6 جون 2019 کو ایک لڑی میں محترم
زیرک صاحب نے محترم
سید شہزاد ناصر صاحب اپنی اسلام اباد آمد کا تذکرہ اور ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ جس کے بعد شاہ صاحب نے مجھ سے رابطہ کیا اور باضابطہ اہتمام کرنے کا حکم دیا۔ اور شاہ صاحب کا حکم ٹالنا میرے لیے کسی صورت ممکن نہ تھا۔ لہٰذا فوری طور پر اس لڑی کا قیام عمل میں آیا۔
فرقان احمد بھائی نے کمالِ محبت سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر محفلین کو ٹیگ کیا۔ یوں کارواں بنتا گیا اور بالآخر کچھ احباب کی جانب سے آمادگی اور نیم آمادگی پر پروگرام فائنل ہوا۔
اتفاقاً مقامِ ملاقات بالا تکہ ہاؤس میرے گھر سے نزدیک تھا، تو سب سے پہلے میں ہی بالا تکہ ہاؤس پہنچا۔ ایک اندازہ تھا کہ وہاں کھلی فضا میں بیٹھنے کا انتظام ہو گا۔ مگر گرمی کی تیزی کے سبب وہاں باہر انتظام موجود نہیں تھا۔
اِدھر اُدھر نظر دوڑاتے ہوئے کسی شناسا یا مطلوبِ شناسائی فرد کو دیکھ رہا تھا کہ
حسن محمود جماعتی بھائی کا میسج آیا کہ میں ہائی وے پر ہوں اور پہنچا ہی چاہتا ہوں۔ اور اس کے بعد بھی اپنے سفر کی پیش رفت سے آگاہ کرتے رہے۔
اتنی دیر میں سامنے سے ایک فرد نے آ کر سلام کیا، محفل پر موجود تصویر سے اندازہ ہو گیا کہ
انس معین بھائی ہیں۔ وعلیکم السلام انس بھائی کہا تو جواب ملا کہ میرا نام انس نہیں عبد اللہ ہے۔ البتہ ان کی اس تنبیہ پر کان نہ دھرتے ہوئے ملاقات کے آخر تک ان کو انس کہہ کر ہی مخاطب کیا۔
ابھی انھوں نے دیگر افراد کے بارے میں پوچھا ہی تھا کہ ساتھ سے موٹر سائیکل پر شاہ صاحب پارکنگ میں داخل ہوئے۔ موٹر سائیکل ان کے روم میٹ جناب ابراہیم خان صاحب چلا رہے تھے۔ تعارف پر شاہ صاحب نے بتایا کہ جب سے ان کے دل کا معاملہ نازک ہوا ہے، ابراہیم خان صاحب ہر جگہ ان کے ساتھ سائے کی طرح موجود رہتے ہیں۔ جس پر ابراہیم بھائی کی قدر میں فی الفور اضافہ ہوا، اور ان کے لیے دعائیں نکلیں۔
پھر دو مزید احباب اپنی طرف آتے دکھائی دیے۔ جن میں سے ایک نے مسکراتے ہوئے دھیمی آواز میں اپنا نام بتایا یہ
ابن توقیر بھائی تھے۔ دوسرے بھائی کا تعارف بھی خود ہی کرواتے ہوئے بتایا کہ یہ
Wasiq Khan بھائی ہیں، اور محفل کے رکن بھی ہیں، البتہ بہت کم فعال ہیں۔ کرکٹ کے شوقین ہیں اور محفل پر پوسٹنگ بھی کرکٹ تک محدود رہی ہے۔
ریستوران کے اندر جانے کا سوچ ہی رہے تھے کہ ایک اور موٹر سائیکل داخل ہوا اور پیچھے بیٹھے صاحب نے آتے ہی شاہ صاحب کو دیکھ کر نعرہ لگایا۔ یہ محترم
زیرک صاحب تھے، جو اپنے ایک رشتہ دار کے ساتھ تشرہف لائے تھے۔
فاتح بھائی نے صبح فون پر رابطہ کر کے پیش رفت سے آگاہ رکھنے کا کہا تھا، لہٰذا ان کو احباب کی تعداد کا میسج کیا۔ ان کا گھر قریب ہی تھا۔ حسن بھائی ابھی تک نہیں پہنچے تھے۔ بہر حال ہم ریستوران میں جا کر بیٹھ گئے اور گپ شپ کا سلسلہ شروع ہوا ہی تھا کہ حسن بھائی بھی پہنچ گئے۔
شاہ صاحب اور زیرک صاحب کی پرانی بے تکلفی کے سبب گفتگو کا آغاز بھرپور انداز سے ہو چکا تھا، لہٰذا ایک دوسرے کی شکل دیکھنے جیسے مرحلہ کی نوبت نہیں آئی۔
کچھ ہی دیر میں بیرا مینو لے آیا۔ ہم نے مینو بزرگوں کی جانب بڑھایا، مگر انھوں نے اپنی گفتگو میں کسی خلل کی نوبت آئے بغیر یہ بھاری ذمہ داری ہم "نوجوانوں" کے کندھوں پر ڈال دی۔ حسن بھائی سے ڈسکشن کے بعد بالا تکہ ہاؤس کی سپیشلٹی چکن مکھنی کڑاہی، مٹن مکھنی کڑاہی اور بار بی کیو پلیٹر کا آرڈر دیا۔ احباب کی خوش خوراکی کا اندازہ نہ ہونے کی وجہ سے احتیاطاً اعلان کر دیا کہ حسبِ ضرورت مزید آرڈر کر دیا جائے گا۔ البتہ اس کی نوبت نہ آئی، بلکہ شرمندگی ہی ہوئی کہ ہوٹل والے کیا کہیں گے کہ ان سے زیادہ تو خواتین ڈائٹنگ میں کھا لیتی ہیں۔
آرڈر دینے کے بعد حسن بھائی نے ہلکا سا کچوکا لگاتے ہوئے آہستگی سے کہا کہ تعارف ہی ہو جائے۔ لہٰذا میں نے زیرک صاحب کی جان اشارہ کرتے ہوئے ان سے تعارف کے آغاز کی استدعا کی۔ یوں تعارف و گفتگو کا سلسلہ جاری رہا۔ اور
فرقان احمد بھائی کی تلاش بھی۔
آرڈر آیا تو رخ کھانے کی جانب ہوا، البتہ کھانا اتنا اشتہا انگیز تھا کہ کھانے کی تصویر بنانے کا خیال ہی نہ آیا۔ اور بلاشبہ کھانا تھا بھی بہت ذائقہ دار۔
کھاتے کھاتے خیال آیا کہ کہیں فاتح بھائی نے رابطہ نہ کیا ہو۔ موبائل نکالا تو دیکھا کہ ان کی مس کالز اور میسجز موجود ہیں۔ فوراً کال ملائی تو کال اٹھانے کے بجائے سر پر آ موجود ہوئے، کہ یار کب سے کال کر رہا ہوں، آپ کھانے میں مگن ہیں۔
بہرحال انھیں کھانے میں شریک ہونے کی دعوت دی، تو انھوں نے کمالِ نزاکت سے بٹیر کی ران پر اکتفا کیا، اور ساتھ ہی ساتھ چڑے بٹیر کی ہڈیوں کی بابت دریافت کیا کہ ہوتی بھی ہیں یا نہیں۔ جس پر زیرک صاحب نے بتایا کہ ان میں ہڈیاں کوئی ڈھونڈتا ہی نہیں ہے۔
بل آیا تو وہ زیرک صاحب نے لے لیا۔ بہت کوشش کی کہ امریکی طریقۂ کار پر عمل کروایا جائے، مگر انھوں نے انکار کرتے ہوئے پورا بل خود ادا کیا، مجھ سمیت احباب کے پرس جیبوں سے باہر آنے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔
کھانے کے بعد چائے کی طلب نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے۔ بالا تکہ ہاؤس پر چائے کا انتظام نہیں تھا، لہٰذا طے پایا کہ باہر نکل کر چائے تلاش کی جائے۔ زیرک صاحب کے رشتہ دار ڈاکٹر تھے، لہٰذا کلینک کی وجہ سے انھوں نے اجازت مانگی۔
ہم ایک چائے ہوٹل کے باہر کھلی فضا میں بیٹھ گئے۔ اور ادب پر گفتگو شروع ہوئی۔ اور فاتح بھائی جیسی ادبی شخصیت کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے علم سے استفادہ کیا۔ اور چائے کا بل بھی فاتح بھائی نے ہی ادا کیا۔ پرس کو جو باہر آنے کی موہوم سے امید بندھی تھی، وہ بھی گئی۔ اس ادبی محفل کی باقی تفصیلات کا ذکر حسن بھائی کر چکے ہیں۔
شاہ صاحب نے اجازت طلب کی تو ان کو چھوڑنے پارکنگ تک آئے۔ جہاں کھڑے کھڑے فاتح بھائی سے غزل سنانے کی درخواست کی تو انھوں نے اپنی خوبصورت غزل سنائی۔
ہے مشغلہ جسے مرا کردار دیکھنا
وہ شخص بھی کہاں کا ہے اوتار، دیکھنا
اٹھّے گا حشر، شام کا بازار دیکھنا
گرتی ہے کس کے ہاتھ سے تلوار، دیکھنا
دیکھے تھے خواب راحتِ وصلت قرار کے
لازم ہوا ہے ہم کو بھی آزار دیکھنا
خوش ہو نہ جان کر ہمیں غرقاب، موجِ دہر!
ابھریں گے سطحِ آب سے اک بار، دیکھنا
ہونے دو بے لباس انھیں رختِ خواب پر
گُل پیرہن ہیں کتنے یہاں خار، دیکھنا
جب بھی ترے خدا کو لہو کی ہو احتیاج
ہم کافروں کو بر سرِ پیکار دیکھنا
اس کے بعد شاہ صاحب اجازت لے کر روانہ ہوئے۔ البتہ کھڑے کھڑے ہی ادب، نعتیہ ادب، تنقید پر گفتگو جاری رہی۔ جس میں حسن بھائی اور فاتح بھائی نے بہترین گفتگو رکھی اور ہم نے سامع کا کردار ادا کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔ پھر حسن بھائی سے کلام پیش کرنے کی درخواست کہ، جو انھوں نے بڑی مشکل سے قبول کی اور اپنی یہ عمدہ غزل پیش کی۔
لے کے حسن و خمار پہلو میں
کب سے بیٹھا ہے یار پہلو میں
قتل کرنے کو ایک کافی ہے
کر سلیقے سے وار پہلو میں
اُن سے پہلو تہی نہیں ہوتی
جن کا رہتا ہو پیار پہلو میں
عشق کرنے کا ہے مزہ جب ہی
ہو رقابت کا خار پہلو میں
زندگی دیر تک نہیں چلتی
ہجر کا لےکے بار پہلو میں
آگ نفرت کی کیا جلائےہمیں
تیرے غم کی ہے نار پہلو میں
جب محبت کو ہم نےدفنایا
اک بنایا مزار پہلو میں
ہم حسنؔ شوق سے جھکائیں گے سر
وہ سجائے جو دار پہلو میں
انس بھائی نے کچھ سنانے سے بالکل معذرت کی۔ میں خاموشی سے موبائل پر اپنی غزل پہلے ہی کھول چکا تھا، لہٰذا احباب کی توجہ اپنی جانب ہوتے ہی سنانے کے لیے تیار ہو گیا۔ اور اپنی نسبتاً تازہ غزل سنائی۔
آرزوؤں کا شجر اک ہم کو بونا چاہیے
زندہ رہنے کے لیے اب کچھ تو ہونا چاہیے
ضبطِ پیہم سے کہیں پتھر نہ ہو جائے یہ دل
صبر اچھی شے ہے لیکن غم پہ رونا چاہیے
مستعد رہنا ہے گر، لازم ہے عجلت سے گریز
لمبی راہوں کے مسافر کو بھی سونا چاہیے
ہر کس و ناکس کو اپنے دل میں دیتا ہے مقام
مجھ کو بھی تیرے دیارِ دل میں کونا چاہیے
مَیل دل کا مانگتا ہے شرمساری کا خراج
رات بھر تابشؔ اسے اشکوں سے دھونا چاہیے
میری یادداشت میں یہ پہلا موقع تھا کہ جب میں کسی نشست میں اپنا کلام سنا رہا تھا، ورنہ آج تک پڑھایا ہی تھا۔ البتہ فاتح بھائی کے بقول میں ایک دفعہ ان کو اپنی غزل ہی نہیں بلکہ غزلیں سنا چکا ہوں، اور انھیں اس لیے یاد ہے کہ ان کی ایک نہ سنی تھی۔
رات زیادہ ہو جانے کی وجہ سے بالآخر نہ چاہتے ہوئے بھی نشست کا اختتام ہوا۔ حسن بھائی، ابن توقیر بھائی اور واثق بھائی اٹک سے خاص طور پر نشست میں شرکت کے لیے تشریف لائے ہوئے تھے۔ اس لیے مزید ٹھہرنا مشکل تھا۔
یوں ایک یادگار ملاقات اپنے اختتام کو پہنچی۔ اور پھر ملیں گے کے جذبات کے ساتھ سب اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے۔