بے پر کی

مچھر تو ہوں گے کہ بارشیں اتنی جاری ہیں کہ سنا ہے کہ ساؤتھ کیرولائنا اب ایک جھیل کا نام ہے۔
ہمارے یہاں بھی موسم خراب ہی ہے، کل ہمارے پروفیسر نے فیس بک پر اپنے اطراف کی ایک تصویر شریک کی تھی جس میں ایک کار باقاعدہ تیرتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ :) :) :)
 
کیاااا
آپ ان کو سو خون معاف کر رہے ہیں ۔۔ ابھی تو آپ کو معافی مانگنا چاہیے عالی جاہ اگر اپنی ڈانٹ والی بندوق لے آئیں تو دینے کے لینے پڑ جائیں گے :rollingonthefloor:
یہ معافی بعد الخطا ہے پتر، انھوں نے یہ سارے خون پہلے ہی کر لیے ہیں اس لیے ان کے کوٹے میں اب کچھ باقی نہیں بچا ہے۔ :) :) :)
 
اتنی جلدی کیسے سو پورے ہوگئے بس مجھے نہیں پتا آپ کے بعد ہی سو پورے ہونے چاہییں :rollingonthefloor:
ننھی پری، ہم تو ویسے بھی کسی شمار و قطار میں نہیں آتے، بقول بذرگاں:

کس نمی پرسد کہ بھیا کون ہو؟
ڈھائی ہو کہ تین ہو کہ پون ہو!

:) :) :)
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
ننھی پری، ہم تو ویسے بھی کسی شمار و قطار میں نہیں آتے، بقول بذرگاں:

کس نمی پرسد کہ بھیا کون ہو؟
ڈھائی ہو کہ تین ہو کہ پون ہو!

:) :) :)
بھیا (چونکہ یہ محاورہ میرا دریافت کردہ ہے) تو آپ مجھے اپنے بزرگ کہہ رہے ہیں پھر :rollingonthefloor:
اور یہ ویسے بھی بزرگوں نے صرف اور صرف میرے لیے کہا تھا۔
 
بھیا (چونکہ یہ محاورہ میرا دریافت کردہ ہے) تو آپ مجھے اپنے بزرگ کہہ رہے ہیں پھر :rollingonthefloor:
اور یہ ویسے بھی بزرگوں نے صرف اور صرف میرے لیے کہا تھا۔
حقیقت حال اینکہ یہ محاورہ بذرگوں نے ہمارے لیے ہی تیار کیا تھا اور اس کا پختہ ثبوت اس میں موجود لفظ "بھیا" ہے۔ وہ تو ہماری ازلی سستی اور کاہلی کہ ہم نے کبھی دریافت کرنے کی زحمت نہ اٹھائی سو وہ ہماری ننھی پری نے ہمارے لیے کر دی۔ :) :) :)
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
حقیقت حال اینکہ یہ محاورہ بذرگوں نے ہمارے لیے ہی تیار کیا تھا اور اس کا پختہ ثبوت اس میں موجود لفظ "بھیا" ہے۔ وہ تو ہماری ازلی سستی اور کاہلی کہ ہم نے کبھی دریافت کرنے کی زحمت نہ اٹھائی سو وہ ہماری ننھی پری نے ہمارے لیے کر دی۔ :) :) :)
وہ تو میں بزرگوں کا چھوٹا بھائی تھا اس لیے انہوں نے بھیا کہا تھا :rollingonthefloor:
 
نانا جی نانا جی آپ کو پتا ہے، اب ہمیں گاؤں کی زبان تھوڑی تھوڑی سمجھ میں آنے لگی ہے۔ اور پتا ہے، آج تو بہت مزہ آیا۔ ہم کھیتوں کی طرف گئے تھے، وہاں ہم نے ڈھیر ساری مٹر کی پھلیاں توڑیں اور آلو کی منڈیروں کو کرید کر بڑے بڑے تازہ آلو نکالے، کچھ سفید اور کچھ سرخ۔ آج شام کو الاؤ جلے گا تو اس کی راکھ میں بھون کر کھائیں گے۔ لیکن نانا جان ابھی ہمیں گاؤں کی زبان کا کوئی کوئی لفظ سمجھ میں نہیں آتا۔ آج پتا ہے کیا ہوا، ہم کھیتوں سے واپس آ رہے تھے تو راستے میں ایک کھیت میں چنے اگے ہوئےدیکھے۔ ہم نے یوں ہی اس میں سے دو پودے اکھاڑ لیے تو پاس ہی سے کسی عورت کی آواز آئی، وہ کہہ رہی تھیں۔۔۔ کیا کہہ رہی تھیں۔۔۔ کچھ پوت جیسا، ہاں دہی اور پوت۔۔۔ نہیں کچھ ایسا ہی تھا، لیکن ہمیں سمجھ میں نہیں آیا اور ہاں وہ غصے میں بھی تھیں۔ وہ نا بڑھیا نانی تھیں جن کا گھر پچھلی گلی میں بیر کے پیڑ کے پاس ہے۔ پھر انھوں نے ہمیں دیکھا تو کہنے لگیں، ارے بیٹا تم تو وہ پردھان بابو کے ناتی ہو جو شہر سے آئے ہو، کوئی بات نہیں لو یہ تھوڑے چنے اور کھا لو، تمہاری ماں جب یہاں ہوتی تھیں تو انھوں نے ہماری بڑی خدمت کی ہے۔ لیکن نانا جی، بتائیے نا وہ انھوں نے دہی اور پوت جیسا کیا بولا تھا؟ دہی تو ہمیں پتا ہے اور پوت بھی معلوم ہے، لیکن انھوں نے ایسا ہی کچھ اور کہا تھا۔

ہا ہا ہا ہا۔۔۔ انھوں نے "دہی جرک پوت" کہا ہوگا۔ یہ ایک طرح کی گالی ہے جو چھٹکی آجی نے غصے میں دی ہوگی۔

لیکن نانا جی اس کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ بتائیے نا پلیز۔۔۔ پلیز، پلیز، پلیز۔۔۔

ارے بیٹا اس کا مطلب ہوتا ہے بیوقوف کی اولاد۔

اچھا تو ہم اب سمجھے، گاؤں میں بیوقوف کو "جرک" کہتے ہیں۔ لیکن پھر اس میں دہی کا کیا کام؟

ہا ہا ہا ہا۔۔۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ یہ محاورے کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ اسے "دہی جلے کا پوت" ہونا چاہیے تھا، بلکہ "داڑھی جلے کا پوت"۔ بعد میں داڑھی کا لفظ بگڑ کر دہی ہو گیا اور "جلے کا" بدل کر "جرک"، تو یوں ہوا "دہی جرک پوت"۔

لیکن نانا جان، پھر بھی اس کا مطلب بیوقوف کیسے ہوا؟

بھئی اس کے پیچھے ایک قصہ ہے۔ کہتے ہیں کہ ایگ گاؤں میں ایک میاں صاحب رات میں چراغ جلائے کسی کتاب کا مطالعہ فرما رہے تھے۔ اچانک انھیں اس کتاب میں لکھا ہوا ملا کہ جن کی داڑھی ایک مشت سے زیادہ لمبی ہو وہ لوگ بیوقوف ہوتے ہیں۔ یوں ہی بے اختیار ان کا ہاتھ ان کی داڑھی پر چلا گیا اور انھوں نے اپنی داڑھی کو مٹھی میں جکڑ کر دیکھا تو پایا کہ مٹھی سے نیچے کوئی دو انچ لمبی بڑھی ہوئی تھی۔ میاں صاحب کو صدمہ ہو گیا کہ کہیں وہ اس بڑھی ہوئی داڑھی کے چلتے سچ مچ بیوقوف نہ قرار پائیں، لہٰذا انھوں نے اضافی داڑھی اسی وقت کاٹنے کا فیصلہ کیا۔ رات میں اندھیرے کی وجہ سے چراغ کی کم روشنی میں ڈھونڈنے پر ان کو قینچی نہیں مل سکی۔ لہٰذا انھوں سے سوچا کہ داڑھی تھوڑی سی ہی تو بڑھی ہے، اس کے لیے کون قینچی کا تکلف برتے، کیوں نہ چراغ کی لو سے اضافی داڑھی جلا دیں۔ بس پھر کیا تھا، انھوں نے داڑھی کو مٹھی میں جکڑے ہوئے اس اضافی داڑھی کو چراغ کی لو دکھا دی۔ داڑھی نے آگ پکڑی تو ہڑبڑاہٹ میں ان کی مٹھی بھی کھل گئی اور یوں آگ نے ان کی تمام داڑھی سمیت چہرہ بھی جھلسا دیا۔ یوں انھوں نے اپنے اس عمل سے ثابت کر دیا کہ جو خود اپنی داڑھی جلا بیٹھیں وہ بیوقوف ہی ہو سکتے ہیں۔ اور بس تبھی سے کسی کو بطور گالی بیوقوف کا بیٹا کہنا ہو تو "داڑھی جلے کا پوت" کہا جانے لگا جو بعد میں بگڑ کر "دہی جرک پوت" بن گیا۔

ہا ہا ہا ہا۔۔۔ نانا جی، آپ بھی اتنے مزے مزے کے قصے سناتے ہیں کہ پھر ہمارا شہر جانے کو دل نہیں کرتا اور وہاں ہوتے ہیں تو گاؤں آنے کے لیے دن گنتے رہتے ہیں۔

اچھا اب جائیے، دالان کے سامنے الاؤ جلا دیا گیا ہوگا، جا کر آلو بھون کر کھائیے، ہم بھی نماز پڑھ کر وہیں آتے ہیں۔ اور ہاں، کہیں الاؤ کی راکھ کریدتے ہوئے اپنے والد صاحب کی داڑھی نہ جلا دینا ورنہ چھٹکی آجی کی بات درست ہو جائے گی۔

ہا ہا ہا ہا۔۔۔

:) :) :)
 
Top