دونوں سے میں کسی مذہب کا پیروکار نہیں پر کسی کا دشمن بھی نہیں میرے لیے مذہب کوئی حیثیت نہیں رکھتا پر میں دوسروں کے مذاہب کا احترام کرتا ہوں ۔
معاف کیجیئے گا، آپ اپنی ذات پہ کلی اختیار رکھتے ہیں پسند نا پسند کا۔
 
کیا آپ نہیں سمجھتے کہ ہمارے مذہب کو ایک اور لحاظ سے بھی بالکل الگ کر دیا گیا ہے کہ اس میں نئی ایجاد یا ٹیکنالوجی شروع میں حرام، شیطان کے آلات اور پھر 8 ، 10 سال بعد بلحاظِ ضرورت، مجبوری اور پھر حلال ہو جاتی ہیں۔ کسی بھی نئی ایجاد یا ٹیکنالوجی کو باقی دنیا کے ساتھ مل کر جب پرکھنے اور سمجھنے کا دور ہوتا ہے وہ ہم سے محض مولوی کی منظوری نہ ہونے کی وجہ سے دور ہوتی ہے، اور جب پرکھنے کے بعد اور اس کی افادیت کھل کر سامنے آنے کے بعد زمانہ اس میں مہارت حاصل کرنے لگتاہے تو ہمارے ہاں کچھ مولوی ہی چھپ چھپ کر وہ شیطانی چرخے استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ اور پھر ان کے عادی ہونے کے بعد امرِ مجبوری کے تحت اس کے استعمال کا سرٹیفیکیٹ ملتا ہے۔
میں نے کچھ اجتہاد اجتہاد پڑھا تھاکبھی، مجھے کوئی بتا سکتا ہے کہ کون سی نئی اختراع ، فن، ٹیکنالوجی، ایجاد یا مسئلہ پر اس اہم فریضہ سے استفادہ کیا گیا؟

عسکری ، قیصرانی ، نایاب عثمان، نبیل شمشاد بھائی آپ حضرات سے بھی رائے کی درخواست ہے۔
یہاں یہ بات سمجھنے کے قابل ہے کہ مولوی کو مذہب میں کتنا اختیار حاصل ہے؟ کیا مذہب اس کے گھر کا کندن ہے کہ جب چاہا بجھا ڈالا اور جب چاہا سلگا ڈالا۔ میرے بھائی مولوی مذہب کی تشریح قرآن و سنت کی روشنی میں اور اقوال صحابہ و تابعین کی روشنی میں اکابر کی سمجھ کی پیروی کرتے ہوئے کرتا ہے اور بس!! مولوی کے نفس و خواہش کو مذہب میں کوئی دخل نہیں ہوتا۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ علمائے سوء کی صف میں داخل ہو جاتے ہیں۔۔۔ رہ گیا مسئلہ اجتہاد کا تو جناب یہ کوئی برفی تھوڑی ہے کہ جو چاہے ایک نئے اجتہاد کی دکان کھول کر بیٹھ جائے اور من چاہے ذائقے بناتا جائے ۔۔۔ مختصر عرض کرتا ہوں ۔ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اجتہاد کرنے کے لیے پندرہ علوم پر مہارت تامہ حاصل ہونا ضروری ہے۔ جن میں عربی زبان اور اسکی بلاغت کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔۔ اردو تراجم پڑھ لینے سے اجتہاد کی دکان نہیں کھولی جا سکتی۔۔۔۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسا کوئی کوچوان ایٹم کے موضوع پر دو چار اردو آرٹیکل پڑھ کر یہ دعوی کر دے کہ وہ ایٹم بنانے کی انجینئرنگ کا ماہر ہے۔ اب وہ من چاہا ایٹم ڈیزائن کر سکتا ہے۔۔ فیا سبحان اللہ ! اللہ میرے مسلم بھائیوں کو صراط مستقیم پر گامزن فرما۔
 
ہم نے تو مذہب سے ہاتھ دھو لیے ہم سے کیسی رائے یار :grin: ہمارا نعرہ تو وہی ہے دین ملا فی سبیل اللہ فساد :mrgreen: اور اجتہاد کے دروازے بند کر کے ہی مسلمانوں کا یہ حال ہوا ہے اب صرف اماموں کو مانا جا سکتا ہے تقلید کے طور پر اجتہاد کا دروازہ بند ہے ۔ حنفی شافعی حنبلی مالکی ایک راستا چن لیں
جناب عسکری صاحب! آپ پر لازم ہے کہ آپ اپنے نظریات کی نظر ثانی کریں
 
کیا آپ نہیں سمجھتے کہ ہمارے مذہب کو ایک اور لحاظ سے بھی بالکل الگ کر دیا گیا ہے کہ اس میں نئی ایجاد یا ٹیکنالوجی شروع میں حرام، شیطان کے آلات اور پھر 8 ، 10 سال بعد بلحاظِ ضرورت، مجبوری اور پھر حلال ہو جاتی ہیں۔ کسی بھی نئی ایجاد یا ٹیکنالوجی کو باقی دنیا کے ساتھ مل کر جب پرکھنے اور سمجھنے کا دور ہوتا ہے وہ ہم سے محض مولوی کی منظوری نہ ہونے کی وجہ سے دور ہوتی ہے، اور جب پرکھنے کے بعد اور اس کی افادیت کھل کر سامنے آنے کے بعد زمانہ اس میں مہارت حاصل کرنے لگتاہے تو ہمارے ہاں کچھ مولوی ہی چھپ چھپ کر وہ شیطانی چرخے استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ اور پھر ان کے عادی ہونے کے بعد امرِ مجبوری کے تحت اس کے استعمال کا سرٹیفیکیٹ ملتا ہے۔
میں نے کچھ اجتہاد اجتہاد پڑھا تھاکبھی، مجھے کوئی بتا سکتا ہے کہ کون سی نئی اختراع ، فن، ٹیکنالوجی، ایجاد یا مسئلہ پر اس اہم فریضہ سے استفادہ کیا گیا؟

عسکری ، قیصرانی ، نایاب عثمان، نبیل شمشاد بھائی آپ حضرات سے بھی رائے کی درخواست ہے۔
شاید آپ کو مستند علماء کی زیر نگرانی مذہبی لٹریچر پڑھنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔
 

عثمان

محفلین
کیا آپ نہیں سمجھتے کہ ہمارے مذہب کو ایک اور لحاظ سے بھی بالکل الگ کر دیا گیا ہے کہ اس میں نئی ایجاد یا ٹیکنالوجی شروع میں حرام، شیطان کے آلات اور پھر 8 ، 10 سال بعد بلحاظِ ضرورت، مجبوری اور پھر حلال ہو جاتی ہیں۔ کسی بھی نئی ایجاد یا ٹیکنالوجی کو باقی دنیا کے ساتھ مل کر جب پرکھنے اور سمجھنے کا دور ہوتا ہے وہ ہم سے محض مولوی کی منظوری نہ ہونے کی وجہ سے دور ہوتی ہے، اور جب پرکھنے کے بعد اور اس کی افادیت کھل کر سامنے آنے کے بعد زمانہ اس میں مہارت حاصل کرنے لگتاہے تو ہمارے ہاں کچھ مولوی ہی چھپ چھپ کر وہ شیطانی چرخے استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ اور پھر ان کے عادی ہونے کے بعد امرِ مجبوری کے تحت اس کے استعمال کا سرٹیفیکیٹ ملتا ہے۔
میں نے کچھ اجتہاد اجتہاد پڑھا تھاکبھی، مجھے کوئی بتا سکتا ہے کہ کون سی نئی اختراع ، فن، ٹیکنالوجی، ایجاد یا مسئلہ پر اس اہم فریضہ سے استفادہ کیا گیا؟

عسکری ، قیصرانی ، نایاب عثمان، نبیل شمشاد بھائی آپ حضرات سے بھی رائے کی درخواست ہے۔
برادرم ، مذہبی ابحاث سے میں کنارہ کشی کر چکا ہوں۔ :)
مذہبی دھاگوں کو رونق بخشنے والے مہمان بن بلائے آتے ہیں۔ بلکہ کچھ تو آ بھی چکے۔ :)
 
یہاں یہ بات سمجھنے کے قابل ہے کہ مولوی کو مذہب میں کتنا اختیار حاصل ہے؟ کیا مذہب اس کے گھر کا کندن ہے کہ جب چاہا بجھا ڈالا اور جب چاہا سلگا ڈالا۔ میرے بھائی مولوی مذہب کی تشریح قرآن و سنت کی روشنی میں اور اقوال صحابہ و تابعین کی روشنی میں اکابر کی سمجھ کی پیروی کرتے ہوئے کرتا ہے اور بس!! مولوی کے نفس و خواہش کو مذہب میں کوئی دخل نہیں ہوتا۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ علمائے سوء کی صف میں داخل ہو جاتے ہیں۔۔۔ رہ گیا مسئلہ اجتہاد کا تو جناب یہ کوئی برفی تھوڑی ہے کہ جو چاہے ایک نئے اجتہاد کی دکان کھول کر بیٹھ جائے اور من چاہے ذائقے بناتا جائے ۔۔۔ مختصر عرض کرتا ہوں ۔ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اجتہاد کرنے کے لیے پندرہ علوم پر مہارت تامہ حاصل ہونا ضروری ہے۔ جن میں عربی زبان اور اسکی بلاغت کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔۔ اردو تراجم پڑھ لینے سے اجتہاد کی دکان نہیں کھولی جا سکتی۔۔۔ ۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسا کوئی کوچوان ایٹم کے موضوع پر دو چار اردو آرٹیکل پڑھ کر یہ دعوی کر دے کہ وہ ایٹم بنانے کی انجینئرنگ کا ماہر ہے۔ اب وہ من چاہا ایٹم ڈیزائن کر سکتا ہے۔۔ فیا سبحان اللہ ! اللہ میرے مسلم بھائیوں کو صراط مستقیم پر گامزن فرما۔
آ بجا کہتے ہیں پر یہ تو بتائیں پوری امت میں پچھلی دو اتنی صدیوں سے جب سے حالیہ ایجادات کا سلسلہ شروع ہوا ہے ایسے عالم ہی نہیں پیدا ہوئے جو ان 15 علوم پر دسترس رکھتے ہوں، اور وہ ملت کو کوئی ایک متفقہ راہ سجھا سکیں ایسے تمام نئے اٹھنے والے معاملات پر۔ پر کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اسلامی تمدن اور ترقی صرف اتفاقیہ تھی کہ پہاڑوں سے اترے تاتاریوں کی ایک یلغار کہ بعد دوبارہ جم نہیں پائی اور پھر کسی کو تدریس اور تحقیق کی ہمت نہ ہو سکی۔

میں سمجھتا ہوں مسجد جب ہر مسلمان کی زندگی کا حصہ تھی اور زندگی کے تمام معاملات مساجد میں طے ہوتے تھے، طب، فلکیات، ریاضیات اور سائنس کا ہر شعبہ مسلمانوں کی میراث تھا، لوگ مخلص تھے مساجد میں زندگی اور سلطنت کے معاملات طے کرنے میں کسی حد تک خدا کا خوف رکھتے تھے کہ خانہ خدا ہے، پر جب سے مسجد صرف مولوی کی میراث ہوئی، مولوی کی مذہب پہ گرفت تو مضبوط ہوئی پر ایک عام مسلمان کی زندگی سے دین جاتا رہا۔ آج کےمولوی کا دسترخوان سجتا ہی تفرقے کی دین سے ہے۔ آج مولوی ایک نیا تنازع تو کھڑا کر سکتا ہے پھر کوئی راہ نہیں سجھا سکتا۔

ہمارے اندر سے محقق نکلنا کیوں بند ہو گئے، ہماری درسگاہوں کو صرف فقہ کا زنگ کیوں لگ گیا کیا سائنس، طب، فلکیات، ریاضیات اور باقی علوم زندگی کا حصہ نہیں اور اگر ہیں تو اسلام میں اب ان کی گنجائش کیوں نہیں رہی۔ صرف ایک چوائس چھوڑی ہے مسلمانوں کے لیئے ملا نے یا تو مذہب یا زندگی، پھر بدھ مذہب کافی نہیں انسانوں کے لیئے ؟ اگر اتنی ہی دنیا سے کنارہ کشی کا کہا گیا ہے۔

کسی معاملے میں مولوی اتفاق کرتے ہیں کوئی ایک ہو تو بتا دیں۔ زندگی کا وہ کون سا مسئلہ ہے جس کا حل ایک عام مسلمان کو کسی کی تشریح کے بغیر کوئی ایک حل مل جائے۔ ایک پردہ ہی لے لیں آپ مجھے تو یہ ہی نہیں سمجھ آ رہی کہ کس کی مانوں اور کس کی نہ مانوں، کچھ کہتے ہیں فلاں صحابی کے دور سے پردے کا حکم ہوا، کچھ کہتے ہیں اتنا پردہ ہے کچھ کہتے ہیں اتنا پردہ ہے آخر ایک عام مسلمان کے لیئے کیا چھوڑا ہے آپ لوگوں نے۔

میرا دل کرتا ہے صف سے نکل کر منہ پر چانٹا ماروں مولوی کے جب وہ جماعت سے پہلے کہتا ہے کہ بچوں کو پچھلی صف میں بھیج دیں، یار جب بچے اگلی صفوں میں بڑوں کے ساتھ نہیں کھڑے ہوں گے تو نظم و ضبط وہ خاک سیکھیں گے، آخری صف میں تو نری شرارتیں اور اٹھکیلیاں ہوتی ہیں بچوں کی، کیوں کہ ایمان والے تو سارے اگلی صفوں میں ہوتے ہیں۔ جو مولوی اتنی عقل نہیں رکھتا وہ کیا خاک دین دے گا۔
 
پیارے بھائی! آپ معاملات کو خلط ملط کرنے کی وجہ سے الجھ رہے ہیں۔ اجتہاد ایک الگ مسئلہ ہے جب کہ عام مسلمان کا مذہب کو نہ ماننا الگ ہے۔ اجتہاد کے موضوع پر کسی دن تفصیل سے لکھوں گا۔ رہا بچوں کو پچھلی صف میں جانے کو کہنے کا مسئلہ تو یہ صفوں کی ترتیب بھی حدیث سے ثابت ہے۔ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ آپ کو کسی مستند عالم کی زیر نگرانی مطالعہ کرنا چاہیے۔
ایک بات یاد رکھیں : مذہب اور دین داری ماننے کانام ہے عقل کے مطابق ہونے کا نام نہیں
 

زین

لائبریرین
آپ نے نہایت اہم موضوع پر لکھا ہے ۔ آجکل بچوں کی تربیت اور اپنی بہنوں ، بیٹیوں کا تحفظ بہت مشکل ہوگیا ہے ۔ میں خود ان خطوط پر سوچتا رہتا ہوں کہ بڑے بھائی کی حیثیت سے اپنے چھوٹے بھائیوں کی تربیت کیسی جائے ۔
 
پیارے بھائی! آپ معاملات کو خلط ملط کرنے کی وجہ سے الجھ رہے ہیں۔ اجتہاد ایک الگ مسئلہ ہے جب کہ عام مسلمان کا مذہب کو نہ ماننا الگ ہے۔ اجتہاد کے موضوع پر کسی دن تفصیل سے لکھوں گا۔ رہا بچوں کو پچھلی صف میں جانے کو کہنے کا مسئلہ تو یہ صفوں کی ترتیب بھی حدیث سے ثابت ہے۔ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ آپ کو کسی مستند عالم کی زیر نگرانی مطالعہ کرنا چاہیے۔
ایک بات یاد رکھیں : مذہب اور دین داری ماننے کانام ہے عقل کے مطابق ہونے کا نام نہیں
بات تو انیمیشن اور بچوں کے لیئے لٹریچر سے شروع ہوئی تھی۔ آپ نے کہا غلط ہے، پھر میں نے عرض کی کہ ٹیکنالوجی کے استعمال پر اتفاق کے لیئے عائمہ کب بیٹھے۔ اور کب طے پایا کہ انیمیشنز وغیرہ غلط ہیں اور کس بنیاد پر۔
 
ایک بات یاد رکھیں : مذہب اور دین داری ماننے کانام ہے عقل کے مطابق ہونے کا نام نہیں

یعنی آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ عقل اور مذہب دو الگ الگ راستے ہیں۔ اور دلیل اور عقل کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ مذہب ایک اندھا یقین ہے بنا دلیل کے۔
 
آپ نے نہایت اہم موضوع پر لکھا ہے ۔ آجکل بچوں کی تربیت اور اپنی بہنوں ، بیٹیوں کا تحفظ بہت مشکل ہوگیا ہے ۔ میں خود ان خطوط پر سوچتا رہتا ہوں کہ بڑے بھائی کی حیثیت سے اپنے چھوٹے بھائیوں کی تربیت کیسی جائے ۔
پہلے فتویٰ لے لیں بھائی۔
 
آج فیس بک پر یہ ویڈیودیکھی تو آنکھوں میں آنسو آگئے۔
http://www.facebook.com/photo.php?v=542428999114351
عامر خان نے چند ماہ قبل اسٹار پلس پر دیگر سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ بچوں کے جنسی استحصال کے مسئلے پر بہت اچھا پروگرام کیا تھا ۔
بہت عمدہ بس میں بھی چاہتا ہوں کہ کچھ ایسا ہی کام کروں بچوں اور بڑوں کی آگاہی کے لیے۔
 
یعنی آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ عقل اور مذہب دو الگ الگ راستے ہیں۔ اور دلیل اور عقل کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ مذہب ایک اندھا یقین ہے بنا دلیل کے۔
ہرگز نہیں میری یہ مراد نہیں۔ آپ کے خیال میں صرف دو ہی راستے ہیں : یا یہ انتہاء یا وہ انتہاء۔ ہم سمجھتے ہیں ایک راستہ ان دو کے درمیان بھی ہے اور یہی درمیانی راستہ اعتدال کا راستہ ہے۔ یہ ہی تو خاصہ ہے اسلام کا کہ وہ عقل کے مقام کو تسلیم کرتا ہے لیکن بالکلیہ نہیں بلکہ ایک حد تک۔ اسی بات سے اسلام دیگر مذاہب عالم سے ممتاز ہوتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سارے کا سارا دین اور مذہب عقل کی پہنچ کے اندر نہیں ہے ، اگر ایسا ہوتا تو وحی کا باطل ہونا لازم آتا ہے جب کہ وحی ایک اٹل حقیقت ہے
 

زین

لائبریرین
اس حوالے سے مختلف ویب سائٹس سے معلومات اور شعور و آگاہی سے متعلق تحاریر ، تصاویر اور ویڈیوز وغیرہ وڈھونڈ کر شیئر کرنا چاہیے
 

نایاب

لائبریرین
محترم دوستو ۔۔ دھاگے کا عنوان ہے ۔ " بیٹیاں " اور مصنف نے اس عنوان کے تحت " بیٹی اور بہن " کی ایسی تربیت اور اعتماد بھری کردار سازی کے موضوع پر قلم اٹھاتے کچھ سوالات کو سامنے رکھا ۔ کہ کیسے اک باپ اور بھائی اپنے گھر میں موجود بہن بیٹی کی ایسی تربیت کرے جس سے وہ مکمل اعتماد کے ساتھ زندگی کی جنگ بنا کسی ڈر و خوف کے لڑ سکے ۔ بہن بیٹی ماں بیوی صنف نازک کی صف میں قرار دی گئی ہیں جو کہ " مرد " کو بحیثیت " بھائی باپ بیٹے اور شوہر " کے اک مان و اعتماد کے ساتھ اپنی حفاظت اور زندگی کی جنگ میں اپنا مددگار ہونے پر یقین رکھتی ہیں ۔
ان عورتوں کو کیوں اتنا کمزور اور بے وقوف سمجھا جاتا ہے ؟
کیوں یہ سر جھکائے اپنے پر ہوئی ہر زیادتی کو برداشت کر جاتی ہیں ۔؟
کیوں یہ استحصال کا نشانہ بنتی ہیں ؟
عورت " ماں بہن بیٹی یا بیوی " کیوں کسی غیر کی جانب متوجہ ہوتے اس کے قریب ہوتے اکثر فریب کھاتی ہے ۔ ؟
جب " باپ بھائی بیٹا یا شوہر " ان کے ساتھ صرف اک " رعب " کا ہی رشتہ رکھتے ان کے جذبات و احساسات سے بے خبر رہتے ان کے دکھ درد اور مسائل کی جانب اک بہترین دوست کی طرح توجہ نہ دے ۔ تو پھر یہ عورت کسی سے بھی دوستی کے نام پر باآسانی دھوکہ کھا جاتی ہے ۔ یہ دھوکہ جہاں عورت کو دکھ دیتا ہے ۔ وہیں اس کے دل کو یہ تسلی ہوتی ہے کہ کوئی تو ہے جو میری بات سنتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مذہب تہذیب سکھاتا ہے اور تہذیب " ماں کی گود " پہلا مدرسہ سکھاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top