جاپان کی تصویری یاداشتیں

عرفان سعید

محفلین
یونیورسٹی کا نیو کیمپس ایک پہاڑی پر بلندی پر واقع تھا۔ کیمپس سے لی گئی ایک تصویر میں 10 کلو میٹر دور کیوٹو ٹاور صاف دکھائی دے رہا ہے۔

 

فہد اشرف

محفلین
مین گیٹ کے باہر کی سڑک۔ تصویر میں لال رنگ کا ڈھانچہ ایک شرائن کا بیرونی دروازہ ہے۔ شرائن کے بیرونی دروازے کی ساخت ہمیشہ یہ ہوتی ہے۔
یہ تصویر یاد آ گئی
Hiroshima.jpg
 

عرفان سعید

محفلین
چھوٹی سی میزیں ہیں۔ اور خال خال محسوس ہو رہا ہے۔ زیادہ پیٹو قسم کے لوگ نہیں لگتے یہ جاپانی۔
عام روٹین میں نارمل ہی کھاتے ہیں۔ جاپانی خوراک بہت صحت مندانہ ہوتی ہے۔ جس کا اندازہ جاپانیوں کی دنیا میں طویل ترین اوسط عمر سے لگایا جاسکتا ہے۔
لیکن کھانے کا موقع ہو تو جاپانی بھی کمال کھاتے ہیں۔
 

عرفان سعید

محفلین
جس اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر تھا، اس کی بائیں جانب سڑک کے دوسری طرف ایک چھوٹی سی شرائن تھی۔ شرائن کا دروازہ عام طور پر سرخ رنگ کا اور ایک مخصوص شکل کو ہوتا ہے۔

 

عرفان سعید

محفلین
شرائن کے اندر کی تصویر:
اندرونی صحن میں مرکزی دروازے کے دونوں طرف پتھر سے بنے ہوئے ایک جانور کا مجسمہ نصب تھا۔ بظاہر شیر سے مماثلت معلوم ہوتی ہے۔مجسمے کے ساتھ ہی پانی کا ایک چھوٹا سا حوض تھا۔ بانس سے بنے ہوئے برتن سے پانی لیکر لوگ پوجا سے پہلے ہاتھ دھوتے تھے۔
تصویر کی دائیں طرف ایک پکے فرش کا رستہ ایک کمرے تک لے جاتا ہے۔ کمرے کے باہر لٹکی ہوئی رسیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ہاتھ دھونے کے بعد لوگ، اس کمرے کے سامنے آنکھیں بند کر کے، سر کو جھکاتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوتے اور دل ہی دل میں کچھ کہتے رہتے۔ اس دو تین منٹ کے مراقبے سے فارغ ہو کر چند سکے ایک ڈبے میں ڈال کر چل دیتے۔
گرمیوں کی دوپہر میں اکثر میں شرائن کے اندر درختوں کے سائے میں بیٹھ کر لوگوں کی پوجا کا طریقہ دیکھا کرتا تھا۔

 
آخری تدوین:

عرفان سعید

محفلین
شہر کے ایک انتہائی بارونق بازار کی ہر وقت کھچا کھچ لوگوں سے بھری گلی پر ایک چھوٹا سا مندر تھا۔ ایک رات وہاں خصوصی سجاوٹ کے انتظامات کیے گئے تھے۔ سجاوٹ کی وجہ تو معلوم نہ ہو سکی، لیکن تصویریں ضرور اتار لیں۔



[url=https://flic.kr/p/28GmQU5]
[/url]
 

عرفان سعید

محفلین
کیوٹو یونیورسٹی میں میرے پروفیسر ٹوشیو ماسُودا کیوٹو کے ایک نزدیکی شہر اوتسُو میں رہائش پذیر تھے۔ انہیں روزانہ کم و بیش اڑھائی گھنٹے کا سفر یونیورسٹی آنے جانے کے لیے کرنا ہوتا تھا۔ ایک بار انہوں نے لیب میں موجود تمام غیر ملکی طلبا کو اپنے گھر مدعو کیا۔ ان کی جانب سے ایک پرتکلف ضیافت کا اہتمام تھا۔ ان کی بیگم، بیٹے اور بہو سے بھی ملاقات ہوئی۔ ہماری وجہ سے کھانے میں الکوحل اور گوشت کی اشیا سے مکمل پرہیز تھا۔
ان کے گھر کے قریب ہی اس علاقے کی مشہور بِیوا جھیل تھی، جس میں انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے بچپن میں تیرا کرتے تھے۔ کھانے پینے سے فارغ ہم سب استادِ محترم کے ہمراہ جھیل کی چہل قدمی کو نکل گئے۔ جھیل کا ایک منظر حاضر ہے۔

 
Top