آخر بابا جی کو خالہ کے سلسلے میں کوئی کامیابی نصیب نہیں ہوئی بابا جی نے یہ بولے کہ لڑکی کی عمر زیادہ ہے اس لیے جوابات نہیں مل رہے
شاید میں بابا جی کے پوری طرح ٹرانس میں نہیں آئی تھی
یاں شاید جن مجھ سے ڈر گیا تھا
ملتا جلتا واقعہ میرے ساتھ بھی رونما ہوچکا ہے۔ ہماری چچی کے گھر میں شادی کی تقریب تھی اور اس شادی میں کچھ مہمانوں کے سونے کے زیورات چوری ہوگئے۔ معاملہ رشتے داری کا تھا لہذا کسی پر شک بھی ظاہر نہیں کر سکتے تھے، اسی طرح ادھر ادھر سے سن گن ملی مع مختلف حوالوں کے کہ کورنگی کے علاقے میں ایک بابا ہیں جو فال نکالتے ہیں۔ میری چچی جن کا زیور چوری ہوا تھا وہ کچھ رشتے داروں کے توسط سے وہاں پہنچیں مگر وہاں بابا کی شرط تھی کہ فال دیکھنے کیلئے گھر سے کسی "معصوم" بچے کو لاؤ جس کی عمر کم و بیش دس سال ہو۔
ستم ظریفی دیکھیے کہ پورے گھر میں سب سے معصوم بچہ میں ہی تھا (گھر والوں کی نظر میں) سو سب کی نگاہ اتفاق مجھ پر ہی پڑی (ایک اور امید جلوہ دیکھنے کی)۔
جب وہاں پہنچے تو ایک چھوٹا سا کمرہ بمشکل دس بائی دس فیٹ یا اس سے کم کا ہوگا اور اس میں خواتین کا ایک جم غفیر جن میں اکثریت کا مسئلہ یہی چوری اور فال دکھوانا تھا۔
خیر ہم ایک جانب بیٹھ گئے اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگے۔
میں اس دوران پورے ماحول کا جائزہ لیتا رہا، کمرے کے ایک کونے میں بابا جی براجمان تھے اور ان کے سامنے ایک چھوٹی سی فرشی ٹیبل جس پر کچھ کاغذ سادہ و منقوش رکھے تھے، اس ٹیبل کے ایک کونے میں ایک پیالہ تھا جس میں نارنگی رنگ کا پانی(زعفران کا پانی تعویز لکھنے کیلئے بطور سیاہی) پڑا تھا۔ دائیں بائیں خواتین کا مجمع جو باری باری اپنے مسائل پیش کر رہی تھیں اور بابا جی فی الفور ان کا حل کاغذ پر مختلف نقش بنا کر کر رہے تھے (کچھ لوح قرانی کی طرز کے نقوش تھے) دوسری جانب بابا کا ایک اسسٹنٹ (کمپاؤنڈر) بیٹھا تھا، جو بھی خاتون تعویز حاصل کر لیتی وہ اس اسسٹنٹ کے پاس جاتی جو کہ اس تعویز کا طریقہ استعمال بتاتا، فیس یا ہدیہ وصول کرتا اور اگلی باری والی خاتون کو بابا کی جانب جانے کا اذن دیتا۔
دل میں شدید اشتیاق تھاکہ آج بنا بجلی والا وائرلیس ٹی وی دیکھوں گا۔ المختصر جب ہماری باری آئی تو کمپاؤنڈر(اسسٹنٹ) نے اشارہ کیا کے آگے بڑھو۔ میں چچی کے ہمراہ آگے بڑھا اور چاچی نے پہلے تو پوری کیس ہسٹری بتائی اس کے بعد مجھے آگے کیا کہ فال دیکھنے کیلئے یہ بچہ لائیں ہیں۔ بابا نے پہلے تو اپنی پرجلال نگاہوں(اپنے تئیں) سے مجھے گھورا پھر نام و عمر پوچھی۔ میری عمر اس وقت ساڑھے گیارہ سال تھی جس پر اس نے کہا کہ بچے کی عمر زیادہ ہے کامیابی کے چانس کم ہیں (غالباً پیش بندی تھی یہ)۔ پھر آواز کو اور بھی رعب دار بنا کر پوچھا بچہ ڈر تو نہیں جاؤ گے (بھلا بتاؤ، ہم اشتیاق میں مرے جا رہے تھے اور بابا سسپنس پیدا کر رہے تھے) میں نے مسمسی سی صورت بنا کر کہا جی نہیں ڈروں گا۔ پھر انھوں نے میرے سیدھے ہاتھ کے انگوٹھے پر وہ زعفرانی پانی لگایا اور مجھے کہا کہ دوسرے ہاتھ سے اسے کور کر کے غور سے دیکھو، میں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا مگر کچھ بھی دکھائی نہیں دیا۔ بابا جی ہر تھوڑی دیر بعد پوچھتے کہ کچھ دکھائی دیا؟ اور میں انکار میں سر ہلا دیتا۔ الغرض تھوڑی دیر بعد بابا جی نے کہا کہ لڑکے کے دل میں فتور ہے ہمارے لئے (پہلی سچی بات)۔
یوں ہم ناکام و نامراد گھر لوٹے۔