آج تھانے کا تھریڈ دیکھ کر ایک واقعہ یاد آگیا۔
ویسے مجھے تو تھانے کے نام سے ہی اختلاج ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
لیکن زندگی میں ایک بار تھانے جانے کا اتفاق ہوا۔
وہ یوں کہ باس کی گاڑی کا سائیڈ گلاس ٹوٹ گیا تھا۔ اور گاڑی انشورڈ تھی۔
تو پہلے اس کی ایف آئی آر لے کر آنی تھی اس علاقے کے تھانے سے جہاں یہ واقعہ ہوا ہو۔
تو پھر ایک دن باس نکلے اس کام کو مجھے بھی ساتھ لے لیا۔
پہلے ہم دو ایک پارٹیوں کے پاس گھومے پھرے اور پھر تھانے کی تلاش شروع ہوئی۔
جب تھانے پہنچے تو وہاں تھوڑا بیٹھنا پڑا۔
اسی دوران ایک حولدار ایک شخص کے ساتھ آیا اور کہا کہ یہ صاحب بنا رجسٹریشن کی گاڑی کو لے کر گھوم رہے ہیں۔
اور کہتے ہیں کہ میں وکیل ہوں تو میں نے ان کو تھانے لے آیا کہ میں بھی قانون جانتا ہوں کہہ کر۔
وکیل صاحب پہلے تو کچھ دیر خاموش رہے۔
تھانے دار صاحب اپنے دھندوں میں لگے رہے ان کی طرف توجہ ہی نہیں دی۔
وکیل صاحب نے ایک دو بار انہیں متوجہ بھی کرنا چاہا لیکن وہ نہیں ہوئے۔
آخر وکیل صاحب نے اپنا موبائل نکالا اور کسی کو کال ملا کر شاید سندھی میں کچھ بات کی پھر اپنا موبائل تھانے دار کو تھمادیا۔
تھانے دار نے مختصر سی بات کی اور موبائل واپس کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے۔
"جی سر بتائیں کیا خدمت کی جائے آپ کی"
بس وہاں وکیل صاحب نے جو ان نو سنائی ہے۔
کہ ان کو کیسے لے آیا گیا تھانے میں۔
میں نے نئی گاڑی نکلوائی اور بس کلب تک گیا تھا۔
تم کو تو کہنا چاہیے تھا کہ اوہ سائیں کوئی گل نہیں علاقے کے بندے ہو۔
اور تم مجھے تھانے لے آئے۔
میں تم پر کیس کرسکتا ہوں میری گاڑی میں پتہ نہیں کتنی رقم تھی اور پولیس والے میری گاڑی میں اسلحہ لیے سوار ہوئے۔
اور بھی پتہ نہیں کیا کیا۔
تو اس میں اصل بات یہ کہ ہم نے ایویں ہی پتہ نہیں کس ترنگ میں یہ ساری کاروائی اپنے موبائل میں بمع ویڈیو ریکارڈ کرلی تھی
باہر آکر جب ہم اپنی گاڑی میں بیٹھے تو باس نے کہا کہ یہ کیا کررہے تھے تم
اگر کوئی دیکھ لیتا تو خیر نہیں تھی۔
باس نے شاید ہمیں تاڑ لیا تھا یہ حرکت کرتے ہوئے۔
ویسے کوئی پولیس والا نہیں تاڑ پایا
تھانے کا نام یہاں نہیں لکھوں گا کیونکہ بہرحال تھانہ کراچی میں ہی ہے