وہ اپنے اّپ سے بہھی جدا چاہیے ہمیںیہ دنیا کوئی نئی بسا اے میرے مالک
ہر چیز عطا کر وہی بس دل نہ عطا دو
یہ کوچے یہ نیلام گہردل کشی کےیہاں سے اب کہیں لے چل خیالِ یار مجھے
چمن میں راس نہ آئے گی یہ بہار مجھے
تیری لطیف نگاہوں کی خاص جنبش نے
بنا دیا تیری فطرت کا رازدار مجھے
یہ کوچے یہ نیلام گہردل کشی کے
یہ لٹتے ہوے کارواں زندگی کے
کہاں ہیں کہاں ہیں محافظ خودی کے
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں
ساحر لدھیانوی
نین گویا ، تہی مہر ہونٹوں پریہ سُخن جو ہم نے رقم کیے، یہ ہیں سب ورق تیری یاد کے
کوئی لمحہ صبحَ وصال کا، کئی شام ہجر کی مُدتیں