رانا
محفلین
مسیح کی قبر شام میں لکھنا:
ابن حسن کی طرف سے یہ بات بھی پیش کی گئی ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے مسیح کی قبر پہلے شام میں بیان فرمائی تھی۔ اس پر تو مجھے حیرت ہے کہ اس میں بھی اعتراض نظر آرہا ہے۔ یہ تو ایک تحقیق سے متعلق بات تھی۔ تحقیق کے ابتدائی مراحل میں ان کا خیال شام کی طرف تھا پھر مذید تحقیق کرنے پراور مذید شواہد سامنے آنے پر جب یہ بات واضع ہوگئی کہ تاریخی حقائق ان کے کشمیر میں آنے کی طرف اشارہ کرتے ییں تو انہوں نے اسکا اظہار کردیا۔ اس میں اعتراض والی کیا بات تھی۔ کیا آپ کے خیال میں ایک ایک بات نبی کو الہام کے ذریعے ہی بتائی جانی چاہئے خود اسکو کوئی کوشش نہیں کرنی چاہیے؟ اور کیا نبی کی تحقیق کبھی غلط نہیں ہوسکتی؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر جنگ سے پہلے تحقیق کرایا کرتے تھے۔ جاسوس بھیجے جاتے تھے جو تحقیق کرکے لاتے تھے اور پھر انکی روشنی میں فیصلہ کیا جاتا تھا۔ لہذا تحقیق کرنا تو نبی کی شان کے خلاف نہیں۔ رہی یہ بات کہ نبی کی تحقیق غلط ہو تو اللہ تعالی نے کیوں نہ بتادیا۔ جب صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت عثمان کے قتل کی خبر پھیل گئی تو آپ نے صرف اس خبر کی بناء پر حضرت عثمان کے قتل کا بدلہ لینے کا عہد صحابہ سے لیا جو بعیت رضوان کے نام سے مشہور ہے۔ لیکن پھر پتہ لگا کہ یہ خبر تو غلط ہے۔ اب بتائیں ایک غلط خبر پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فیصلہ کرلیا اور اللہ تعالی نے بھی نہ بتایا کہ یہ خبر غلط ہے۔ بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اسکی حقیقت بھی دنیاوی ذرائع سے پتہ لگی۔ اس طرح کی باتوں پر تو صرف تعصب کی عینک چڑھا کر ہی اعتراض کیا جاسکتا ہے۔
براہین احمدیہ میں حیات مسیح کا عقیدہ:
اس پوسٹ میں آخر میں اس بات کا بھی ذکر کروں گا جو ابن حسن نے پہلے کسی پوسٹ میں اٹھائی تھی کہ مسیح کی قبر پہلے شام وغیرہ میں بیان کی گئی پھربعد میں کشمیرمیں بیان کی گئی۔
حضرت مرزا صاحب کے اقوال میں کوئی تناقض نہیں۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ نبی پہلے ایک بات اپنی طرف سے کہے۔ مگر اسکے بعد خداتعالی اس کو بتا دے کہ یہ بات غلط ہے اور درست اس طرح ہے۔ تو دوسرا قول نبی کا نہیں بلکہ اللہ تعالی کا ہوگا۔ لہذا تناقض نہ ہوا۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَ لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا (النساء 823)
کہ اگر یہ خداتعالی کا کلام نہ ہوتا۔ بلکہ خدا کے سوا کسی اور کا کلام ہوتا تو اس میں اختلاف ہوتا۔
پس اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ کلام اللہ کے سوا باقی سب کے کلام میں اختلاف ہونا چاہئے۔ نبی بھی انسان ہے اور بھی رب زدنی علما (طہ 115) کی دعا کرتا ہے۔ جیسا کہ موسی علیہ السلام نے کی کہ اے اللہ میرا علم بڑھا۔ پس جو کلام نبی خدا کے بتائے ہوئے علم سے پہلے کرے گا وہ ہوسکتا ہے کہ اس کلام کے مخالف ہو جو اللہ تعالی کی طرف سے اسے دیا جائے۔ مثلا حضرت نوح علیہ السلام کا قول قرآن مجید میں ہے کہ
ان ابنی من اھلی (ھود 46) کہ یقینآ میرا بیٹا میرے اہل میں سے ہے۔
مگر خدا تعالی نے فرمایا
النہ لیس من اھلک (ھود 47) کہ وہ یقینآ آپ کے اہل میں سے نہیں ہے۔
اب اس وحی الہی کے بعد اگر حضرت نوح علیہ السلام اپنے بیٹے کو اہل میں شمار نہ کریں (جیسا کہ واقعہ ہے) تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ پہلا قول حضرت نوح علیہ السلام کا اپنا خیال تھا۔ مگر دوسرا خدا کے بتائے ہوئے علم کی بناء پر ہے۔ ہاں الہام الہی میں اختلاف نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ وہ علیم کل ہستی کی طرف سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرماتا ہے:
وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ (النساء 114)
کہ اللہ تعالی نے آپ کو وہ علم دیا ہے جو آپ کو پہلے نہ تھا۔
اب ظاہر ہے کہ آپ کے قبل از علم کے کلام او زمانہ بعد از علم کے کلام میں اختلاف ہونا ضروری ہے۔ مگر یہ امر آپ کی نبوت کے منافی نہیں بلکہ ایک لحاظ سے دلیل صداقت ہے۔ کیونکہ یہ عدم تصنع پر دلالت کرتا ہے۔
اسی قسم کا اختلاف وفات مسیح کے متعلق ہے کہ حضرت اقدس نے پہلے اپنا خیال براہین احمدیہ میں لکھ دیا۔ لیکن بعد میں جو اللہ تعالی نے آپ پر منکشف فرمایا وہ بھی کچھ براہین احمدیہ میں ہی اور کچھ بعد کی تحریرات میں درج فرمادیا۔ اب ظاہر ہے کہ وہ پہلا قول جس میں میسح ناصری کو زندہ قرار دیا گیا تھا وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے مگر جس میں ان کو وفات یافتہ قرار دیا گیا ہے وہ اللہ تعالی کا ہے۔ پس ان میں تناقض نہ ہوا۔
اس طرح کی مثالیں احادیث میں بھی ہیں:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لاتخیرونی علی موسی (بخاری فی الخصومات باب ماذکرفی الشخاص و الخصومۃ بین المسلم والیہودی جلد 2 مصری)
کہ مجھ کو موسی سے اچھا نہ کہو۔
پھر فرماتے ہیں:
کہ جو یہ کہتے کہ میں یونس بن متی سے افضل ہوں وہ جھوٹا ہے۔
(بخاری کتاب التفسیر تفسیر زیر آیت انا اوحینا الیک کما اوحینا لی نوح۔۔۔۔یونس سورہ نساء جلد 3 صفحہ 77 مصری)
مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے کہا کہ اے تمام انسانوں سے افضل! اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ تو ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ یعنی ابرہیم علیہ السلام تمام انسانوں سے افضل ہیں ناکہ میں۔
حضرت ملا علی قاری اس کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا ازراہ انکسار تھا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ فرمایا تھا اس وقت تک اللہ تعالی نے آپ کو یہ اطلاع نہ دی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں سے افضل ہیں۔ بعد میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں تمام انسانوں کا سردار ہوں اور یہ فخر نہیں۔
اس بات کی تو اتنی وضاحت احادیث میں آئی ہے کہ تمام احادیث کو بیان کرنا بھی مشکل ہے۔ حیرت ہے اسکے باوجود کسطرح یہ اعتراض کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں اب میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا ہی ایک فیصلہ کن حوالہ رکھ دیتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں:
"جاننا چاہئے کہ نسخ کی دو قسمیں ہیں۔ اول یہ پیغمبر (صلعم) امور نافع اور عبادات کے طریقوں میں خوض کرکے شریعت کے قوانین کے ڈھنگ پر ان کو جاری کردیتے ہیں۔ ایسا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد سے ہوا کرتا ہے۔ لیکن خداتعالی اس حکم و اجتہاد کو باقی نہیں رکھتا۔ بلکہ اس حکم کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ظاہر کردیتا ہے۔ جو خداتعالی نے اس مسئلہ کے متعلق قرار دیا ہے۔ اس حکم کا اظہار یوں ہوتا ہے کہ قرآن میں وہ وارد کیا جائے یا اس طرح پر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد ہی میں تبدیل ہوجائے اور دوسرا اجتہاد آپ کے ذہن میں قرار پاجائے۔ پہلی صورت کی مثال یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں بیت المقدس کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ پھر قرآن میں اس حکم کی منسوخیت نازل ہوئی۔ اور دوسری صورت کی مثال یہ ہے کہ آنحضرت صلعم نے بجز چھاگل کے ہر برتن میں نبیذ بنانے سے ممانعت کردی تھی۔ پھر ہر ایک برتن میں نبیذ بنانا لوگوں کے لئے جائزکردیا۔ اس توجیہہ کے لحاظ سے معلوم ہوتاہے کہ موقعوں کے بدلنے سے حکم بل جایا کرتا ہے۔ اسی قسم کے متعلق آپ نے فرمایا کہ میرا کلام، کلام الہی کو منسوخ نہیں کرسکتا۔ اور کلام الہی میرے کلام کو منسوخ کرتا ہے۔"
(کتاب حجتہ اللہ البالغہ مع اردو ترجمہ المسمی بہ شموس اللہ البازغہ جلد 1 صفحہ 237)
اس عبارت میں جو دوسری قسم نسخ کی بیان ہوئی ہے وہ خاص طور پر قابل غور ہے۔ کیونکہ اس میں ضروری نہیں ہے کہ وحی کے ذریعہ نبی کے پہلے حکم کو منسوخ کیا جائے۔ بلکہ خود اللہ تعالی کا تصرف قلب ملہم پر ہی ایسا ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے پہلے اجتہاد کو منسوخ کردے۔ مگر پھربھی یہ تناقض نہ ہوگا کیونکہ پہلا خیال ملہم کا اپنا تھا مگر دوسرا خداتعالی کی طرف سے ہے۔
حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں:
"میں نے براہین احمدیہ میں غلطی سے توفی کے معنی ایک جگہ پورا دینے کے کئے ہیں۔ جس کو بعض مولوی صاحبان بطور اعتراض پیش کیا کرتے ہیں۔ مگر یہ امر جائے اعتراض نہیں۔ میں مانتا ہوں کہ وہ میری غلطی ہے، الہامی نہیں۔ میں بشر ہوں اور بشریت کے عوارض مثلآ جیسا کہ سہو اور نسیان اور غلطی یہ تمام انسانوں کی طرح مجھ میں بھی ہیں۔ گو میں جانتا ہوں کہ کسی غلطی پر مجھے خداتعالی قائم نہیں رکھتا، مگر یہ دعوی نہیں کرتا کہ میں اپنے اجتہاد میں غلطی نہیں کرسکتا۔ خدا کا الہام غلطی سے پاک ہوتا ہے مگر انسان کا کلام غلطی کا احتمال رکھتا ہے۔ کیونکہ سہو و نسیان لازمہ بشریت ہے۔ " (ایام الصلح صفحہ 41)
جو کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے وہ قرآن مجید و احادیث نبوی کے عین مطابق ہے کیونکہ یہی بات خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمائی ہے جیسا کہ فرمایا:
ماحدثتکم عن اللہ سبحنہ فھو حق وما قلت فیہ من قبل نفسی فانما انا بشر اخطی و اصیب۔ (نبراس شرح الشرح لعقائد نسفی صفحہ 392)
یعنی جو بات میں اللہ تعالی کی وحی سے کہوں تو وہ درست ہوتی ہے (یعنی اس میں غلطی کا امکان نہیں) لیکن جو بات میں اس وحی الہی کے ترجمہ و تشریح کے طور پر اپنی طرف سے کہوں تو یاد رکھو کہ میں بھی انسان ہوں، میں اپنے خیال میں غلطی بھی کرسکتا ہوں"۔
اسی طرح بخاری شریف میں ہے:
انما انا بشر النسی کما تنسون (بخاری کتاب الصلاۃ باب التوجہ الی القبلہ جلد 1 صفحہ 53)
یعنی میں بھی انسان ہوں، تمہاری طرح مجھ سے بھی نسیان ہوجاتا ہے۔
یہ جو اعتراض پیش کیا جاتا ہے کہ براہین احمدیہ کے وقت اللہ تعالی نے آپ کو قرآن مجید کا صحیح علم نہیں دیا تھا اس کا جواب یہ ہے کہ دیا تھا۔ چنانچہ براہین احمدیہ کی یہ عبارتیں نکال کر دیکھ لیں۔ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسلمانوں کا رسمی عقیدہ دربارہ حیات مسیح درج فرمایا ہے مگر اس کے ساتھ ہی جو علم آپ کو اللہ کی طرف سے اس بارہ میں دیا گیا تھا وہ بھی درج فرما دیا ہے۔ وہ عبارت یہ ہے:
"جس غلبۂ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا۔ اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اسؔ دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا لیکن اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ خاکسار اپنی غربت اور انکسار اور توکل اور ایثار اور آیات اور انوار کے رو سے مسیح کی پہلی زندگی کا نمونہ ہے اور اس عاجز کی فطرت اور مسیح کی فطرت باہم نہایت ہی متشابہ واقع ہوئی ہے گویا ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے یا ایک ہی درخت کے دو پھل ہیں اور بحدی اتحاد ہے کہ نظر کشفی میں نہایت ہی باریک امتیاز ہے اور نیز ظاہری طور پربھی ایک مشابہت ہے اور وہ یوں کہ مسیح ایک کامل اورعظیم الشان نبی یعنی موسیٰ کا تابع اور خادم دین تھا اور اس کی انجیل توریت کی فرع ہے اور یہ عاجز بھی اس جلیل الشان نبی کے احقر خادمین میں سے ہے کہ جو سید الرسل اور سب رسولوں کا سرتاج ہے۔ اگر وہ حامد ہیں تو وہ احمد ہے۔ اور اگر وہ محمود ہیں تو وہ محمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم۔ سو چونکہ اس عاجز کو حضرت مسیح سے مشابہت تامہ ہے اس لئے خداوند کریم نے مسیح کی پیشگوئی میں ابتدا سے اس عاجز کو بھی شریک کررکھا ہے۔"
﴿براہین احمدیہ ہر چہار حصص صفحہ 499﴾
اب دیکھ لیں کہ حضرت اقدس نے کس صفائی سے اپنے خیال کو جو دوسرے مسلمانوں کے رسمی عقیدہ پر مبنی تھا، نہایت سادگی سے بیان فرمادیا ہے، لیکن جو علم اس کے خلاف اللہ تعالی کی طرف سے دیا گیا اس کو بھی نہایت صفائی سے بیان فرمادیا ہے۔ منقولہ بالا عبارت میں "لیکن اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے۔" کے الفاظ خصوصیت سے قابل غورہیں، کیونکہ "لیکن" کا لفظ بتاتا ہے کہ اس سے پہلے جو لکھا گیا اس کے خلاف اب کچھ لکھا جانے لگا ہے۔ "ظاہر کیا گیا ہے" کے الفاظ بتاتے ہیں کہ جو اس سے پہلے لکھا گیا وہ اللہ تعالی کے بتائے ہوئے علم کی بناء پر نہیں، بلکہ عام انسانی خیال کی بناء پر ہے۔ لیکن مابعد جس مشابہت تامہ اور پیشگوئی مسیح موعود کا مصداق ہونے کا جو مذکور ہے وہ صحیح علم ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ حجرت مسیح موعود علیہ السلام "کشتی نوح" میں فرماتے ہیں:
"اسی واسطے میں مسلمانوں کا رسمی عقیدہ براہین احمدیہ میں لکھ دیا تا میری سادگی اور عدم بناوٹ پر وہ گواہ ہو، وہ لکھنا میرا الہامی نہ تھا محض رسمی تھا۔ مخالفوں کے لئے قابل استناد نہیں کیونکہ مجھے خود بخود غیب کا دعوی نہیں۔" ﴿کشتی نوح صفحہ 47)
پس براہین احمدیہ کے حوالے سے حیات مسیح کی سند پیش کرنا تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہودی اپنے قبلہ کی تائید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کا بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا بطور سند کے پیش کرے، حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فعل رسمی تھا۔ کیونکہ سنت انبیاء یہی ہے کہ وہ پہلے نبی کی امت کے عام عقائد اور اصولی طریق پر گامزن رہتے ہیں۔ جب تک کہ اللہ تعالی کی طرف سے خاص حکم کے ذریعہ ان کو روکا نہ جائے۔ یہی حال یہاں ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے دوسرے بارے کے شروع میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ کم عقل لوگ ضرور اعتراض کریں گے کہ انہوں نے قبلہ کیوں بدل لیا۔ یہود کے اس نقش قدم کی بھی خوب خوب پیروی کی ہے آج کے علماء نے۔ کیوں نہ کرتے آخرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیشگوئی کیسے غلط ثابت ہوسکتی تھی۔
ابن حسن کی طرف سے یہ بات بھی پیش کی گئی ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے مسیح کی قبر پہلے شام میں بیان فرمائی تھی۔ اس پر تو مجھے حیرت ہے کہ اس میں بھی اعتراض نظر آرہا ہے۔ یہ تو ایک تحقیق سے متعلق بات تھی۔ تحقیق کے ابتدائی مراحل میں ان کا خیال شام کی طرف تھا پھر مذید تحقیق کرنے پراور مذید شواہد سامنے آنے پر جب یہ بات واضع ہوگئی کہ تاریخی حقائق ان کے کشمیر میں آنے کی طرف اشارہ کرتے ییں تو انہوں نے اسکا اظہار کردیا۔ اس میں اعتراض والی کیا بات تھی۔ کیا آپ کے خیال میں ایک ایک بات نبی کو الہام کے ذریعے ہی بتائی جانی چاہئے خود اسکو کوئی کوشش نہیں کرنی چاہیے؟ اور کیا نبی کی تحقیق کبھی غلط نہیں ہوسکتی؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر جنگ سے پہلے تحقیق کرایا کرتے تھے۔ جاسوس بھیجے جاتے تھے جو تحقیق کرکے لاتے تھے اور پھر انکی روشنی میں فیصلہ کیا جاتا تھا۔ لہذا تحقیق کرنا تو نبی کی شان کے خلاف نہیں۔ رہی یہ بات کہ نبی کی تحقیق غلط ہو تو اللہ تعالی نے کیوں نہ بتادیا۔ جب صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت عثمان کے قتل کی خبر پھیل گئی تو آپ نے صرف اس خبر کی بناء پر حضرت عثمان کے قتل کا بدلہ لینے کا عہد صحابہ سے لیا جو بعیت رضوان کے نام سے مشہور ہے۔ لیکن پھر پتہ لگا کہ یہ خبر تو غلط ہے۔ اب بتائیں ایک غلط خبر پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فیصلہ کرلیا اور اللہ تعالی نے بھی نہ بتایا کہ یہ خبر غلط ہے۔ بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اسکی حقیقت بھی دنیاوی ذرائع سے پتہ لگی۔ اس طرح کی باتوں پر تو صرف تعصب کی عینک چڑھا کر ہی اعتراض کیا جاسکتا ہے۔
براہین احمدیہ میں حیات مسیح کا عقیدہ:
اس پوسٹ میں آخر میں اس بات کا بھی ذکر کروں گا جو ابن حسن نے پہلے کسی پوسٹ میں اٹھائی تھی کہ مسیح کی قبر پہلے شام وغیرہ میں بیان کی گئی پھربعد میں کشمیرمیں بیان کی گئی۔
حضرت مرزا صاحب کے اقوال میں کوئی تناقض نہیں۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ نبی پہلے ایک بات اپنی طرف سے کہے۔ مگر اسکے بعد خداتعالی اس کو بتا دے کہ یہ بات غلط ہے اور درست اس طرح ہے۔ تو دوسرا قول نبی کا نہیں بلکہ اللہ تعالی کا ہوگا۔ لہذا تناقض نہ ہوا۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَ لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا (النساء 823)
کہ اگر یہ خداتعالی کا کلام نہ ہوتا۔ بلکہ خدا کے سوا کسی اور کا کلام ہوتا تو اس میں اختلاف ہوتا۔
پس اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ کلام اللہ کے سوا باقی سب کے کلام میں اختلاف ہونا چاہئے۔ نبی بھی انسان ہے اور بھی رب زدنی علما (طہ 115) کی دعا کرتا ہے۔ جیسا کہ موسی علیہ السلام نے کی کہ اے اللہ میرا علم بڑھا۔ پس جو کلام نبی خدا کے بتائے ہوئے علم سے پہلے کرے گا وہ ہوسکتا ہے کہ اس کلام کے مخالف ہو جو اللہ تعالی کی طرف سے اسے دیا جائے۔ مثلا حضرت نوح علیہ السلام کا قول قرآن مجید میں ہے کہ
ان ابنی من اھلی (ھود 46) کہ یقینآ میرا بیٹا میرے اہل میں سے ہے۔
مگر خدا تعالی نے فرمایا
النہ لیس من اھلک (ھود 47) کہ وہ یقینآ آپ کے اہل میں سے نہیں ہے۔
اب اس وحی الہی کے بعد اگر حضرت نوح علیہ السلام اپنے بیٹے کو اہل میں شمار نہ کریں (جیسا کہ واقعہ ہے) تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ پہلا قول حضرت نوح علیہ السلام کا اپنا خیال تھا۔ مگر دوسرا خدا کے بتائے ہوئے علم کی بناء پر ہے۔ ہاں الہام الہی میں اختلاف نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ وہ علیم کل ہستی کی طرف سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرماتا ہے:
وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ (النساء 114)
کہ اللہ تعالی نے آپ کو وہ علم دیا ہے جو آپ کو پہلے نہ تھا۔
اب ظاہر ہے کہ آپ کے قبل از علم کے کلام او زمانہ بعد از علم کے کلام میں اختلاف ہونا ضروری ہے۔ مگر یہ امر آپ کی نبوت کے منافی نہیں بلکہ ایک لحاظ سے دلیل صداقت ہے۔ کیونکہ یہ عدم تصنع پر دلالت کرتا ہے۔
اسی قسم کا اختلاف وفات مسیح کے متعلق ہے کہ حضرت اقدس نے پہلے اپنا خیال براہین احمدیہ میں لکھ دیا۔ لیکن بعد میں جو اللہ تعالی نے آپ پر منکشف فرمایا وہ بھی کچھ براہین احمدیہ میں ہی اور کچھ بعد کی تحریرات میں درج فرمادیا۔ اب ظاہر ہے کہ وہ پہلا قول جس میں میسح ناصری کو زندہ قرار دیا گیا تھا وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے مگر جس میں ان کو وفات یافتہ قرار دیا گیا ہے وہ اللہ تعالی کا ہے۔ پس ان میں تناقض نہ ہوا۔
اس طرح کی مثالیں احادیث میں بھی ہیں:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لاتخیرونی علی موسی (بخاری فی الخصومات باب ماذکرفی الشخاص و الخصومۃ بین المسلم والیہودی جلد 2 مصری)
کہ مجھ کو موسی سے اچھا نہ کہو۔
پھر فرماتے ہیں:
کہ جو یہ کہتے کہ میں یونس بن متی سے افضل ہوں وہ جھوٹا ہے۔
(بخاری کتاب التفسیر تفسیر زیر آیت انا اوحینا الیک کما اوحینا لی نوح۔۔۔۔یونس سورہ نساء جلد 3 صفحہ 77 مصری)
مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے کہا کہ اے تمام انسانوں سے افضل! اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ تو ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ یعنی ابرہیم علیہ السلام تمام انسانوں سے افضل ہیں ناکہ میں۔
حضرت ملا علی قاری اس کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا ازراہ انکسار تھا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ فرمایا تھا اس وقت تک اللہ تعالی نے آپ کو یہ اطلاع نہ دی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں سے افضل ہیں۔ بعد میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں تمام انسانوں کا سردار ہوں اور یہ فخر نہیں۔
اس بات کی تو اتنی وضاحت احادیث میں آئی ہے کہ تمام احادیث کو بیان کرنا بھی مشکل ہے۔ حیرت ہے اسکے باوجود کسطرح یہ اعتراض کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں اب میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا ہی ایک فیصلہ کن حوالہ رکھ دیتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں:
"جاننا چاہئے کہ نسخ کی دو قسمیں ہیں۔ اول یہ پیغمبر (صلعم) امور نافع اور عبادات کے طریقوں میں خوض کرکے شریعت کے قوانین کے ڈھنگ پر ان کو جاری کردیتے ہیں۔ ایسا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد سے ہوا کرتا ہے۔ لیکن خداتعالی اس حکم و اجتہاد کو باقی نہیں رکھتا۔ بلکہ اس حکم کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ظاہر کردیتا ہے۔ جو خداتعالی نے اس مسئلہ کے متعلق قرار دیا ہے۔ اس حکم کا اظہار یوں ہوتا ہے کہ قرآن میں وہ وارد کیا جائے یا اس طرح پر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد ہی میں تبدیل ہوجائے اور دوسرا اجتہاد آپ کے ذہن میں قرار پاجائے۔ پہلی صورت کی مثال یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں بیت المقدس کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ پھر قرآن میں اس حکم کی منسوخیت نازل ہوئی۔ اور دوسری صورت کی مثال یہ ہے کہ آنحضرت صلعم نے بجز چھاگل کے ہر برتن میں نبیذ بنانے سے ممانعت کردی تھی۔ پھر ہر ایک برتن میں نبیذ بنانا لوگوں کے لئے جائزکردیا۔ اس توجیہہ کے لحاظ سے معلوم ہوتاہے کہ موقعوں کے بدلنے سے حکم بل جایا کرتا ہے۔ اسی قسم کے متعلق آپ نے فرمایا کہ میرا کلام، کلام الہی کو منسوخ نہیں کرسکتا۔ اور کلام الہی میرے کلام کو منسوخ کرتا ہے۔"
(کتاب حجتہ اللہ البالغہ مع اردو ترجمہ المسمی بہ شموس اللہ البازغہ جلد 1 صفحہ 237)
اس عبارت میں جو دوسری قسم نسخ کی بیان ہوئی ہے وہ خاص طور پر قابل غور ہے۔ کیونکہ اس میں ضروری نہیں ہے کہ وحی کے ذریعہ نبی کے پہلے حکم کو منسوخ کیا جائے۔ بلکہ خود اللہ تعالی کا تصرف قلب ملہم پر ہی ایسا ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے پہلے اجتہاد کو منسوخ کردے۔ مگر پھربھی یہ تناقض نہ ہوگا کیونکہ پہلا خیال ملہم کا اپنا تھا مگر دوسرا خداتعالی کی طرف سے ہے۔
حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں:
"میں نے براہین احمدیہ میں غلطی سے توفی کے معنی ایک جگہ پورا دینے کے کئے ہیں۔ جس کو بعض مولوی صاحبان بطور اعتراض پیش کیا کرتے ہیں۔ مگر یہ امر جائے اعتراض نہیں۔ میں مانتا ہوں کہ وہ میری غلطی ہے، الہامی نہیں۔ میں بشر ہوں اور بشریت کے عوارض مثلآ جیسا کہ سہو اور نسیان اور غلطی یہ تمام انسانوں کی طرح مجھ میں بھی ہیں۔ گو میں جانتا ہوں کہ کسی غلطی پر مجھے خداتعالی قائم نہیں رکھتا، مگر یہ دعوی نہیں کرتا کہ میں اپنے اجتہاد میں غلطی نہیں کرسکتا۔ خدا کا الہام غلطی سے پاک ہوتا ہے مگر انسان کا کلام غلطی کا احتمال رکھتا ہے۔ کیونکہ سہو و نسیان لازمہ بشریت ہے۔ " (ایام الصلح صفحہ 41)
جو کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے وہ قرآن مجید و احادیث نبوی کے عین مطابق ہے کیونکہ یہی بات خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمائی ہے جیسا کہ فرمایا:
ماحدثتکم عن اللہ سبحنہ فھو حق وما قلت فیہ من قبل نفسی فانما انا بشر اخطی و اصیب۔ (نبراس شرح الشرح لعقائد نسفی صفحہ 392)
یعنی جو بات میں اللہ تعالی کی وحی سے کہوں تو وہ درست ہوتی ہے (یعنی اس میں غلطی کا امکان نہیں) لیکن جو بات میں اس وحی الہی کے ترجمہ و تشریح کے طور پر اپنی طرف سے کہوں تو یاد رکھو کہ میں بھی انسان ہوں، میں اپنے خیال میں غلطی بھی کرسکتا ہوں"۔
اسی طرح بخاری شریف میں ہے:
انما انا بشر النسی کما تنسون (بخاری کتاب الصلاۃ باب التوجہ الی القبلہ جلد 1 صفحہ 53)
یعنی میں بھی انسان ہوں، تمہاری طرح مجھ سے بھی نسیان ہوجاتا ہے۔
یہ جو اعتراض پیش کیا جاتا ہے کہ براہین احمدیہ کے وقت اللہ تعالی نے آپ کو قرآن مجید کا صحیح علم نہیں دیا تھا اس کا جواب یہ ہے کہ دیا تھا۔ چنانچہ براہین احمدیہ کی یہ عبارتیں نکال کر دیکھ لیں۔ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسلمانوں کا رسمی عقیدہ دربارہ حیات مسیح درج فرمایا ہے مگر اس کے ساتھ ہی جو علم آپ کو اللہ کی طرف سے اس بارہ میں دیا گیا تھا وہ بھی درج فرما دیا ہے۔ وہ عبارت یہ ہے:
"جس غلبۂ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا۔ اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اسؔ دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا لیکن اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ خاکسار اپنی غربت اور انکسار اور توکل اور ایثار اور آیات اور انوار کے رو سے مسیح کی پہلی زندگی کا نمونہ ہے اور اس عاجز کی فطرت اور مسیح کی فطرت باہم نہایت ہی متشابہ واقع ہوئی ہے گویا ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے یا ایک ہی درخت کے دو پھل ہیں اور بحدی اتحاد ہے کہ نظر کشفی میں نہایت ہی باریک امتیاز ہے اور نیز ظاہری طور پربھی ایک مشابہت ہے اور وہ یوں کہ مسیح ایک کامل اورعظیم الشان نبی یعنی موسیٰ کا تابع اور خادم دین تھا اور اس کی انجیل توریت کی فرع ہے اور یہ عاجز بھی اس جلیل الشان نبی کے احقر خادمین میں سے ہے کہ جو سید الرسل اور سب رسولوں کا سرتاج ہے۔ اگر وہ حامد ہیں تو وہ احمد ہے۔ اور اگر وہ محمود ہیں تو وہ محمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم۔ سو چونکہ اس عاجز کو حضرت مسیح سے مشابہت تامہ ہے اس لئے خداوند کریم نے مسیح کی پیشگوئی میں ابتدا سے اس عاجز کو بھی شریک کررکھا ہے۔"
﴿براہین احمدیہ ہر چہار حصص صفحہ 499﴾
اب دیکھ لیں کہ حضرت اقدس نے کس صفائی سے اپنے خیال کو جو دوسرے مسلمانوں کے رسمی عقیدہ پر مبنی تھا، نہایت سادگی سے بیان فرمادیا ہے، لیکن جو علم اس کے خلاف اللہ تعالی کی طرف سے دیا گیا اس کو بھی نہایت صفائی سے بیان فرمادیا ہے۔ منقولہ بالا عبارت میں "لیکن اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے۔" کے الفاظ خصوصیت سے قابل غورہیں، کیونکہ "لیکن" کا لفظ بتاتا ہے کہ اس سے پہلے جو لکھا گیا اس کے خلاف اب کچھ لکھا جانے لگا ہے۔ "ظاہر کیا گیا ہے" کے الفاظ بتاتے ہیں کہ جو اس سے پہلے لکھا گیا وہ اللہ تعالی کے بتائے ہوئے علم کی بناء پر نہیں، بلکہ عام انسانی خیال کی بناء پر ہے۔ لیکن مابعد جس مشابہت تامہ اور پیشگوئی مسیح موعود کا مصداق ہونے کا جو مذکور ہے وہ صحیح علم ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ حجرت مسیح موعود علیہ السلام "کشتی نوح" میں فرماتے ہیں:
"اسی واسطے میں مسلمانوں کا رسمی عقیدہ براہین احمدیہ میں لکھ دیا تا میری سادگی اور عدم بناوٹ پر وہ گواہ ہو، وہ لکھنا میرا الہامی نہ تھا محض رسمی تھا۔ مخالفوں کے لئے قابل استناد نہیں کیونکہ مجھے خود بخود غیب کا دعوی نہیں۔" ﴿کشتی نوح صفحہ 47)
پس براہین احمدیہ کے حوالے سے حیات مسیح کی سند پیش کرنا تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہودی اپنے قبلہ کی تائید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کا بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا بطور سند کے پیش کرے، حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فعل رسمی تھا۔ کیونکہ سنت انبیاء یہی ہے کہ وہ پہلے نبی کی امت کے عام عقائد اور اصولی طریق پر گامزن رہتے ہیں۔ جب تک کہ اللہ تعالی کی طرف سے خاص حکم کے ذریعہ ان کو روکا نہ جائے۔ یہی حال یہاں ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے دوسرے بارے کے شروع میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ کم عقل لوگ ضرور اعتراض کریں گے کہ انہوں نے قبلہ کیوں بدل لیا۔ یہود کے اس نقش قدم کی بھی خوب خوب پیروی کی ہے آج کے علماء نے۔ کیوں نہ کرتے آخرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیشگوئی کیسے غلط ثابت ہوسکتی تھی۔