جو دل میں شعر آئے وہ لکھ دیجیے -- نیا سلسلہ

رابطہ

محفلین
تمہارے دست نازک کے لیے بھیجی تھی ایک پہنچی
خبر پہنچی تو یہ پہنچی کہ وہ پہنچی نہیں پہنچی
 
تم ہارنے کا سوچ کے میداں میں آئے ہو
اب میں بھی جیت جائوں ےو میری شکست ہے

پستوں میں ہم بلند ہُوئے بھی تو کیا ہُوئے
ہم سے بلند وہ جو بلندوں میں پست ہے
شاعر ۔۔۔ نجم الحسن کاظمی
 

کاتب

محفلین
مجموعہ اضداد
اراکینِ محفل سے پیشگی معذرت ہے اور نگران دھاگہ سے استدعا ہے کہ اگر یہ مراسلہ بے تکا یا غیر متعلق پایا جائے، تو بلا تکلف حذف کر دیا جائے۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ دھاگہ، جو دل میں آئے، شعر لکھ دیجیئے کے لئے مخصوص ہے۔ لیکن جو شعر دل میں آیا ہے اور پیش کرنا چاہتا ہوں، اس کا پس منظر بھی پیش کرنا چاہتا ہوں جو بعد میں کسی حد تک شعر و ادب اور فنون لطیفہ سے میری دلچسپی کا باعث بنا۔​
کچھ برس قبل، ایام لڑکپن میں اپنے والد کے ہمراہ چولستان کی جانب محو سفر تھے۔ راستے میں بہاولپور شہر میں چائے کے وقفے کے لئے رکاؤ ہوا۔ اس دوران میں نے سڑک کے کنارے واقع ''چائے خانہ'' کے نزدیک گھومنا پھرنا (Exploration) شروع کر دیا۔ سڑک کے دونوں جانب دکانیں اور دکانوں کے باہر ہر طرح کے اجناس بک رہے تھے۔ ایک بنجارہ (Nomad) گرد آلود سڑک کے کنارے ایک چادر زمین پر بچھائے کھلونے بیچ رہا تھا۔ یہ اس کی (Mobile Shop) تھی۔ کچھ کھلونے مٹی کے، تو کچھ لکڑی ، کاغذ ، کپڑے اور گھاس پھوس کے بنے ہوئے تھے۔ لڑکوں کے کھلونوں کےساتھ ساتھ کچھ مالائیں، ہار، چوڑیاں وغیرہ بھی لڑکیوں کے لئے فروخت کے لئے چادر پر بچھے ہوئے تھے۔ میں نے جا کر اس کی اشیاء برائے فروخت کا جائزہ لیا۔ سب چیزیں دیکھنے کے دوران ناگاہ نظر ''تین دلوں'' پر پڑی۔ یہ چھوٹے چھوٹے سے دل کسی مٹی سے بنا کر (Glaze) کئے گئے تھے۔ اور ہر دل میں ایک کنڈہ سا بھی بنا ہوا تھا جو اس مقصد کے لئے تھا کہ اس میں دھاگہ پرو کر گلے میں پہنا جائے۔​
ایک دھاگہ بینگن جیسے نیلے رنگ کا، ایک چمکتا ہوا لال سرخ اور ایک ہلکے سے انگوری رنگ کا تھا۔ لکڑی ، کاغذ، کپڑے اور گھاس پھوس سے بھرا ہوا ایک گھوڑا منتخب کرنے کے بعد ان تین دلوں کا جائزہ لئنے کی ٹھانی۔ بظاہر سستے اور سادہ سے مٹی سے بنائے یہ دل خوب اچھی طرح سے (Glaze) کئے گئے تھے اور دھوپ میں خوب چمک رہے تھے اور کسی بھی عیب یا نقص سے پاک نظر آ رہے تھے۔ تینوں مٹی کے دل ہاتھ کی ہتھیلی پر ایک ایک رکھ کر ان کا جائزہ لیا۔ تینوں دل بالکل ایک ہی جسامت کے تھے اور ان کی سطح خوب ہموار شیشے کے مائل محسوس ہوتی تھی۔ لیکن ہلکے انگوری رنگ کے دل کا ایک رخ تو عیوب و نقائص سے پاک تھا لیکن دوسرا رخ کچھ بھدا اور پر عیب محسوس ہوا۔ اس پر انگوٹھے کا نشان اور اس کا ایک (Depression) گڑھا سا پڑا ہوا تھا جو بظاہر اس کو بد زیب بنا رہا تھا۔ تاہم میں نے گھوڑے سمیت تینوں مٹی کے دل خریدنے کی ٹھانی۔ جب بنجارے سے ہلکے انگوری رنگ کے دل کے نقص کی بابت دریافت کیا تو زبان یار من ترکی والے معاملے کے بعد پتہ چلا کہ ''دلوں کی آگ میں پکائی'' کے عمل اور گلیزنگ کے دوران حادثاتی طور پر بنجارے کا انگوٹھا دل پر جا پڑا تھاجو اس کے جلے ہوئے انگوٹھے کو دیکھ کر سمجھ آیا۔ ہر چند کہ میں نہیں چاہتا تھا، لیکن بنجارے نے اصرار کیا کہ وہ ہلکے انگوری رنگ کے دل کی قیمت نہیں لے گا۔​
قصہ مختصر، خرید کردہ سامان(Treasure)، اپنے سفری تھیلے میں رکھ کر فورا'' والد صاحب کی جانب چائے خانے پر پہنچا جو چند قدم ہی دور تھا۔ جب گاڑی میں دوبارہ روانگی ہوئی، تو چند میل سفر کے بعد، خیال آیا کہ اپنی خرید کردہ اشیاء دیکھی جائیں۔ پتہ چلا کہ سفری تھیلا ندار۔ اب میری ضد اور لاڈلے پن کے آگے ہاتھ ڈالتے ہوئے ''قافلہ'' واپس اسی چائے خانے کی جانب مڑا جہاں سفری تھیلا ممکنہ طور پر رہ گیا تھا۔ چائے خانے پر پہنچ کر استفسار و تلاشی کے بعد تھیلا ندار اور نہ ہی وہاں پر بنجارہ تھا جو کچھ دیر قبل تھا۔​
ہمارے بچگانہ (Tantrums) اور والد صاحب کے(ناجائز) اثر و رسوخ کے باعث بہاولپور اور اس کے بیچارے اہالیان کو ساڑھے تین سے چار گھنٹے کی (Lockdown) ناکہ بندی اور پوچھ گچھ کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کے لئے میں اہالیانِ بہاولپور سے معذرت خواہ ہوں اور اراکینِ محفل سے بھی کہ آپ کو نا حق یہ لغویات پڑھنا پڑیں۔​
اس واقعے کی رات، میرے والد نے پوچھا کہ بھئی وہ دل ''کس کے لئے'' لئے تھے۔ تو میں نے بتایا کہ لال رنگ کا اپنی امی کے لئے، اور بینگن جیسے نیلے رنگ کا اپنی ٹیچر کے لئے۔ تو انھوں نے پوچھا کہ وہ تیسرا کس کے لئے تھا؟ تو میں نے کہا کہ وہ میرے اپنے لئے تھا جو میں بڑا ہو کر اپنی بیوی کو تحفے میں دیتا۔ اور کئی سال تک گھر والے اس بات کو لے کر مجھے چھیڑتے رہے۔ لیکن وائے افسوس، کہ وہ '' دل نہیں رہا'' اور نہ ہی والد صاحب۔​
(Conclusion) کچھ برس بعد اردو شاعری کے حوالے سے ایک اصطلاح، ''مجموعہ اضداد'' سامنے آئی تو ہمیں ناگاہ ''وہ دل'' یاد آ گیا اور اس اصطلاح کے سامنے آنے سے اکثر ہی یاد آ جاتا ہے۔ میری دانست میں وہ دل ''مجموعہ اضداد'' تھا۔ اس میں بنجارے کی تخلیق کی مہر ثبت تھی اور وہ کسی بھی نقص سے پاک اور اپنی نوعیت آپ( Unique) تھا۔​
اشعار کے حوالے سے ہمیں اتنی مہارت حاصل نہیں جتنی آپ سب کو ہے، لہٰذا کھودا پہاڑ نکالا چوہا کے مصداق الٹا سیدھا سا شعر پیش محفل ہے:​
دلِ عاشق بھی کیا ''مجموعہ اضداد'' ہوتا ہے
اِدھر آباد ہوتا ہے، اُدھر برباد ہوتا ہے
یہاں پراس تحریر کا محرک محفل کا ایک اور پُر لطف اور دلچسپ دھاگہ تھا :)
 

محمداحمد

لائبریرین
مجموعہ اضداد
اراکینِ محفل سے پیشگی معذرت ہے اور نگران دھاگہ سے استدعا ہے کہ اگر یہ مراسلہ بے تکا یا غیر متعلق پایا جائے، تو بلا تکلف حذف کر دیا جائے۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ دھاگہ، جو دل میں آئے، شعر لکھ دیجیئے کے لئے مخصوص ہے۔ لیکن جو شعر دل میں آیا ہے اور پیش کرنا چاہتا ہوں، اس کا پس منظر بھی پیش کرنا چاہتا ہوں جو بعد میں کسی حد تک شعر و ادب اور فنون لطیفہ سے میری دلچسپی کا باعث بنا۔​
کچھ برس قبل، ایام لڑکپن میں اپنے والد کے ہمراہ چولستان کی جانب محو سفر تھے۔ راستے میں بہاولپور شہر میں چائے کے وقفے کے لئے رکاؤ ہوا۔ اس دوران میں نے سڑک کے کنارے واقع ''چائے خانہ'' کے نزدیک گھومنا پھرنا (Exploration) شروع کر دیا۔ سڑک کے دونوں جانب دکانیں اور دکانوں کے باہر ہر طرح کے اجناس بک رہے تھے۔ ایک بنجارہ (Nomad) گرد آلود سڑک کے کنارے ایک چادر زمین پر بچھائے کھلونے بیچ رہا تھا۔ یہ اس کی (Mobile Shop) تھی۔ کچھ کھلونے مٹی کے، تو کچھ لکڑی ، کاغذ ، کپڑے اور گھاس پھوس کے بنے ہوئے تھے۔ لڑکوں کے کھلونوں کےساتھ ساتھ کچھ مالائیں، ہار، چوڑیاں وغیرہ بھی لڑکیوں کے لئے فروخت کے لئے چادر پر بچھے ہوئے تھے۔ میں نے جا کر اس کی اشیاء برائے فروخت کا جائزہ لیا۔ سب چیزیں دیکھنے کے دوران ناگاہ نظر ''تین دلوں'' پر پڑی۔ یہ چھوٹے چھوٹے سے دل کسی مٹی سے بنا کر (Glaze) کئے گئے تھے۔ اور ہر دل میں ایک کنڈہ سا بھی بنا ہوا تھا جو اس مقصد کے لئے تھا کہ اس میں دھاگہ پرو کر گلے میں پہنا جائے۔​
ایک دھاگہ بینگن جیسے نیلے رنگ کا، ایک چمکتا ہوا لال سرخ اور ایک ہلکے سے انگوری رنگ کا تھا۔ لکڑی ، کاغذ، کپڑے اور گھاس پھوس سے بھرا ہوا ایک گھوڑا منتخب کرنے کے بعد ان تین دلوں کا جائزہ لئنے کی ٹھانی۔ بظاہر سستے اور سادہ سے مٹی سے بنائے یہ دل خوب اچھی طرح سے (Glaze) کئے گئے تھے اور دھوپ میں خوب چمک رہے تھے اور کسی بھی عیب یا نقص سے پاک نظر آ رہے تھے۔ تینوں مٹی کے دل ہاتھ کی ہتھیلی پر ایک ایک رکھ کر ان کا جائزہ لیا۔ تینوں دل بالکل ایک ہی جسامت کے تھے اور ان کی سطح خوب ہموار شیشے کے مائل محسوس ہوتی تھی۔ لیکن ہلکے انگوری رنگ کے دل کا ایک رخ تو عیوب و نقائص سے پاک تھا لیکن دوسرا رخ کچھ بھدا اور پر عیب محسوس ہوا۔ اس پر انگوٹھے کا نشان اور اس کا ایک (Depression) گڑھا سا پڑا ہوا تھا جو بظاہر اس کو بد زیب بنا رہا تھا۔ تاہم میں نے گھوڑے سمیت تینوں مٹی کے دل خریدنے کی ٹھانی۔ جب بنجارے سے ہلکے انگوری رنگ کے دل کے نقص کی بابت دریافت کیا تو زبان یار من ترکی والے معاملے کے بعد پتہ چلا کہ ''دلوں کی آگ میں پکائی'' کے عمل اور گلیزنگ کے دوران حادثاتی طور پر بنجارے کا انگوٹھا دل پر جا پڑا تھاجو اس کے جلے ہوئے انگوٹھے کو دیکھ کر سمجھ آیا۔ ہر چند کہ میں نہیں چاہتا تھا، لیکن بنجارے نے اصرار کیا کہ وہ ہلکے انگوری رنگ کے دل کی قیمت نہیں لے گا۔​
قصہ مختصر، خرید کردہ سامان(Treasure)، اپنے سفری تھیلے میں رکھ کر فورا'' والد صاحب کی جانب چائے خانے پر پہنچا جو چند قدم ہی دور تھا۔ جب گاڑی میں دوبارہ روانگی ہوئی، تو چند میل سفر کے بعد، خیال آیا کہ اپنی خرید کردہ اشیاء دیکھی جائیں۔ پتہ چلا کہ سفری تھیلا ندار۔ اب میری ضد اور لاڈلے پن کے آگے ہاتھ ڈالتے ہوئے ''قافلہ'' واپس اسی چائے خانے کی جانب مڑا جہاں سفری تھیلا ممکنہ طور پر رہ گیا تھا۔ چائے خانے پر پہنچ کر استفسار و تلاشی کے بعد تھیلا ندار اور نہ ہی وہاں پر بنجارہ تھا جو کچھ دیر قبل تھا۔​
ہمارے بچگانہ (Tantrums) اور والد صاحب کے(ناجائز) اثر و رسوخ کے باعث بہاولپور اور اس کے بیچارے اہالیان کو ساڑھے تین سے چار گھنٹے کی (Lockdown) ناکہ بندی اور پوچھ گچھ کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کے لئے میں اہالیانِ بہاولپور سے معذرت خواہ ہوں اور اراکینِ محفل سے بھی کہ آپ کو نا حق یہ لغویات پڑھنا پڑیں۔​
اس واقعے کی رات، میرے والد نے پوچھا کہ بھئی وہ دل ''کس کے لئے'' لئے تھے۔ تو میں نے بتایا کہ لال رنگ کا اپنی امی کے لئے، اور بینگن جیسے نیلے رنگ کا اپنی ٹیچر کے لئے۔ تو انھوں نے پوچھا کہ وہ تیسرا کس کے لئے تھا؟ تو میں نے کہا کہ وہ میرے اپنے لئے تھا جو میں بڑا ہو کر اپنی بیوی کو تحفے میں دیتا۔ اور کئی سال تک گھر والے اس بات کو لے کر مجھے چھیڑتے رہے۔ لیکن وائے افسوس، کہ وہ '' دل نہیں رہا'' اور نہ ہی والد صاحب۔​
(Conclusion) کچھ برس بعد اردو شاعری کے حوالے سے ایک اصطلاح، ''مجموعہ اضداد'' سامنے آئی تو ہمیں ناگاہ ''وہ دل'' یاد آ گیا اور اس اصطلاح کے سامنے آنے سے اکثر ہی یاد آ جاتا ہے۔ میری دانست میں وہ دل ''مجموعہ اضداد'' تھا۔ اس میں بنجارے کی تخلیق کی مہر ثبت تھی اور وہ کسی بھی نقص سے پاک اور اپنی نوعیت آپ( Unique) تھا۔​
اشعار کے حوالے سے ہمیں اتنی مہارت حاصل نہیں جتنی آپ سب کو ہے، لہٰذا کھودا پہاڑ نکالا چوہا کے مصداق الٹا سیدھا سا شعر پیش محفل ہے:​
دلِ عاشق بھی کیا ''مجموعہ اضداد'' ہوتا ہے
اِدھر آباد ہوتا ہے، اُدھر برباد ہوتا ہے
یہاں پراس تحریر کا محرک محفل کا ایک اور پُر لطف اور دلچسپ دھاگہ تھا :)

آپ کی تحریر اور اندازِ تحریر بہت خوب ہے۔

اور شعر بھی۔ اگر شمشاد بھائی اس تحریر کو الگ لڑی میں پیش کرسکیں تو باقی دوست بھی اس تحریر سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔
 

نیلم

محفلین
کھول یوں مٹھی کہ اک جگنو نہ نکلے ہاتھ سے
آنکھ کو ایسے جھپک لمحہ کوئی اوجھل نہ ہو
پہلی سیڑھی پر قدم رکھ ،آخری سیڑھی پر آنکھ
منزلوں کی جستجو میں رائیگاں کوئی پل نہ ہو
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
برسوں میں مراسم بنتے ہیں، لمحوں میں بھلا کیا ٹوٹیں گے
تو مجھ سے بچھڑنا چاہے تو دیوار اٹھا دھیرے دھیرے
 
Top