تصحیح کے لئے شکریہراجہ صاحب یہ جگر مراد آبادی کی غزل شعر ہے اور دوسرے مصرعے میں ڈوب کر کی بجائے ڈوب کےجانا ہے۔
مطلع ہے :
اک لفظ محبت کا اتنا سا فسانہ ہے
سمٹے تو دلِ عاشق ، پھیلے تو زمانہ ہے
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -
یہ کس کا تصور ہے یہ کس کا فسانہ ہے
جو اشک ہے آنکھوں میں تسبیح کا دانہ ہے
(جگر مراد آبادی)
اے تیز ہوا میرا دھواں دیکھ کے جانادیارِ خواب کی گلیوں کا جو بھی نقشہ ہو
مکینِ شہر نہ بدلیں نظر دعا کرنا
(اعتبار ساجد)