فلک شیر صاحب سے فون پر بات ہو رہی تھی، کہنے لگے: "زندگی کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ لفظ سے تعلق کی بات بھی کرتے جائیے"۔
اس پر یاد آیا کہ ابتدا میں "لفظ کھو جائیں گے" (اردو غزلیات) کے دیباچے سے اقتباس پیش کر چکا ہوں۔ اس میں ادبی سفر کی ابتدا کا احوال کچھ اس طرح لکھا ہے:
خواب سے سانجھ تک
۔۔۔۔
یہ کہانی کی ابتدا ہے، صاحبو! کون جانے؟ یہی ناآسودہ خواب ہوں اور اظہار کو ترس رہے ہوں اور لفظ سے میرے تعلق کا سبب بنے ہوں۔ ایک تھا بادشاہ، اس کے سات بیٹے تھے ... ایک تھا بادشاہ، اس کی سات ملکائیں تھیں، ہر ایک سے ایک ایک لڑکی تھی ... ایسے جملوں سے شروع ہونے والی داستانیں بڑے بوڑھوں میں بہت مقبول تھیں۔ ہر داستان میں کبھی ایک اور کبھی زیادہ اخلاقی درس ہوتے۔ سردیوں کی طویل اورگرمیوں کی مختصر راتوں میں کسی زمیندار کے ڈیرے پر محفل جمتی۔ ایک شخص داستان شروع کرتا: ایک تھا فقیر، وہ بستی سے دور جنگل میں ایک کٹیا میں رہتا تھا ..... اور پھر رات گزر جاتی داستان جاری ہوتی۔ اگلی رات جہاں پر بات رکی تھی، وہاں سے آگے چلتی اور یوں کئی ہفتوں بعد اپنے اختتام کو پہنچ جاتی۔ میں کہانی کی ایسی محفلوں میں بڑے شوق سے بیٹھا کرتا اور ہر کہانی کو اس قدر توجہ سے سنتا جیسے وہ میرا سکول کا سبق رہا ہو۔
والدہ مرحومہ رسمی تعلیم کے لحاظ سے تو اَن پڑھ تھیں تاہم قرآن مجیدکے علاوہ چیدہ چیدہ دینی کتابیں جو عموماً پنجابی شاعری تھی خواتین کی محفلوں میں پڑھا کرتی تھیں۔ میں پہلے پہل تو والدہ کے پاس بیٹھ کر انہیں سنا کرتا اور کرتے کرتے ان کتابوں کو روانی سے پڑھنے لگا۔ لفظ کے ساتھ میرا تعلق شاید اُن داستانوں کی بدولت قائم ہوا اور شعر کا چسکا اُن دینی کتابوں کی برکت سے پڑا۔ مجھے شعر کو درست پڑھناآ گیا تھا۔ سو میرے مہربان استاد نے مجھے سکول کی بزم ادب میں شامل کر لیا۔ پھر تو ہر جمعے کو بزمِ ادب کے اجلاس کی نظامت مجھے کرنا پڑتی اور ہیڈماسٹر صاحب صدرِ بزم ہوتے۔ یہ سلسلہ ہائی سکول سے میری فراغت تک جاری رہا۔ ۱۹۶۷ء میں جب میں دسویں جماعت میں تھا، لفظ اور مصرعے سیدھے کرنے کی کوشش کرنے لگا تھا۔ مگر غم روزگار غالب آ گیا اور میری تخلیقی صلاحیتیں کم عمری میں ہی دو روٹی کے باٹوں میں پسنے لگیں۔
میرے بڑے بھائی فوج میں ہوا کرتے تھے، وہ ڈھاکہ میں تعینات تھے جب اُدھر تم اِدھر ہم کا نعرہ بلند ہوا، جو بالآخر دھرتی ماں کے سینے کو دولخت کر گیا۔ ۱۹۷۱ء میں جس رات سقوطِ ڈھاکہ کا کرب انگیز سانحہ پیش آیا، وہ رات میں نے کیسے گزاری، بیان کرنا مشکل ہے۔ تاہم وہی رات مہمیز کا کام کر گئی اور ۱۹۷۲ء میں اسی تناظر میں میری ایک نظم اور چند کہانیاں اس وقت کے معروف پنجابی ماہانہ پرچے ’’پنجابی زبان‘‘ میں (جس کی ادارت ڈاکٹر رشید انور کرتے تھے) شائع ہوئیں۔ نانِ جویں کا غم فکر سخن پر غالب رہا تاہم وہ مہمیز جو سقوطِ ڈھاکہ کا تحفہ تھی اپنا کام دکھا گئی اور میں خود کو ادیب اور شاعر سمجھنے لگا۔ دن پھر چکی کی سی مشقت ہوتی اور رات سوچوں کے پاٹوں بیچ کٹتی۔ سرِنوکِ خیال جو کچھ بھی آ جاتا میں لکھ کر رکھ لیتا اور بس! تب سے حلقہ تخلیقِ ادب میں شمولیت(غالباً اکتوبر ۱۹۸۴ء) تک تقریباً خاموشی کا زمانہ گزارا۔
۔۔۔۔