Khuram Shahzad
محفلین
السلام علیکم
آپ سب کو بہت بہت مبارک ہو ، آج آپ کو اس ملک کی بہت ہی مشہور و معروف اور جانی مانی ہستی کا انٹرویو کَم تعارف پڑھنے کاشرف مل رہا ہے.....
کیا کہا آپ مجھے نہیں جانتے ؟ کیا زمانہ آگیا ہے ، کم علمی کی انتہا ہے انتہا.....
یہ تو وہ ہی بات ہوئی نا کہ جانے نہ جانے گلدان ہی نہ جانے مناّ مالی تو جانے ہے.....
خیر یہ کوئی نئی بات نہیں ہے آج تک سب بڑی اور عظیم ہستیوں کے ساتھ یہ ہی ہوتا آیا ہے کہ لوگ ان کی قدر نہیں کرتے اور جب قدر ہوتی ہے تو بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے .....
اور جہاں تک میرے تعارف کا تعلق ہے ، سچ تو یہ ہے کہ مجھے اپنی تعریف کرنے کی عادت نہیں ہے- تعریف تو اس مصور کی جس نے میرے جیسی حسین و جمیل و طویل وسٹیل مورت کو تخلیق کیا ۔
میں آپ کو یہ دعا نہیں دوں گا کہ خوش رہو ، سلامت رہو وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سب پرانی دعائیں ھیں۔ بلکہ میں آپ کو یہ دعا دوں گا کہ روشن خیال رہیں ، ماڈرن رہیں ، جہاں رہیں امریکی غلامی میں رہیں وغیرہ وغیرہ۔ کیونکہ موجودہ دور روشن خیالی اورماڈریشن کا دور ہے۔ موجودہ دور آزاد فضاؤں میں پرواز کرنے کا ہے اور اور اور ۔۔۔۔۔۔۔
عام طور پر انٹرویو میں ایک بندہ سوال کرتا ہے اور دوسرا جواب دیتا ہے لیکن آپ اس انٹرویو میں صرف "جواب" ہی دیکھیں گے کیوں کہ مجھے "سوال" کرنے والے پسند نہیں ہیں، چاہے سوال کرنے والا سوالی نیشنل ہو یا انٹرنیشنل ..... اب آپ کہیں گے کہ نیشنل سوالی کون سا ہوتا ہے اور انٹرنیشنل سوالی کون ساہوتا ہے ؟؟؟ اگر آپ نے چار اور چار، دس جماعتیں پڑھی ہوتیں تو آپ کو یہ سوال کرنے کی زحمت نہ کرنا پڑتی ..... کم علمی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ......
نیشنل سوالی کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے ہیں اور وہ روپے مانگتا ہے جبکہ انٹرنیشنل سوالی ڈالر مانگتا ہے ، وہ بھی پینٹ کوٹ پہن کر .... آپ سمجھ دار تو نہیں ہیں لیکن سمجھ تو گئے ہوں گے....
میرے نام کا مطلب ہپی پرنس ہے ، یعنی خوش شہزادہ۔ عام طور پر شہزادے اپنے نام کے ساتھ ”میں“ کی بجاے ”ہم“ استعمال کرتے ہیں لیکن میں اپنے نام کے ساتھ ”ہم“ کا لفظ ایفوڈ نہیں کر سکتا۔ کیونکہ میری صحت اس کی اجازت نہیں دیتی۔ یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ میری صحت لفظ ”ہم“ کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتی۔ میرے سامنے کوئی اونچی آواز سے بولنے کی ہمت نہیں کرتا اس لیے نہیں کہ وہ میری عزت کر رہا ہوتا ہے بلکہ اس لیے کہ میں منہ سے نکلنے والی ہوا سے اُڑ ہی نہ جاؤں۔ جب کوئی مجھ سے ملتا ہے تو میں اس کو وارن کردیتا ہوں کہ ا گرآپ نے چھیکنا ہو تو مجھے پہلے بتا دینا تاکہ میں حفاظتی اقدامات کرسکوں۔
میں تو اتنا صحت مندہوں کہ اگر کسی دوکان دار کا آدھا کلو کا باٹ (وزن) گم ھو جائے تو وہ مجھے بلا لیتے ہیں اس لیے نہیں کہ میں فیکا باٹ چور کے نام سے مشہورہوں بلکہ اس لیے کہ ترازو کے ایک طرف مجھے رکھ کر سودا سلف تول سکیں۔ میں تو ”مو سم“ کا حال دیکھے بغیر گھر سے باہر نہیں نکلتا کہ نجانے کب تیزہوا چلنا شروع ھو جائے۔
میرے گھر والے تو مجھے چھت پر نہیں جانے دیتے (اس لیے نہیں کہ ان کو مجھ پر شک ہے کہ میں چھت پر لڑکیوںکو دیکھتا ہوں بلکہ) اس لیے کہ کہیں کوئی کوا یا چیل مجھے اٹھا کر ہی نہ لے جائے۔
خیر یہ سب تو مذاق تھا اب اصلی مسئلے (مسئلہ فیثاغورث ) یعنی میرے تعارف کی طرف آتے ہیں۔ ویسے بھی آج کل ، پرسوں۔۔۔۔۔۔ پاکستان کو بہت سے مسلے درپیش ہیں مثلا نئے صوفی سلسلے ”سلسلہِ مشرفاں“ کا مسلہ ، طالبان کا مسئلہ ، تنگ ذہین اور فرسودا خیالات کے مالک لوگوں کا مسلہ (جن کی روشن خیالی کے چراغوں تلے تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے) وغیرہ وغیرہ۔ اس سے پہلے کہ مجھے بھی القاعدہ کا رکن قرار دے کر امریکہ کی سیر کرا دی جائے، اصل مقصد کی طرف آتے ہیں ( یہ میں کسی کے ڈر یا خوف کی وجہ سے نہیں کہہ رہا ، درحقیقت مجھے امریکہ کی سیر کرنے کا شوق نہیں ہے )۔
جب میں پیدا ہوا تو میں چھوٹا سا تھا لیکن کام کر تا تھا بڑے بڑے۔ مثال کے طور پر میں بڑے زور زور سے روتا تھا۔ میں نے بڑے بڑوں کی راتوں کی نیندیں حرام کر دیں تھیں۔ میں اگر رات کے ایک بجے بھی کھانا مانگتا تھا تو سب گھر والوں میں حکم کی تکمیل کے لئے افراتفری پھیل جاتی تھی۔ کوئی "فیڈ ر کی تلاش" میں مگن ہوتا تھا تو کوئی دودھ کے برتن کے سراغ میں..... دوسرے لفظوں میں سب گھر والے میرے حکم کی تکمیل کے لئے گھر کے چپے چپے پر پھیل جاتے تھے۔ میں بچپن میں اِ تنا طاقت ور ہوتا تھا کہ پورا گھر سر پر اٹھا لیتا تھا ( گھر سر پر اٹھانے والی بات مجھے میرے گھر والوں نے بتائی ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ مجھے اس بات پر یقین نہیں ہے کیونکہ میں اگر ایک اینٹ اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ رکھ دوں تو مجھے انرجی بحال کرنے کے لئے گلوکوز کی دو تین بوتلیں لگوانی پڑتی ہیں ایسی صورت میں ، میں پورا گھر وہ بھی ایک ساتھ کیسے اٹھا سکتا ہوں )؟
جب میں اس دنیا میں آیا تھا تو پڑھا لکھا بالکل نہیں تھا۔ پھر آہستہ آہستہ، پہلے پڑھنا اور پھر لکھنا سیکھا۔ بچپن میں اور اب میں یہ فرق ہے کہ پہلے میں نہ ہی پڑھا لکھا تھا اور نہ ہی جاہل ، لیکن اب میں پڑھا لکھا بھی ہوں اور جاہل بھی۔ یعنی پڑھا لکھا جاہل۔
"اَج اِی گجر سینما وچ ویکھو" پڑھا لکھا جاہل
پڑھ پڑھ عالم فاضل بنیا اپنے آپ نوں پڑھیا ای نہی
پج پج وردا مندر مسیتے من اپنے وچ وریا ای نہی
روز ای شیطان نال لڑدا نفس اپنے نال لڑیا ای نہی
آپ یقینا اتنا لمبا تعارف پڑھ کر بور ہو رہے ہوں گے کوئی بات نہیں میں اپنی آسانی کے لےے اپنا مختصر تعارف کرا دیتا ہوں۔ یہ میں صرف اور صرف اور صرف۔۔۔ اپنی آسانی کےلیے کر رہا ہوں ، ویسے تو میری تعریف میں کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔
نام.... خرم اداس (اب کیوں پھیرتے ہو اداس سردیوں کی شاموں میں ، اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں)
کام: کام کا نہ کاج کا دشمن اناج کا
عمر: یہی کوئی چودہ پندرہ سال ( یعنی ٹین اِیج ) اور چند مہنیے ( جو چند سو ”100“ بھی ہو سکتےہیں)
درسگاہ: سینما گھر ، مغربی طرز کے روشن خیال میوزیکل شوز
مشغلے: دوسروں کے عیب تلاش کرنا ، روشن خیالی کے چراغ روشن کرنا ، چِیٹنگ کرنا میرا
مطلب ہے چَیٹنگ کرنا وغیرہ وغیرہ
پسندیدہ جگہ: کالج۔۔۔۔۔۔۔ لیکن لڑکیوں کا
پسندیدہ کھانا: چغلی کھانا ، لڑکیوں کے کالج کے باہر مار کھانا ، اچھے کام نہ کرنے کی قسم کھانا وغیرہ وغیرہ
پسندیدہ شخصیت: ڈریکولا ؛ کون ڈریکولا ؟ وہی یار اپنے والے بش صاب المشہور گدھے فرو ش
مستقل رہائش: مکان نمبر 11۔2۔9 گلی نمبر 420 محلہ لبن پورہ نزدیک کالے خان ہوٹل ، عقب کالا سیاہ کاکو ، کیپ ٹاؤن ٹمبک ٹو
موجودہ رہائش: چند ذاتی وجوہات کی بنا پر میں پرانی رہائش گاہ کو چھوڑ کر نئی رہائش گاہ "احمقوں کی جنت" میں رہ رہا ہوں۔ اگر آپ میں سے کوئی یہاں آنا چاہے تو اس کو خوش آمدید کہا جائے گا۔
دعاؤں میں یاد رکھیئے گا -
خرم شہزاد
آپ سب کو بہت بہت مبارک ہو ، آج آپ کو اس ملک کی بہت ہی مشہور و معروف اور جانی مانی ہستی کا انٹرویو کَم تعارف پڑھنے کاشرف مل رہا ہے.....
کیا کہا آپ مجھے نہیں جانتے ؟ کیا زمانہ آگیا ہے ، کم علمی کی انتہا ہے انتہا.....
یہ تو وہ ہی بات ہوئی نا کہ جانے نہ جانے گلدان ہی نہ جانے مناّ مالی تو جانے ہے.....
خیر یہ کوئی نئی بات نہیں ہے آج تک سب بڑی اور عظیم ہستیوں کے ساتھ یہ ہی ہوتا آیا ہے کہ لوگ ان کی قدر نہیں کرتے اور جب قدر ہوتی ہے تو بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے .....
اور جہاں تک میرے تعارف کا تعلق ہے ، سچ تو یہ ہے کہ مجھے اپنی تعریف کرنے کی عادت نہیں ہے- تعریف تو اس مصور کی جس نے میرے جیسی حسین و جمیل و طویل وسٹیل مورت کو تخلیق کیا ۔
میں آپ کو یہ دعا نہیں دوں گا کہ خوش رہو ، سلامت رہو وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سب پرانی دعائیں ھیں۔ بلکہ میں آپ کو یہ دعا دوں گا کہ روشن خیال رہیں ، ماڈرن رہیں ، جہاں رہیں امریکی غلامی میں رہیں وغیرہ وغیرہ۔ کیونکہ موجودہ دور روشن خیالی اورماڈریشن کا دور ہے۔ موجودہ دور آزاد فضاؤں میں پرواز کرنے کا ہے اور اور اور ۔۔۔۔۔۔۔
عام طور پر انٹرویو میں ایک بندہ سوال کرتا ہے اور دوسرا جواب دیتا ہے لیکن آپ اس انٹرویو میں صرف "جواب" ہی دیکھیں گے کیوں کہ مجھے "سوال" کرنے والے پسند نہیں ہیں، چاہے سوال کرنے والا سوالی نیشنل ہو یا انٹرنیشنل ..... اب آپ کہیں گے کہ نیشنل سوالی کون سا ہوتا ہے اور انٹرنیشنل سوالی کون ساہوتا ہے ؟؟؟ اگر آپ نے چار اور چار، دس جماعتیں پڑھی ہوتیں تو آپ کو یہ سوال کرنے کی زحمت نہ کرنا پڑتی ..... کم علمی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ......
نیشنل سوالی کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے ہیں اور وہ روپے مانگتا ہے جبکہ انٹرنیشنل سوالی ڈالر مانگتا ہے ، وہ بھی پینٹ کوٹ پہن کر .... آپ سمجھ دار تو نہیں ہیں لیکن سمجھ تو گئے ہوں گے....
میرے نام کا مطلب ہپی پرنس ہے ، یعنی خوش شہزادہ۔ عام طور پر شہزادے اپنے نام کے ساتھ ”میں“ کی بجاے ”ہم“ استعمال کرتے ہیں لیکن میں اپنے نام کے ساتھ ”ہم“ کا لفظ ایفوڈ نہیں کر سکتا۔ کیونکہ میری صحت اس کی اجازت نہیں دیتی۔ یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ میری صحت لفظ ”ہم“ کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتی۔ میرے سامنے کوئی اونچی آواز سے بولنے کی ہمت نہیں کرتا اس لیے نہیں کہ وہ میری عزت کر رہا ہوتا ہے بلکہ اس لیے کہ میں منہ سے نکلنے والی ہوا سے اُڑ ہی نہ جاؤں۔ جب کوئی مجھ سے ملتا ہے تو میں اس کو وارن کردیتا ہوں کہ ا گرآپ نے چھیکنا ہو تو مجھے پہلے بتا دینا تاکہ میں حفاظتی اقدامات کرسکوں۔
میں تو اتنا صحت مندہوں کہ اگر کسی دوکان دار کا آدھا کلو کا باٹ (وزن) گم ھو جائے تو وہ مجھے بلا لیتے ہیں اس لیے نہیں کہ میں فیکا باٹ چور کے نام سے مشہورہوں بلکہ اس لیے کہ ترازو کے ایک طرف مجھے رکھ کر سودا سلف تول سکیں۔ میں تو ”مو سم“ کا حال دیکھے بغیر گھر سے باہر نہیں نکلتا کہ نجانے کب تیزہوا چلنا شروع ھو جائے۔
میرے گھر والے تو مجھے چھت پر نہیں جانے دیتے (اس لیے نہیں کہ ان کو مجھ پر شک ہے کہ میں چھت پر لڑکیوںکو دیکھتا ہوں بلکہ) اس لیے کہ کہیں کوئی کوا یا چیل مجھے اٹھا کر ہی نہ لے جائے۔
خیر یہ سب تو مذاق تھا اب اصلی مسئلے (مسئلہ فیثاغورث ) یعنی میرے تعارف کی طرف آتے ہیں۔ ویسے بھی آج کل ، پرسوں۔۔۔۔۔۔ پاکستان کو بہت سے مسلے درپیش ہیں مثلا نئے صوفی سلسلے ”سلسلہِ مشرفاں“ کا مسلہ ، طالبان کا مسئلہ ، تنگ ذہین اور فرسودا خیالات کے مالک لوگوں کا مسلہ (جن کی روشن خیالی کے چراغوں تلے تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے) وغیرہ وغیرہ۔ اس سے پہلے کہ مجھے بھی القاعدہ کا رکن قرار دے کر امریکہ کی سیر کرا دی جائے، اصل مقصد کی طرف آتے ہیں ( یہ میں کسی کے ڈر یا خوف کی وجہ سے نہیں کہہ رہا ، درحقیقت مجھے امریکہ کی سیر کرنے کا شوق نہیں ہے )۔
جب میں پیدا ہوا تو میں چھوٹا سا تھا لیکن کام کر تا تھا بڑے بڑے۔ مثال کے طور پر میں بڑے زور زور سے روتا تھا۔ میں نے بڑے بڑوں کی راتوں کی نیندیں حرام کر دیں تھیں۔ میں اگر رات کے ایک بجے بھی کھانا مانگتا تھا تو سب گھر والوں میں حکم کی تکمیل کے لئے افراتفری پھیل جاتی تھی۔ کوئی "فیڈ ر کی تلاش" میں مگن ہوتا تھا تو کوئی دودھ کے برتن کے سراغ میں..... دوسرے لفظوں میں سب گھر والے میرے حکم کی تکمیل کے لئے گھر کے چپے چپے پر پھیل جاتے تھے۔ میں بچپن میں اِ تنا طاقت ور ہوتا تھا کہ پورا گھر سر پر اٹھا لیتا تھا ( گھر سر پر اٹھانے والی بات مجھے میرے گھر والوں نے بتائی ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ مجھے اس بات پر یقین نہیں ہے کیونکہ میں اگر ایک اینٹ اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ رکھ دوں تو مجھے انرجی بحال کرنے کے لئے گلوکوز کی دو تین بوتلیں لگوانی پڑتی ہیں ایسی صورت میں ، میں پورا گھر وہ بھی ایک ساتھ کیسے اٹھا سکتا ہوں )؟
جب میں اس دنیا میں آیا تھا تو پڑھا لکھا بالکل نہیں تھا۔ پھر آہستہ آہستہ، پہلے پڑھنا اور پھر لکھنا سیکھا۔ بچپن میں اور اب میں یہ فرق ہے کہ پہلے میں نہ ہی پڑھا لکھا تھا اور نہ ہی جاہل ، لیکن اب میں پڑھا لکھا بھی ہوں اور جاہل بھی۔ یعنی پڑھا لکھا جاہل۔
"اَج اِی گجر سینما وچ ویکھو" پڑھا لکھا جاہل
پڑھ پڑھ عالم فاضل بنیا اپنے آپ نوں پڑھیا ای نہی
پج پج وردا مندر مسیتے من اپنے وچ وریا ای نہی
روز ای شیطان نال لڑدا نفس اپنے نال لڑیا ای نہی
آپ یقینا اتنا لمبا تعارف پڑھ کر بور ہو رہے ہوں گے کوئی بات نہیں میں اپنی آسانی کے لےے اپنا مختصر تعارف کرا دیتا ہوں۔ یہ میں صرف اور صرف اور صرف۔۔۔ اپنی آسانی کےلیے کر رہا ہوں ، ویسے تو میری تعریف میں کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔
نام.... خرم اداس (اب کیوں پھیرتے ہو اداس سردیوں کی شاموں میں ، اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں)
کام: کام کا نہ کاج کا دشمن اناج کا
عمر: یہی کوئی چودہ پندرہ سال ( یعنی ٹین اِیج ) اور چند مہنیے ( جو چند سو ”100“ بھی ہو سکتےہیں)
درسگاہ: سینما گھر ، مغربی طرز کے روشن خیال میوزیکل شوز
مشغلے: دوسروں کے عیب تلاش کرنا ، روشن خیالی کے چراغ روشن کرنا ، چِیٹنگ کرنا میرا
مطلب ہے چَیٹنگ کرنا وغیرہ وغیرہ
پسندیدہ جگہ: کالج۔۔۔۔۔۔۔ لیکن لڑکیوں کا
پسندیدہ کھانا: چغلی کھانا ، لڑکیوں کے کالج کے باہر مار کھانا ، اچھے کام نہ کرنے کی قسم کھانا وغیرہ وغیرہ
پسندیدہ شخصیت: ڈریکولا ؛ کون ڈریکولا ؟ وہی یار اپنے والے بش صاب المشہور گدھے فرو ش
مستقل رہائش: مکان نمبر 11۔2۔9 گلی نمبر 420 محلہ لبن پورہ نزدیک کالے خان ہوٹل ، عقب کالا سیاہ کاکو ، کیپ ٹاؤن ٹمبک ٹو
موجودہ رہائش: چند ذاتی وجوہات کی بنا پر میں پرانی رہائش گاہ کو چھوڑ کر نئی رہائش گاہ "احمقوں کی جنت" میں رہ رہا ہوں۔ اگر آپ میں سے کوئی یہاں آنا چاہے تو اس کو خوش آمدید کہا جائے گا۔
دعاؤں میں یاد رکھیئے گا -
خرم شہزاد
مدیر کی آخری تدوین: