چلیے قصہ سناتے ہیں ہم آپ کو اپنی کام چوری کا۔۔ جی نہیں اس کے بعد ہمیں کام چور نہیں سمجھنا! ۔۔آئی سمجھی!
شاپنگ پر جانا ہمارے لیے کبھی دلچسپی کا باعث نہیں رہا لیکن بات جب اپنے لیے کچھ خریدنے کی ہو تو جانے میں کوئی حرج بھی نہیں
ہمیشہ کی طرح آج بھی شاپنگ سے لوٹے تو تھکن سے برا حال تھا ، گھر میں داخل ہوتے ہی اماں جان کو کہنا شروع کر دیا کہ اب ہم سوئیں گے۔
چھوٹی بہنوں کو اپنی لائی ہوئی چیزیں دکھائیں تو اس دوران امی بڑے بھیا سے بات کرنے ان کے کمرے میں چلی گئیں وہاں سے ان کی جو واپسی ہوئی کہ ہماری شامت آئی ۔۔
بولیں چار چھٹیاں تھیں تم لوگوں سے یہ نہیں ہو سکا کہ بڑے بھیا کا کمرہ صاف کر دو ، ذرا احساس نہیں ہے تم لوگوں کو ۔۔ ہم نے کہا بڑے بھیا خود یاد کروا دیتے ناں پر نہیں یہ بھی ہم ہی یاد کریں
، بہیترے اس دوران اپنے کیے ہوئے کام گنوائے لیکن اماں جان کوخوب غصہ آیا ہوا تھا سو شاپنگ کے دوران کھائی ہوئی چاٹ کے ساتھ ڈانٹ بھی کھا کر ہمیں تو بدہضمی کا ڈر ہونے لگا
۔۔ سچی بتائیں تو ہمیں بڑا ہی رونا آیا ۔ ۔
اماں جان اس دوران نیچے گئیں تو ہمیں پھر اپنی تھکان کا شدت سے احساس ہونے لگا سو بڑے بھیا کے کمرے کی صفائی کسی اور دن پر ڈال کر ہم اٹھے اور دوڑ کر اپنے بستر میں گھس گئے۔ زیادہ تھکن میں ہمیں نیند ذرا دیر سے ہی آیا کرتی ہے تو ابھی جاگ ہی رہے تھے کہ اماں جان کی آواز اپنے کمرے میں سنائی دی ہم چپکے سے لیٹے رہے
نانی اماں نے ہمارے بارے میں پوچھا تو اماں جان بولیں ڈانٹ کھا کر بھیا کے کمرے کی صفائی کرنے گئی ہوگی اب احساس ہوگیا ہوگا ناں۔۔۔افف ہم بستر میں ذرااور دبک گئے کہ کہیں اماں جان ہمارے بستر کی طرف نہ دیکھ لیں ورنہ تھوڑی اور عزت افزائی ہو جاتی
۔۔
اب کریں تو کیا کریں اوپر سے اماں جان کو ہمارے ہی کمرے میں نماز پڑھنی تھی
، ادھر اماں جان وضو کرنے واش روم میں گئیں اور ادھر ہم موقع غنیمت جان کر چپکے سے اٹھے، اپنے جوتے ہاتھوں میں پکڑے اوردبے پاؤں کمرے سے باہر دوڑ لگا دی ، دوسرے کمرے سے جا کر جھاڑو اٹھا یا اور اوپر بھیا کے کمرے کی صفائی کرنے بھاگ گئے
بھیا ہمیں دیکھ کر خوب ہنسے کیونکہ وہ پہلے ہماری عزت افزائی سن چکے تھے ۔ قصہ مختصر ہم نیچے تشریف لائے تو مٹی میں اٹے ہوئے لیکن سرخرو تھے کہ آخر اماں جان نے ہم جو سے امید کر رہی تھیں ہم نے وہی کیا
۔۔۔ اور اب یہ بے پر کی ہم اماں جان کو بالکل نہیں پڑھانے والے۔۔کیوں؟۔۔۔ بس ہماری مرضی!