فاروق صاحب ! خیر ہو ،
متحدہ ہونے اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کا مطلب متحدہ طور سے ایک ایسے سیاسی اور سماجی ڈھانچہ کی تعمیر ہے جہاں قران کے بنیادی اصول قائم رہیں۔ کروڑوں افراد کو متحد کرنے کے لئے، بیعت یا عرف عام میںایوان نمائندگان ( مجلس شوری) کا تصور قران میں موجود ہے۔ اس بیعت یا ووٹنگ کی مدد سے عام انسان اپنے نمائندے منتخب کرکے ایک اجتماعی اسمبلی بناسکتے ہیں۔ مسلمانوںمیں یہ تصور بہت پہلے سے موجود ہے۔ یہاں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کا مطلب ہم بہ آسانی یہ لے سکتے ہیں کہ اکثریت بھی قران کی اصولوںسے نہیں ہٹ سکتی اور ان اصولوں کو تبدیل یا ترک نہیں کر سکتی ہے،
جمہوریت کے غیر اسلامی ہونے یا اسلامی ہونے کی بحث پرانی ہے ، اور میرے علم تک اس کو غیر اسلامی کہنے والے دانشوران زیادہ ہی ہیں ۔
ہرایک کا اپنا نقطہ نظر ہے ۔
میں جہاں تک سمجھا ہوں واعتصموا بحبل اللہ جمیعا میں اللہ کی رسی سے مراد قران ہے ، اس رسی کے مطلب کو کھینچ کر اس کا وہ مطلب نکالنا جو میں کوٹ کیا ہے ، مجھے اس کے ماخذ کا علم نہیں ، میں آپ سے چاہتا ہوں کہ آپ کے الفاظ "
کروڑوں افراد کو متحد کرنے کے لئے، بیعت یا عرف عام میںایوان نمائندگان ( مجلس شوری) کا تصور قران میں موجود ہے۔
کے بارے میں عرض کہ مجلس شوری کے جس تصور کو ایوان نمائندگان آپ کہتے ہیں اس کا تصور قرآن میں کہاں ہے ؟
شوری کی بات قرآن میں ہے ، مگر جہاں معاشرہ کی اکثریت دین بیزار ہو وہاں ان سے رائے زنی کروا کر شوری مرتب کرنا اور اس کے حوالہ دین کا کام کرنا اسلامی نظام کا حصہ نہیں ہو سکتا ۔
شاید آپ کے علم میں ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد سب نے ایک ساتھ حضرت ابوبکر کو خلیفہ بنایا تھا ۔
پھر حضرت ابوکر نے یک طرفہ طورپر حضرت عمر کو نامز کر دیا ، اگر پہلی بات شورائی اور رائے شماری کی تھی تو دوسری بات اس کے خلاف ہے ، پھر اس کے بعد حضرت عمر نے ایک شش رکنی کمیٹی بنا دی ، کسی ایک کو نامزد نہ کیا ۔ اگر وہ چاہتے تو مدینہ یا مکہ یا کم سے کم موجود صحابہ کی رائے شماری کی وصیت کر جاتے ۔
لیکن آپ سمجھ سکتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اور حضرت عمر کی وفات کے زمانہ کے دوران کیا تغیرات ہوچکے ہوں گے ، پس عوامی رائے شماری کا اب موقع نہ تھا ، اس لیے قفط شش رکنی کمیٹی بنا دی گئی ۔
میرے خیال میں شورائی نظام اور موجودہ جمہوریت کو جوڑنا کسی طرح مناسب نہیں ۔
آپ نہیں دیکھتے کہ جمہوریت کے خالق اور ہمیں اس کا درس ہی نہیں تاکید بلیغ کرنے والے ، اور جمہوریت کو ہم سے جبرا منوانے والے کسی طرح ہم پر جمہویت کو تھوپتے ہیں اور جہاں ان کے مفادات ہیں وہاں چپ سادھ لیتے ہیں ۔ ہمارے پڑوس میں برما ( رنگون ) میں فوج نے ایک صدی سے مسلمانوں پر ظٌم و جور کا بازار گرم کر رکھا ہے ، اور پاکستان نے ذرا کچھ کیا تو کیا ہوا ؟
عرب ممالک کو ہی لے لیجیے ، جہوریت کے علمبردار جانتے ہیں وہاں عوامی رائے اسلامی ہے ، اسلیے وہاں جمہوریت نہیں آنے دیتے ، ہمارے یہاں عوامی مزاج آزاد اور غیر اسلامی ہے ، لہذا جمہوریت مفید ہے ۔
کچھ غور کریں تو شاید آپ کو صحیح راستہ ملے ، کم سے نظریہ پاکستان کے بانی کہے جانے والے " اقبال " کے افکار کا مطالعہ کر لیں ۔