عطاء اللہ جیلانی
محفلین
رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیااجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر
حالات کی قبروں کے کتبے بھی پڑھا کر
وہ کیوں گیا ہے یہ بھی بتا کر نہیں گیا
وہ یوں گیا کہ بادِ صبا یاد آگئی
احساس تک بھی ہم کو دلا کر نہیں گیا
رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیااجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر
حالات کی قبروں کے کتبے بھی پڑھا کر
رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا
وہ کیوں گیا ہے یہ بھی بتا کر نہیں گیا
وہ یوں گیا کہ بادِ صبا یاد آگئی
احساس تک بھی ہم کو دلا کر نہیں گیا
نیت شوق بھر نہ جائے کہیںاب تیری ضرورت بھی بہت کم ہے میری جاں
اب شوق کا کچھ اور ہی عالم ہے میری جاں
نیت شوق بھر نہ جائے کہیں
تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں
آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں
ناصرؔ
حبیب جالباب تیری ضرورت بھی بہت کم ہے میری جاں
اب شوق کا کچھ اور ہی عالم ہے میری جاں
یہ اور بات تیری گلی میں نہ آئیں ہمنہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی
بڑی آرذو تھی ملاقات کی
بشیر بدر
اوہ ٹائپ کرنے میں غلطی ہوئی ہے ۔یہ عرفان ستار کا شعر ہے۔ دوسرے مصرعے میں "حالات" نہیں "حالت" ہے۔
نہیں نہیں میں بہت خوش رہا ہوں تیرے بغیر
یقین کر کہ یہ حالت ابھی ابھی ہوئی ہے
بہت خوب اشعار ہیں۔ اگر صاحب کلام کا نام بھی شامل کر دیاکریں تو مزہ دوبالا ہو جائے۔یہ کیسا شہر ہے جس میں مکمل گھر نہیں ملتا
کسی کو چھت نہیں ملتی کسی کو در نہیں ملتا
اٹھا رکھے ہیں اپنے نا مکمل جسم لوگوں نے
کسی کے پاوں غائب ہیں کسی کا سر نہیں ملتا
دراصل بعض اشعار گمنام شعرا کے ہوتے ہیں اور بہت بہترین ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے ان اشعار کے شعراء کے نام معلوم نہیں ہوتے۔یہ کیسا شہر ہے جس میں مکمل گھر نہیں ملتا
کسی کو چھت نہیں ملتی کسی کو در نہیں ملتا
اٹھا رکھے ہیں اپنے نا مکمل جسم لوگوں نے
کسی کے پاوں غائب ہیں کسی کا سر نہیں ملتا
امید تو بندھ جاتی، تسکین تو ہو جاتیاندھیارے سے ایک کرن نے جھانک کے دیکھا شرمائی
دھندلی چھب تو یاد رہی کیسا تھا چہرہ بھول گیا
(میرا جی)
امامہ جی دوسرے مصرعے میں ٹائپو کی غلطی ہے۔امید تو بندھ جاتی، تسکین تو ہو جاتی
وعدہ وفا نہ کرتے وعدہ تو کیا ہوتا
چراغ حسن حسرت