احوال ملاقات اسلام آباد، راولپنڈی اور قرب و جوار کے احباب!
شرکاء ملاقات:
سید شہزاد ناصر ،
زیرک ،
فاتح ،
@محمد تابش صدیقی [USER=15249]ابن توقیر Wasiq Khan انس معین
عید الفطر کے پانچویں چھٹے روز محفل کی گلی سے گزرتے ہوئے معلوم پڑا کسی کونے سے کوئی صدا دے رہا ہے۔ وہاں پہنچے تو عنوان تھا "منصوبۂ تقریب ملاقات برائے اسلام آباد، راولپنڈی اور قرب وجوار کے احباب"۔ گویا یہاں پورے پورے "منصوبے" بن رہے ہیں۔ خیر! خبر یہ تھی محفلین کو ایک ملاقات (تقریب) کے لیے بلایا (اکسایا) جا رہا ہے۔ مختصر یہ کہ احباب نے حامی بھری دن، جگہ اور وقت کا تعین ہوا اور ایک آخری صدا دی گئی۔ مقررہ دن اس خوبصورت گرمی کے موسم میں سفر کرنا سبحان اللہ!!! پہلا معرکہ جگہ تلاش کرنا تھا۔ ٹیکنالوجی کو استعمال میں لاتے ہوئے نقشے کی مدد سے کوشش کی مقررہ وقت پر، مقررہ جگہ پر قرار پا جائیں۔ نقشے کی مدد سے جگہ تلاشتے ہوئے پی ڈبلیو ڈی تک پہنچ گئے۔ وہاں پہنچ کر انکشاف ہوا یہ اسلام آباد کا نام لے کر کس نام نہاد اسلام آباد بلایا گیا ہے۔ شہر سے 17 کلومیٹر دور جنگل میں ایک نیا شہر آباد کیا گیا ہے۔ وہاں پہنچ کر میپ ایپلیکشن دغا دے گئی اور ہمیں کبھی اس نکر اور کبھی اس کونے میں دے مارے۔ پوچھ پاچھ کر فی مقامن آخر تک وقت مقررہ سے آدھا گھنٹہ تاخیر سے پہنچے۔ آخری پہنچے والی نایاب ہستی ہم ہی تھے۔ باقی احباب اپنی اپنی نشستوں پر براجمان تھے۔ تابش بھائی سے رابطہ کیا اور ان کے توسط سے بالآخر باقی احباب کے روبرو ہونے کا موقع ملا۔
ابھی تک کی صورتحال یہ تھی اپنی شناسائی تابش بھائی اور شاہ جی کے علاوہ کسی سے نہیں تھی۔ توقع تھی سب دوستوں سے تعارف ہو گا، بات کا کوئی سرا ہاتھ آئے گا اور کسی طرف سے آغاز ہو گا۔ احباب خوش آمدید کہہ کر اپنی نشتوں پرتشریف فرما ہوگئے۔ کونے میں شاہ جی کے سامنے تشریف فرما محفلین سے شاہ جی کا تعارف اور یارانہ تھا شاید اور وہ محفلین بھی شاہ جی ہی کی جانب متوجہ ہوکر محو گفتگو ہو لیے۔ ایسے میں منظر یہ ہے کہ سب خاموش بیٹھے انہیں تک اور سن رہے ہیں ۔ کچھ تو نئی نویلی دلھن کی طرح شرما بھی رہے تھے اور کچھ کی کیفیت اس دولھے مانند تھی جو اپنی مرضی کے برخلاف نکاح پڑھوا کر بیٹھا ہو۔ ایسے میں ہمت کرکے شرلی چھوڑی کہ اگر پہلے تعارف ہوجائے۔۔۔۔ تو وہی صاحب گویا ہوئے " او جی ہم ذرا کھلے مزاج کے بندے ہیں اور ایسے ہی لگی لپٹی بغیر کہنے والے ہیں۔ قلمی نام "زیرک" کے نام سے ہی جانا جاتا ہوں۔ اور اصل نام سے تو شاید میں خود بھی واقف نہیں۔ اور شاہ جی ہمارا خیال تھا کسی کھلے، پر فضا مقام پر آپ ملاقات رکھیں گے۔ وہاں فشنگ بھی کرتے، ہیں! (ایسے میں ہاتھ سے ایک دائرہ بنا کر پھینکا گیا)۔" اس کے بعد وہ شاہ جی کے ساتھ مزید کسی سلسلۂ گفتگو میں محو ہو گئے۔ چند لمحوں بعد تابش بھائی نے پھر یاد کروايا کے تعارف چل رہا تھا آپ کے بعد اب اگلے محفلین کی باری ہے۔ " او ہو! یار معذرت ذرا میں اسی طبیعت کا بندہ ہوں چلنا شروع ہو جاؤں تو جب تک روکیں گے نہیں تو چلتا رہوں گا۔ کیوں شاہ جی!" اس کے بعد ایک خفیف سا قہقہ شاہ جی اور زیرک صاحب کی طرف سے اور پھر محو گفتگو۔۔۔۔ پھر یاد دہانی کروائی گئی کہ ابھی تعارف چل رہا ہے۔۔۔
عبد الحفیظ بھائی معروف بہ ابن توقیر بھائی نے اپنا تعارف کروایا ؛ "2007 سے اردو 1 فورم پر موجود تھا۔ پھر وہاں فورم بند ہو جانے کے بعد اردو محفل میں شریک ہوا۔ حضرو (ضلع اٹک) سے تعلق ہے (اور اپنی کاروباری مصروفیات کا ذکر کیا)۔" اور خود ہی اپنے ساتھ بیٹھے محفلی کا تعارف بھی کروا دیا " یہ میرے دوست میرے شہر سے ہی ہیں محفل پر واثق خان کے نام سے موجود ہیں۔ کھیلوں سے شغف رکھتے ہیں اور محفل پر اسی نام سے کچھ لڑیوں میں کہتے سنتے پایے جاتے ہیں۔" واثق بھائی نے اسی پر تائیدا سر ہلا دیا (یہ وہی ناراض دلھے میاں ہیں جن کا تذکرہ اوپر کیا گیا)۔ پھر تابش بھائی ، انس معین اورشاہ جی نے اپنا تعارف کروایا اور آخر میں مجھ ناچیز کی باری آئی۔ تب تک زیرک بھائی دوبارہ ریچارج ہو چکے تھے۔ ایسے میں انہوں نے شاہ جی کی شان میں کچھ قصیدہ گوئی کی اور ان کے کچھ مشاغل پر روشنی ڈالی۔ ساتھ بیٹھے احباب کہہ اور تک رہے تھے کہ آپ اپنا تعارف کروائیں جبکہ میں زیرک بھائی کی بے باک گفتگو سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ خیر تعارف کے بعد ویٹر صاحب آرڈر لینے کے لیے آ پہنچے۔ آرڈر کی فرصت کے بعد سلسلۂ گفتگو دوبارہ شروع ہوا۔ جس میں کچھ ملکی اور محفل کے حالات پر تبصرہ، کچھ شخصیات پر تبرہ اور کچھ کی غیبت و چغلی کا تڑکا لگایا گیا۔ یہاں
فرقان احمد کو بھی یاد کیا گیا کہ وہ پردہ نشین کہیں کسی ٹیبل پر بیٹھے یہ ساری واردات سن ہی نہ رہے ہوں۔ ایسے میں کھانا آپہنچا۔ کھانا شروع ہی کیا کہ ایک قدآور شخصیت سر پر آن کھڑی ہوئی اور براہ راست تابش بھائی سے مخاطب ہوئی "یار میں رابطہ کر رہا ہوں اور آپ ہیں کہ جواب ہی نہیں دے رہے۔" سب سے مصافحہ اور مختصر تعارف کروایا گیا اور تقریبا سبھی ان سے واقف تھے کہ یہ اور کوئی نہیں محفل کے فاتح ہیں۔
کھانے سے فراغت کے فورا بعد انس معین نے موقع غنیمت جانتے ہوئے کرسی فاتح کے قریب کھینچی اور شاعری سے متعلق کوئی سوال پوچھا۔ جس کے جواب کا پہلا جملہ تھا " یہ شعر کے بارے میں جو مشہور ہے کہ یہ الہام ہوتا ہے یہ سب بکواس ہے۔ الہامی صرف چار کتابیں ہیں۔ باقی شعر آپ کے مشاہدے، تجربے اور مطالعے کی پراڈکٹ ہے۔ شعر بنایا جاتا ہے، لفظ خود سوچے جاتے ہیں۔" تابش بھائی نے بھی اس کی تائید میں چند جملے عنایت فرمائے۔ اسی دوران طے پایا کہ باہر چل کر چائے نوشی کی جائے۔ اسی دوران شاعری کے حوالے سے فاتح کچھ علمی رہنمائی کرتے رہے۔ باہر نکل کر معلوم پڑا یہاں چائے کا ڈھابہ تلاشنا پڑے گا۔ ایسے میں زیرک بھائی نے اجازت چاہی اور تصویر کشی کر کے اس ملاقات اور منظر کو محفوظ کر لیا گیا ( تاکہ کل کلاں کسی واردات کے نتیجے میں بطور ثبوت پیش کی جاسکے کہ یہ وہی گینگ ہے جو بیٹھے کر "منصوبہ" بنا رہے تھے)۔ مزید ایک مناسب جگہ بیٹھنے کو ملی اور وہاں چائے بھی میسر تھی۔
اس دوران فاتح نے دوبارہ شاعری کے حوالے سے گفتگو شروع کی اور موضوع تھا کہ شعراء کا شاعرانہ مزاج کیسا تھا؛ انہوں نے کس قسم کے موضوعات پر شاعری کی ہے۔ چائے کے بعد فاتح سے کلام کی فرمائش کی گئی۔ اور کلام شاعر بزبان شاعر سننے کا بھی الگ ہی لطف ہے۔ اس پر شاہ جی بھی اجازت لے کر روانہ ہوگئے۔
پھر چلتے چلتے کھڑے ہوکر دوبارہ شاعری اور ادب زیر بحث آیا۔ اس دوران موضوع نعتیہ شاعری اور نعت خوانی تھا۔ اس کے علاوہ فن تنقید ، اس کے اہمیت اور ہمارے ہاں اس کے فقدان کا رونا۔ سوشل میڈیا آنے کی وجہ سے شاعری کا سرقہ، چربہ اور معیار موضوع گفتگو رہا۔ آخر میں فاتح نے تابش بھائی سے کہا کہ وہ قسم توڑتے ہوئے اپنا کلام پیش کریں۔ چلتے ناچیز نے محسن نقوی کے اشعار پیش کیے۔ یوں اس تابشیں شاعری پر یہ ملاقات اختتام پذیر ہوئی۔
اس پوری روداد میں عبدالحفیظ، واثق خان اور انس معین کا تذکرہ نام کی حد تک رہا۔ وجہ کہ یہ احباب کمال کے سامع ہیں۔ مکمل طور پر سنتے رہے اور کہیں کہیں تائید کرتے رہے۔ یاد رہے جس میچ کا بہت "شور سنتے تھے غالب" کا اس پوری ملاقات میں شاذ ہی تذکرہ ہوا۔ یوں یہ قدرے تفصیلی اور یادگار ملاقات اختتام کو پہنچی۔
بعض اوقات کسی اور کے ملنے سے عدم
اپنی ہستی سے ملاقات بھی ہوجاتی ہے[/USER]