تخلیق یا ارتقاء

فرقان احمد

محفلین
جی ہاں نیوٹن کی تھیوریز کو آئن اسٹائن نے کچھ سو سالوں بعد ری پلیس کر دیا تھا۔ لیکن اس سے نیوٹن کے "وقار" میں کوئی کمی نہیں آئی۔ کیونکہ نیوٹن کی طبیعاتی تھیوریز نامکمل تھیں۔ غلط نہیں۔
ہم نے کب کہا کہ نیوٹن کے وقار میں کوئی کمی آئی ہو گی۔ ہم تو یہ کہیں گے کہ سائنس دانوں کی تھیوریز مسترد بھی ہو جائیں، غلط بھی ہو جائیں تب بھی ان کے عزت و احترام میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی ہے۔ ویسے ہماری دانست میں تھیوریز غلط بھی ہو سکتی ہیں اور یہ ایسی کوئی بڑی بات نہیں۔ اس حوالے سے یہ آرٹیکل ملاحظہ فرمائیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
آپ نے ایسی کیا نئی بات بتلا دی؟
نئی بات یہ تھی کہ خدائے ذات باری تعالیٰ کا وجود سائنس کا ڈومین نہیں ہے۔ چونکہ نظریہ ارتقا بکلی طور پر سائنسی نظریہ ہے۔ اس لئے اسے دین ایمان میں بے جا گھسیڑ کر کچھ بھی ثابت یا رد نہیں کیا جا سکتا۔
 

جاسم محمد

محفلین
ویسے ہماری دانست میں تھیوریز غلط بھی ہو سکتی ہیں اور یہ ایسی کوئی بڑی بات نہیں۔
ٹھیک ہے آپ دیگر رد شدہ تھیوریز کے متعلق ایسا کہہ سکتے ہیں۔ البتہ نظریہ ارتقا ایسی کوئی کمزور تھیوری نہیں ہے جسے با آسانی رد کیا جا سکے۔ کیونکہ پچھلے دو سو سال کے شواہد، تجربات اور تحقیقات اس کے حق میں ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
نئی بات یہ تھی کہ خدائے ذات باری تعالیٰ کا وجود سائنس کا ڈومین نہیں ہے۔ چونکہ نظریہ ارتقا بکلی طور پر سائنسی نظریہ ہے۔ اس لئے اسے دین ایمان میں بے جا گھسیڑ کر کچھ بھی ثابت یا رد نہیں کیا جا سکتا۔
ہم نے کسی کمنٹ کے جواب میں یہی موقف اختیار کیا تھا۔ تاہم، سیاق و سباق کے بغیر آپ نے ہمارے مراسلے کا اقتباس لے لیا۔ آپ تو خود مذہب کو درمیان میں لے آئے ہیں؛ اب اس کا کیا علاج؟
 

جاسم محمد

محفلین
آپ تو خود مذہب کو درمیان میں لے آئے ہیں؛ اب اس کا کیا علاج؟
اس کا علاج یہ ہے کہ سائنس کے سیکشن میں مذہبی توجیہات اور دلائل وغیرہ پیش نہ کئے جائیں۔ اور دھاگوں کو سائنسی طور طریقوں تک محدود رکھا جائے۔
 

فرقان احمد

محفلین
اس کا علاج یہ ہے کہ سائنس کے سیکشن میں مذہبی توجیہات اور دلائل وغیرہ پیش نہ کئے جائیں۔ اور سیکشن کو سائنسی طور طریقوں تک محدود رکھا جائے۔
اب آپ کے مراسلات میں سے مذہب کو کیسے نکالا جاوے؟ یہ بتلا دیجیے۔ آپ تو مذہب کے تذکرے کے بغیر کوئی مراسلہ کرنے کے بھی روادار معلوم نہیں ہوتے۔ :)
 

آصف اثر

معطل
ایک تو مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ سائنس کے سیکشن میں آپ بار بار مذہب کی اینٹری کیوں مار دیتے ہیں؟ نظریہ ارتقا متفقہ اور حتمی طور پرسائنسی نظریہ ہے۔ بہتر ہوگا کہ اس کا مذہب کے ساتھ یہاں تقابل نہ کریں۔ وگرنہ یہ بحث کہیں نہیں جائے گی۔
پہلی بات تو یہ ذہن میں رہے کہ ارتقا کا مفروضہ سائنس نہیں، ایک ریسرچ فیلڈ ہے۔
دوسرا نکتہ یہ کہ بحث کا ایک اُصول مدنظر رہے کہ جو سوال قطعی صرف ایک فرد تک محدود ہو، اس پر کسی اور کا کسی قسم کا اعتراض اُٹھانا غلط ہے۔ کسی بھی بحث کو شروع کرنے سے قبل کچھ وضاحتیں ضروری ہوتی ہے تاکہ بعد میں ابہام نہ ہو۔ وگرنہ ایک بات کئی کئی بار دُہرائی اور بار بار اُس کی وضاحتیں مانگیں اور پیش کرنا پڑتی ہے۔

آپ کے دوسرے مراسلے فرصت میں پڑھتا ہوں۔
 

آصف اثر

معطل
جی ہاں نیوٹن کی تھیوریز کو آئن اسٹائن نے کچھ سو سالوں بعد ری پلیس کر دیا تھا۔ لیکن اس سے نیوٹن کے "وقار" میں کوئی کمی نہیں آئی۔ کیونکہ نیوٹن کی طبیعاتی تھیوریز نامکمل تھیں۔ غلط نہیں۔
main-qimg-6760a9076e5132e5d6d693eea0e8f5dc
چلیں شکر ہے اس سے آپ نے کم از کم یہ تو تسلیم کرلیا کہ سائنس کی تھیوریوں کا دائرہ کار محدود ہوتا ہے، آفاقی نہیں۔
 

سعادت

تکنیکی معاون
سعادت سائنسی دلائل اور جوابات سے پہلے؛ آپ قرآن مجید کی آیات اور اُن احادیث مبارکہ کے متعلق کیا کہتے ہیں جن میں آدم علیہ السلام کا (بغیر ماں باپ کی) تخلیق کا ذکر ہے، نہ کہ بطورِ نوع من النوع ارتقا کا۔
یہی کہ اِن کی figurative یا non-literal تشریح ممکن ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
میرے خیال میں ایک بہت بنیادی نکتہ یہ بھی نظر انداز کیا جاتا ہے کہ سائنس انسان کی زندگی کے لیے مدد گار تو ہو سکتی ہے لیکن انسانی زندگی کے دوسرے اقدار سائنس کا سرے سے موضوع ہی نہیں اور نہ ہی انسان کے کامیاب یا ناکام ہونے کا فیصلہ کرسکتی نہ اس کی زندگی کا راستہ متعین کرتی ہے ہاں زندگی میں معاون البتہ ہوتی ہے ۔ ریڈیکل نوعیت کانظریاتی اختلاف اس وقت شروع ہوتا ہے جب ایک مخصوص طرز میں فکر سائنس کو ایک مذہب کی شکل دیئے جانے کی کوشش کی جاتی ہے یا اس کا دائرہ کار حد سے زیادہ بڑھایا جاتا ہے ۔ اسی لیے انسانی فکر نے ارتقاء کے تصور کو خدا کے تصور سے چھٹکارے کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی کیوں کہ خدا کا تصور ہی ہر مذہب کی بنیادوں میں کسی نہ کسی طرح کارفرما ہوتا ہے ۔ سائنسی مشاہدات کو اس سے پہلے اس مقصد کے لیے استعمال شاید نہیں کیا گیا کم از کم اتنے شد و مد کے ساتھ ۔
(اس فکر کے پیچھے شاید بشری نفس مدرکہ کے نہاں خانوں میں مذہب کی اس فطری ضرورت کا خوابیدہ احساس ہوتا ہے جو اس کی زندگی سے دوسرے اعلی تر پہلوؤں پر محیط ہو۔یا یہ اس کا ردعمل بھی ہو سکتا ہے۔)
اگر زندگی کے ہر شعبے میں اور ہر سطح پر سائنس سے ہی رہنمائی حاصل کی جائے تو انسان واقعی ایک بوزنہ بن جائے ۔ مثلا آپ کی بیگم کو کالا آئی فون بہت پسند ہے اور سفید آئی فون ناپسند ہے (ایسا عین ممکن ہے)۔ اور آپ اسے سفید آئی فون اس لیے تحفے میں دیتے ہیں کہ یہ گاڑی میں پڑا دھوپ میں زیادہ گرم نہ ہو جائے ۔ایسی صورت میں آپ واقعی ایک ارتقائی بوزنے ہوں گے۔ :) ۔ویسے تو سب انسا ں یکساں محترم ہیں لیکن اس مثال میں بیگم کے جگہ خاوند بھی رکھا جاسکتا ہے مگر شاید وہ لطف نہ ہوگا۔
اکبر نے کہا
کہا منصور نے خدا ہوں میں
ڈارون بولا بوزنہ ہوں میں
اور ہم نے کہا
فکر ہر کس بقدر ہمت اوست۔
سائنس کو سائنس ہی رہنے دیا جائے اور مذہب کو مذہب شاعری کو شاعری یہی انسان کا کمال ہے نہ کہ بوزنوں کا ۔
 

وجاہت حسین

محفلین
یہ موضوع ایسا ہے کہ اس پر کہنے کو بہت کچھ ہے۔ مگر اس پر بات کرنے اور سننے کے لئے کھلا ذہن چاہیے۔ اس ضمن میں چند نکات پیش کرتا ہوں۔
1۔ ’’ارتقاء یا تخلیق‘‘
سب سے پہلے تو اس عنوان میں ہی مسئلہ ہے۔ جو مسلمان نظریہِ ارتقاء کے قائل ہیں وہ اسے تخلیق ہی کی ایک صورت سمجھتے ہیں۔ یہ سمجھ سے باہر ہے کہ کس نے کہہ دیا کہ اگر ارتقاء کو مان لیا جائے تو تخلیق کا انکار لازم آتا ہے۔

2۔ ڈارون سے پہلے اسے ’’محمدن تھیوری آگ ایوولوشن‘‘ کہا جاتا تھا۔ الجاحز،ابنِ خلدون، رومی، ابو نعیم اصفہانی جیسے بڑے لوگ اس کے قائل رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اقبال بھی اس کے ماننے والوں کی فہرست میں نظر آتے ہیں۔ مسلمانوں نے کبھی یہ نہیں سمجھا تھا کہ یہ قرآن کے یا ان کے تصورِ تخلیق کے خلاف ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ تخلیق و ارتقاء میں تضاد کا تصور مسلمانوں میں عیسائیوں سے امپورٹ ہوا ہے۔

3۔ ۔ کم سے کم یہ نظریہ قرآن کے خلاف نہیں ہے۔ میں ایک زمانے تک اس چیز کا قائل رہا ہوں کہ یہ قرآن کے خلاف ہے۔ مگر اللہ کی توفیق سے مزید غور کرنے پر یہ بات واضح ہوئی کہ جو آیات اس نظریہ کی رد میں لائی جاتی ہیں، یا تو وہ اس نظریہ سے ٹکراتی ہی نہیں یا پھر وہ آیات اپنے اندر ایک مفہوم ارتقاء کا بھی رکھتی ہیں۔

4۔ ارتقاء ایک حقیقت ہے۔ ’’تھیوری آف ایولشن‘‘ اس حقیقت کی صرف ایک تفسیر ہے جو ممکن ہے صحیح ہو یا ممکن ہے غلط ہو۔ مگر اس سے فی نفسہ ارتقاء کی حقیقت کا انکار نہیں ہوتا۔
 
آخری تدوین:

وجاہت حسین

محفلین
قرآن کی تفسیر سے متعلق چند نکات پیش کرتا ہوں جو اس مسئلے کو سمجھنے میں معاون ثابت ہونگے۔

1۔ نبی کے سوا جب کوئی بھی انسان قرآن کی تفہیم کی کوشش کرتا ہے تو اس کا یہ عمل تفسیر ہی ہوتا ہے۔ چاہے یہ کام عام انسان کرے یا وقت کا سب سےبڑا عالم۔

2۔ ہمارا ذخیرہِ تفسیر اس بات کا شاہد ہےکہ قرآن کی ہر آیت صرف ایک مطلب نہیں رکھتی۔ ایک ہی آیت کے کئی معانی و مطالب انسان پر کھلتے ہیں۔ اس پر علماء کے دو اقوال ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ اللہ پاک نے اصل مراد کیا لی ہے۔ جبکہ ایک گروہ کہتا ہے کہ اللہ پاک نے اس کے وہ تمام معنی مراد لئے ہیں جو کہ ایک خاص آیتِ مبارکہ کے اہلِ زبان کے ہاں جائز ہیں۔کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ چاہتے تو واضح فرما دیتے۔ میں خود دوسرے گروہ کے نظریہ کا قائل ہوں۔

3۔ جب دو لوگ اپنے دلائل کو قرآن ہی سے لے کر آرہے ہوں جیسا کہ نظریہ ارتقاء کے قائل و منکر دونوں کرتے ہیں تو یہ جائز نہیں کہ کہا جائے کہ ان میں سے ایک قرآن کے خلاف ہے۔ یوں کہنا مناسب ہے کہ ’’یہ میری قرآن کی سمجھ کے خلاف ہے‘‘۔ اب بات اس پر ہونی چاہیے کہ آپ کی قرآن کی سمجھ ٹھیک ہا یا نہیں۔
 

وجاہت حسین

محفلین
ایک اور اہم نکتہ جو انشاء اللہ ایولوشن پر بات کرنے کے لئے میدان صاف کرے گا۔
اس کو بات سمجھ لیں کہ قرآن اپنی نیچر میں Static نہیں بلکہ Dynamic کتاب ہے۔ یہ زمان و مکان میں چودہ سو سال پہلے رک نہیں گئی۔ بلکہ وقت کے ساتھ ایک کرنٹ کی طرح چل رہی ہے۔ ہر دور میں اس کے نئے معانی ومطالب کھلتے ہیں۔ ہر نظر والا اس سے نئے اسرار کھولتا ہے۔

یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ایسا نہیں ہوتا کہ سائنس کوئی چیز آج دریافت کرتی ہے تو وہ قرآن میں پہلے سے موجود ہوتی ہے (جیسا کہ اکثر مسلمان کہتے ہیں اور دن رات راگ آلاپتے ہیں)۔ معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے۔ اس بات کو ایک مثال سے سمجھاتا ہوں۔ کئی ایک مسلمان مفکرین و مفسرین مانتے ہیں کہ قرآن میں Big Bang کا تصور موجود ہے۔ اس ضمن میں سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر تیس اور سورۃ الفلق کی پہلی آیت کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔
الفلق کی پہلے آیتِ مبارکہ کا ایک یہ معنی بھی علماء نے بیان کیا ہے۔
’’آپ عرض کیجئے کہ میں (ایک) دھماکے سے انتہائی تیزی کے ساتھ (کائنات کو) وجود میں لانے والے رب کی پناہ مانگتا ہوںo‘‘

سوال یہ ہے کہ 1925 میں جب ہبل نے یہ تھیوری پیش کی تو تھیوری پیش کرنے سے پہلے ہمیں یہ کیوں نظر نہیں آیا؟ ہماری بڑی سے بڑی تفسیر دیکھ لیں، دور دور تک یہ معنی ان لوگوں کے ہاں اس وقت نہیں پایا جاتا تھا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ پہلے سائنس دریافت کرتی ہے بعد میں ہمیں نظر آتا ہے۔ اس کا سادہ سا جواب ہے۔وہ یہ کہ انسانی علوم میں ترقی ہماری قرآن کی سمجھ کو متاثر کرتی ہے۔
اور کبھی تو اس حد تک متاثر کرتا ہے کہ ہمیں اپنے نظریات بدلنے پڑتے ہیں۔
ایک اور مثال پیش کرتا ہوں۔ امام سیوطیؒ اور دیگر کئی بڑے اکابر اس بات پر قرآن سے دلائل قائم چکے ہیں کہ زمین گول (یا انڈے کی صورت) نہیں۔ بلکہ یہ سیدھی ہے۔ اس پر سورۃ الغاشیہ کی آیتِ مبارکہ ’’اور زمین کو (نہیں دیکھتے) کہ وہ کس طرح بچھائی گئی ہےo‘‘ دلیل کی طور پر پیش کی جاتی تھی۔ مگر اب کوئی بھی اس کا قائل نہیں ہے۔ کیوں؟ کیا اب یہ قرآن کے خلاف نہیں؟ اب اس کا ترجمہ علماء یوں کرتے ہیں ’’اور زمین کو (نہیں دیکھتے) کہ وہ کس طرح (گولائی کے باوجود) بچھائی گئی ہےo‘‘

اس لئے یہ تصور واضح رہے کہ سائنسی ترقی کے ساتھ قرآن کی تفسیر بھی بدلتی ہے۔ انسانی علوم میں ترقی ہماری قرآن فہمی کو متاثر کرتی ہے۔ اس لئے لازم ہے کہ ہم زمانے کے علوم کو سامنے رکھیں اور ہر چیز کو ’’قرآن مخالف‘‘ سمجھنے کی بجائے اس کی جانچ پڑتال کریں۔ اس کو وقت دیں۔ اور دیکھیں کہ وہ نظریہ کہاں تک جاتا ہے۔اسی سے قرآن کے نئے معانی و مطالب کھلیں گے۔

اس سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ تفسیر کو قرآن کا مقام نہیں دینا چاہیے۔ تفسیر ایک انسانی سعی ہے جو کہ انسان کی طرح محدود ہے۔قرآن کے معانی کسی ایک انسان پر مکمل نہیں کھل سکتے۔ لہذا کسی ایسے مسئلے پر قدیم علماء کے اقوال پیش کرنا جو ان کے زمانے میں در پیش ہی نہیں تھا سراسر زیادتی ہوگی۔ تفاسیر کا استعمال یہ جاننے کے لیے کیا جاتا ہے کہ کسی ایک آیت کو کس کس طرح سمجھا گیا۔ نہ کہ یہ کہ اس آیت سے حقیقتاً مراد کیا ہے۔ ارتقاء جیسے نئے مسائل پر لازم ہے کہ ذہن کھلا رکھا جائے اور ’نظریہِ ارتقاء کے ارتقاء‘ پر گہری نظر رکھی جائے۔
 
آخری تدوین:
تقویم کا تعلق تاریخ، نظامِ اوقات یا ماہ و سال کے تعین کے کسی نظام سے بھی ہے۔ ممکن ہے یہ آیت انسانی ارتقاء یا تخلیق کے لئے جو مدت یا عرصہ درکار تھا اس پر دلالت کرتی ہو ۔ اس مدت کے شمار کا احسن اندازہ تو خدا ہی کو حاصل ہے۔
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِىٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ
میں نے اس آیت کا ترجمہ
یقیناً ہم نے انسان کو بہترین ارتقائی حالت میں پیدا کیا۔
بھی پڑھا ہے۔
اس کے علاوہ میرے ذہن میں آرہا ہے کہ کسی صوفیانہ کلام کے لفظ ہیں جو صحیح تو یاد نہیں شاید کچھ اس طرح ہیں "بنایا ڈھایا تے ڈھا کے بنایا"
 

وجاہت حسین

محفلین
میں جب یہ سوال لے کر قرآن کے پاس گیا کہ تخلیق کی ابتدا کیسے ہوئی؟ تو قرآن نے کہا
قُلْ سِيرُوا فِي الأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ
’’فرما دیجئے: تم زمین میں (کائناتی زندگی کے مطالعہ کے لئے) چلو پھرو، پھر دیکھو (یعنی غور و تحقیق کرو) کہ اس نے مخلوق کی (زندگی کی) ابتداء کیسے فرمائی‘‘سورۃ 29 آیت 20
یعنی سائنسی تحقیق میں تلاش کرو نہ کہ کتاب کے اندر۔
 

آصف اثر

معطل
یہی کہ اِن کی figurative یا non-literal تشریح ممکن ہے۔
ایک اور اہم نکتہ جو انشاء اللہ ایولوشن پر بات کرنے کے لئے میدان صاف کرے گا۔
اس کو بات سمجھ لیں کہ قرآن اپنی نیچر میں Static نہیں بلکہ Dynamic کتاب ہے۔ یہ زمان و مکان میں چودہ سو سال پہلے رک نہیں گئی۔ بلکہ وقت کے ساتھ ایک کرنٹ کی طرح چل رہی ہے۔ ہر دور میں اس کے نئے معانی ومطالب کھلتے ہیں۔ ہر نظر والا اس سے نئے اسرار کھولتا ہے۔

یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ایسا نہیں ہوتا کہ سائنس کوئی چیز آج دریافت کرتی ہے تو وہ قرآن میں پہلے سے موجود ہوتی ہے (جیسا کہ اکثر مسلمان کہتے ہیں اور دن رات راگ آلاپتے ہیں)۔ معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے۔ اس بات کو ایک مثال سے سمجھاتا ہوں۔ کئی ایک مسلمان مفکرین و مفسرین مانتے ہیں کہ قرآن میں Big Bang کا تصور موجود ہے۔ اس ضمن میں سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر تیس اور سورۃ الفلق کی پہلی آیت کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔
الفلق کی پہلے آیتِ مبارکہ کا ایک یہ معنی بھی علماء نے بیان کیا ہے۔
’’آپ عرض کیجئے کہ میں (ایک) دھماکے سے انتہائی تیزی کے ساتھ (کائنات کو) وجود میں لانے والے رب کی پناہ مانگتا ہوںo‘‘

سوال یہ ہے کہ 1925 میں جب ہبل نے یہ تھیوری پیش کی تو تھیوری پیش کرنے سے پہلے ہمیں یہ کیوں نظر نہیں آیا؟ ہماری بڑی سے بڑی تفسیر دیکھ لیں، دور دور تک یہ معنی ان لوگوں کے ہاں اس وقت نہیں پایا جاتا تھا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ پہلے سائنس دریافت کرتی ہے بعد میں ہمیں نظر آتا ہے۔ اس کا سادہ سا جواب ہے۔وہ یہ کہ انسانی علوم میں ترقی ہماری قرآن کی سمجھ کو متاثر کرتی ہے۔
اور کبھی تو اس حد تک متاثر کرتا ہے کہ ہمیں اپنے نظریات بدلنے پڑتے ہیں۔
ایک اور مثال پیش کرتا ہوں۔ امام سیوطیؒ اور دیگر کئی بڑے اکابر اس بات پر قرآن سے دلائل قائم چکے ہیں کہ زمین گول (یا انڈے کی صورت) نہیں۔ بلکہ یہ سیدھی ہے۔ اس پر سورۃ الغاشیہ کی آیتِ مبارکہ ’’اور زمین کو (نہیں دیکھتے) کہ وہ کس طرح بچھائی گئی ہےo‘‘ دلیل کی طور پر پیش کی جاتی تھی۔ مگر اب کوئی بھی اس کا قائل نہیں ہے۔ کیوں؟ کیا اب یہ قرآن کے خلاف نہیں؟ اب اس کا ترجمہ علماء یوں کرتے ہیں ’’اور زمین کو (نہیں دیکھتے) کہ وہ کس طرح (گولائی کے باوجود) بچھائی گئی ہےo‘‘

اس لئے یہ تصور واضح رہے کہ سائنسی ترقی کے ساتھ قرآن کی تفسیر بھی بدلتی ہے۔ انسانی علوم میں ترقی ہماری قرآن فہمی کو متاثر کرتی ہے۔ اس لئے لازم ہے کہ ہم زمانے کے علوم کو سامنے رکھیں اور ہر چیز کو ’’قرآن مخالف‘‘ سمجھنے کی بجائے اس کی جانچ پڑتال کریں۔ اس کو وقت دیں۔ اور دیکھیں کہ وہ نظریہ کہاں تک جاتا ہے۔اسی سے قرآن کے نئے معانی و مطالب کھلیں گے۔

اس سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ تفسیر کو قرآن کا مقام نہیں دینا چاہیے۔ تفسیر ایک انسانی سعی ہے جو کہ انسان کی طرح محدود ہے۔قرآن کے معانی کسی ایک انسان پر مکمل نہیں کھل سکتے۔ لہذا کسی ایسے مسئلے پر قدیم علماء کے اقوال پیش کرنا جو ان کے زمانے میں در پیش ہی نہیں تھا سراسر زیادتی ہوگی۔ تفاسیر کا استعمال یہ جاننے کے لیے کیا جاتا ہے کہ کسی ایک آیت کو کس کس طرح سمجھا گیا۔ نہ کہ یہ کہ اس آیت سے حقیقتاً مراد کیا ہے۔ ارتقاء جیسے نئے مسائل پر لازم ہے کہ ذہن کھلا رکھا جائے اور ’نظریہِ ارتقاء کے ارتقاء‘ پر گہری نظر رکھی جائے۔

کیا آپ ڈاروِن کو (شعوری یا تحت الشعوری طور پر) درست ثابت کرنے کے لیے اتنی واضح آیت کو بھی مبہم سمجھتے ہیں؟
اس آیتِ مبارکہ میں واضح اور غیر مبہم انداز میں اس بات کا ذکر ہے کہ آدم علیہ السلام (انسانوں کے جدامجد) کو بغیر ماں باپ کے پیدا کیا گیا۔ جب کہ ڈاروینی ارتقا کے رُو سے (نعوذ باللہ) حضرت آدم علیہ السلام کے جد امجد میں گریٹ ایپس بھی گزرے ہیں۔ اگر آپ خود مفسرِ قرآن نہیں، یا خود کو نہیں سمجھتے تو کیا آپ کسی بھی تفسیر سے یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ اس آیت میں آدم علیہ السلام کی تخلیق کا ذکر ”ڈاروینی ارتقا“ کے تناظر میں فرمایا ہے؟
کیا ہم رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی اس قابل نہیں سمجھتے کہ وہ مذکورہ آیت میں موجود اتنے اہم نکتے کے مفہوم کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکے تھے؟
جہاں تک ”تشریح ممکن ہے“ کا تعلق ہے تو کیا یہ ضروری ہے کہ جس مفروضے پر بجز ملحدین کے سائنسٹفک کمیونٹی تک ردوقدح کررہی ہو، اس کو ثابت کرنے کے لیے آپ کی ”ممکنہ“ تشریح اُن تمام تشریحات کے مقابلے میں درست ہوگی، جن میں ڈاروینی ارتقا (نوع من النوع) کو باطل کہا گیا ہے؟
کیا آپ کے اس ”مفروضاتی تشریح“ سےحضرت عیسی ابنِ مریم علیہم السلام کی ”بغیر باپ کی“ پیدائش بھی مبہم نہیں ٹھہرتی؟
اگر نہیں تو کتنے تعجب کی بات ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بغیر باپ کی پیدائش کو بطورِ مثال پیش کرے جب کہ دوسری جانب حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے مراد ”ارتقائی پیدائش“ ہو۔
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
ڈاروینی ارتقا کے پیروکار جتنی شدومد سے ارتقا کے مذکورہ مفروضے کو پھیلانے اور یقین دلانے کے کوششیں کررہے ہیں، جس کے بعد وہ بندروں، بن مانسوں اور چمپنزیوں کو (نعوذباللہ مِن ذالک) انبیاءِکرام علیہم السلام کے رشتہ دار سمجھنے لگتے ہیں کیا یہ اس بات سے زیادہ اہم ہے کہ اللہ کے بندوں کو اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور انسانوں کا جنگلی جانوروں سے ارتقاء نہ ہونے کی اشاعت کرے۔
اگر ڈاروینی ارتقاء کے مفروضے کو (بالفرضِ محال، سائنسی اور مذہبی ثبوتوں کے نہ ہونے کے باوجود) درست مان لیا جائے، تو معاذاللہ سور جیسا مردود جانور بھی اِن پاکیزہ شجروں میں شامل ہوجائے۔ جس کے عشرِ عشیر کا بھی کوئی مسلمان نہیں سوچ سکتا۔
 
Top