جاسم محمد
محفلین
عمران خان نے زلفی بخاری کو اپنا معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانی مقرر کیا ہے۔ یہ تقرر آئینی لحاظ سے تو شاید درست ہو، لیکن اخلاقی طور پر یہ تقرری غیر مناسب ہے۔ زلفی بخاری کچھ عرصہ قبل منظرعام پر نمودار ہوا - عمران خان کے قریبی حلقہ احباب میں جگہ بنالی اور مشاورت میں شامل ہوگیا۔ جب پی ٹی آئی اقتدار سے باہر تھی تو اس وقت بھِی زلفی بخاری عمران خان کی فی سبیل اللہ معاونت کیا کرتا تھا، اب بھی ایسا کرلیتا ۔ ۔ ۔ کیا ضروری تھا کہ اسے وزیر کے مساوی عہدہ دے کر خزانے اور پروٹوکول پر بوجھ لادا جاتا؟وہ کیا کہتے ہیں آپ 'روایتی یوٹرن' وغیرہ وغیرہ
نعیم الحق بھی غالباً معاون خصوصی بن چکا، اگر یہ لوگ خود کو عمران خان کا دوست کہتے ہیں تو انہیں خود ہی ان عہدوں سے دستبردار ہوجانا چاہیئے تھا ۔ ۔ ۔
ایک بات ذہن نشین کرلیں کہ نوازشریف اور زرداری نے اپنی کرپشن کے بہت کم ثبوت پیچھے چھوڑے تھے، اگر پانامہ نہ آتا تو نوازشریف آج بھی اقتدار میں ہوتا ۔ ۔ ۔ نوازشریف اور زرداری کو اصل مار اس وقت پڑی جب وہ اخلاقی طور پر کمزور ہوگئے اور اپنے شاہانہ لائف سٹائل کو جسٹیفانی نہ کرسکے۔
عمران خان کو اپنی اخلاقی پوزیشن کا خیال رکھنا ہوگا کیونکہ یہ ایک ایسی ڈھلوان ہے کہ جب اس پر قدم پھسلنا شروع ہوجائے تو انسان کو سلائیڈ کے مزے تو بہت آتے ہیں لیکن جب ڈھلوان کا سفر ختم ہوتا ہے تو انسان پستی میں پہنچ چکا ہوتا ہے۔
زلفی بخاری اور نعیم الحق کے سرکاری عہدے ختم کرکے انہیں پرانی حدود دوستی میں واپس لانا ہی دانشمندی ہوگی!!! بقلم خود باباکوڈا