شمشاد
لائبریرین
قادیانی سلسلے میں اس دھاگے کا مطالعہ ضرور کریں۔
بل رفعہ اللہ کی ضمیر اسی طرف راجع ہے جس طرف کہ ما قتلوہ اور ما صلبوہ کی ضمیریں راجع ہیں اور ظاہر ہے کہ ما قتلوہ اور ما صلبوہ کی ضمیر یں حضرت عیسیٰ کے جسم و جسد اطہر کی طرف راجع ہیں۔ روح بلا جسم کی طرف راجع نہیں ہیں۔اس لیے کہ قتل کرنا اور صلیب چڑھانا جسم کا ہی ممکن ہے روح کا قطعا ناممکن ہے۔لہذا بل رفعہ کی ضمیر اسی جسم کی طرف راجع ہوگی جس جسم کی طرف ما قتلوہ اور ما صلبوہ کی ضمیریں راجع ہیں۔ساتھ ہی ساتھ یہ کہ یہود روح کے قتل کے مدعی نہ تھے بلکہ جسم کو وہ قتل کرنا چاہتے تھے اور بل رفعہ اللہ میں اس کی تردید کی گئی لہذا بل رفعہ سے مراد جسم(مع روح) ہی ہو گا نہ کہ صرف روح۔
اب لفظ رفع کے بارے میں کچھ باتیں سمجھ لیجئے ۔ لفظ رفع قرآن مجید میں مختلف صیغوں کی صورت میں کل ۲۹ دفعہ استعمال ہوا ہے۔ ۱۷ مرتبہ حقیقی اور ۱۲ مرتبہ مجازی معنوں میں ۔ گو کہ رفع کے معنی اٹھانے اور اوپر لے جانے کہ ہیں لیکن وہ رفع کبھی اجسام کا ہوتا ہے کبھی معانی و اعراض کا، کبھی اقوال و افعال کا ہوتا ہے اور کبھی مرتبہ و درجہ کا۔ جہاں رفع اجسام کا ذکر ہو گا وہاں رفع جسمانی مراد ہو گی۔اور جہاں رفع اعمال و درجات کا ذکر ہو گا وہاں رفع معنوی مراد ہو گا۔یعنی جیسی شے ہو گی اس کا رفع بھی اس کے مناسب ہوگا۔
قادیانی سلسلے میں اس دھاگے کا مطالعہ ضرور کریں۔
سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع آسمانی اور پھر نزول ارضی ان کی حیات و جسد کے ساتھ ہوا یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جس پر امت مسلمہ متفق ہے۔
یہی بات ہے کہ جملہ ائمہ و مفسرین اس بات پر بالکل متفق ہیں آپ کوئی بھی مستند تفسیر اٹھا کر دیکھ لیجئے (کئی ایک کہ تراجم اب نیٹ پر بھی دستیاب ہیں) کہ حضرت عیسیٰ کا یہ رفع ان کی زندگی کی حالت میں ان کے جسد عنصری کے ساتھ ہوا۔
یہاں جو دو آیات قرآنی پیش کی گئیں ہیں درحقیقت وہ سورہ نسا آیت ۱۵۷ ۱۵۸ کی نظیر نہیں بن سکتی ہیں اس لیے کہ ماقتلوہ ماصلبوہ کہ کر قتل کی نفی کر کہ بل رفعہ اللہ الیہ میں رفع کا اثبات کیا جارہا ہے اور یہاں اماتہ کہنے کے بعد لامحالہ جسد و روح میں انفصال ہوا گیا لہذا اب اقبرہ کی ضمیر دونوں کی طرف راجع نہیں ہو سکتی ایک ہی طرف راجع ہو گی گویا پہلی آیت میں جسد و روح کے انفصال کی صریحا نفی ہے اور دوسری میں اماتہ کے ذریعے جسد و روح کا صاف صاف انفصال ہے ۔ یہی حالت دوسری آیت کی بھی ہے جب ایک شخص خدا کی راہ میں شہید ہو گیا تو ظاہر ہے اس کی روح اس کے جسم سے الگ ہو گئی یہاں دونوں میں اتحاد ہو ہی نہیں سکتا ۔قادیانیوں کو یہ فرق نظر نہیں آتا ؟"آپ اس آیت کو اپنی مرضی کے معنی پہنانے کے لئے بہت سعی کررہے ہیں لیکن مردہ کو زندہ ثابت کرنا آسان نہیں۔ لفظ "رفع" پر تو بعد میں بات کرتے ہیں پہلے آپ کے اس نام نہاد استدلال کو دیکھتے ہیں کہ آپ اس پر کہاں تک قائم رہتے ہیں۔ رفع کا آپ اپنی مرضی کا معنی کرلیں پھر بھی ضروری نہیں کہ رفعہ والی ضمیر کا مرجع حضرت عیسی مع الجسم ہی ہوں۔
ذرا یہ آیات ملاحظہ کریں:
[ARABIC]قُتِلَ ٱلۡإِنسَ۔ٰنُ مَآ أَكۡفَرَهُ ۥ (١٧) مِنۡ أَىِّ شَىۡءٍ خَلَقَهُ ۥ (١٨) مِن نُّطۡفَةٍ خَلَقَهُ ۥ فَقَدَّرَهُ ۥ (١٩) ثُمَّ ٱلسَّبِيلَ يَسَّرَهُ ۥ (٢٠) ثُمَّ أَمَاتَهُ ۥ فَأَقۡبَرَهُ ۥ[/ARABIC] (٢١)
ترجمہ: "لعنت ہو انسان پر، کساَ سخت منکر حق ہے یہ کس چیزَ سے اللہ نے اِسے پیدۙا کیا ہے؟ نطفہ کی ایک بوند سے اللہ نے اِسے پیدا کیا۰، پھر اِس کی تقدیر مقرر کی پھر اِس کے لے زندگی کی راہ آسان کی پھر اِسے موت دی اور قبر میں پہنچایا۔" ( سورہ عبس 17 تا 21)
اب بتائیے کہ آپ کا بیان کردہ قاعدہ پوری طرح یہاں چسپاں ہورہا ہے۔ اَمَاتَهٗ اور فَأَقۡبَرَهُ کی ضمائر کا مرجع الْاِنْسَانُ ہے جو روح اور جسم سے مرکب ہے۔ مگر کیا قبر میں روح اور جسم دونوں اکٹھے رکھے جاتے ہیں؟ موت تو نام ہی اخراج الروح من الجسد کا ہے۔ اگر روح مع الجسم مدفون ہو تو پھر زندہ دفن ہوا، جو محال ہے۔ پس یہاں فَأَقۡبَرَهُ کی ضمیر کا مرجع انسان بمعنی مجرد جسم ہوگا۔
افسوس کہ آپ رفع کو جسمانی ثابت کرنے کے لئے کیا کیا جتن کررہے ہیں لیکن قرآن ہی آپ کو مسلسل غلط ثابت کیئے جارہا ہے۔ خدارا قرآن کی بات مان لیں آخر دوسرے انبیا کے متعلق بھی تو آپ رفع روحانی کے قائل ہیں۔ ایک مسیح کے لئے ہی کیوں اتنے جتن کئے جارہے ہیں۔ ایک اور آیت بھی دیکھ لیں۔
وَلَا تَقُولُواْ لِمَن يُقۡتَلُ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ أَمۡوَٲتُۢۚ بَلۡ أَحۡيَآءٌ۬ وَلَ۔ٰكِن لَّا تَشۡعُرُونَ (١٥٤)
ترجمہ: "اور جو لوگ اللہ کی راہ مں مارے جائیں، انہںْ مُردہ نہ کہو، ایسے لوگ تو حققت میں زندہ ہیں ، مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا۔" (سورہ البقرہ 154)۔
اب دیکھ لیجئے آپ کے بیان کردہ قاعدہ کے مطابق لفظ من میں یہی جسم مراد ہے۔ مگر کوئی نہیں کہتا کہ وہ اسی جسم کے ساتھ زندہ ہیں۔"
دیکھئے اول تو آپ نے صنعت استخدام کی تعریف ہی غلط نقل کی ہے تلخیص المفتاح میں صنعت استخدام کی تعریف یہ ہےپس کیا ضروری ہے کہ آپ رفع میں جسم بھی ساتھ مراد لیں۔ جناب علم بدیع کی اصطلاح میں اسے صنعت استخدام کہتے ہیں۔ جیسا کہ "تلخیص المفتاح" صفہ 71میں لکھا ہے کہ ایک لفظ جو ذومعنی ہواسکی طرف دو ضمیریں پھیر کراس سے دو الگ الگ مفہوم مراد لینا۔ جیسا کہ اوپر دو مثالیں دی گئی ہیں۔ لیکن پھر بھی آپ کو اصرار ہے کہ یہاں مسیح تو روح اور جسم دونوں کے مجموعے کا نام ہے تو پھر صرف روح کا رفع کیوں مراد لیں تو اوپر کی مثالوں کے بعد آپ کو ضد تو نہیں کرنی چاہئے لیکن پھر بھی ایک اور طرح اسے سمجھ لیں کہ جب ہم کہیں گے کہ زید سیاہ ہے تو صرف جسم مراد ہوگا حالانکہ ہم نے لفظ زید بولا تھا جو جسم اور روح دونوں کے مجموعے کا نام ہے۔ مگر قرینہ حالیہ نے یہاں اس معنی کو روک دیا۔ یا کہیں زید نیک ہے تو صرف روح مراد ہوگی۔ اسی طرح رفع ہمیشہ روح کا ہوتا ہے۔ اوپر کی دو قرآنی مثالوں کے بعد اس وضاحت کی قطعآ ضرورت نہیں تھی لیکن آپ نے دوسروں کو الفاظ کے گورکھ دھندوں میں الجھا کرجو زبردستی رفع کو روح مع الجسم قرار دینے کی کوشش کی ہے تو یہ وضاحت اصل میں دوسروں کے لئے ہے۔ آپ کے لئے صرف یہ دو آیات ہی کافی ہیں کیونکہ آپ تو اس بات کو خوب سمجھتے ہیں آخر آپ ہی کا تو بیان کردہ قاعدہ ہے۔
جناب پہلی آیت میں تو صاف رفع مجازی کا ذکر ہے آپ اس کو رفع اجسام کس طرح کہ سکتے ہیں ذرا وضاحت تو فرمائیے؟یقنا وہ انسان ہی تھااور درجات انسانوں کے بھی بلند ہوتے ہیں کیا آپ کو اس سے انکار ہے؟ یہاں تو صاف ذکر ہے کہ اس کے رفع کے لیے آیات ذریعہ بن جاتیں لیکن وہ شیطان کے بہکاوے میں آگیا اور یوں پستی کا شکار ہو گیا۔ تو یہ رفع جو بذریعہ آیات ہو رہا ہے کس طرح رفع حقیقی ہو سکتا ہے ؟یعنی جب اللہ پاک کسی کو علم آیات عطا فرمائیں تو اس کے مدارج بلند کیے جاتے ہیں یا اس کو اوپر آسمانوں پر اٹھا لیا جاتا ہے؟ کیا یہاں آپ کو قرینہ عقلیہ صاف نظر نہیں آ رہا؟ اسی لیے یہاں سارے مترجمین نے رفع سے مراد بلند درجے کے لیے ہیں نہ کہ رفع جسمانی کے۔اور جہاں تک دوسری آیت کا تعلق ہے تو یہ حضرت ادریس کے بارے میں نازل ہوئی اور مسلم علما میں سے بعض حضرت ادریس کے بھی رفع جسمانی کے قائل ہیں لیکن آپ بس اتنا سمجھ لیجئے کہ یہاں رفع کا لفظ مکانا علیا سے مضاف ہےجس کہ یہ معنی ہوئے کہ رب کریم نے حضرت ادریس کو رتبہ علیا پر فائز کیا اور منصب برتر پر ممتاز فرمایا۔ایسا ہی دوسرے مقام پر اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ہے تلک الرسل فضلنا بعضھم علی بعض و رففع بعضھم درجٰت ۔ترجمہ: یہ رسول ہیں جن میں سے بعض کو ہم نے بعض پر فضیلت دی ہے اور بعض کے درجے ہم نے بلند کیے ہیں۔اس میں رفع کو درجات کی طرف مضاف کیا گیا ہے۔ اور اب سورہ نسا والی آیت کو لیجئے وہا ں رفع کا لفظ ہے اور اس کو "الی" کی طرف مضاف کیا گیا ہے۔جس کے معنی ٹھیک یہ ہیں کہ ہم نے حضرت عیسیٰ کو اپنی طرف اٹھا لیا۔یعنی آسمانوں کی طرف اور یہ میں پہلے ہی وضاحت کے ساتھ بیان کر چکا ہوں ۔درست ہے کہ رفع کا ایک مطلب اٹھانا بھی ہے- مجھے تو صرف یہ اعتراض ہے جو رفع کا مطلب دوسرے انسانوں اور انبیا کے لئے کیا جاتا ہے یکدم مسیح کی خاطر معنی کیوں بدل لیتا ہے۔ آپ نے کہا ہے کہ جہاں رفع اجسام کا ذکر ہو وہاں رفع جسمانی ہی ہوگا۔ یہاں آپ نے سچ اور جھوٹ کو خلط ملط کرکے مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے۔ اس کی وضاحت تو میں بعد میں کروں گا پہلے آپ سے گزارش ہے کہ اپنے اسی اصول کے تحت ذرا ان آیات میں رفع اجسام کا معنی کرکے دکھائیں۔
وَلَوۡ شِئۡنَا لَرَفَعۡنَ۔ٰهُ بِہَا وَلَ۔ٰكِنَّهُ ۥۤ أَخۡلَدَ إِلَى ٱلۡأَرۡضِ وَٱتَّبَعَ هَوَٮٰهُۚ فَمَثَلُهُ ۥ كَمَثَلِ ٱلۡڪَلۡبِ إِن تَحۡمِلۡ عَلَيۡهِ يَلۡهَثۡ أَوۡ تَتۡرُڪۡهُ يَلۡهَثۚ ذَّٲلِكَ مَثَلُ ٱلۡقَوۡمِ ٱلَّذِينَ كَذَّبُواْ بِ۔َٔايَ۔ٰتِنَاۚ فَٱقۡصُصِ ٱلۡقَصَصَ لَعَلَّهُمۡ يَتَفَكَّرُونَ (١٧٦)
ترجمہ: "اگر ہم چاہتے تو ان نشانوں کے ذریعہ اس کا "رفع" کرتے۔ لیکن وہ تو خود زمین کی طرف جھک گیا۔" (سورہ الاعراف 176)
یہاں بھی رفع اجسام کی بات ہورہی ہے۔ یہ آیات بلعم باعور کے متعلق ہیں اور وہ ایک انسان ہی تھا ناکہ اعمال یا کچھ اور۔ لیکن کیا آپ کوئی ایک بھی مثال دے سکتے ہیں کہ یہاں رفع جسمانی کا معنی کیا گیا ہو۔ آپ کے علما بھی یہاں رفع روحانی ہی مراد لیتے ہیں۔
پھر یہ آیت دیکھیں:
وَرَفَعۡنَ۔ٰهُ مَكَانًا عَلِيًّا (٥٧)
"اورہم نے اسکا رفع بلند مقام پر کیا تھا" (سورہ مریم 57)
یہاں بھی حضرت ادریس علیہ السلام کی بات ہورہی ہے جو کہ ایک انسان مع الجسم تھے ناکہ اعمال و اقوال و افعال وغیرہ۔ تو کیا انہیں یہاں بھی رفع جسمانی ہی مراد لیں گے؟ یہاں تمام علما متفق ہیں کہ رفع روحانی یعنی ترقی درجات ہی مراد ہے۔
تمام مسلمان جانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تماز میں دو سجدوں کے درمیان جو دعا پڑھا کرتے تھے اس میں ایک لفظ "وارفعنی" بھی ہے۔ یعنی اے اللہ میرا رفع کر۔ (ابن ماجہ)
سب مانتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رفع ہوا مگر زمین پر ہی رہ کر۔ اور تمام مسلمان سنت رسول میں یہ دعا ہر نماز میں پڑھتے ہیں۔ تو بھائی جب آپ کے علما وہی لفظ رفع کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے آتا ہے تو اس سے رفع روحانی مراد لیتے ہیں جبکہ یہاں بھی آپ کی شرط کے مطابق رفع اجسام کی بات ہورہی ہے تو پھر حضرت مسیح کے لئے کیوں رفع جسمانی زبردستی خود ساختہ قاعدے وضع کرکے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے؟ مسلمان روز نماز میں سنت رسول میں یہ دعا کرتے ہیں تو کیا اپنے رفع جسمانی کے لئے کرتے ہیں؟ پھر طرفہ یہ کہ پورے قرآن اور احادیث کے ذخیرے میں کہیں بھی رفع آسمان پرجسمانی طور پر جانے کے معنوں میں نہیں آیا۔ جب بھی بندے کے لئے اللہ تعالی رفع کا لفظ استعمال کرے تو اس سے مراد آسمان پر جانا نہیں ہوتا بلکہ درجات کی بلندی یا عزت والی موت کے ہوتے ہیں۔
اذاتواضع العبد رفعہ اللہ الی السماء السابعۃ۔ (کنز العمال جلد 2 صفہ 25)۔
ترجمہ: جب بندہ فروتنی اختیار کرتا ہے (خدا کے آگے گرتا ہے) تو اللہ تعالی اسکا ساتویں آسمان پر رفع کر لیتا ہے۔
یہ حدیث محاورہ عرب کے لحاظ سے اس آیت "بل رفعہ اللہ الیہ" کے معنی سمجھنے کے لئے واضع نص ہے۔ کیوں کہ اس میں لفظ رفع بھی موجود ہے۔ رفع کرنے والا بھی اللہ ہے۔ اور خاص بات اس میں یہ ہے کہ صلہ بھی الی ہی آیا ہے جیسا کہ "بل رفعہ اللہ الیہ" میں ہے۔ اور زائد بات یہ کہ ساتویں آسمان کا لفظ بھی ہے۔ حالانکہ آیت میں تو آسمان کا لفظ بھی نہیں۔ لیکن اس حدیث میں آسمان کا لفظ بھی ہے اور وہ ساری شرائط پوری ہورہی ہیں جن کو اب تک آپ نے پیش کیا ہے۔ لیکن پھر بھی مولوی صاحبان اس کا ترجمہ رفع روحانی یعنی بلندی درجات ہی لیتے ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ مسیح کے لئے بھی جو رفع کا لفظ آیا ہے اس میں بھی بلندی درجات ہی مراد ہے ناکہ آسمان کی طرف جانا۔
پھر اس حدیث کو دیکھیں:
ماتواضع احد للہ الا رفعہ اللہ (مسلم جلد 2 صفہ 321)
یعنی کوئی ایسا شخص نہیں کہ وہ اللہ کے آگے گرا ہو اور پھر اللہ نے اسکا رفع نہ کیا ہو۔
یہ جو عظیم قاعدہ آپ نے نقل فرمایا ہے اور قادیانی جس کو بارہا بطور چیلنج کے پیش کر چکے ہیں تو یہ قاعدہ کہیں مرقوم بھی ہےکسی کتاب تفسیر یا کسی شرح میں بیان بھی ہوا ہے یا نہیں اور صرف قادیانیوں کے ذہن کی پیداوار ہے ذرا پہلے اس قاعدے کا کوئی باقاعدہ حوالہ تو دیجئے پھر ہم آپ کے اس قاعدے کو بھی دیکھ لیتے ہیں۔تمام قرآن اوراحادیث کا ذخیرہ آپ کے زبردستی کے کئے ہوئے ترجمے کو رد کرہے ہیں۔ آپ نے رفع اجسام کے بارے میں جو بھی قواعد وضع کئے وہ تو آپ نے دیکھ لئے کہ قرآن و حدیث ہی آپ کے خلاف ہیں۔ اب رفع اجسام کے بارے میں صحیح قاعدہ بھی سن لیں۔ کہ قرآن مجید، احادیث، لغات العرب اور محاورہ عرب کی رو سے لفظ "رفع" جب بھی اللہ تعالی کی طرف سے کسی انسان کی نسبت بولا جائے تو اس کے معنی ہمیشہ ہی بلندی درجات یا قرب روحانی کے ہوتے ہیں۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے غیراحمدی علما کو بارہا یہ چیلنج دیا جا چکا ہے کہ وہ کلام عرب سے ایک ہی مثال اس امر کی پیش کریں کہ لفظ رفع کا فاعل اللہ تعالی مذکور ہو اور کوئی انسان اس کا مفعول ہو اور رفع کے معنی جسم سمیت آسمان پر اٹھا لینے کے ہوں۔ مگر آج تک اس کی ایک مثال بھی پیش نہیں کی جاسکی اور نہ آئندہ پیش کی جاسکے گی۔
اگر آپکو انکا رفع کیا جانا اتنا ہی خلافِ عقل لگتا ہے تو انکی پیدائش جو بذاتِ خود ایک معجزہ ہے اسکو کیوں مانتے ہو، اسکو بھی مسترد کردو کہ وہ بن باپ کے پیدا ہوئے۔
۔ اس آیت کے آخر میں ہے کان اللہ عزیزا حکیما ، اللہ ہے زبردست حکمت والا ۔ اب ذرا غور کیجئے کہ اگر یہاں صرف روحانی رفع مراد ہوتا تو اس میں اللہ پاک کی زبردست حکمت کیسے ظاہر ہو رہی ہے یعنی یہودی حضرت عیسیٰ کو مصلوب کرنا چاہتے تھے اللہ پاک نے پہلے بقول قادیانیوں کہ ان کو روحانی طور پر اٹھا لیا گویا ان کی موت ہو گئی تو اس طرح تو یہودیوں کا مقصد پورا ہو گیا ، جو حضرت عیسیٰ کو قتل کرنا چاہ رہے تھے تو اس میں اللہ کی حکمت کیسے ثابت ہو سکتی ہے یعنی جو کام یہودی کرنا چاہ رہے تھے وہ خود ہی اللہ نے کر دیا اور پھر بھی اللہ حکمت والا ہے ؟؟ نعوذ باللہ۔ یہی تو اللہ زبردست حکمت والے کی زبردست حکمت تھی کہ حضرت عیسیٰ کو صاف بچا کر اوپر آسمانوں میں لے گیا
۔ جو عظیم قاعدہ آپ نے نقل فرمایا ہے اور قادیانی جس کو بارہا بطور چیلنج کے پیش کر چکے ہیں تو یہ قاعدہ کہیں مرقوم بھی ہےکسی کتاب تفسیر یا کسی شرح میں بیان بھی ہوا ہے یا نہیں اور صرف قادیانیوں کے ذہن کی پیداوار ہے ذرا پہلے اس قاعدے کا کوئی باقاعدہ حوالہ تو دیجئے پھر ہم آپ کے اس قاعدے کو بھی دیکھ لیتے ہیں۔
۔اور میں ان کو چیلنج کرتا ہوں کہ کسی ایک مستند تفسیر یا ترجمہ میں یہ دکھائیں کہ یہاں چودہ سو سال میں کسی نے حضرت عیسیٰ کی صرف روح کا رفع لیا ہو جسد مع روح کا نہیں۔
درحقیقت قادیانی حضرات اس معاملے میں خود بڑی کنفیوژن کا شکا ر ہیں اور اس میں ان بچاروں کا کوئی قصور نہیں یہ تو ساری حرکت ان کے مرزا غلام احمد قادیانی کی ہے کہ اس نے متضاد اور الٹ پھیر باتیں اپنی کتابوں میں درج کی ہیں کہ خود قادیانیوں کے سر چکرا جاتے ہیں ۔یہ آپ سے کس نے کہا کہ صلیب کے موقع پر ہی اللہ تعالی نے انہیں وفات دے دی تھی۔ علامہ شلتوت کا جو اقتباس میں دیا تھا اسے پھر پڑھ لیں اوربراہ کرم ذرا غور سے پڑھیں۔ صلیب سے اللہ کی تدبیر نے انہیں بچا لیا تھا اور اسکے بعد ایک لمبی زندگی گزار کر 120 سال کی عمر میں کشمیر میں فوت ہوئے تھے اس واقعے کی تفصیل انشاء اللہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے جلد ہی شئیر کروں گا۔ باقی رہی یہ بات کیونکہ عزیزآ حکیمآ کے الفاظ اللہ نے استعمال کئے ہیں اس سے کوئی آسمان پر جانے جیسی قدرت ہی مراد تھی تو جناب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی جب اللہ نے انہیں ہجرت کے موقع پر غار ثور میں بچایا تھا جسکا ذکر سورہ توبہ آیت 40 میں ہے وہاں بھی تو اللہ نے عزیزآ حکیمآ کے الفاظ ہی بیان کئے ہیں۔ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت آسمان پر اٹھائے گئے تھے۔ یا زمین پر ہی رکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو محفوظ رکھا اور اپنی قدرت کا ثبوت دیا تھا؟
یہاں لسان العرب میں یہ قاعدہ کہاں بیان ہوا ہے کہ جب کبھی اللہ فاعل ہو رفع کا لفظ ہو انسان مفعول ہو تو لازمی رفع مجازی ہوگا؟ میں یہاں نہ صرف لغت عرب بلکہ تاریخ سے کئی مثالیں پیش کر سکتا ہوں کہ باوجود اس کہ اللہ فاعل ہو رفع کا لفظ ہو انسان مفعول ہو لیکن رفع جسمانی ہو لیکن پہلے آپ صریح الفاظ میں یہ قاعدہ مذکور دکھائیں۔جناب رفع کے متعلق ہم نے جو چیلنج دیا ہے اس کی بنیاد لغت عرب پر ہے۔ چنانچہ لسان العرب میں لکھا ہے- کہ رافع اللہ تعالی کا نام ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ مومنوں کا رفع ان معنوں میں کرتا ہے کہ انکو سعادت بخشتا ہے اور اپنے دوستوں کا رفع ان معنوں میں کرتا ہے کہ انکو اپنا مقرب بنا لیتا ہے۔ گویا اللہ تعالی کے رفع کا فاعل اور انسان (مومن و اولیا) کے مفعول ہونے کی صورت میں رفع کے معنی بلندی درجات و حصول قرب الہی ہے۔ پس ہمارے چیلنج کی بنیاد تو لغت عرب پر ہے۔
خوف خدا اور خوف آخرت کرنے کی ضرورت آپ کو بے حد ایک ایک جھوٹے نبی کا دامن پکٹر کر آپ جا کس طرف رہے ہیں (اور خوف خدا و فکر انسانیت الحمد للہ ہم میں بھرا ہوا ہے جبھی نہ صرف اپنی آپ حضرات کی بھی فکر رہتی ہے کہ اسی عالم میں آپ وفات پا گئے تو آپ کا انجام کیا ہو گا)کمال ہے جناب اتنا لمبا اقتباس مفتی مصر کا نقل کردیا اور ایک لمبی لسٹ موجودہ و گذشتہ بزرگان امت کی دے دی۔ اورابھی چیلنج چلتا ہی جارہا ہے!! اس رویئے پر بندہ کیا کہے؟ آپ کس کو دھوکا دینا چاہ رہے ہیں؟ کیا آپ عوام کو الفاظ کے ہیر پھیر سے یہ دھوکا دینا چاہتے ہیں کہ یہ تمام علما مسیح کو وفات یافتہ بھی مانتے تھے اور ساتھ ہی رفع کی وجہ سے آسمان پر زندہ بھی مانتے تھے؟ کچھ خوف خدا کریں یہاں تو ڈھکی چھپی بات بھی نہیں سب دیکھ اور پڑھ رہے ہیں۔
علامہ شلتوت مرحوم کا اقتباس ایک بار پھر پڑھ لیں شائد جناب کی نظر کمزور ہے۔ ایک اورحوالہ بھی پیش خدمت ہے امید تو نہیں کہ آپ کو نظر آئے گا لیکن چلیں دوسروں کے لئے ہی سہی۔
ابن عربی کا حوالہ آپ کو کسی طرح مفید نہیں ہے اس لیے کہ اول تو یہ تفسیر جس کا آپ نے حوالہ دیا اس کی نسبت ابن عربی کی طرف مشکوک ہے۔دوسرا یہ کہ ابن عربی سے جا بجا ان کی مستند کتابوں میں یہ بات مرقوم ہے کہ وہ حیات و نزول مسیح کے قائل ہیں۔ مثلاعلامہ محی الدین ابن عربی رحمہ اللہ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ آپ اسی آیت "اور اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا" کی تفسیر میں ان کے جسمانی رفع کی تردید اور روحانی رفع کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"یعنی حضرت مسیح کا رفع دراصل ان کی روح کے عالم سفلی سے جدا ہو کر عالم علوی میں قرار پکڑنے کا نام ہے۔"
(تفسیر القران للشیخ الاکبر العارف باللہ العلامہ محی الدین بن عربی۔ المتوفی سنۃ 638 حجر تہ تحقیق و تقدیم الدکنور مصطفی غالب المجلد الاول صفحہ 296 دارالاندلس للطباعۃ والنشر و التوزیغ ۔ بیروت)
یاد رہے علامہ ابن عربی کا تعلق ان بزرگ صوفیا سے ہے جنہوں نے مسیح کی آمد ثانی سے ان کا ایک دوسرے جسم کے ساتھ روحانی نزول مراد لیا ہے۔ چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:
"جب مسیح کا مرجع اپنی اصلی مقر کی طرف ہے اور ابھی وہ اپنے حقیقی کمال کو نہیں پہنچا لہذا آپ کا نزول آخری زمانہ میں ایک دوسرے جسم کے ساتھ تعلق کی صورت میں واجب ہے۔ (حوالہ ایضآ)