جس دن تم کو شام ستائے
سرد ہوا دل نہ بہلائے
جس دن جانا سو نہ سکو تم
تنہا ہو کر بھی تنہا ہو نہ سکو تم
ذرا سی بات پر آنکھ نم ہو جائے
سمجھ لینا کہ میں نے تم کو یاد کیا
میرے حال پہ حیرت کیسی درد کے تنہا موسم میں
پتّھر بھی رو پڑتے ہیں انساں تو پھر انساں ہوا
صحرا کی منہ زور ہوائیں اوروں سے منسوب ہوئیں
مفت میں ہم آوارہ ٹھہرے مفت میں گھر ویران ہوا
بارِ ہستی ہی بہت تھا بستیوں کی زیست میں
نیست کے خوف کو بھی خواہشِ دل کر لیا
ہم تھے تنہا بے روایت ساعتوں کی قید میں
جس سبب سے ہم نے خود کو اتنا مہمل کر لیا