میں جہاں بھی دیکھ رہی ہوں وہاں لکھا ہے
اس دشت میں اک شہر تھا
آپ کہہ رہے ہیں
اس شہر میں اک شخص تھا۔۔۔
محسن نقوی کا کلام ہے۔ پوری غزل حاضر ہے
یہ دِل یہ پاگل دِل میرا کیوں بجھ گیا آوارگی
اِس دشت میں اِک شہر تھا وہ کیا ہُوا آوارگی
کل شب مجھے بے شکل کی آواز نے چونکا دیا
میں نے کہا تُو کون ہے اُس نے کہا ’آوارگی
لوگو بھلا اُس شہر میں کیسے جئیں گے ہم جہاں
ہو جرم تنہا سوچنا لیکن سزا آوارگی
یہ درد کی تنہائیاں یہ دشت کا ویراں سفر
ہم لوگ تو اُکتا گئے اپنی سُنا آوارگی
اِک اجنبی جھونکے نے جب پوچھا میرے غم کا سبب
صحرا کی بھیگی ریت پر مَیں نے لکھا آوارگی
اُس سمت وحشی خواہشوں کی زد میں پیمانِ وفا
اِس سمت لہروں کی دھمک کچا گھڑا آوارگی
کل رات تنہا چاند کو دیکھا تھا مَیں نے خواب میں
محسنؔ مجھے راس آئے گی شاید سدا آوارگی