس وقت ہوتا ہے جب مہر کی رقم بہت زیادہ مقرر کی گئی ہو؟ جیسے کچھ لوگ اپنی بیٹی کو طلاق سے بچانے کے لئے زمین وغیرہ لکھوا لیتے ہیں؟
 
ذرا ہمیں بھی وہ نص بتلائیں جس میں مہر طلاق کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔

برادر محترم، حق مہر ، عقد نکاح کے کاروباری معاہدے کی شرط ہے، شادی کا کنٹریکٹ ہوا تو آدھا تو دینا ہی دینا ہے، اور اگر چوھ بھی لیا تو سارا دینا ہی دینا ہے ۔ قرآن حکیم میں معجل اور غیر معجل کا ریفرنس ہمیں کہاں سے ملتا ہے بتائیے۔

اب آتے ہیں طلاق کی طرف۔
1۔ اگر عقد النکاح میں طے کیا گیا کوئی مہر باقی ہے تو اس کی ادائیگی ہر حال میں ہوگی۔ جیسا کہ کسی بھی کاروباری معاملے میں ہوتا ہے۔
2۔ قرآن حکیم کے مطابق، طلاق، در حقیقت، مرد کے گھر کو چھوڑ کر جانے کا حق ہے۔ بیوی کے گھر سے نکالنے کا نہیں؟ مرد کی ذمہ داریاں طلاق کی صورت میں، قرآن حکیم کے مطابق، طلاق دے کر یا لے کر ختم نہیں ہوجاتی ہیں۔ دیکھتے ہیں سورۃ طلاق ۔

کیا عورتوں کو طلاق دے کر نکال باہر کردیا جائے؟
ا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا
اے نبی! (مسلمانوں سے فرما دیں:) جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو اُن کے طُہر کے زمانہ میں انہیں طلاق دو اور عِدّت کو شمار کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے، اور انہیں اُن کے گھروں سے باہر مت نکالو اور نہ وہ خود باہر نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کر بیٹھیں، اور یہ اللہ کی (مقررّہ) حدیں ہیں، اور جو شخص اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو بیشک اُس نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے، (اے شخص!) تو نہیں جانتا شاید اللہ اِس کے (طلاق دینے کے) بعد (رجوع کی) کوئی نئی صورت پیدا فرما دے

اگر میعاد مکمل ہو گئی اور علیحدگی مکمل ہو گئی تو کیا عورتوں کو نکال باہر کردیا جائے؟
سورۃ 65 آیت 6
سْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ وَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُم بِمَعْرُوفٍ وَإِن تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَى
تم اُن (مطلّقہ) عورتوں کو وہیں رکھو جہاں تم اپنی وسعت کے مطابق رہتے ہو اور انہیں تکلیف مت پہنچاؤ کہ اُن پر (رہنے کا ٹھکانا) تنگ کر دو، اور اگر وہ حاملہ ہوں تو اُن پر خرچ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ اپنا بچہ جَن لیں، پھر اگر وہ تمہاری خاطر (بچے کو) دودھ پلائیں تو انہیں اُن کا معاوضہ ادا کرتے رہو، اور آپس میں (ایک دوسرے سے) نیک بات کا مشورہ (حسبِ دستور) کر لیا کرو، اور اگر تم باہم دشواری محسوس کرو تو اسے (اب کوئی) دوسری عورت دودھ پلائے گی

65:7
يُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِهِ وَمَن قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّهُ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا
صاحبِ وسعت کو اپنی وسعت (کے لحاظ) سے خرچ کرنا چاہئے، اور جس شخص پر اُس کا رِزق تنگ کر دیا گیا ہو تو وہ اُسی (روزی) میں سے (بطورِ نفقہ) خرچ کرے جو اُسے اللہ نے عطا فرمائی ہے۔ اللہ کسی شخص کو مکلّف نہیں ٹھہراتا مگر اسی قدر جتنا کہ اُس نے اسے عطا فرما رکھا ہے، اللہ عنقریب تنگی کے بعد کشائش پیدا فرما دے گا


طلاق کی صورت میں اللہ تعالی کے فرمان کے مطابق، مطلقہ عورتیں اور بچے ہمیشہ کے لئے مرد کی ذمہ داری ہیں۔ ایک خاندان کسی بھی قوم کے لئے ایک بنیادی اکائی ہے، خاندان کو تباہ کردینے کا مطلب ، قوم کے بنیادی یونٹ کو تباہ کرنا ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر مرد ، نامرد ہو جائے تو کیا اس کی ذمہ داریاں اپنے خاندان کی طرف ختم ہو جائیں گی؟ یہی صورت یہاں ہے کہ مطلقہ عورت گو کہ اب اپنے شوہر کے ساتھ ازدواجی تعلقان نہیں رکھتی لیکن جب تک اس عورت کا کوئی دوسرا کفیل نہیں، خرچہ چھوڑ کے جانے والے کے ذمے ہے۔ اور بچوں کا خرچہ جب تک وہ خود کفالت کے قابل نہیں ہوجاتے ، ان کے باپ کے ذمے ہے۔ جو نہیں مانتا شادی کیوں کرتا ہے؟ خاندان کیوں بناتا ہے۔

یہ صاف اور واضح اللہ تعالی کے فرمان ہیں۔ لیکن ملاء ازم ہم کو کچھ اور ہی سکھاتا ہے۔ ملاء ازم، ایک مجلس کی تین طلاق کی توپ سے بیوی کو اڑا کر ،م اس کو فوراً گھر سے باہر نکالنے کی سفارش کرتا ہے اور میعاد مکمل ہونے پر تو لازماً ، مرد کی دولت ، کمائی یا خرچے کے لئے مطلقہ عورت کو کوئی حق نہیں دیتا۔

جب کہ اللہ کا فرمان قرآن حکیم، صاف اور واضح طور پر خاندان کی کفالت کی ذمہ داری ، مرد پر ڈالتا ہے۔ اور جب تک مطلقہ عورت کی کفالت کا ذمہ کوئی دوسرا شوہر نا لے لے، اس عورت کی ذمہ داری بھی مرد پر ڈالتا ہے کہ ، مرد اس کو گھر سے نا نکالے اور اپنی وسعت کے مطابق، عورت اور خاندان کو علیحدگی کے بعد بھی کفالت فراہم کرتا رہے۔ علیحدگی، ناچاقی سے نجات کا نام ہے ، کفالت سے نجات کا نام نہیں۔

بّض حضرات مجھ سے شکایت کرتے ہیں، کہ میں ملاء کے پیچھے کیوں پڑ گیا ہوں؟ ان لوگوں سے جواباً عرض ہے کہ اگر ملاء موجودہ خلاف قرآں سوچوں کی تعمیر کا مجرم نہیں ہے تو کون ہے؟
 
جو لوگ اللہ تعالی کے فرمان پر عمل نہیں کرتے اور حیلے بہانوں سے خاندانوں کو تباہ کرتے رہتے ہیں ان کے لئے سورۃ طلاق میں مندرجہ بالاء آیات کے بعد یہ وارننگ دی گئی ہے۔

65:8 وَكَأَيِّن مِّن قَرْيَةٍ عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّهَا وَرُسُلِهِ فَحَاسَبْنَاهَا حِسَابًا شَدِيدًا وَعَذَّبْنَاهَا عَذَابًا نُّكْرًا
اور کتنی ہی بستیاں ایسی تھیں جن (کے رہنے والوں) نے اپنے رب کے حکم اور اُس کے رسولوں سے سرکشی و سرتابی کی تو ہم نے اُن کا سخت حساب کی صورت میں محاسبہ کیا اور انہیں ایسے سخت عذاب میں مبتلا کیا جو نہ دیکھا نہ سنا گیا تھا

طلاق یافتہ مظلوم عورتوں کی کفالت سے بچنا اور ان کو گھروں سے باہر نکالنا اللہ تعالی سے یقینی سرکشی ہے۔
 
برادر محترم، حق مہر ، عقد نکاح کے کاروباری معاہدے کی شرط ہے، شادی کا کنٹریکٹ ہوا تو آدھا تو دینا ہی دینا ہے، اور اگر چوھ بھی لیا تو سارا دینا ہی دینا ہے ۔ قرآن حکیم میں معجل اور غیر معجل کا ریفرنس ہمیں کہاں سے ملتا ہے بتائیے۔

اب آتے ہیں طلاق کی طرف۔
1۔ اگر عقد النکاح میں طے کیا گیا کوئی مہر باقی ہے تو اس کی ادائیگی ہر حال میں ہوگی۔ جیسا کہ کسی بھی کاروباری معاملے میں ہوتا ہے۔
2۔ قرآن حکیم کے مطابق، طلاق، در حقیقت، مرد کے گھر کو چھوڑ کر جانے کا حق ہے۔ بیوی کے گھر سے نکالنے کا نہیں؟ مرد کی ذمہ داریاں طلاق کی صورت میں، قرآن حکیم کے مطابق، طلاق دے کر یا لے کر ختم نہیں ہوجاتی ہیں۔ دیکھتے ہیں سورۃ طلاق ۔

کیا عورتوں کو طلاق دے کر نکال باہر کردیا جائے؟
ا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا
اے نبی! (مسلمانوں سے فرما دیں:) جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو اُن کے طُہر کے زمانہ میں انہیں طلاق دو اور عِدّت کو شمار کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے، اور انہیں اُن کے گھروں سے باہر مت نکالو اور نہ وہ خود باہر نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کر بیٹھیں، اور یہ اللہ کی (مقررّہ) حدیں ہیں، اور جو شخص اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو بیشک اُس نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے، (اے شخص!) تو نہیں جانتا شاید اللہ اِس کے (طلاق دینے کے) بعد (رجوع کی) کوئی نئی صورت پیدا فرما دے

اگر میعاد مکمل ہو گئی اور علیحدگی مکمل ہو گئی تو کیا عورتوں کو نکال باہر کردیا جائے؟
سورۃ 65 آیت 6
سْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ وَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُم بِمَعْرُوفٍ وَإِن تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَى
تم اُن (مطلّقہ) عورتوں کو وہیں رکھو جہاں تم اپنی وسعت کے مطابق رہتے ہو اور انہیں تکلیف مت پہنچاؤ کہ اُن پر (رہنے کا ٹھکانا) تنگ کر دو، اور اگر وہ حاملہ ہوں تو اُن پر خرچ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ اپنا بچہ جَن لیں، پھر اگر وہ تمہاری خاطر (بچے کو) دودھ پلائیں تو انہیں اُن کا معاوضہ ادا کرتے رہو، اور آپس میں (ایک دوسرے سے) نیک بات کا مشورہ (حسبِ دستور) کر لیا کرو، اور اگر تم باہم دشواری محسوس کرو تو اسے (اب کوئی) دوسری عورت دودھ پلائے گی

65:7
يُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِهِ وَمَن قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّهُ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا
صاحبِ وسعت کو اپنی وسعت (کے لحاظ) سے خرچ کرنا چاہئے، اور جس شخص پر اُس کا رِزق تنگ کر دیا گیا ہو تو وہ اُسی (روزی) میں سے (بطورِ نفقہ) خرچ کرے جو اُسے اللہ نے عطا فرمائی ہے۔ اللہ کسی شخص کو مکلّف نہیں ٹھہراتا مگر اسی قدر جتنا کہ اُس نے اسے عطا فرما رکھا ہے، اللہ عنقریب تنگی کے بعد کشائش پیدا فرما دے گا


طلاق کی صورت میں اللہ تعالی کے فرمان کے مطابق، مطلقہ عورتیں اور بچے ہمیشہ کے لئے مرد کی ذمہ داری ہیں۔ ایک خاندان کسی بھی قوم کے لئے ایک بنیادی اکائی ہے، خاندان کو تباہ کردینے کا مطلب ، قوم کے بنیادی یونٹ کو تباہ کرنا ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر مرد ، نامرد ہو جائے تو کیا اس کی ذمہ داریاں اپنے خاندان کی طرف ختم ہو جائیں گی؟ یہی صورت یہاں ہے کہ مطلقہ عورت گو کہ اب اپنے شوہر کے ساتھ ازدواجی تعلقان نہیں رکھتی لیکن جب تک اس عورت کا کوئی دوسرا کفیل نہیں، خرچہ چھوڑ کے جانے والے کے ذمے ہے۔ اور بچوں کا خرچہ جب تک وہ خود کفالت کے قابل نہیں ہوجاتے ، ان کے باپ کے ذمے ہے۔ جو نہیں مانتا شادی کیوں کرتا ہے؟ خاندان کیوں بناتا ہے۔

یہ صاف اور واضح اللہ تعالی کے فرمان ہیں۔ لیکن ملاء ازم ہم کو کچھ اور ہی سکھاتا ہے۔ ملاء ازم، ایک مجلس کی تین طلاق کی توپ سے بیوی کو اڑا کر ،م اس کو فوراً گھر سے باہر نکالنے کی سفارش کرتا ہے اور میعاد مکمل ہونے پر تو لازماً ، مرد کی دولت ، کمائی یا خرچے کے لئے مطلقہ عورت کو کوئی حق نہیں دیتا۔

جب کہ اللہ کا فرمان قرآن حکیم، صاف اور واضح طور پر خاندان کی کفالت کی ذمہ داری ، مرد پر ڈالتا ہے۔ اور جب تک مطلقہ عورت کی کفالت کا ذمہ کوئی دوسرا شوہر نا لے لے، اس عورت کی ذمہ داری بھی مرد پر ڈالتا ہے کہ ، مرد اس کو گھر سے نا نکالے اور اپنی وسعت کے مطابق، عورت اور خاندان کو علیحدگی کے بعد بھی کفالت فراہم کرتا رہے۔ علیحدگی، ناچاقی سے نجات کا نام ہے ، کفالت سے نجات کا نام نہیں۔

بّض حضرات مجھ سے شکایت کرتے ہیں، کہ میں ملاء کے پیچھے کیوں پڑ گیا ہوں؟ ان لوگوں سے جواباً عرض ہے کہ اگر ملاء موجودہ خلاف قرآں سوچوں کی تعمیر کا مجرم نہیں ہے تو کون ہے؟
ملا پر اپنا شوق ضرور آزمائیں۔ مگر اتنی سوجھ بوجھ استعمال کرلیا کریں کہ بات کیا چل رہی ہے اور کس سے سوال کیا جا رہا ہے۔
 

سین خے

محفلین

:) یہ تو کمال ہی ہو گیا۔

خبر سے کچھ اقتباسات

چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز کا کہنا تھا کہ کونسل کا خیال ہے کہ یہ ایسی چیز ہے جس کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔

ھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ تین طلاق کا عمل مذہب میں لازم نہیں اور اخلاقی طور پر یہ آئین کی خلاف ورزی ہے جبکہ خواتین کا کہنا تھا کہ مسلم پرسنل لاء ایپلی کیشن ایکٹ، جو شریعت کے قانون کے تحت اور تین طلاق سے متعلق ہے، کا غلط استعمال کیا جارہا ہے۔

قبلہ ایاز نے کہا کہ یہ ایک تکنیکی مسئلہ ہے اور اس میں محتاط نقطہ نظر کی ضرورت ہے لیکن ہم یہ تجویز کریں گے کہ ان لوگوں کے لیے کچھ سزا ہونی چاہیے جو ایک ساتھ تین طلاق دیتے ہیں اور یہ معاملہ اب حکومت کے ہاتھ میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ معاشرہ تبدیل ہورہا ہے اور یہ اسلامی نظریاتی کونسل کی ذمہ داری ہے کہ آنے والے چیلنجز کے لیے شریعت کے مطابق تجاویز جاری کرے۔
 
آخری تدوین:
ذرا ہمیں بھی وہ نص بتلائیں جس میں مہر طلاق کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔
میں نے پریکٹیکل ٹرم میں بات کی ہے کہ عموماً ایسا ہوتا ہے۔ احسن طریقہ کار یہی ہے:
میری بھی یہی معلومات ہیں کہ نکاح کے وقت مہر ادا کرنا ہی احسن عمل ہے۔
البتہ اگر مہر جائداد، اثاثہ جات وغیرہ کیساتھ لگا ہو تو طلاق کے وقت دینا زیادہ بہتر ہے کہ اس دوران میں اسکی قیمت کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
 
میں نے پریکٹیکل ٹرم میں بات کی ہے کہ عموماً ایسا ہوتا ہے۔ احسن طریقہ کار یہی ہے:

البتہ اگر مہر جائداد، اثاثہ جات وغیرہ کیساتھ لگا ہو تو طلاق کے وقت دینا زیادہ بہتر ہے کہ اس دوران میں اسکی قیمت کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے۔:p
 
آخری تدوین:

ربیع م

محفلین
برادر محترم، حق مہر ، عقد نکاح کے کاروباری معاہدے کی شرط ہے، شادی کا کنٹریکٹ ہوا تو آدھا تو دینا ہی دینا ہے، اور اگر چوھ بھی لیا تو سارا دینا ہی دینا ہے ۔ قرآن حکیم میں معجل اور غیر معجل کا ریفرنس ہمیں کہاں سے ملتا ہے بتائیے۔

اب آتے ہیں طلاق کی طرف۔
1۔ اگر عقد النکاح میں طے کیا گیا کوئی مہر باقی ہے تو اس کی ادائیگی ہر حال میں ہوگی۔ جیسا کہ کسی بھی کاروباری معاملے میں ہوتا ہے۔
2۔ قرآن حکیم کے مطابق، طلاق، در حقیقت، مرد کے گھر کو چھوڑ کر جانے کا حق ہے۔ بیوی کے گھر سے نکالنے کا نہیں؟ مرد کی ذمہ داریاں طلاق کی صورت میں، قرآن حکیم کے مطابق، طلاق دے کر یا لے کر ختم نہیں ہوجاتی ہیں۔ دیکھتے ہیں سورۃ طلاق ۔

کیا عورتوں کو طلاق دے کر نکال باہر کردیا جائے؟
ا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا
اے نبی! (مسلمانوں سے فرما دیں:) جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو اُن کے طُہر کے زمانہ میں انہیں طلاق دو اور عِدّت کو شمار کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے، اور انہیں اُن کے گھروں سے باہر مت نکالو اور نہ وہ خود باہر نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کر بیٹھیں، اور یہ اللہ کی (مقررّہ) حدیں ہیں، اور جو شخص اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو بیشک اُس نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے، (اے شخص!) تو نہیں جانتا شاید اللہ اِس کے (طلاق دینے کے) بعد (رجوع کی) کوئی نئی صورت پیدا فرما دے

اگر میعاد مکمل ہو گئی اور علیحدگی مکمل ہو گئی تو کیا عورتوں کو نکال باہر کردیا جائے؟
سورۃ 65 آیت 6
سْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ وَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُم بِمَعْرُوفٍ وَإِن تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَى
تم اُن (مطلّقہ) عورتوں کو وہیں رکھو جہاں تم اپنی وسعت کے مطابق رہتے ہو اور انہیں تکلیف مت پہنچاؤ کہ اُن پر (رہنے کا ٹھکانا) تنگ کر دو، اور اگر وہ حاملہ ہوں تو اُن پر خرچ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ اپنا بچہ جَن لیں، پھر اگر وہ تمہاری خاطر (بچے کو) دودھ پلائیں تو انہیں اُن کا معاوضہ ادا کرتے رہو، اور آپس میں (ایک دوسرے سے) نیک بات کا مشورہ (حسبِ دستور) کر لیا کرو، اور اگر تم باہم دشواری محسوس کرو تو اسے (اب کوئی) دوسری عورت دودھ پلائے گی

65:7
يُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِهِ وَمَن قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّهُ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا
صاحبِ وسعت کو اپنی وسعت (کے لحاظ) سے خرچ کرنا چاہئے، اور جس شخص پر اُس کا رِزق تنگ کر دیا گیا ہو تو وہ اُسی (روزی) میں سے (بطورِ نفقہ) خرچ کرے جو اُسے اللہ نے عطا فرمائی ہے۔ اللہ کسی شخص کو مکلّف نہیں ٹھہراتا مگر اسی قدر جتنا کہ اُس نے اسے عطا فرما رکھا ہے، اللہ عنقریب تنگی کے بعد کشائش پیدا فرما دے گا


طلاق کی صورت میں اللہ تعالی کے فرمان کے مطابق، مطلقہ عورتیں اور بچے ہمیشہ کے لئے مرد کی ذمہ داری ہیں۔ ایک خاندان کسی بھی قوم کے لئے ایک بنیادی اکائی ہے، خاندان کو تباہ کردینے کا مطلب ، قوم کے بنیادی یونٹ کو تباہ کرنا ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر مرد ، نامرد ہو جائے تو کیا اس کی ذمہ داریاں اپنے خاندان کی طرف ختم ہو جائیں گی؟ یہی صورت یہاں ہے کہ مطلقہ عورت گو کہ اب اپنے شوہر کے ساتھ ازدواجی تعلقان نہیں رکھتی لیکن جب تک اس عورت کا کوئی دوسرا کفیل نہیں، خرچہ چھوڑ کے جانے والے کے ذمے ہے۔ اور بچوں کا خرچہ جب تک وہ خود کفالت کے قابل نہیں ہوجاتے ، ان کے باپ کے ذمے ہے۔ جو نہیں مانتا شادی کیوں کرتا ہے؟ خاندان کیوں بناتا ہے۔

یہ صاف اور واضح اللہ تعالی کے فرمان ہیں۔ لیکن ملاء ازم ہم کو کچھ اور ہی سکھاتا ہے۔ ملاء ازم، ایک مجلس کی تین طلاق کی توپ سے بیوی کو اڑا کر ،م اس کو فوراً گھر سے باہر نکالنے کی سفارش کرتا ہے اور میعاد مکمل ہونے پر تو لازماً ، مرد کی دولت ، کمائی یا خرچے کے لئے مطلقہ عورت کو کوئی حق نہیں دیتا۔

جب کہ اللہ کا فرمان قرآن حکیم، صاف اور واضح طور پر خاندان کی کفالت کی ذمہ داری ، مرد پر ڈالتا ہے۔ اور جب تک مطلقہ عورت کی کفالت کا ذمہ کوئی دوسرا شوہر نا لے لے، اس عورت کی ذمہ داری بھی مرد پر ڈالتا ہے کہ ، مرد اس کو گھر سے نا نکالے اور اپنی وسعت کے مطابق، عورت اور خاندان کو علیحدگی کے بعد بھی کفالت فراہم کرتا رہے۔ علیحدگی، ناچاقی سے نجات کا نام ہے ، کفالت سے نجات کا نام نہیں۔

بّض حضرات مجھ سے شکایت کرتے ہیں، کہ میں ملاء کے پیچھے کیوں پڑ گیا ہوں؟ ان لوگوں سے جواباً عرض ہے کہ اگر ملاء موجودہ خلاف قرآں سوچوں کی تعمیر کا مجرم نہیں ہے تو کون ہے؟

محترم فاروق سرور صاحب!
آپ کے مراسلے کافی دلچسپ ہوتے ہیں ۔بسا اوقات ان پر ہنسی بھی آتی ہے ۔
مندرجہ بالا مراسلے کے حوالے سے کچھ گزارشات رکھنا چاہتا ہوں امید ہے کہ آپ غور فرمائیں گے ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کی املا میں کافی غلطیاں ہوتی ہیں وہ تو شاید اتنا بڑا مسئلہ نہیں ، لیکن ایک گزارش ہے کہ قرآن کریم کی آیات کو کاپی پیسٹ کرتے وقت کچھ خیال رکھا کریں کہ ان میں غلطی نہ باقی نہ رہے جیسا کہ آپ اپنے مراسلے میں دیکھ سکتے ہیں :

ا أَيُّهَا النَّبِيُّ



یقینا انسان ہونے کے ناطے ایسی غلطیاں سرزد ہوتی رہتی ہیں لیکن کلام اللہ کے سلسلے میں ہمیں خصوصی طور پر محتاط رہنا چاہئے ۔

دوسری بات: ابھی پچھلا مکالمہ ہی کسی نتیجے پر پہنچائے بغیر آپ اسے ادھورا چھوڑ گئے ، ہم بھی آپ کی بزرگی کے احترام میں خاموش رہے کہ آپ نے نئے سرے سے ایک اور موضوع چھیڑ دیا۔

تیسری بات : مہر معجل اور مؤجل:

قرآن حکیم میں معجل اور غیر معجل کا ریفرنس ہمیں کہاں سے ملتا ہے بتائیے۔

کیا آپ کا سوال یہ ہے کہ قرآن کی رو سے مہر مؤجل درست نہیں ؟مہر عقد نکاح کے وقت ہی ادا کر دینا چاہئے ؟

تو قرآن خود کہتا ہے :

لَّا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ ﴿٢٣٦

تم پر اس سلسلے میں کوئی گناہ نہیں کہ اگر تم ایسی عورتوں کو طلاق دو جنہیں تم نے ابھی تک چھوا نہ ہو یا ان کیلئے حق مہر مقرر نہ کیا ہو ،( ایسی صورت میں طلاق کے وقت) انھیں کچھ سازوسامان دے دو وسعت والے کے اوپر اس کی طاقت کے مطابق اور تنگی والے پر اس کی طاقت کے مطابق ہے ، سامان معروف طریقے کے مطابق دینا نیکی کرنے والوں پر یہ حق ہے ۔

چہارم:کیا نفقہ اور رہائش ہمیشہ کیلئے سابق شوہر کی ذمہ داری ہے ؟

طلاق کی صورت میں اللہ تعالی کے فرمان کے مطابق، مطلقہ عورتیں اور بچے ہمیشہ کے لئے مرد کی ذمہ داری ہیں۔

مرد اس کو گھر سے نا نکالے

فاروق صاحب آپ کا دعوی ہے کہ طلاق کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق مطلقہ عورتیں اور بچے ہمیشہ کیلئے مرد کی ذمہ داری ہیں اور مرد اس کو گھر سے نہیں نکال سکتا ۔یہاں تک کہ آپ کا دعویٰ ہے کہ عدت پوری ہونے اور مرد کی جانب سے رجوع نہ کرنے کی صورت میں بھی اس کی رہائش کا بندوبست اب مرد کی ذمہ داری ہے ۔

اس سلسلے میں پہلے آپ نے جو دلائل پیش کئے ہیں ان کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر اس معاملے کو مختلف پہلوؤں سے دیکھتے ہیں ۔

کیا طلاق کے بعد عورت کی رہائش اس کے سابق خاوند کی ذمہ داری ہے ؟

آپ کی پہلی دلیل :

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ ۖ وَاتَّقُوا اللَّ۔هَ رَبَّكُمْ ۖ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّ۔هِ ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّ۔هِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّ۔هَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَٰلِكَ أَمْرًا ﴿١

اے نبی !جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انھیں ان کی عدت کے وقت میں طلاق دو اور عدت کو خوب اچھی طرح گنو اور اللہ سے ڈرو جو تمہار ا رب ہے ، نہ تم انھیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ نکلیں مگریہ کہ کوئی کھلی بے حیائی (عمل میں ) لائیں ۔ اور یہ اللہ کی حدیں ہیں اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھے تو یقینا اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا ۔ تو نہیں جانتا شاید اللہ اس کے بعد کوئی نئی بات پیدا کر دے ۔

اگلی آیت دیکھیں :

فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّ۔هِ ۚ

پھر جب وہ اپنی میعاد کو پہنچنے لگیں تو انھیں اچھے طریقے سے روک لو ، یا اچھے طریقے سے ان سے جدا ہوا جاؤ اور اپنوں میں سے دو صاحب عدل آدمی گواہ بنا لو اور شہادت اللہ کیلئے قائم کرو۔

اب یہاں غور فرمائیے ! یہ اس صورت میں حکم ہو رہا ہے جب طلاق رجعی ہے یعنی مر دکے پاس رجوع کا حق موجود ہے طلاق بائنہ کا بیان نہیں ہو رہا۔

جیسا کہ اللہ رب العزت نے فرما دیا کہ " تو نہیں جانتا شاید اللہ اس کے بعد کوئی نئی بات پیدا کردے ۔"

اور آپ نے اپنے ترجمہ میں بریکٹس کے اندر مفہوم واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ شاید اللہ رب العزت رجوع کی کوئی صورت پیدا کردیں ۔
تو نہیں جانتا شاید اللہ اِس کے (طلاق دینے کے) بعد (رجوع کی) کوئی نئی صورت پیدا فرما دے
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ طلاق رجعی کی صورت میں حکم ہے ۔

اچھا اب اگلی آیت ملاحظہ کریں تو معاملہ مزید صاف ہو جاتا ہے کہ " جب ان کی عدت مکمل ہونے لگے تو یا اچھے طریقے سے روک لو یا جد اکر لو ، اب اگر طلاق بائنہ ہو ( فی الحال ہم اس بحث میں نہیں داخل ہوتے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں طلاق رجعی ہو گی یا طلاق بائن ) اچھے طریقے سے روک لینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

اب آپ نے اگلی دلیل یہ دی کہ :

أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ ۚ

انھیں وہاں ٹھہراؤ جہاں تم رہتے ہو اپنی طاقت کے مطابق ، اور انھیں اس لئے تکلیف نہ دو کہ ان پر تنگی کرو۔

اب ان آیات پر غور کیجئے !

پہلی ذکر کردہ دو آیات میں اللہ نے فرمایا کہ طلاق دینے کے بعد عدت شمار کرو نہ تم انھیں اپنے گھروں سے نکالو اور نہ ہی وہ اپنے گھروں سے نکلیں آخر میں حکمت بیان فرمادی کہ شاید اللہ تعالیٰ رجوع یا صلح کی کوئی صورت پیدا فرما دیں ۔ اگلی آیت میں فرمایا کہ جب عدت کا وقت گزر جائے تویا اچھے طریقے سے روک رکھو یا جدا ہو جاؤ

درمیان کی کچھ آیات میں اللہ نے وعظ و نصیحت کی اور پھر فرمایا کہ انھیں وہاں ٹھہرانا ہے جہاں تم رہائش پذیر ہو۔

اب دیکھئے !

· اگر اللہ رب العزت نے ہمیشہ کیلئے اس کی رہائش اس کے سابق خاوند کی ذمہ داری بنائی ہوتی تو کیا یہ حکم ہوتا کہ انھیں وہاں ٹھہراؤ جہاں تم رہتے ہو؟ بلکہ حکم یہ ہوتا کہ ان کیلئے الگ سے رہائش کا بندوبست کرو۔

· اگر ہمیشہ کیلئے رہائش سابق خاوند کی ذمہ داری ہوتی تو یہاں محض طلاق رجعی والی صورت کا ذکر کیوں؟ طلاق بائن کا ذکر ہی نہیں ۔

· کیا کسی کی عقل یہ بات تسلیم کرتی ہے کہ اللہ رب العزت ایک ہی گھر میں عورت اور اس کے سابق خاوند کو رہنے کا حکم دے رہے ہیں جبکہ وہ دونوں ایک دوسرے کیلئے نامحرم ہو چکے ہیں ؟

· اور کیا اس کا سابق خاوند اگر آگے شادی کرے گا اور اس کے پاس ایک ہی گھر ہے تو اس کی سابق بیوی بھی یہاں رہائش پذیر ہے اس سے خاندان بچےگا یا مزیددو خاندان تباہ ہوں گے ۔

· اگر آپ کے اس دعویٰ کو تسلیم کیا جائے تو یہاں اللہ رب العزت تو عورت کو بھی حکم دے رہے ہیں کہ وہ خاوند کے گھر سے باہر نہ نکلے تو ایسا ظالمانہ قانون کسی کی عقل تسلیم کرتی ہے کہ اللہ رب العزت نے بنایا ہے ؟

· اگر آپ کے اس دعوی کو تسلیم کیا جائے کہ رہائش اور نفقہ ہمیشہ کیلئے سابق خاوند کی ذمہ داری ہےاور ساتھ ہی آگے آپ یہ بھی فرما رہے ہیں

اور جب تک مطلقہ عورت کی کفالت کا ذمہ کوئی دوسرا شوہر نا لے لے، اس عورت کی ذمہ داری بھی مرد پر ڈالتا ہے کہ ، مرد اس کو گھر سے نا نکالے اور اپنی وسعت کے مطابق، عورت اور خاندان کو علیحدگی کے بعد بھی کفالت فراہم کرتا رہے۔

· تو اس صورت میں رہائش و نفقہ کی ذمہ داری کس دلیل کی رو سے ساقط ہو جاتی ہے ؟

اب آپ کے دعویٰ کے دوسرے جزو کو دیکھئے !

کیامطلقہ عورت کا نفقہ ہمیشہ کیلئے سابق خاوند کے ذمہ ہے ۔

آپ نے دلیل میں آیات پیش کیں کہ :

أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ ۚ وَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّىٰ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۖ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُم بِمَعْرُوفٍ ۖ وَإِن تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَىٰ ﴿٦﴾ لِيُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِهِ ۖ وَمَن قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّ۔هُ ۚ لَا يُكَلِّفُ اللَّ۔هُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا ۚ سَيَجْعَلُ اللَّ۔هُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا ﴿٧

انھیں وہاں ٹھہراؤ جہاں تم رہتے ہو، اپنی طاقت کے مطابق اور انھیں اس لئے تکلیف نہ دو کہ ان پر تنگی کرو اور اگر وہ حمل والی ہوں تو ان پر خرچ کرو ، یہاں تک کہ وہ اپنا حمل وضع کر لیں ، پھر اگر وہ تمہارے لئے دودھ پلائیں تو انھیں ان کی اجرتیں دو اور آپس میں اچھے طریقے سے مشورہ کرو اور اگر تم آپس میں تنگی کرو تو عنقریب اسے کوئی اور عورت دودھ پلادے گی

وسعت والے کو چاہئے کہ اپنی وسعت میں سے خرچ کرے اور جس پر اس کا رزق تنگ کیا گیا ہو تو وہ اس میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے ۔ اللہ کسی شخص کو تکلیف نہیں دیتا مگر اسی کی جو اس نے اسے دیا ہے ، عنقریب اللہ تنگی کے بعد آسانی پیدا کردے گا۔

اب ان دونون آیات کو جو اسی ترتیب سے اللہ نے قرآن میں ذکر کیں اور آپ نے انھیں الگ الگ ذکر کرکے اپنی مرضی کو مفہوم زبردستی کشید کرنے کی کوشش کی بغور جائزہ لیجئے !

اللہ نے فرمایا:اگر وہ حمل والی ہوں تو ان پر خرچ کرو یہاں تک کہ وہ اپنا حمل وضع کر لیں ۔

اگر وہ تمہارے لئے دودھ پلائیں تو انھیں ان کی اجرتیں دو۔

اب کتنا خرچ کرنا ہے کتنی اجرت ہے وہ ایک خاص مقدار مقرر نہیں فرمائی بلکہ فرما دیا کہ وسعت والا اپنی وسعت کے مطابق اور تنگی والا اپنی گنجائش کے مطابق خرچ کرے ۔
غور فرمائیں جملہ شرطیہ ہے کہ اگر ایسا ہو تب تمہاری یہ ذمہ داری ہے اگر تمہارے بچوں کو دودھ پلائیں تب تم نے یہ کرنا ہے ۔
یہاں یہ کہاں ذکر ہے کہ کسی شخص کی مطلقہ بیوی کا نفقہ ہمیشہ کیلئے اس کی ذمہ داری ہے ؟

باقی ہر بات میں ملا کو مطعون کرنے سے ہمیں اسی محفل کے ہی ایک رکن حسیب احمد حسیب بھائی کی ایک تحریر "مولویریا کے مریض"یاد آ جاتی ہے

اور اب لگتا ہے پوری قوم کو اس مولویریا وائرس میں مبتلا کرکے ٹرک کی لال بتی کے پیچھے لگایا جا رہا ہے ..

ہر سوال کا ایک جواب ...

گامے کی لڑکی کیوں بھاگی .... مولوی
گھمن کے ہاں اولاد کیوں نہیں ہوتی ... مولوی
رمضان سے پہلے پندرہ روپے کلو پھکنے والے آلو پچاس روپے کے کیسے ہوئے ... مولوی
شریف پولٹری والے کی ٹنڈ کیسے نکلی ... مولوی
نسوار خان کی شادی کیسے ٹوٹی ... مولوی
میری پجمیا کا ناڑا کون لے بھاگا ... مولوی
اسکی چنریا میں داغ کیسے لاگا ... مولوی ...

بھئی !ہمیں مولوی کی بے جا حمایت کا قطعی کوئی شوق نہیں اگر مولوی کسی جرم میں ملوث ہے تو آپ مدلل اسے واضح کیجئے ہم آپ سے زیادہ اس کی مخالفت کریں گے البتہ اندھا دھند تعصب سے گریز کیجئے ۔
 
محترم فاروق سرور صاحب!
آپ کے مراسلے کافی دلچسپ ہوتے ہیں ۔بسا اوقات ان پر ہنسی بھی آتی ہے ۔
مندرجہ بالا مراسلے کے حوالے سے کچھ گزارشات رکھنا چاہتا ہوں امید ہے کہ آپ غور فرمائیں گے ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کی املا میں کافی غلطیاں ہوتی ہیں وہ تو شاید اتنا بڑا مسئلہ نہیں ، لیکن ایک گزارش ہے کہ قرآن کریم کی آیات کو کاپی پیسٹ کرتے وقت کچھ خیال رکھا کریں کہ ان میں غلطی نہ باقی نہ رہے جیسا کہ آپ اپنے مراسلے میں دیکھ سکتے ہیں :







یقینا انسان ہونے کے ناطے ایسی غلطیاں سرزد ہوتی رہتی ہیں لیکن کلام اللہ کے سلسلے میں ہمیں خصوصی طور پر محتاط رہنا چاہئے ۔

دوسری بات: ابھی پچھلا مکالمہ ہی کسی نتیجے پر پہنچائے بغیر آپ اسے ادھورا چھوڑ گئے ، ہم بھی آپ کی بزرگی کے احترام میں خاموش رہے کہ آپ نے نئے سرے سے ایک اور موضوع چھیڑ دیا۔

تیسری بات : مہر معجل اور مؤجل:



کیا آپ کا سوال یہ ہے کہ قرآن کی رو سے مہر مؤجل درست نہیں ؟مہر عقد نکاح کے وقت ہی ادا کر دینا چاہئے ؟

تو قرآن خود کہتا ہے :

لَّا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ ﴿٢٣٦

تم پر اس سلسلے میں کوئی گناہ نہیں کہ اگر تم ایسی عورتوں کو طلاق دو جنہیں تم نے ابھی تک چھوا نہ ہو یا ان کیلئے حق مہر مقرر نہ کیا ہو ،( ایسی صورت میں طلاق کے وقت) انھیں کچھ سازوسامان دے دو وسعت والے کے اوپر اس کی طاقت کے مطابق اور تنگی والے پر اس کی طاقت کے مطابق ہے ، سامان معروف طریقے کے مطابق دینا نیکی کرنے والوں پر یہ حق ہے ۔

چہارم:کیا نفقہ اور رہائش ہمیشہ کیلئے سابق شوہر کی ذمہ داری ہے ؟





فاروق صاحب آپ کا دعوی ہے کہ طلاق کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق مطلقہ عورتیں اور بچے ہمیشہ کیلئے مرد کی ذمہ داری ہیں اور مرد اس کو گھر سے نہیں نکال سکتا ۔یہاں تک کہ آپ کا دعویٰ ہے کہ عدت پوری ہونے اور مرد کی جانب سے رجوع نہ کرنے کی صورت میں بھی اس کی رہائش کا بندوبست اب مرد کی ذمہ داری ہے ۔

اس سلسلے میں پہلے آپ نے جو دلائل پیش کئے ہیں ان کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر اس معاملے کو مختلف پہلوؤں سے دیکھتے ہیں ۔

کیا طلاق کے بعد عورت کی رہائش اس کے سابق خاوند کی ذمہ داری ہے ؟

آپ کی پہلی دلیل :

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ ۖ وَاتَّقُوا اللَّ۔هَ رَبَّكُمْ ۖ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّ۔هِ ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّ۔هِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّ۔هَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَٰلِكَ أَمْرًا ﴿١

اے نبی !جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انھیں ان کی عدت کے وقت میں طلاق دو اور عدت کو خوب اچھی طرح گنو اور اللہ سے ڈرو جو تمہار ا رب ہے ، نہ تم انھیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ نکلیں مگریہ کہ کوئی کھلی بے حیائی (عمل میں ) لائیں ۔ اور یہ اللہ کی حدیں ہیں اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھے تو یقینا اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا ۔ تو نہیں جانتا شاید اللہ اس کے بعد کوئی نئی بات پیدا کر دے ۔

اگلی آیت دیکھیں :

فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّ۔هِ ۚ

پھر جب وہ اپنی میعاد کو پہنچنے لگیں تو انھیں اچھے طریقے سے روک لو ، یا اچھے طریقے سے ان سے جدا ہوا جاؤ اور اپنوں میں سے دو صاحب عدل آدمی گواہ بنا لو اور شہادت اللہ کیلئے قائم کرو۔

اب یہاں غور فرمائیے ! یہ اس صورت میں حکم ہو رہا ہے جب طلاق رجعی ہے یعنی مر دکے پاس رجوع کا حق موجود ہے طلاق بائنہ کا بیان نہیں ہو رہا۔

جیسا کہ اللہ رب العزت نے فرما دیا کہ " تو نہیں جانتا شاید اللہ اس کے بعد کوئی نئی بات پیدا کردے ۔"

اور آپ نے اپنے ترجمہ میں بریکٹس کے اندر مفہوم واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ شاید اللہ رب العزت رجوع کی کوئی صورت پیدا کردیں ۔

اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ طلاق رجعی کی صورت میں حکم ہے ۔

اچھا اب اگلی آیت ملاحظہ کریں تو معاملہ مزید صاف ہو جاتا ہے کہ " جب ان کی عدت مکمل ہونے لگے تو یا اچھے طریقے سے روک لو یا جد اکر لو ، اب اگر طلاق بائنہ ہو ( فی الحال ہم اس بحث میں نہیں داخل ہوتے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں طلاق رجعی ہو گی یا طلاق بائن ) اچھے طریقے سے روک لینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

اب آپ نے اگلی دلیل یہ دی کہ :

أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ ۚ

انھیں وہاں ٹھہراؤ جہاں تم رہتے ہو اپنی طاقت کے مطابق ، اور انھیں اس لئے تکلیف نہ دو کہ ان پر تنگی کرو۔

اب ان آیات پر غور کیجئے !

پہلی ذکر کردہ دو آیات میں اللہ نے فرمایا کہ طلاق دینے کے بعد عدت شمار کرو نہ تم انھیں اپنے گھروں سے نکالو اور نہ ہی وہ اپنے گھروں سے نکلیں آخر میں حکمت بیان فرمادی کہ شاید اللہ تعالیٰ رجوع یا صلح کی کوئی صورت پیدا فرما دیں ۔ اگلی آیت میں فرمایا کہ جب عدت کا وقت گزر جائے تویا اچھے طریقے سے روک رکھو یا جدا ہو جاؤ

درمیان کی کچھ آیات میں اللہ نے وعظ و نصیحت کی اور پھر فرمایا کہ انھیں وہاں ٹھہرانا ہے جہاں تم رہائش پذیر ہو۔

اب دیکھئے !

· اگر اللہ رب العزت نے ہمیشہ کیلئے اس کی رہائش اس کے سابق خاوند کی ذمہ داری بنائی ہوتی تو کیا یہ حکم ہوتا کہ انھیں وہاں ٹھہراؤ جہاں تم رہتے ہو؟ بلکہ حکم یہ ہوتا کہ ان کیلئے الگ سے رہائش کا بندوبست کرو۔

· اگر ہمیشہ کیلئے رہائش سابق خاوند کی ذمہ داری ہوتی تو یہاں محض طلاق رجعی والی صورت کا ذکر کیوں؟ طلاق بائن کا ذکر ہی نہیں ۔

· کیا کسی کی عقل یہ بات تسلیم کرتی ہے کہ اللہ رب العزت ایک ہی گھر میں عورت اور اس کے سابق خاوند کو رہنے کا حکم دے رہے ہیں جبکہ وہ دونوں ایک دوسرے کیلئے نامحرم ہو چکے ہیں ؟

· اور کیا اس کا سابق خاوند اگر آگے شادی کرے گا اور اس کے پاس ایک ہی گھر ہے تو اس کی سابق بیوی بھی یہاں رہائش پذیر ہے اس سے خاندان بچےگا یا مزیددو خاندان تباہ ہوں گے ۔

· اگر آپ کے اس دعویٰ کو تسلیم کیا جائے تو یہاں اللہ رب العزت تو عورت کو بھی حکم دے رہے ہیں کہ وہ خاوند کے گھر سے باہر نہ نکلے تو ایسا ظالمانہ قانون کسی کی عقل تسلیم کرتی ہے کہ اللہ رب العزت نے بنایا ہے ؟

· اگر آپ کے اس دعوی کو تسلیم کیا جائے کہ رہائش اور نفقہ ہمیشہ کیلئے سابق خاوند کی ذمہ داری ہےاور ساتھ ہی آگے آپ یہ بھی فرما رہے ہیں



· تو اس صورت میں رہائش و نفقہ کی ذمہ داری کس دلیل کی رو سے ساقط ہو جاتی ہے ؟

اب آپ کے دعویٰ کے دوسرے جزو کو دیکھئے !

کیامطلقہ عورت کا نفقہ ہمیشہ کیلئے سابق خاوند کے ذمہ ہے ۔

آپ نے دلیل میں آیات پیش کیں کہ :

أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ ۚ وَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّىٰ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۖ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُم بِمَعْرُوفٍ ۖ وَإِن تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَىٰ ﴿٦﴾ لِيُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِهِ ۖ وَمَن قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّ۔هُ ۚ لَا يُكَلِّفُ اللَّ۔هُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا ۚ سَيَجْعَلُ اللَّ۔هُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا ﴿٧

انھیں وہاں ٹھہراؤ جہاں تم رہتے ہو، اپنی طاقت کے مطابق اور انھیں اس لئے تکلیف نہ دو کہ ان پر تنگی کرو اور اگر وہ حمل والی ہوں تو ان پر خرچ کرو ، یہاں تک کہ وہ اپنا حمل وضع کر لیں ، پھر اگر وہ تمہارے لئے دودھ پلائیں تو انھیں ان کی اجرتیں دو اور آپس میں اچھے طریقے سے مشورہ کرو اور اگر تم آپس میں تنگی کرو تو عنقریب اسے کوئی اور عورت دودھ پلادے گی

وسعت والے کو چاہئے کہ اپنی وسعت میں سے خرچ کرے اور جس پر اس کا رزق تنگ کیا گیا ہو تو وہ اس میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے ۔ اللہ کسی شخص کو تکلیف نہیں دیتا مگر اسی کی جو اس نے اسے دیا ہے ، عنقریب اللہ تنگی کے بعد آسانی پیدا کردے گا۔

اب ان دونون آیات کو جو اسی ترتیب سے اللہ نے قرآن میں ذکر کیں اور آپ نے انھیں الگ الگ ذکر کرکے اپنی مرضی کو مفہوم زبردستی کشید کرنے کی کوشش کی بغور جائزہ لیجئے !

اللہ نے فرمایا:اگر وہ حمل والی ہوں تو ان پر خرچ کرو یہاں تک کہ وہ اپنا حمل وضع کر لیں ۔

اگر وہ تمہارے لئے دودھ پلائیں تو انھیں ان کی اجرتیں دو۔

اب کتنا خرچ کرنا ہے کتنی اجرت ہے وہ ایک خاص مقدار مقرر نہیں فرمائی بلکہ فرما دیا کہ وسعت والا اپنی وسعت کے مطابق اور تنگی والا اپنی گنجائش کے مطابق خرچ کرے ۔
غور فرمائیں جملہ شرطیہ ہے کہ اگر ایسا ہو تب تمہاری یہ ذمہ داری ہے اگر تمہارے بچوں کو دودھ پلائیں تب تم نے یہ کرنا ہے ۔
یہاں یہ کہاں ذکر ہے کہ کسی شخص کی مطلقہ بیوی کا نفقہ ہمیشہ کیلئے اس کی ذمہ داری ہے ؟

باقی ہر بات میں ملا کو مطعون کرنے سے ہمیں اسی محفل کے ہی ایک رکن حسیب احمد حسیب بھائی کی ایک تحریر "مولویریا کے مریض"یاد آ جاتی ہے



بھئی !ہمیں مولوی کی بے جا حمایت کا قطعی کوئی شوق نہیں اگر مولوی کسی جرم میں ملوث ہے تو آپ مدلل اسے واضح کیجئے ہم آپ سے زیادہ اس کی مخالفت کریں گے البتہ اندھا دھند تعصب سے گریز کیجئے ۔
کاف سین آیا ہی چاہتے ہیں مضحکہ خیز کی ریٹنگ دینے۔ انتظار فرمائیے۔
 
پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کی املا میں کافی غلطیاں ہوتی ہیں وہ تو شاید اتنا بڑا مسئلہ نہیں ، لیکن ایک گزارش ہے کہ قرآن کریم کی آیات کو کاپی پیسٹ کرتے وقت کچھ خیال رکھا کریں کہ ان میں غلطی نہ باقی نہ رہے جیسا کہ آپ اپنے مراسلے میں دیکھ سکتے ہیں :

برادر محترم
1۔ میں اپنی ذاتی املاء کی تدوین کرتا رہتا ہوں۔ اگر کہیں مغالطہ ہو تو پوچھ لیجئے ۔
2۔ قرآن کریم کی آیات کے ساتھ سورۃ اور آیت نمبر بھی درج کرتا ہوں۔ قرآں حکیم کا متن Tanzeel اور openburhan - The Quran Browser سے کاپی اور پیسٹ کیا جاتا ہے۔ اگر متن میں کوئی خرابی ہے تو آپ ان دونوں کو لکھ سکتے ہیں ۔ آپ کو اس کاپی پیسٹ میں جو نقائص نظر آرہے ہیں۔ وہ اس نستعلیق فونٹ کے لگیچر کی خرابیوں کی وجہ سے ہے جو آپ استعمال کررہے ہیں ۔
3۔ تراجم، میں اپنے استعمال نہیں کرتا، نا ہی ان کو تبدیل کرتا ہوں کہ بریکٹ میں کچھ اضافہ کردوں۔ آپ اپنی مرضی کے تراجم دیکھ کر اپنی سوچوں کا ارتقاء فرما سکتے ہیں

والسلام
 

ربیع م

محفلین
آپ کو اس کاپی پیسٹ میں جو نقائص نظر آرہے ہیں۔ وہ اس نستعلیق فونٹ کے لگیچر کی خرابیوں کی وجہ سے ہے جو آپ استعمال کررہے ہیں ۔
جناب عالی :
میں نے اقتباس میں کچھ غلطیاں واضح کی تھیں یہ فونٹ کی غلطیاں نہیں ہیں جیسا کہ آپ دیکھیں
یا ایھا النبی کے شروع میں ی نہیں
اسکنوھن کے شروع میں الف نہیں
لینفق کے شروع میں ل نہیں
 
Top