عرفان سعید
محفلین
جاپان جاتے ہی یہ معلوم ہوا کہ میری لیب تو کیوٹو یونیورسٹی کے مین کیمپس میں ہوگی لیکن میرا سٹوڈنٹ اپارٹمنٹ ایک دوسرے کیمپس میں ہو گا، جو کیوٹو کے جنوب میں موجود اُجی شہر کے ایک قصبے اوباکُو میں واقع ہے، اور دونوں کے درمیان 23 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ ایک طرف کا سفر ٹرین پر ایک گھنٹے کا بنتا تھا۔ سٹوڈنٹ اپارٹمنٹ میں زیادہ سے زیادہ ایک سال تک رہ سکتے ہیں، اس کے بعد اپنی رہائش کا خود انتظام کرنا ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ مجھے معلوم ہوا کہ ہماری لیب چار ماہ بعد ایک نئے تعمیر شدہ کیمپس میں منتقل ہوجائے گی، اور اس اپارٹمنٹ سے وہاں تک صرف جانے میں دو گھنٹے خرچ ہوتے ہیں۔اس لیے یہ واضح تھا کہ چار مہینے بعد نئے کیمپس کے قریب اپنی رہائش کا بندوبست کرنا پڑے گا، جو کہ کیا۔ پھر چار ماہ بعد جاپان میں اپنی اولین قیام گاہ کو ایک بوجھل دل سے الوداع کہنا پڑا۔
پاکستان رہتے ہوئے کبھی گھر کے علاوہ کہیں رہنا نہیں ہوا۔ جاپان جانا بیرونِ ملک سفر کا اولین تجربہ تھا اور وہاں جاکر اوباکُو کے اپارٹمنٹ میں چار مہینے کاقیام اپنے ہمراہ بے شمار جذبات اور احساسات کے ساتھ، میری لوحِ یاداشت پر انمٹ نقوش ثبت کر رہا تھا۔
جاپان رہتے ہوئے اب اڑھائی سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا تھا، تو دسمبر 2005 میں جاپان میں اپنی اولین قیام گاہ کی دوبارہ زیارت کی خواہش نے سر اٹھایا تو ایک دن ٹرین پر کیوٹو کے جنوب میں واقع اُجی کی جانب روانہ ہو گئے۔ جہاں ہماری منزل اوباکُو کا قصبہ تھا۔
پاکستان رہتے ہوئے کبھی گھر کے علاوہ کہیں رہنا نہیں ہوا۔ جاپان جانا بیرونِ ملک سفر کا اولین تجربہ تھا اور وہاں جاکر اوباکُو کے اپارٹمنٹ میں چار مہینے کاقیام اپنے ہمراہ بے شمار جذبات اور احساسات کے ساتھ، میری لوحِ یاداشت پر انمٹ نقوش ثبت کر رہا تھا۔
جاپان رہتے ہوئے اب اڑھائی سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا تھا، تو دسمبر 2005 میں جاپان میں اپنی اولین قیام گاہ کی دوبارہ زیارت کی خواہش نے سر اٹھایا تو ایک دن ٹرین پر کیوٹو کے جنوب میں واقع اُجی کی جانب روانہ ہو گئے۔ جہاں ہماری منزل اوباکُو کا قصبہ تھا۔