غالباً کہیںکسی روایت میں پڑحا تھا کہ ایک صحابی رسول نے اپنی بیوی سے کہا کہ اے نیک بخت میں نے تجھ میں کوئی خامی یا خرابی ایسی نہیں پائی جس کی بنیاد پر میں خود ایسا سوچوں پر میرے والدین کی رضا اسی میں ہے کہ تمہیں طلاق دے دوں اس لئے میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔
اگر اس روایت میں کوئی جھول ہے تو از راہ مہربانی اہل علم تصحیح فرما دیں پر اسے موضؤع بحث نا بنائیں
واللہ اعلم بالصواب۔
تو میری مراد یہ تھی کہ والدین کی ایسے کھلے لفظوں میں نا فرمانی کرنے سے قبل ایک بار سوچنا ضرور چاہئے۔
والدین کی نافرمانی کی بات نہیں کی جارہی ، تیلے بھیا نے تو اپنی سوچ شیئر کی ۔ اور جب لوگٰوں کے پاس کوئی جواب نا بن پائے تو صحابیوں کی مثالیں دے کر بتانے لگتے ہیں ابن ِ بھیا ،
اگر رسول پاک ، نبی ، اور ضحابیوں کے ہی نقش قدم چلنا ہے تو پھر تو اور بھی کئی باتیں ہیں ، کام ہیں جو انہوں نے کئے یا بتائے ہوئے ہیں پھر اس پے عمل کیوں نہیں ، ۔۔۔ بس لے دے کر جو اپنے دل کو بھائے ہم صرف اسی کو اپناتے ہیں بس ، ۔۔۔ باقی کیا ہیں ، کیوں ہیں ، کیسے ہے یہ بھول جاتے ہیں