سلطان باہو حضرت سلطان باہو رحمتہ الله علیہ کا مکمل پنجابی کلام معنی اور ترجمہ کے ساتھ

یوسف سلطان

محفلین

ج
08

ج ۔ جو پاکی بِن پاک ماہی دے،سو پاکی جان پلیتی ہو
ہک بُت خانےجا واصل ہوئے، ہک خالی رہے مَسیتی ہو
عشق دی بازی لئی اُنہاں، جنہاں سر دیندیاں ڈِھل نہ کیتی ہو
ہرگزدوست نہ مِلدا باہو، جنہاں تَرّٹی چَوڑ نہ کیتی ہو

پاکی:پاکیزگی، تقدس
بِن ۔ دے: بغیر ۔ کے
ماہی: مرشد کامل اکمل مراد ہے
جان: سمجھ
پلیتی: ناپاکی،پلیتی
ہک: ایک
بُت خانے: بت خانوں میں۔ مراد مساجد اورعبادت گاہوں میں زہد وریاضت کے بغیرصرف مرشد کامل کی نگاہ سے
مَسیتی۔ دی :مسجد۔ کی
بازی لئی اُنہاں: بازی انہوں نے جیتی۔ کامیاب ہوئے
سر دیندیاں: سر قربان کرتے ہوئے
ڈِھل: دیر،دریغ
دوست: محبوبِ حقیقی،اللہ تعالیٰ
تَرّٹی چَوڑ: گھربارلٹانا،قربان کرنا

ترجمہ:
جوپاكيزگى مرشد كامل كى بعيت كےبغير زہدورياضت اورعبادت سے حاصل ہو اس كو پاكيزگى نہيں ناپاكى اور پليدى سمجھ يعنى جو درجات،مقامات اورمشاہدات مرشد كامل كےبغيرحاصل ہوں وه استدراج ہيں۔ جس كو مرشدكى غلامى نصيب ہواس كو بت خانہ ميں جا كر بھى وصالِ الہٰى نصيب ہو جاتا ہے كيونكہ مرشد ہرلمحہ اس كى نگہبانى كرتا ہے۔ اوراگرمرشد كے بغيرسارى عمرمسجد ميں عبادت كرتے گزار دى جائے تو محرومى مقدر بنتى ہے۔ عشق كى بازى ميں وہى فتح ياب ہوتے ہوتے ہيں جو سردينے ميں ذرابھى تامل نہيں كرتے۔ ديدارِالہٰى اور وصالِ حق تعالٰى گهربارلٹائے بغيرنصيب نہيں ہوتا۔
59
 

یوسف سلطان

محفلین
ج
09

ج ۔ جو دَم غافل سو دَم کافر، سانوں مرشد ایہہ پڑھایا ہو
سُنیا سُخن گیاں کُھل اَکِھیں،اساں چِت مولا وَل لایا ہو
کیتی جان حوالے رب دے،اساں ایسا عشق کمایا ہو
مرن توں اگے مرگئے باہُو، تاں مطلب نوں پایا ہو

دَم :سانس
ایہہ: یہ
پڑھایا: سکھایا،سمجھایا
گیاں کُھل اَکِھیں: آنکھیں کھل گئیں ۔ سمجھ آ گئی
اساں:ہم نے
چِت : دھیان،دل،خیال
وَل :کی طرف
مرن توں اگے مر گئے:حدیث پاک
مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا مرنے سے پہلے مرجاؤ)کی طرف اشارہ ہے۔
مطلب نوں: مقصود کو،حق تعالیٰ کو

ترجمہ:
اس بيت ميں حضرت سخى سلطان باہو رحمتہ الله عليہ اس حدثِ پاک كى شرح بيان فرماتے ہيں "سانس گنتى كے ہيں جوسانس ذكرِاللهُ كے بغير جاتا ہے وه مرده ہے" آپ رحمتہ الله عليہ فرماتےہيں ہميں مرشد نے یہ سبق پڑھايا ہےكہ جو سانس بھى "اسمِ اللهُ ذات" كے تصوراور ذكر كے بغير نكلتا ہے وه كافر ہےاور جب سے ہم نے يہ ارشاد سنا ہےاپنا دل اسى طرف ہی لگا ليا ہے۔ اور ہم نےعشق كا ايسا سودا كيا ہے كہ اپنى جان اورزندگى كا ہر لمحہ الله تعالىٰ كى رضا كے سپرد كر ديا ہے اور اپنى مرضى اورمنشاء سے دستبردارہو گئے ہيں۔ وصالِ الہٰى تو ان كو نصيب ہوتا ہے جو مرنے سے پہلے مر جاتے ہيں۔​
60
 

یوسف سلطان

محفلین
ج
10

ج ۔ جتھے رَتی عشق وکاوے،اُوتھے مَناں ایمان دویوے ہو
کُتب کِتاباں وِرد وظیفے، اُوتر چا کچیوے ہو
باجھوں مُرشد کُجھ نہ حاصل،توڑے راتیں جاگ پڑھیوے ہو
مَرئیے مَرن تِھیں اگّے باہو، تاں رب حاصل تھیوے ہو

جتھے: جہاں
رَتی:آٹھ چاول کے وزن کےبرابر۔ وزن کا سب سے معمولی پیمانہ
وکاوے:فروخت ہوتی ہو
اُوتھے : وہاں یعنی مرشد کی بارگاہ
مَناں: کئی من
دویوے: دے دینا چاہیے
اُوتر چا کچیوے: معمولی رہ جائے،کم ترہو جائے
باجھوں: بغیر
کُجھ : کچھ
توڑے: چاہے ، خواہ
راتیں جاگ: راتوں کو بیدار رہ کر
پڑھیوے: پڑھا جائے ،ورد وظائف،عبادت کی جائے
مَرئیے مَرن تِھیں اگے: مرنے سے پہلے مر جائے(حدیث)
رب حاصل تھیوے: ذاتِ حق تعالیٰ مل جائے،دیدارِ الہیٰ

ترجمہ:
جہاں ایک رتى عشق فروخت ہو تو بدلے ميں کئی من ايمان دے كر اُسے حاصل كر لو كيونكہ جہاں عشق پہنچاتا ہے ايمان اس سے لا علم ہے۔آگر تمام زندگى شب بيدارى ،ورد وظائف اورمطالعہ كتب ميں گزار دى جائے مگر مرشد كامل كے بغير كچھ حاصل نہيں ہو گا۔ ياد ركھ!مرنے سے پہلے مَرے بغير وصالِ الہٰى حاصل نہيں ہوتا ۔​
61
جاری ہے۔۔۔۔۔​
 

یوسف سلطان

محفلین
ج
11

ج۔ جنگل دے وچ شیر مریلا، باز پوے وچ گھر دے ہو
عشق جِیہا صراف نہ کوئی، کُجھ ناں چھوڑےوچ زر دے ہو
عاشقاں نیندر بُھکھ نہ کائی، عاشق مُول نہ مَردے ہو
عاشق جِیندے تداں ڈِٹھوسےباہو، جداں صاحب اَگے سِردَھردے ہو

مریلا:مارنے والا،چیر پھاڑ کرنے والا
باز : عقاب
پوے: حملہ کرتا ہے
صراف : سنار،زرگر۔ پرکھنے والا
کُجھ ۔ ناں: کچھ ۔ نہیں
زر: سونا
نیندر: نیند
بُھکھ: بھوک
کائی : کوئی
مُول : کبھی نہیں
مَردے: مرتے ہیں
جِیندے: زندہ ہوئے
تداں: تب
ڈِٹھوسے: دکھائی دیتے ہیں
صاحب : اللہ تعالیٰ ۔ مرشد کامل
سِردھردے : سرجکھاتے ہیں یعنی اتباع کرتے ہیں


ترجمہ:
عاشق شیرشہبازکی مثل ہے خواہشات کے گیڈر،بھیڑیےاورخناس کے پرندے اسکے سامنے پرنہیں مارسکتے۔ عشق جیسا صراف بھی کوئی نہیں ہے جس طرح صراف سونے کے اندرکھوٹ نہیں چھوڑتا ایسی طرح عشق طالبِ مولیٰ کے اندرسے تمام کدورتیں نکال دیتا ہے۔عاشق نہ تونیند کی پرواہ کرتے ہیں اورنہ بھوک کی،ان کا ہر سانس ذکرِالله سے زندہ ہوتا ہے۔ عاشق ظاہری طور پرکبھی سورہے ہوتے ہیں، کبھی کھانے میں یا دوسرے امور میں مصروف ہوتے ہیں لیکن ہرلمحہ ہروقت محوِ تجلیاتِ ذات ہوتے ہیں۔عاشق تب ہی حیاتِ جاودانی پاتا ہے جب محبوبِ حقیقی کی رضا پر راضی ہو کرسرِ تسلیم خم کر دیتا ہے۔​
62
 

یوسف سلطان

محفلین
ج
11

جنہاں عشق حقیقی پایا، مونہوں نہ کُجھ اَلاوَن ہو
ذکر فکر وچ رہن ہمیشاں، دَم نوں قید لگاون ہو
نفسی، قلبی،روحی، سِری، خفی اخفٰی ذکرکماون ہو
میں قربان تنہاں توں باہو، جیہڑے اِکس نگاہ جَواوَن ہو
مونہوں: منہ سے
کُجھ: کچھ
اَلاوَن: بولتے ہیں ،آواز نکالنا
ذکر: ذکروتصورِاسمِ اللہُ ذات
فکر: تفکر
رہن ۔ ہمیشاں: رہتے ہیں ۔ ہمیشہ
دَم نوں: سانس کو
کماون: کماتے ہیں مراد مستغرق رہتے ہیں
جیہڑے ۔ اِکس : جو ۔ ایک
جَواوَن : زندہ کرنا

ترجمہ :
جن طالبانِ مولیٰ نےعشقِ حقیقی پالیا ہے وہ زبان سے ذکرنہیں کرتے بلکہ ہمیشہ دل میں ذکرفکرمیں محو رہتے ہیں اوراُن کا ہرسانس ذکرِيا ھُوكے ساتھ آتااورجاتاہےاوراُن كاوجودنفسى،قلبى،رُوحى،سِرّى،خفى،اور،اخفٰى ذكرميں مستغرق اورمحوہوتا ہے۔ ميں ايسے مرشد كامل اكمل كے قربان جاٶں جوایک ہى نگاه سےمرده دلوں كو ذنده كرديتا ہے۔​
63
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
ج
12

جیوندے کی جانن سارمویاں دی، سو جانے جو مَردا ہو
قبراں دے وچ اَن نہ پانی،اُوتھے خرچ لوڑِیندا گھردا ہو
اک وچھوڑا ما پیو بھائیاں، دُوجا عذاب قبر دا ہو
واہ نصیب انہاندا باہُو،جیہڑا وچ حیاتی مَردا ہو
جیوندے : زندہ
جانن : جانیں
سار:خبر
مویاں : مرے ہوے
اَن : خوراک۔اناج
اُوتھے : وہاں
لوڑِیندا : ضرورت
وچھوڑا : جدائی
ما : ماں
پیو۔ بھائیاں: باپ ۔ بھائیوں
دُوجا: دوسرا
انہاندا۔ جیہڑا : اُن کا ۔ جو
حیاتی: زندگی میں

ترجمہ:
زنده لوگ مرنےوالوں كےحالات كيا جانيں؟يہ تو وہى جانتاہےجومرجاتا ہے۔ قبروں ميں نہ توكھانا ہےاور نہ پانى،وہاں تواسمِ اللهُ ذات كى متاعِ عظيم ہى كام آتى ہے۔ مرتے وقت ایک تو اُن لوگوں كى جدائی كاغم ہوتاہےجن سے دلى وابستگى ہوتى ہےاور سب ذياده خوف توعذابِ قبركا ہوتاہےلیکن اصل عظمت تواس كى ہےجومرنےسے پہلےمرجاتے ہيں اوراپنى ذات كو"ذاتِ حقيقى"ميں فنا كركےحياتِ جاودانى حاصل كر ليتے ہيں۔​
64
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
ج
13

جیوندیاں مررہنا ہووے،تاں ویس فقیراں بَہیے ہو
جے کوئی سٹے گُودڑکُوڑا، وانگ اَرُوڑی سہئیے ہو
جے کوئی کڈھے گاہلاںمہنے،اُس نوں جی جی کہئیےہو
گِلا اُلاہماں بھنڈی خواری، یار دے پارُوں سہیئے ہو
قارد دے ہتھ ڈوراساڈی باہُو،جیوں رکھے تیوں رہئیے ہو
ویس: لباس، بھیس
گُودڑکُوڑا: کوڑا کرکٹ
وانگ: مانند ،مثل
اَرُوڑی: کوڑا کرکٹ کا ڈھیڑ
جے : اگر
کڈھے: نکالے،دے
گاہلاں: گالیاں
مہنے: طعنے
گِلا: گلا شکوہ
اُلاہماں: طعنہ ، شکایت
بھنڈی : بدنامی
خواری: ذلت
سہیئے : برداشت کرے
قارد : ذاتِ حق تعالیٰ
جیوں۔ تیوں: جیسے ۔ ویسے


ترجمہ:
اگر "مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا" (مرنے سے پہلے مر جاٶ) كا مقام حاصل كرنا ہےتو دنيا ميں فقيربن كررہناچاہيےاگر كوئی كوڑا كركٹ بھى اوپرپيھنكے تواسےاسى طرح برداشت كرنا چاہيے جس طرح كوڑے كا ڈھيراپنے اوپرمزيد گندگى كوسہارتارہتا ہے،اگر كوئی گالياں نکالے اوربُرا بھلا كہےتو تركى بہ تركى جواب دينے كے بجائے بڑى پياراورمحبت سے جى جى كہتے رہنا چاہيے۔ گلے،طعنے،بدنامى اورخوارى اپنے یاركى خاطربرداشت كرنا ہى پڑتے ہيں۔ ہم نے تواپنى زندگى ڈوراپنےمرشد كے ہاتھ ميں دےدى ہےجيسےاس كورضاہواس پرراضی رہناچاہيے۔​
65
جاری ہے۔۔۔
 

یوسف سلطان

محفلین
ج
14

ج۔ جے رب ناتیاں دھوتیاں مِلدا،تاں مِلدا ڈڈواں مَچھیاں ہو
جے رب لمیاں والا مِلدا، تاں مِلدا بھیڈاں سَسیاں ہو
جے رب راتیں جاگیاں مِلدا،تاں مِلدا کال کڑچھیاں ہو
جے رب جتیاں ستیاں مِلدا،تاں مِلدا دانداں خصیاں ہو
اِنہاں گلاں رب حاصل ناہیں باہو،رب مِلدا دِلاں ہچھیاں ہو
ناتیاں ۔ دھوتیاں: نہانے سے ۔ دھونے سے
مِلدا: ملتا
ڈڈواں: مینڈک کی جمع۔ مینڈکوں
بھیڈاں سَسیاں: نوعمربھیڑیں جن کے پہلی دفعہ بال کاٹے جاتے ہیں
کڑچھیاں: ایک جانور جو رات کو جاگتا ہے
جتیاں ستیاں: مجرد رہنا، کنوارے رہنا
دانداں: بیل
خصیاں: قوتِ شہوانی سے محروم
گلاں: باتوں
ناہیں:نہیں
دِلاں ہچھیاں: اخلاص ،صدق ،پاکیزہ اور صاف ستھرے دل


ترجمہ :
اگر ديدارِحق تعالىٰ پاک و صاف رہنے سے حاصل ہوتا تومينڈكوں اورمچھليوں كوہوتا جوہروقت پانى ميں رہتے ہيں، اگربال بڑھانے سے حاصل ہوتا تو بھیڑبکريوں كوحاصل ہوتااوراگر شب بيدارى سے حاصل ہوتا تو كال كڑچھيوں(ايک پرنده جو رات كو جاگتا ہے) كو حاصل ہوتا اوراگرمجرد رہنےسے يا نکاح نہ كرنے سے حاصل ہوتا توخصى شده بيلوں كو حاصل ہوتا۔ ليکن ان تمام سے ديدارِحق تعالىٰ حاصل نہيں ہوتا بلكہ يہ توانہيں حاصل ہوتا ہے جن كى نيت صاف ہوتى ہےاوردل 'صدق اوراخلاص سے بھرے ہوتے ہیں ۔
66
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
ج
15

ج۔ جِنہاں شَوہ الف تِھیں پایا، پھَول قرآن نہ پڑھدے ہو
اوہ مارَن دَم محبت والا، دُور ہویونے پَردے ہو
دوزخ بہشت غلام تنہاندے، چا کیتونے بَردے ہو
میں قربان تنہاں توں باہو، جیہڑے وحدت دے وچ وَڑدے ہو

شَوہ: ذاتِ حق تعالیٰ
الف: اسمِ اللہُ ذات
پَھول: کھول کر
مارَن دمَ محبت والا: محبت کا دم بھرتے ہیں
ہویونے: ہو جاتے ہیں
تنہاندے: اُن کے
کیتونے: انہوں نے کیے
بَردے: غلام
تنہاں توں: اُن کے
وَڑدے: داخل ہوئے


ترجمہ:
دونوں جہان كا علم قرانِ مجيد ميں ہے اورعلمِ قرآن كلمہ طيبہ كى طےميں ہےاوركلمہ طيبہ اسمِ اللهُ ذات كى طے ميں ہے۔اسى ليے اس بيت ميں آپ رحمتہ الله عليہ فرماتے ہيں جنہوں نے محبوبِ حقيقى ذاتِ حق تعالىٰ كو اسمِ اللهُ ذات سے پاليا ہےانہيں علمِ لدنّى حاصل ہوگيا ہےاورانہيں قرآنِ مجيد كے تمام ظاہرى اورباطنى علوم حاصل ہو چكے ہيں اورمحبتِ الہٰى سے ان كے ظاہروباطن كے تمام حجابات دورہوگئے ہيں،بہشت اوردورخ توبفضلِ خدا اُن كے غلام بن چكے ہيں۔آپ رحمتہ الله عليہ فرماتے ہيں كہ ميں اُن كے قربان جاٶں جو دريائے وحدت ميں غرق ہو كرخود وحدت ہو جاتے ہيں۔
67
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
ج
16

ج – جے کردِین علم وچ ہوندا،تاں سِر نیزے کیوں چڑھدے ہو
اٹھارہ ہزارجوعالم آہا، اگے حسینؓ دے مَردے ہو
جے کُجھ ملاحظہ سرورؐ دا کردے،تاں تمبو خیمے کیوں سڑدے ہو
جے کر مندےبیعت رسولیؐ،پانی کیوں بند کر دے ہو
پرصادق دین تنہاں دا باہو، جو سرقربانی کر دے ہو
جے: اگر
وچ: میں
ہوندا: ہوتا
مَردے: مرتے
ملاحظہ: ادب ،احترام
سرور: حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم
تمبو: خیمہ
صادق: سچا
تنہاں دا: اُن کا


ترجمہ:
سانحہ کربلا کے وقت بہت سے عالم اور فاضل یزید کی فوج میں موجود تھے جنہوں نے صرف دنیاوی جاہ جلال اورمال ومتاع کے لئے اہلِ بیتؓ کے ساتھ جنگ کی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس کائنات کے بھی اٹھارہ ہزارعالم (جہان)بیان فرماتے ہیں جواللہ تعالیٰ نے تخلیق فرمائے ۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا اشارہ اُن اٹھارہ ہزارعالم (جہان) کی مخلوق کی طرف بھی ہو سکتا ہے ۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ سانحہ کربلا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگردین ظاہری علوم (علمِ شریعت،علمِ فقہ اورعلمِ حدیث) میں ہی پنہاں ہوتا تو اہلِ بیتؓ کے مقدس سروں کو نیزوں پر نہ چڑھایا جاتا بلکہ تمام کے تمام اٹھارہ ہزارعالم حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے جان قربان کر دیتے۔اگر اِس زمانہ کے علماء اپنے دلوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذرا سا بھی ادب اوراحترام رکھتے تواہلِ بیتؓ کے خیمے کیوں جلتے؟اگر یہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کا ذرا سا بھی خیال کرتے تو پانی کبھی بند نہ کرتے۔ مگر سچا دین تو عاشقوں کا ہوتا ہے جو سرقربان کر دیتے ہیں مگر اپنے عشق پر حرف نہیں آنے دیتے۔
68
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
ج
17

ج۔ جَد دا مُرشد کاسہ دِتا، تد دی بے پرواہی ہو
کی ہویا جے راتیں جاگیں،جے مُرشد جاگ نہ لائی ہو
راتیں جاگیں تےکریں عبادت،دِینہہ نِندیا کریں پرائی ہو
کوڑا تخت دنیا دا باہو، فَقر سچی شاہی ہو
جَد دا: جب سے
کاسہ: کاسا ،پیالہ
دِتا: دیا
تد دی: تب سے
جاگیں: بیدار رہنا
جاگ: دودھ میں لسی ڈال کر جاگ لگانا
دِینہہ: دن
نِندیا: برائی،غیبت ،بہتان
کوڑا: جھوٹا

ترجمہ:
جب سے مرشد نےعشقِ الہٰى كا جام عطا فرمایا ہے دل دونوں جہانوں سے بے نيار ہو گيا ہے۔راتوں كو بيدار رہ كرزہد ورياضت سے كچھ حاصل نہيں ہوتاجب تک مرشدعشقِ الہٰى كا جذبہ عطا نہ كرے۔اورنہ ہى اس عبادت كا كوئی فائده ہےكہ اس كے بعد دن ميں تُولوگوں كى برائياں بيان كرتا پھرتا ہے۔ دنياوى تاج و تخت ،بادشاہياں اورحكومتيں سب جھوٹى ہيں سچى بادشاہى تو فقر ہے۔​
69
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
ج
18

ج۔ جاں تائیں خُودی کریں خود نفسوں، تاں تائیں رب نہ پاویں ہو
شرط فنا نوں جانیں ناہیں،تے نام فقیر رکھاویں ہو
موئے باجھ نہ سوہندی الفی، اَینویں گل وچ پاویں ہو
نام فقیر تد سوہندا باہو،جد جیوندیاں مَرجاویں ہو

جاں تائیں: جب تک
خود نفسوں: خود میں ، اپنے آپ میں
تاں تائیں: تب تک
موئے: مرے بغیر
سوہندی: اچھی لگتی
الفی: بغیر سلی قمیض کی مانند کپڑا جو مردے کو کفن کی سادہ چادروں سے قبل پہنایا جاتا ہے یہاں مراد درویشانہ لباس ہے
سوہندا: اچھا لگتا

ترجمہ:
اس بیت میں آپ رحمتہ اللہ علیہ طالبِ مولیٰ کو خطاب کرتے ہوے فرماتے ہیں کہ جب تک تم خود پرستی (انانيت) اور نفس پرستى سےكناره کشی اختيار نہیں كرو گے رب تعالىٰ كا وصال نصيب نہیں ہو گا۔ فنافى الله كى شرط كو تم سمجھتے نہيں ہو اور فقير بنے پھرتے ہو ۔ گلے ميں درويشى كا اشتہار لٹكائے پھرتے ہو حالانكہ يہ مقام اپنى ذات كو فنا كيے بغير نہيں ملتا۔ حقيقى فقيرتووه ہوتے ہيں اورفقيرى توانہى كو زيبا ہے جو مرنے سے پہلے مرجاتے ہیں۔
70
 

یوسف سلطان

محفلین
ج
19

ج۔ جَل جلیندیاں جنگل بَھوندیاں،میری ہِکّا گَل نہ پَکّی ہو
چِلّے چَلیئے مکّےحج گزاریاں،میری دل دی دَوڑ نہ ڈَکّی ہو
تریہے روزے پنج نمازاں، ایہہ وی پڑھ پڑھ تھکّی ہو
سَبھے مُراداں حاصل ہویاں باہو،جداں مُرشدنظرمہر دی تکّی ہو

جَل: پانی ،دریا
جلیندیاں: رہتے ہوے ،بسر اوقات کرتے ہوئے
بَھوندیاں: گھومتے ہوئے
ہِکّا: ایک
پَکّی : پختہ ہوئی
چِلّے چَلیئے: چلہ کشی کرتے ہوئے
حج گزاریاں: حج کا فریضہ ادا کرتے ہوئے
ڈَکّی : رُکی
تریہے روزے: تیس روزے
تکّی: ڈالی

ترجمہ:
دنيا سے عليحده ہو كر درياٶں اورجنگلوں ميں پھرتا رہا،چلہ كشى ميں مصروف رہا،نمازيں پڑھ پڑھ كر، روزے ركھ ركھ كراور حج كر كر كےتھک گيا ليكن دل كى مراد پورى نہ ہوئی يعنى معرفتِ حق تعالىٰ حاصل نہ ہوسكى ۔ لیکن جب مرشدِ كامل نے محبت كى ايک نگاه ڈالى توسارے حجاب دور ہو گئے۔
71
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
ج
20

ج -جاں جاں ذات نہ تھیوے باہو، تاں کم ذات سدیوے ہو
ذاتی نال صفاتی ناہیں، تاں تاں حق لبھیوے ہو
اندر وی ہو باہر وی ہو، باہو کِتھے لبھیوے ہو
جیندے اندر حُبّ دنیا باہو،اوہ مول فقیر نہ تھیوے ہو

جاں جاں : جب تک
سدیوے: کہلائے
لبھیوے: مل جائے ،حاصل ہوجائے
جیندے :جس کی
حُبّ : محبت
مول : ہرگز
تھیوے : ہو جائے ،بن جائے


ترجمہ:
آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب تک تُو صفات اور صفات کے نظاروں سے نظریں ہٹا کر ذاتِ حق کی طرف متوجہ نہیں ہو گا اوراپنی ذات کو مٹا کر فنافی ھُو نہیں ہو جائے گا تیرا مرتبہ ہمیشہ کم تررہے گا اگر تیری منزل صفات نہیں ذات ہے تو ذاتِ حق تعالیٰ تجھے مل جائے گی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وصالِ الہیٰ کے بعد اب تو میری حالت یہ ہو گئی ہے کہ مجھے ظاہراورباطن میں ھُو نظر آتا ہے اورمیری ذات ھُو میں فنا ہو چکی ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ جس دل کے اندردنیا کی رتی بھر بھی محبت ہو وہ کھبی بھی فقیر نہیں ہو سکتا۔
72
 

یوسف سلطان

محفلین
ج
21

ج۔ جس دل اِسم اللہ دا چمکے،عشق وی کردا ہَلّے ہو
بُوکستوری دی چُھپدی ناہیں،بھانویں دے رکھیے سَے پَلّے ہو
انگلیں پِچھے دینہہ ناہیں چُھپدا، دریا نہ رہندے ٹَھلّے ہو
اسیں اوسے وچ اوہ اساں وچ، باہو یاراں یار سَوَلّے ہو

ہَلّے: حملے
بُو: خوشبو
کستوری: خوشبودار پودے کا نام
بھانویں: چاہے
انگلیں پِچھے: انگلی کے پیچھے
دینہہ:دن
ناہیں : نہیں
ٹَھلّے:رُک جانا،ٹھہرجانا
سَوَلّے: نزدیک، قریب

ترجمہ :
جس دل کے اندر "اسمِ اللہُ ذات" آفتاب کی مانند روشن ہو جاتا ہے اورطالب دیدارِ الہیٰ سے مشرف ہو کرعشقِ اللہ میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اس کاعشق دل کے اندرپوشیدہ نہیں رہتا بلکہ اسی طرح ظاہرہوجاتا ہے جس طرح کستوری کی خوشبو'سورج کی روشنی اوردریاؤں کے پانی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ یہی حالت عشق کی ہوتی ہے اورآخر کار طالبِ مولیٰ اپنی ہستی کو ختم کر کے اللہ پاک کی ذات میں فنا ہو جاتا ہے۔
73
 

یوسف سلطان

محفلین
چ
01

چ۔ چڑھ چناں تے کررُشنائی، ذکر کریندے تارے ہو
گلیاں دے وچ پھرن نمانے، لعلاندے ونجارے ہو
شالا مسافر کوئی نہ تھیوے، ککھ جنہاں توں بھارے ہو
تاڑی مار اُڈا ناں باہُو،اساں آپے اُڈّن ہارے ہو

چڑھ: طلوع ہو،نکل،ظاہرہو
چناں: چاند
رُشنائی: روشنی
کریندے: کرتے ہیں
گلیاں دے وچ: گلیوں میں
پھرن: پھرتے ہیں
نمانے: بے چارے،عاجز
لعلاندے: لعل کے
ونجارے: جوہر شناس،بیوپاری
شالا: خدا کرے
کوئی نہ تھیوے: کوئی نہ ہو
ککھ:تنکے،خس وخاشاک
بھارے:بھاری،وزنی
تاڑی مار: تالی بجا کر
اڈاناں: اڑاؤنہ
اساں ۔آپے: ہم ۔ خودبخود۔آپنے آپ
اُڈّن ہارے:اڑنے والے ہیں'مائل بہ پروازہیں


ترجمہ:
اے میرے فقر کے چاند!تو جلد طلوع ہو اور نگاہِ کامل سے اس دنیا کو'جوظلمت اور تاریکی میں ڈوب چکی ہے،نورِالہیٰ سے منورکردے اورطالبانِ مولیٰ حق تعالیٰ کی طلب میں اس گمراہ دنیا میں بھٹک رہے ہیں اور تیرے جیسے ہادی کا انتظار کر رہے ہیں اور تیرے منتظر یہ طالبانِ مولیٰ جو معرفتِ الہیٰ کےغواص اورجوہر شناس ہیں،دربدر تیری تلاش اورجستجو میں پھررہے ہیں۔ یہ تو اِس دنیا میں مسافرہیں اور حق تعالیٰ کی طلب میں عاجزی اورانکساری کی وجہ سے لوگوں میں بے قدرے ہو رہے ہیں۔اے باہو!یہ اہلِ دنیا ہم عالمِ ارواح کے باسیوں کو تنگ کر کے اس دنیا سے جانے پر مت مجبورکریں ہم تو پہلے ہی اِس عالمِ فنا سے عالمِ بقا کو جانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں لیکن شریعت نے ہمارے ہاتھ پاؤں باندھ رکھے ہیں۔
74
 

یوسف سلطان

محفلین
چ
02

چ۔ چڑھ چناں تےکررُشنائی، تارے ذِکرکریندے تیرا ہو
تیرے جیہے چن کئی سَے چڑھدے،سانوں سجناں باجھ ہنیرا ہو
جِتھے چَن اساڈا چڑھدا،اُوتھے قدرنہیں کُجھ تیرا ہو
جس دے کارن اساں جنم گوایا،باہو یارملے اک پھیرا ہو

چڑھ:طلوع ہو،نکل،ظاہرہو
چناں:چاند
رُشنائی:روشنی
تارے: ستارے
تیرے جیہے: تیرے جیسے ،تجھ جیسے
چن: چاند
کئی سَے: کئی سو
چڑھدے: طلوع ہوتے ہیں
سانوں:ہمیں
سجناں: سجن کی جمع،محبوب،یار
باجھ:بغیر
ہنیرا:اندھیرا ،تاریکی
جِتھے: جہاں
اساڈا: ہمارا
چڑھدا: طلوع ہوتا ہے ،ظاہر ہوتا ہے
اُوتھے۔ کُجھ: وہاں ۔ کچھ
دے: کے
کارن:کے لیے
گوایا:ضائع کیا،گزارا
یار:محبوب،محبوبِ حقیقی،اللہ تعالیٰ

ترجمہ:
اے فقر کے چاند!تو جلد طلوع ہوکراس ظلمت کدہ کو اللہ کے نور سے بھر دے،طالبانِ مولیٰ اورمومنین تیرا ہی انتظار کر رہے ہیں۔ سینکڑوں مصنوعی چاند تیرا روپ دھارکرطلوع ہو چکے ہیں اوراُمت کو دھوکہ دے رہے ہیں لیکن اے محبوب!تیرے بغیریہ دنیا ظلمت کدہ ہے۔ جہاں ہمارا چاند طلوع ہوگا وہاں دوسرے مصنوعی چاندوں کی روشنی جو اصل میں ظلمت ہے،ختم ہو جائے گی اور یہ دھوکہ باز'جو راہنما بن کراُمت کو دھوکہ دے رہے ہیں،بھاگ جائیں گے۔اے باہو!جس محبوبِ حقیقی کے لئے ہم نے ساری زندگی قربان کی ہےکاش!وہ ہمیں ایک بار مل جائے تو ہمارے سارے رنج اور سارےغم دور ہو جائیں۔
75
 

یوسف سلطان

محفلین
ح
01

ح۔ حافظ پڑھ پڑھ کرن تکّبر، مُلاّں کَرن وڈیائی ہو
ساون مانہہ دے بدلاں وانگوں، پھرن کتاباں چائی ہو
جتھے ویکھن چنگا چوکھا،اُوتھے پڑھن کلام سوائی ہو
دونیں جہانیں مُٹھے باہُو،جنہاں کھادِی ویچ کمائی ہو

وڈیائی: غرور
ساون مانہہ : برسات کا مہینہ مراد ہے
بدلاں۔ وانگوں: بادل ۔ کی طرح
پھرن: پھرتے ہیں
چائی: اٹھائے پھرتے ہیں
جتھے: جہاں
ویکھن: دیکھیں
چنگا : بہترین اور اچھا
چوکھا: زیادہ
اُوتھے: وہاں
سوائی: اور زیادہ
دونیں جہانیں: دونوں جہانوں میں
مُٹھے : محروم رہے
ویچ: بیچ کر


ترجمہ:
حافظ اپنےحفظِ قرآن پراورعلماءِ ظاہر اپنے علوم پرتكبرميں مبتلا ہيں اور يہ اپنے علم كو حصولِ دنيا كے ليے استعمال كرتے ہيں۔ جب كوئى اپنے مطلب كے مطابق دينى مسائل كا حل چاہتا ہے تو يہ لوگ مال ومتاع كے بدلےدين كى حقيقت كو چھپا كرمختلف تاويليں نكال كر لوگوں كو راهِ حق سے گمراه كرتے ہيں۔آپ رحمتہ الله عليہ فرماتے ہيں جنہوں نے دنيا اوردولت كے بدلے اپنا علم وايمان بيچ ديا وه دونوں جہانوں ميں رحمتِ حق تعالىٰ سے محروم ره گئے ۔
76
 

یوسف سلطان

محفلین
خ
01

خ۔ خام کی جانن سار فقر دی،جیہڑے محرم ناہیں دل دے ہو
آب مٹی تھیں پیدا ہوئے، خامی بھانڈے گِل دے ہو
لعل جواہراں دا قدر کی جانن، جو سوداگر بِل دے ہو
ایمان سلامت سوئی لے وَیسن باہُو، جیہڑے بھج فقیراں مِلدے ہو

خام :ناقص،مراد طالبانِ ناقص
جانن: جانیں
سار: خبر
آب مٹی تھیں: پانی اور مٹی سے
بھانڈے :برتن
گِل:مٹی
بِل: بلور،کانچ
سوئی: وہی
لے وَیسن : لے جائیں گئے
جیہڑے: جو
بھج : بھاگ کر،دوڑ کر
مِلدے: ملتے ہیں

ترجمہ :
وہ طالبانِ ناقص جو دل کے محرم نہیں بنے اور راز آشنا نہیں ہیں اس لیے راہِ فقر کی انہیں خبر تک نہیں ہے ۔ان کی مثال تو مٹی کے کچے برتنوں کی سی ہے جو صرف پانی اورمٹی سے بنائے گئے ہیں اور آتش(عشق)کی بھٹی میں انہیں پختگی حاصل نہیں ہوئی۔ یہ تو بلوراورکانچ کے سوداگرہیں اس لیے توحید ومعرفت کے لعل وجواہرات (طالبانِ مولیٰ) کی قدرومنزلت نہیں جانتے(کیونکہ جوہر شناسی تو جوہری کا کام ہے)اس دنیا سے صرف وہی لوگ ایمان سلامت لےکرجائیں گےجو دنیا میں فقراء کی ہم نشسینی اختیار کرتے ہیں۔
77
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
د
01

د ۔ دل دریا سمندروں ڈونگھے، کون دِلاں دِیاں جانے ہو
وِچے بیڑے وِچے جھیڑے، وِچے وَنجھ مُوہانے ہو
چوداں طبق دِلے دے اندر، تَنبو وانگن تانے ہو
جودل دا محرم ہووے باہُو، سوئی رب پچھانے ہو
سمندروں: سمندر
ڈونگھے: گہرے
بیڑے : کشتیاں
جھیرے: جھگڑے،مراد طوفان
ونجھ: چپو،جن کی مددسے کشتی چلائی جاتی ہے
موہانے: ملاح،کشتی چلانے والا
تنبو: خیمہ
وانگن : کی طرح
تانے : تنے
سوئی: وہی
پچھانے: پہچانے

ترجمہ :
دل تو دریاؤں اور سمندروں سے بھی زیادہ گہرا ہے کیونکہ کہ چودہ طبق 'تمام کائنات اورتمام عوالم (عالمِ ھاھویت ،عالمِ یاھوت،عالمِ لاھوت،عالمِ جبروت،عالمِ ملکوت اورعالمِ ناسوت) دل کے اندرسمائے ہوئے ہیں اورانسانی قلب ہی اللہ کا گھر ہے۔ لیکن یہ بات بھی طے شدہ ہےکہ ان تمام حقیقتوں کی پہنچان کوئی مرشد کامل ہی کرا سکتا ہے اورجومرشد کے دل کامحرم ہوتا ہے وہی اللہ کو پہنچان سکتا ہےاور رازِ حقیقی تک پہنچ سکتا ہے۔
78
جاری ہے ۔۔۔۔۔
 
Top