نظر سے دل میں سمانے والے، مری محبت ترے لئے ہے
وفا کی دنیا میں آنے والے، وفا کی دولت ترے لئے ہے
کھڑا ہوں میں ترے راستے میں، جواں امیدوں کے پھول لے کر
مہکتی زلفوں، بہکتی نظروں کی گرم جنت ترے لئے ہے۔
نظر نظر سے ملا کر شراب پیتے ہیں
ہم ان کو پاس بیٹھا کر شراب پیتے ہیں
اسی لیے تو اندھیرا ہے میکدے میں بہت
یہاں گھروں کو جلا کر شراب پیتے ہیں
(تسنیم فاروقی)
ناحق تہمت ہے رقیبوں پہ دشمنی کی ۔۔۔۔۔۔
اپنوں ہی کے ہاتھ میں ہیں پتھر تو دیکھیئے
جو مل رہے ہیں بہت تپاک کے ساتھ ۔۔۔۔۔
اُنہی کے آستین میں چھپا ہے خنجر تو دیکھیئے۔