حضرت عیسٰی علیہ السلام کو آسمان پر زندہ اٹھایا گیا یا ۔۔۔۔

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

رانا

محفلین
مسیح کی قبر شام میں لکھنا:
ابن حسن کی طرف سے یہ بات بھی پیش کی گئی ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے مسیح کی قبر پہلے شام میں بیان فرمائی تھی۔ اس پر تو مجھے حیرت ہے کہ اس میں بھی اعتراض نظر آرہا ہے۔ یہ تو ایک تحقیق سے متعلق بات تھی۔ تحقیق کے ابتدائی مراحل میں ان کا خیال شام کی طرف تھا پھر مذید تحقیق کرنے پراور مذید شواہد سامنے آنے پر جب یہ بات واضع ہوگئی کہ تاریخی حقائق ان کے کشمیر میں آنے کی طرف اشارہ کرتے ییں تو انہوں نے اسکا اظہار کردیا۔ اس میں اعتراض والی کیا بات تھی۔ کیا آپ کے خیال میں ایک ایک بات نبی کو الہام کے ذریعے ہی بتائی جانی چاہئے خود اسکو کوئی کوشش نہیں کرنی چاہیے؟ اور کیا نبی کی تحقیق کبھی غلط نہیں ہوسکتی؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر جنگ سے پہلے تحقیق کرایا کرتے تھے۔ جاسوس بھیجے جاتے تھے جو تحقیق کرکے لاتے تھے اور پھر انکی روشنی میں فیصلہ کیا جاتا تھا۔ لہذا تحقیق کرنا تو نبی کی شان کے خلاف نہیں۔ رہی یہ بات کہ نبی کی تحقیق غلط ہو تو اللہ تعالی نے کیوں نہ بتادیا۔ جب صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت عثمان کے قتل کی خبر پھیل گئی تو آپ نے صرف اس خبر کی بناء پر حضرت عثمان کے قتل کا بدلہ لینے کا عہد صحابہ سے لیا جو بعیت رضوان کے نام سے مشہور ہے۔ لیکن پھر پتہ لگا کہ یہ خبر تو غلط ہے۔ اب بتائیں ایک غلط خبر پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فیصلہ کرلیا اور اللہ تعالی نے بھی نہ بتایا کہ یہ خبر غلط ہے۔ بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اسکی حقیقت بھی دنیاوی ذرائع سے پتہ لگی۔ اس طرح کی باتوں پر تو صرف تعصب کی عینک چڑھا کر ہی اعتراض کیا جاسکتا ہے۔

براہین احمدیہ میں حیات مسیح کا عقیدہ:
اس پوسٹ میں آخر میں اس بات کا بھی ذکر کروں گا جو ابن حسن نے پہلے کسی پوسٹ میں اٹھائی تھی کہ مسیح کی قبر پہلے شام وغیرہ میں بیان کی گئی پھربعد میں کشمیرمیں بیان کی گئی۔
حضرت مرزا صاحب کے اقوال میں کوئی تناقض نہیں۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ نبی پہلے ایک بات اپنی طرف سے کہے۔ مگر اسکے بعد خداتعالی اس کو بتا دے کہ یہ بات غلط ہے اور درست اس طرح ہے۔ تو دوسرا قول نبی کا نہیں بلکہ اللہ تعالی کا ہوگا۔ لہذا تناقض نہ ہوا۔

قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَ لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا (النساء 823)
کہ اگر یہ خداتعالی کا کلام نہ ہوتا۔ بلکہ خدا کے سوا کسی اور کا کلام ہوتا تو اس میں اختلاف ہوتا۔

پس اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ کلام اللہ کے سوا باقی سب کے کلام میں اختلاف ہونا چاہئے۔ نبی بھی انسان ہے اور بھی رب زدنی علما (طہ 115) کی دعا کرتا ہے۔ جیسا کہ موسی علیہ السلام نے کی کہ اے اللہ میرا علم بڑھا۔ پس جو کلام نبی خدا کے بتائے ہوئے علم سے پہلے کرے گا وہ ہوسکتا ہے کہ اس کلام کے مخالف ہو جو اللہ تعالی کی طرف سے اسے دیا جائے۔ مثلا حضرت نوح علیہ السلام کا قول قرآن مجید میں ہے کہ
ان ابنی من اھلی (ھود 46) کہ یقینآ میرا بیٹا میرے اہل میں سے ہے۔
مگر خدا تعالی نے فرمایا
النہ لیس من اھلک (ھود 47) کہ وہ یقینآ آپ کے اہل میں سے نہیں ہے۔

اب اس وحی الہی کے بعد اگر حضرت نوح علیہ السلام اپنے بیٹے کو اہل میں شمار نہ کریں (جیسا کہ واقعہ ہے) تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ پہلا قول حضرت نوح علیہ السلام کا اپنا خیال تھا۔ مگر دوسرا خدا کے بتائے ہوئے علم کی بناء پر ہے۔ ہاں الہام الہی میں اختلاف نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ وہ علیم کل ہستی کی طرف سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرماتا ہے:

وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ (النساء 114)
کہ اللہ تعالی نے آپ کو وہ علم دیا ہے جو آپ کو پہلے نہ تھا۔
اب ظاہر ہے کہ آپ کے قبل از علم کے کلام او زمانہ بعد از علم کے کلام میں اختلاف ہونا ضروری ہے۔ مگر یہ امر آپ کی نبوت کے منافی نہیں بلکہ ایک لحاظ سے دلیل صداقت ہے۔ کیونکہ یہ عدم تصنع پر دلالت کرتا ہے۔

اسی قسم کا اختلاف وفات مسیح کے متعلق ہے کہ حضرت اقدس نے پہلے اپنا خیال براہین احمدیہ میں لکھ دیا۔ لیکن بعد میں جو اللہ تعالی نے آپ پر منکشف فرمایا وہ بھی کچھ براہین احمدیہ میں ہی اور کچھ بعد کی تحریرات میں درج فرمادیا۔ اب ظاہر ہے کہ وہ پہلا قول جس میں میسح ناصری کو زندہ قرار دیا گیا تھا وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے مگر جس میں ان کو وفات یافتہ قرار دیا گیا ہے وہ اللہ تعالی کا ہے۔ پس ان میں تناقض نہ ہوا۔

اس طرح کی مثالیں احادیث میں بھی ہیں:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لاتخیرونی علی موسی (بخاری فی الخصومات باب ماذکرفی الشخاص و الخصومۃ بین المسلم والیہودی جلد 2 مصری)
کہ مجھ کو موسی سے اچھا نہ کہو۔
پھر فرماتے ہیں:
کہ جو یہ کہتے کہ میں یونس بن متی سے افضل ہوں وہ جھوٹا ہے۔
(بخاری کتاب التفسیر تفسیر زیر آیت انا اوحینا الیک کما اوحینا لی نوح۔۔۔۔یونس سورہ نساء جلد 3 صفحہ 77 مصری)

مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے کہا کہ اے تمام انسانوں سے افضل! اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ تو ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ یعنی ابرہیم علیہ السلام تمام انسانوں سے افضل ہیں ناکہ میں۔
حضرت ملا علی قاری اس کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا ازراہ انکسار تھا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ فرمایا تھا اس وقت تک اللہ تعالی نے آپ کو یہ اطلاع نہ دی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں سے افضل ہیں۔ بعد میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں تمام انسانوں کا سردار ہوں اور یہ فخر نہیں۔

اس بات کی تو اتنی وضاحت احادیث میں آئی ہے کہ تمام احادیث کو بیان کرنا بھی مشکل ہے۔ حیرت ہے اسکے باوجود کسطرح یہ اعتراض کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں اب میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا ہی ایک فیصلہ کن حوالہ رکھ دیتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں:

"جاننا چاہئے کہ نسخ کی دو قسمیں ہیں۔ اول یہ پیغمبر (صلعم) امور نافع اور عبادات کے طریقوں میں خوض کرکے شریعت کے قوانین کے ڈھنگ پر ان کو جاری کردیتے ہیں۔ ایسا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد سے ہوا کرتا ہے۔ لیکن خداتعالی اس حکم و اجتہاد کو باقی نہیں رکھتا۔ بلکہ اس حکم کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ظاہر کردیتا ہے۔ جو خداتعالی نے اس مسئلہ کے متعلق قرار دیا ہے۔ اس حکم کا اظہار یوں ہوتا ہے کہ قرآن میں وہ وارد کیا جائے یا اس طرح پر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد ہی میں تبدیل ہوجائے اور دوسرا اجتہاد آپ کے ذہن میں قرار پاجائے۔ پہلی صورت کی مثال یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں بیت المقدس کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ پھر قرآن میں اس حکم کی منسوخیت نازل ہوئی۔ اور دوسری صورت کی مثال یہ ہے کہ آنحضرت صلعم نے بجز چھاگل کے ہر برتن میں نبیذ بنانے سے ممانعت کردی تھی۔ پھر ہر ایک برتن میں نبیذ بنانا لوگوں کے لئے جائزکردیا۔ اس توجیہہ کے لحاظ سے معلوم ہوتاہے کہ موقعوں کے بدلنے سے حکم بل جایا کرتا ہے۔ اسی قسم کے متعلق آپ نے فرمایا کہ میرا کلام، کلام الہی کو منسوخ نہیں کرسکتا۔ اور کلام الہی میرے کلام کو منسوخ کرتا ہے۔"
(کتاب حجتہ اللہ البالغہ مع اردو ترجمہ المسمی بہ شموس اللہ البازغہ جلد 1 صفحہ 237)

اس عبارت میں جو دوسری قسم نسخ کی بیان ہوئی ہے وہ خاص طور پر قابل غور ہے۔ کیونکہ اس میں ضروری نہیں ہے کہ وحی کے ذریعہ نبی کے پہلے حکم کو منسوخ کیا جائے۔ بلکہ خود اللہ تعالی کا تصرف قلب ملہم پر ہی ایسا ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے پہلے اجتہاد کو منسوخ کردے۔ مگر پھربھی یہ تناقض نہ ہوگا کیونکہ پہلا خیال ملہم کا اپنا تھا مگر دوسرا خداتعالی کی طرف سے ہے۔

حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں:
"میں نے براہین احمدیہ میں غلطی سے توفی کے معنی ایک جگہ پورا دینے کے کئے ہیں۔ جس کو بعض مولوی صاحبان بطور اعتراض پیش کیا کرتے ہیں۔ مگر یہ امر جائے اعتراض نہیں۔ میں مانتا ہوں کہ وہ میری غلطی ہے، الہامی نہیں۔ میں بشر ہوں اور بشریت کے عوارض مثلآ جیسا کہ سہو اور نسیان اور غلطی یہ تمام انسانوں کی طرح مجھ میں بھی ہیں۔ گو میں جانتا ہوں کہ کسی غلطی پر مجھے خداتعالی قائم نہیں رکھتا، مگر یہ دعوی نہیں کرتا کہ میں اپنے اجتہاد میں غلطی نہیں کرسکتا۔ خدا کا الہام غلطی سے پاک ہوتا ہے مگر انسان کا کلام غلطی کا احتمال رکھتا ہے۔ کیونکہ سہو و نسیان لازمہ بشریت ہے۔ " (ایام الصلح صفحہ 41)

جو کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے وہ قرآن مجید و احادیث نبوی کے عین مطابق ہے کیونکہ یہی بات خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمائی ہے جیسا کہ فرمایا:
ماحدثتکم عن اللہ سبحنہ فھو حق وما قلت فیہ من قبل نفسی فانما انا بشر اخطی و اصیب۔ (نبراس شرح الشرح لعقائد نسفی صفحہ 392)
یعنی جو بات میں اللہ تعالی کی وحی سے کہوں تو وہ درست ہوتی ہے (یعنی اس میں غلطی کا امکان نہیں) لیکن جو بات میں اس وحی الہی کے ترجمہ و تشریح کے طور پر اپنی طرف سے کہوں تو یاد رکھو کہ میں بھی انسان ہوں، میں اپنے خیال میں غلطی بھی کرسکتا ہوں"۔

اسی طرح بخاری شریف میں ہے:
انما انا بشر النسی کما تنسون (بخاری کتاب الصلاۃ باب التوجہ الی القبلہ جلد 1 صفحہ 53)
یعنی میں بھی انسان ہوں، تمہاری طرح مجھ سے بھی نسیان ہوجاتا ہے۔

یہ جو اعتراض پیش کیا جاتا ہے کہ براہین احمدیہ کے وقت اللہ تعالی نے آپ کو قرآن مجید کا صحیح علم نہیں دیا تھا اس کا جواب یہ ہے کہ دیا تھا۔ چنانچہ براہین احمدیہ کی یہ عبارتیں نکال کر دیکھ لیں۔ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسلمانوں کا رسمی عقیدہ دربارہ حیات مسیح درج فرمایا ہے مگر اس کے ساتھ ہی جو علم آپ کو اللہ کی طرف سے اس بارہ میں دیا گیا تھا وہ بھی درج فرما دیا ہے۔ وہ عبارت یہ ہے:

"جس غلبۂ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا۔ اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اسؔ دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا لیکن اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ خاکسار اپنی غربت اور انکسار اور توکل اور ایثار اور آیات اور انوار کے رو سے مسیح کی پہلی زندگی کا نمونہ ہے اور اس عاجز کی فطرت اور مسیح کی فطرت باہم نہایت ہی متشابہ واقع ہوئی ہے گویا ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے یا ایک ہی درخت کے دو پھل ہیں اور بحدی اتحاد ہے کہ نظر کشفی میں نہایت ہی باریک امتیاز ہے اور نیز ظاہری طور پربھی ایک مشابہت ہے اور وہ یوں کہ مسیح ایک کامل اورعظیم الشان نبی یعنی موسیٰ کا تابع اور خادم دین تھا اور اس کی انجیل توریت کی فرع ہے اور یہ عاجز بھی اس جلیل الشان نبی کے احقر خادمین میں سے ہے کہ جو سید الرسل اور سب رسولوں کا سرتاج ہے۔ اگر وہ حامد ہیں تو وہ احمد ہے۔ اور اگر وہ محمود ہیں تو وہ محمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم۔ سو چونکہ اس عاجز کو حضرت مسیح سے مشابہت تامہ ہے اس لئے خداوند کریم نے مسیح کی پیشگوئی میں ابتدا سے اس عاجز کو بھی شریک کررکھا ہے۔"
﴿براہین احمدیہ ہر چہار حصص صفحہ 499﴾

اب دیکھ لیں کہ حضرت اقدس نے کس صفائی سے اپنے خیال کو جو دوسرے مسلمانوں کے رسمی عقیدہ پر مبنی تھا، نہایت سادگی سے بیان فرمادیا ہے، لیکن جو علم اس کے خلاف اللہ تعالی کی طرف سے دیا گیا اس کو بھی نہایت صفائی سے بیان فرمادیا ہے۔ منقولہ بالا عبارت میں "لیکن اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے۔" کے الفاظ خصوصیت سے قابل غورہیں، کیونکہ "لیکن" کا لفظ بتاتا ہے کہ اس سے پہلے جو لکھا گیا اس کے خلاف اب کچھ لکھا جانے لگا ہے۔ "ظاہر کیا گیا ہے" کے الفاظ بتاتے ہیں کہ جو اس سے پہلے لکھا گیا وہ اللہ تعالی کے بتائے ہوئے علم کی بناء پر نہیں، بلکہ عام انسانی خیال کی بناء پر ہے۔ لیکن مابعد جس مشابہت تامہ اور پیشگوئی مسیح موعود کا مصداق ہونے کا جو مذکور ہے وہ صحیح علم ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ حجرت مسیح موعود علیہ السلام "کشتی نوح" میں فرماتے ہیں:

"اسی واسطے میں مسلمانوں کا رسمی عقیدہ براہین احمدیہ میں لکھ دیا تا میری سادگی اور عدم بناوٹ پر وہ گواہ ہو، وہ لکھنا میرا الہامی نہ تھا محض رسمی تھا۔ مخالفوں کے لئے قابل استناد نہیں کیونکہ مجھے خود بخود غیب کا دعوی نہیں۔" ﴿کشتی نوح صفحہ 47)

پس براہین احمدیہ کے حوالے سے حیات مسیح کی سند پیش کرنا تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہودی اپنے قبلہ کی تائید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کا بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا بطور سند کے پیش کرے، حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فعل رسمی تھا۔ کیونکہ سنت انبیاء یہی ہے کہ وہ پہلے نبی کی امت کے عام عقائد اور اصولی طریق پر گامزن رہتے ہیں۔ جب تک کہ اللہ تعالی کی طرف سے خاص حکم کے ذریعہ ان کو روکا نہ جائے۔ یہی حال یہاں ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالی نے دوسرے بارے کے شروع میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ کم عقل لوگ ضرور اعتراض کریں گے کہ انہوں نے قبلہ کیوں بدل لیا۔ یہود کے اس نقش قدم کی بھی خوب خوب پیروی کی ہے آج کے علماء نے۔ کیوں نہ کرتے آخرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیشگوئی کیسے غلط ثابت ہوسکتی تھی۔
 
پہلے رانا نے یہ چیلنج پیش کیا کہ پورے ذخیرہ احادیث میں سے کوئی ایک بھی حدیث ایسی پیش نہیں کی جاسکتی جس میں مسیح کے نزول کے ساتھ آسمان کا بھی ذکر ہو۔۔۔جب ابن حسن صاحب نے حدیث پیش کردی تو بجائے تسلیم کرنے کے رانا نے نیا پینترا بدل لیا اور کہا کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔۔۔کجا یہ بلند بانگ دعوے تھے کہ پورے ذخیرہ احادیث میں ایک بھی حدیث ایسی نہیں ملے گی اور جب مل گئی تو جی یہ ضعیف ہے اور پھر نئی شرط لگا دی کہ حدیث ایسی ہو جسے ہم قبول کرسکیں۔۔۔۔ڈھٹائی اور کسے کہتے ہیں؟
پھر ایک اور چیلنج رانا کی طرف سے پیش کیا گیا کہ پورے ذخیرہ احادیث میں سے ایک بھی حدیث قیامت تک نہیں پیش کی جاسکتی جس میں توفی کا فاعل اللہ ہو، مفعول ذی روح ہو اور اس لفظ کے معنی موت کے علاوہ کچھ اور بنتے ہوں۔۔۔اس کے جواب میں بھی ابن حسن صاحب نے کنز العمال کی حدیث پیش کردی جس میں صراحت کے ساتھ یہ لفظ ہے فاعل بھی اللہ ہے اور مفعول انسان ہے جبکہ اس کا ترجمہ یہی بنتا ہے کہ توفی بمعنی پورا پورا اجر دینا۔۔۔۔اس پر بھی بجائے تسلیم کرنے کے راناصاحب تین چار دن دم سادھے بیٹھے رہے اور اب یہ ارشاد فرمایا ہے کہ فلاں فلاں آدمی نے اسکا ترجمہ وفات کیا ہے۔۔۔حالانکہ اگر تھوڑا سا غور کرنے کی زحمت کرتے تو واضح ہوجاتا کہ یہاں اسکا ترجمہ موت ہو ہی نہی سکتا کیونکہ حدیث میں یہ ہے کہ 'رمی جمار کرنے والے کو اسکا اجر معلوم نہیں ہوگا تاوقتیکہ اللہ قیامت کے دن اسے اسکا پورا پورا اجر نہ دے دے۔۔۔۔راناصاحب کا اصرار ہے کہ یہاں اس لفظ کا ترجمہ موت ہونا چاہئیے لیکن اتنی عقل نہیں آئی کہ ساتھ میں قیامت کے دن کا ذکر ہے کہ اللہ یہ کام قیامت کے دن کرے گا۔۔۔اب قیامت کے دن کسی کو وفات دی جائے، یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔۔یہاں اس لفظ کے معنی موت ہو ہی نہیں سکتے یہاں تو اسکا معنیہ صاف صاف یہی بن رہا ہے جو لغت میں بھی ہے کہ پورا پورا اجر دینا۔۔۔۔چاہئیے تو یہ تھا کہ آپ تسلیم کرلیتے لیکن ایسا ہوگا نہیں کیونکہ اس ساری بحث سے آپکا مقصد حق کی تلاش نہیں ہے۔۔۔
اور جہاں تک مرزا صاحب کی براہین احمدیہ کا تعلق ہے۔ اس کے متعلق تو مرزا صاحب کا یہ دعوی تھا کہ یہ کتاب الہام سے لکھی گئی ہے اپنی طرف سے نہیں لکھی گئی اور یہ کہ قطبی ستارے کی طرح محکم ہے۔۔۔اور بعد میں خود ہی اپنے الہام کی قلعی کھل گئی اور کتاب کاو خود ہی نامحکم قرار دے دیا۔۔۔
آخر میں ایک دلچسپی کی بات بتاتا چلوں کہ مرزا صاحب نے اپنی روایتی اعصاب زدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑے طمطراق سے کہا کہ " میری باتوں کو وہی لوگ جھٹلاتے ہیں اور مجھے وہی لوگ نہیں مانتے جو طوائفوں کی اولاد ہیں۔"۔۔۔۔۔لیکن قدرت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ مرزا صاحب کا اپنا سگا بیٹا جس کا نام فضل احمد تھا، وہ مرزا صاحب کی جھوٹی نبوت پر ایمان نہ لایا اور اس نے انکو مجدد و محدث و نبی و رسول و مسیح موعود وغیرہ وغیرہ تسلیم کرنے سے قطعا انکار کردیا۔۔۔۔اب بتائیے کہ مرزا صاحب کی اپنی الہامی تحریر کے نتیجے میں اس لڑکے کی ماں یعنی مرزا صاحب کی بیوی کو آپ کن الفاظ سے پکاریں گے۔۔۔یہ میں نہیں کہتا بلکہ مرزا صاحب نے خود کہا ہے کہ ذریۃ البغایا یعنی طوائفوں کی اولاد۔۔۔۔ٰ
 

رانا

محفلین
ذریة البغایا:

افسوس۔ صد افسوس۔ میں تو صرف مولویوں کے بارے میں ہی سمجھتا تھا کہ انہیں اپنے آپ کو طوائفوں کی اولاد کہلانے کا شوق ہے اس لئے بڑے شدومد سے مرزا صاحب کی کتابوں سے "ذریة البغایا" کے الفاظ نکال کر اور اپنے اوپر چسپاں کرکے بڑے فخر سے لوگوں کو دکھاتے ہیں کہ یہ دیکھیں صاحبان ہمیں طوائفوں کی اولاد کہا گیا ہے۔

مجھے اس بات کی آج تک سمجھ نہیں آئی کہ "ذریۃ البغایا" کے بہت سارے معنی لغات میں مذکور ہیں اورسب سے بڑھ کر مرزا صاحب نے خود اس لفظ کا ترجمہ بیان کردیا ہے پھریہ مولوی اور اسکے چیلے اس میں سے سب سے گندہ مطلب ہی کیوں نکال کر اپنے اوپر چسپاں کرتے ہیں۔ اس کا تو ایک ہی حل سمجھ میں آتا ہے کہ انہیں یہ لفظ انتہائی مرغوب ہے اور شائد اپنے آپ کو اس کا مصداق بھی سمجھتے ہیں۔ ورنہ ناممکن ہے کہ مرزا صاحب خود اس کا ترجمہ کردیں اور پھر بھی یہ اپنی مرضی کا معنی ہی مراد لیں۔ لیکن اس میں ان بےچاروں کا بھی کوئی قصورنہیں، انہیں عادت پڑی ہوئی ہے کہ اپنی مرضی کا معنی ہی ہر جگہ چسپاں کریں گے۔ اب تک یہی تو ہورہا ہے۔ اور دلچسپ بات یہ کہ جہاں بھی اپنی مرضی کا معنی کرنے کی ضد کرتے ہیں وہی ترجمہ اٹھاتے ہیں جو ان کی جگ ہنسائی کا موجب بنے۔

ذریۃ البغایا کے معنی:

سب سے پہلے تو میں اس لفظ کے وہ معنی لکھتا ہوں جو مرزا صاحب نے خود کیئے ہیں۔
سعداللہ لدھیانوی کا ذکر ہوا تو فرمایا کہ میں نے اپنے قصیدہ انجام آتھم میں اس کے متعلق لکھا تھا:

اذیتنی خبثا فلست بصادق ---- ان لم تمت بلغزی یا بن بغاء (انجام آتھم صفحہ 282)
یعنی "خباثت سے تو نے مجھے ایذا دی ہے۔ پس اگر تو اب رسوائی سے ہلاک نہ ہوا تو میں اپنے دعوے میں سچا نہ ٹھہروں گا اے سرکش انسان۔" (الحکم جلد 11 نمبر 7 بابت 24 فروری 1907 صفحہ 13)

یہاں واضع طور پر انہوں نے ترجمہ کرکے بتادیا ہے کہ "ابن البغا" کا ترجمہ "سرکش انسان" ہے۔ نہ کہ طوائف کی اولاد۔ لیکن مولوی اور اسکے چیلوں کو اپنے آپ کو طوائف کی اولاد کہلانے کا شوق ہے تو جناب ہم کیا کرسکتے ہیں۔ اپنا اپنا شوق ہے۔ جو مزاج یار میں آئے۔

اب لغت سے بھی دیکھ لیں۔ تاج العروس میں ہے:
البغیۃ فی الولد نقیض الرشد ویقال ھوابن بغیۃ (تاج العروس)
یعنی کسی کو یہ کہنا کہ وہ ابن بغیہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ہدایت سے دور ہے کیونکہ لفظ بغیہ "رشد" یعنی صلاحیت کا مخالف ہے۔ گویا ذریۃ البغایا کا ترجمہ ہوگا "ہدایت سے دور"۔

ذریتہ البغایا کے مخاطب مسلمان نہیں:
یہ تو ثابت ہے کہ اسکا وہ گندہ مطلب نہیں جو مولوی لیتے ہیں۔ لیکن اس پر بھی ایک اور بات ہے کہ یہ الفاظ مسلمانوں کے مخاطب کرکے کہے ہی نہیں گئے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ "آئینہ کمالات اسلام" کی اس عبارت میں مسلمانوں کو مخاطب ہی نہیں کیا گیا بلکہ آئنیہ کمالات اسلام میں آپ نے صاف لکھا ہے جو ذریۃ البغایا ہیں وہ میری دعوت کو جو اسلام کی طرف ہے اسکے مخالف ہیں۔عیسائیوں اورآریوں کو مخاطب کرکے یہ کہا گیا ہے۔ اور عجیب بات ہے کہ اس کتاب میں سے جو سخت الفاظ مسلمانوں کو مخاطب کرکےکہے ہی نہیں گئے وہ تو نکال نکال کر پیش کرتے ہیں اور جو اسی کتاب میں اصل میں مسلمانوں کے لئے انتہائی دلی ہمدردی سے الفاظ کہے گئے ہیں ان کو چھپا لیتے ہیں۔ چنانچہ آپ اسی کتاب کے صفحہ 535 میں ملکہ وکٹوریہ آنجہانی ٖقیصرہ ہند کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"اے ملکہ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ مسلمان تیرا بازو ہیں۔ پس تو ان کی طرف نظر خاص سے دیکھ اور ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا اوران کی تالیف قلوب کر اور ان کو اپنا مقرب بنا۔ اور بڑے سے بڑے خاص عہدے مسلمانوں کو دے۔"
(آئنیہ کمالات اسلام صفحہ 535)

اب ایک ادنی تدبر کرنے والا بھی معلوم کرلے گا کہ جہاں مسلمانوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ اور ان کی تالیف قلوب کرنے کی بات کررہے ہیں پھر کسطرح ممکن ہے کہ اسی جگہ انکے متعلق ایسے الفاظ استعمال کئے جائیں جو انکی دل شکنی کا باعث بنیں۔

حضرت امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں:
"جو کہ حضرت عائشہ پر زنا کی تہمت لگائے وہ حرامزادہ ہے"۔ (کتاب الوصیت صفحہ 39 مطبوعہ حیدرآباد)
اب اس میں جو حل طلب معمہ ہے وہ یہ کہ حضرت عائشہ رضی اللہ پر تہمت لگانے سے ایک انسان کی اپنی ولادت پر (جو سالہا سال پہلے واقعہ ہوچکی ہو) کسطرح اثر پڑتا ہے؟

شعیوں کی معتبر ترین کتاب کافی کلینی کے حصہ سوم موسومہ بہ فروغ کافی مطبوعہ نولکشو لکھنو کے آخری حصہ یعنی کتاب الروضہ صفحہ 135 میں ہے:
ترجمہ:" ابو حمزہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام باقر رضی اللہ سے کہا کہ بعض لوگ اپنے مخالفین پر کئی کئی طرح کے بہتان لگاتے اور افترا کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ایسے لوگوں سے بچ کر رہنا اچھا ہے۔ پھر آپ نے فرمایا اے ابو حمزہ خدا کی قسم! ہمارے شعیوں کے سوا باقی تمام لوگ اولاد بغایا ہیں۔"

اب بولیں اب تو تمام کے تمام اہل سنت اور اہلحدیث اور دیوبندی علما اوران کے چیلے پکے طوائفوں کی اولاد ہوگئے۔ مرزا صاحب نے تو ذریۃ البغایا کا ترجمہ بھی کرکے بتادیا تھا کہ اسکا کیا مطلب ہے۔ لیکن یہاں تو کوئی ترجمہ بھی نہیں۔ اب کیسے اپنا حسب نسب بچائیں گے؟ لیکن مولوی اور اسکے چیلوں کو کیا فکر ہے انکی تو خواہش ہی یہی ہے کہ اسے طوائفوں کی اولاد کہا جائے!!

اور حضرت امام جعفر صادق کا قول بھی ملاحظہ ہو:
"جو شخص ہمارے ساتھ محبت کرتا ہے وہ تو اچھے آدمی کا نطفہ ہے مگر وہ جو ہم سے عداوت رکھتا ہے وہ نطفہ شیطان ہے۔" (فروغ کافی جلد 2 کتاب النکاح صفحہ 3216 مطبوعہ نولکشور لکھنو)

اب ایک طرف امام ابو حنیفہ کا فتوی پڑھو کہ حضرت عائشہ رضی اللہ پر تہمت لگانے والے سب حرامزادے ہیں اور دوسری طرف حضرت امام باقر رضی اللہ کا فتوی پڑھو کہ سوائے شعیوں کے باقی سب لوگ اولاد بغایا ہیں اور ہم سے نفرت کرنے والے شیطان کا نطفہ ہیں۔ پھر بتاؤ اگر ان الفاظ کا لفظی ترجمہ کیا جائے تو ان فقرات کے کیا معنی بنتے ہیں؟ اور اس طرح اس روئے زمین کا کوئی انسان ولد الزنا ہونے سے بچ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔

چنانچہ احراریوں کا سرکاری آرگن اخبار "مجاہد" لاہور 4 مارچ 1936 مندرجہ بالا حوالجات از فروغ کافی کے جواب میں رقمطراز ہے:
"ولد البغایا، ابن الحرام اور ولدالحرام۔ ابن الحلال۔ بنت الحلال وغیرہ یہ سب عرب کا اور ساری دینا کا محاورہ ہے۔ جو شخص نیکوکاری کو ترک کرکے بدکاری کی طرف جاتا ہے اس کو باوجودیکہ اس کا حسب و نسب درست ہو۔ صرف اعمال کی وجہ سے ابن الحرام ۔ ولد الحرام کہتے ہیں۔ اس کے خلاف جو نیکوکار ہوتے ہیں ان کو ابن الحلال کہنا بجا اور درست ہے۔"

پس آئینہ کمالات اسلام وغیرہ کی عبارات میں بھی مراد ہدایت سے دور یا سرکش انسان ہی ہیں نہ کہ ولدالزنا یا حرامزادے! جیسا کہ ان مولویوں اور ان کے چیلوں کو بننے کا شوق ہے!!

یہاں یہود کے نقش قدم پر چلنے کی روایت کو پھر برقرار رکھا گیا ہے۔ انجیل میں حضرت عیسی علیہ السلام نے یہویوں کو سور کہا ہے۔ اورسور اسے کہتے ہیں جو بہت ہی گندہ اور بے حیا ہو۔ اب مولوی اور اسکے چیلے ذریۃ البغایا کے بیسیوں معنوں میں سے اگر انتہائی گندہ مطلب ہی اٹھائیں اور پھراسی پر بس نہ کریں بلکہ اپنے اوپر چسپاں بھی کرکے لوگوں کو دکھاتے پھریں کہ ہمارے متعلق مرزا صاحب نے ایسے الفاظ کہے ہیں یہ بے حیائی نہیں تو اور کیا ہے۔ جبکہ مرزا صاحب کے وقت میں جو مولوی تھے وہ جانتے تھے کہ یہ کس مفہوم میں کہا جارہا ہے۔ اور کس کو کہا جارہا ہے۔ یہ سارا معنوی کلام ہے لیکن مولوی کو ہر چیزظاہر پر محمول کرنے کی عادت پڑی ہوئی ہے۔

اورایک بڑی اہم بات کہ یہاں انہوں نے پکا کنفرم کردیا ہے کہ یہ واقعی یہود کے نقش قدم پر چلنے والے لوگ ہیں۔ کیونکہ یہود کا ایک نقش قدم قرآن شریف میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ انہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ پر یہ بہتان باندھا کہ وہ نعوذ باللہ بدکار ہیں۔ آج انہوں نے بھی اپنی طرف آنے والے مسیح کے بیوی پر بعینہ انہی الفاظ میں الزام لگا کر اس بات پر مہر لگادی کہ واقعی یہ یہود کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مثیل یہود والی پیش گوئی کے کیا کیا رنگ سامنے آرہے ہیں!!!

نوٹ: اب ایسا لگ رہا ہے کہ فریق مخالف دلائل سے تہی دست ہو کر اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آیا ہے۔ اور اسکا مقصد اب تعمیری گفتگو کو آگے بڑھانا نہیں بلکہ کسی نہ کسی طرح مخالف کو ہرانا ہے اور اس دھاگے کے حسن کو خراب کرنا ہے۔ ورنہ اگر صرف معلومات ہی حاصل کرنا مقصد ہوتا تو یہی اعتراض مہذب رنگ میں اسطرح بھی کیا جاسکتا تھا کہ جناب مرزا صاحب نے اپنی کتاب میں ذریۃ البغایا کے الفاظ استعمال کئے ہیں اسکی ذرا وضاحت کردیں۔ لیکن انتہائی عامیانہ رنگ میں اور لچر بازاری انداز میں اس بات کو پیش کیا گیا ہے۔ میں نے صرف اسی لیے تھوڑا سا آئینہ ان کو دکھایا ہے ورنہ ایسا نہ کیا جائے تو یہ لوگ بڑھتے ہی چلے جائیںِ۔ اور میں نے ان کی باتیں انہیں پر الٹائی ہیں۔ اور کچھ نہیں کیا کیونکہ عبارتیں بھی یہ خود نکالتے ہیں ان کے معنی بھی خود کرتے ہیں اور پھر اپنے پر چسپاں بھی خود کرتے ہیں۔
 
ارے بھائی مرزا کے یہ الفاظ یہاں نقل کرنے کا مقصد یہی تھا کہ خودساختہ نبی کے آخلاق عالیہ کا تھوڑا سا تعارف کرایا جائے اور یہ کہ اسکے ان الفاظ کی زد میں خود اسکا گھرانہ یعنی اسکی بیوی اور بیٹا آجانے پر یار لوگوں کو تھوڑی سی عبرت حاصل ہو لیکن مقام افسوس ہے کہ عبرت تو دور کی بات یہاں تو ذرا سی شرمندگی کا بھی نام و نشان نہیں۔۔۔سچ کہتے ہیں کہ اذا لم تستحی فاصنع ماشئت۔۔۔
اب جہاں تک ترجمے کی بات ہے تو مولویوں کو تو چھوڑیں آپ ذرآ گوگل ٹرانسلیشن کی ویب سائٹ پر لفظ بغایا لکھ کر دیکھیں۔۔۔سکرین پر یہ ظاہر ہوگا۔۔۔پراسچیٹیوٹ۔۔یعنی طوائف۔۔۔ا یہ نہ کہہ دینا کہ گوگل ٹرانسلیشن مولویوں نے کی ہے۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
اس دھاگے کی آب و ہوا مجھے بدلتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اسے فوری طور پر مقفل کرنا پڑ جائے۔ احتیاط کا تقاضا ہے کہ اراکین تحمل و برداشت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔

یہ تو طے ہے کہ فریقین نے ایک دوسرے کی بات ماننی تو ہے نہیں بھلے ہی کتنے ہی ثبوت اور دلائل دیئے جائیں لیکن اتنا تو ضرور ہو گا کہ فریقین کے موقف کی اچھی طرح وضاحت ہو جائے گی۔

امید ہے اراکین تعاون فرمائیں گے۔
 
اس دھاگے کی آب و ہوا مجھے بدلتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اسے فوری طور پر مقفل کرنا پڑ جائے۔ احتیاط کا تقاضا ہے کہ اراکین تحمل و برداشت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔

یہ تو طے ہے کہ فریقین نے ایک دوسرے کی بات ماننی تو ہے نہیں بھلے ہی کتنے ہی ثبوت اور دلائل دیئے جائیں لیکن اتنا تو ضرور ہو گا کہ فریقین کے موقف کی اچھی طرح وضاحت ہو جائے گی۔

امید ہے اراکین تعاون فرمائیں گے۔

شمشاد صاحب انشاء اللہ جو بات یہاں ہو رہی ہے وہ اخلاقی حدود کے اندر ہی ہو گی۔ مرزا غلام احمد نے جو کچھ انبیا اور دیگر افراد کے بارے میں کہا ہے میں نے فی الحال جان بوجھ کر اس کا ذکر نہیں کیا ہے، ذرا یہ بحث ختم ہو جائے تو پھر یہ موضوع دیکھا جائے گا۔
آپ یا اس فورم کے دیگر ناظموں سے میری اپیل ہے کہ ابھی اس دھاگے کو مقفل کرنے کا نہ سوچیں ، چندے توقف سے کام لیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔
رانا صاحب نے جو دلائل پیش کیے ہیں وہ میرے لیے نئے نہیں ہیں، بیشتر دلائل ان کے وہی پرانی قادیانی مکمل تبلیغی پاکٹ بک جو کہ ملک عبد الرحمن کی مرتب کر دہ ہے اس سے لیے گئے ہیں میں جلد ہی ان کے جواب یہاں دے دوں گا۔آپ حضرات تھوڑا صبر فرمائیے۔
 

شمشاد

لائبریرین
مجھے آپ حضرات سے یہی اُمید ہے اور یقین کریں کہ اردو محفل کی انتظامیہ کی طرف سے بھی پہلے کی طرح تعاون جاری و ساری رہے گا۔
 
یہاں بحث چونکہ عیسیٰ علیہ السلام کی حیات پر ہو رہی ہے اسلئیے مو ضوع کی طرف لوٹتے ہوئے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔
اب تک جتنی بحث ہوئی ہے اسکا لب لباب یہ ہے کہ :
1-محل نزاع قرآن شریف کی دو آیات میں استعمال ہونے والے دو الفاظ ہیں۔۔۔ایک ہے لفظ 'رافعک الی' اور دوسرا ہے ' انی متوفیک'۔۔۔ہم لوگ لفظ رفع سے رفع جسمانی مراد لیتے ہیں اور قادیانی اس سے رفع درجات مراد لیتے ہیں۔۔۔ ہمارے موقف کی بنیاد ہے نزول عیسی ابن مریم کے متعلق سو سے زیادہ احادیث، جن میں صراحت کے ساتھ عیسیٰ ابن مریم کے نزول کی خبر دی گئی ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے وہ کن حالات میں تشریف لائیں گے اور ان کے ہاتھوں کیا کارنامہ انجام پائے گا، منجملہ ان باتوں کے یہ ہے کہ یہ ایک عظیم الشان واقع ہوگا اور مسلمانوں اور اسلام کا پورے عالم میں غلبہ ظاہری طور پر بھی ہوجائے گا اور یہ کہ ان کے نزول سے پہلے ایک شخص کا ظہور ہوگا جسے مہدی کا لقب دیا جائے گا اور یہ شخصیت بنو فاطمہ میں سے ہوگی اور انکا نام محمد ہوگا اور والدہ کا نام بھی آمنہ ہوگا۔۔۔یہ سب احادیث میں ہے اور ان احادیث کی تعداد اس قدر ہے اور ان کی صحت کا درجہ بھی اعلیٰ ہے، اور یہی وجہ ہے کہ امت محمدیہ میں 1400 سے علماء و فقہاء و محدثین میں عقیدہ رفع و نزول مسیح علیہ السلام پر اجماع پایا جاتا ہے۔ اور تمام تفاسیر میں ان آیات کی یہی تفسیر درج ہے۔۔۔جنانچہ لفظ توفی بھی اگر موت کے معنوں میں استعمال کیا جائے تو وہ یوں ہوگا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول کے بعد اس جہان فانی میں اپنی بقیہ مقررہ زندگی گذارنے کے بعد وہ وفات پائیں گے اور روضہ رسول میں مدفون ہونگے (کذا فی الحدیث)۔۔۔۔۔
قادیانی حضرات ان تمام احادیث کی تاویل کرتے ہیں اور انکا موقف یہ ہے کہ عیسی علیہ السلام تو وفات پاچکے ہیں اور آنے والے عیسیٰ ابن مریم سے مراد ایسا شخص ہے جو اپنے مزاج اور حالات کی بنیاد پر حضرت عیسی جیسا ہوگا اور یہ کہ مہدی علیہ السلام بھی کوئی علیحدہ شخصیت نہیں ہے بلکہ وہی شخص بیک وقت عیسی ابن مریم بھی ہو اور محمد بن عبداللہ یعنی مہدی بھی ہے اور وہ شخص ان کے ندیک مرزا غلام احمد ولد چراغ بی بی ہے۔۔۔اپنے موقف کی تائیید کیلئے وہ اس بارے میں وارد ہونے والی تمام احادیث کی ہر ممکن حد تک تاویل کرتے ہیں خواہ الفاظ کے ظاہری معنوں کے برعکس معنے ہی مراد کیوں نہ لینے پڑیں اور کافی احادیث کو بیک جنبش قلم مسترد بھی کر دیتے ہیں۔۔۔۔۔
2- یہ تو تھا اب تک کی تمام بحث کا لب لباب۔۔۔۔اب جو میں بات کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ رفع و نزول عیسیٰ علیہ السلام کے دلائل میں ایک اہم دلیل جو ابھی تک اس تھریڈ میں پیش نہیں کی گئی، وہ ہے لفظ ؛خاتم النبیین؛۔۔۔
خاتم النبیین کے متفق علیہ معنی یہی ہیں کہ رسول کریم آخری نبی ہیں اور انکے اس دنیا میں ظہور کے بعدکسی کو نبوت نہیں ملے گی۔ نبوت ختم ہوگئی آپ کی ذات مبارکہ پر۔ چنانچہ کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔۔اب اگر عیسی علیہ السلام بعینیہ وہی عیسی ابن مریم نہیں بلکہ ایک نئی شخصیت ہے، تو پھر اس سے یہ ثابت ہوگا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین نہیں ہین (نعوذ باللہ)۔۔۔واضح ہوکہ مرزا قادیانی نے بھی خاتم النببن کی جو یہ تاویل کی ہے کہ وہ نبیوں کی مہر ہیں اور انکی منظوری اور مہر سے لوگوں کو نبوت ملتی ہے، تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ مرزا نے خود اپنی کتاب میں اپنے بارے میں لکھا ہے کہ " میں گھر میں پیدا ہونے والا آخری بچہ تھا۔ میرے ساتھ ایک جڑواں بہن پیدا ہوئی اور اسکے بعد میں برآمد ہوا۔ چنانچہ میں اپنے گھر میں خاتم الاولاد ہوں"۔۔۔۔ اب اسکا یہ مطلب لینا کہ چونکہ وہ خاتم الاولاد ہیں اپنے گھر میں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ انکے پہلے بہن بھائی سب مرچکے ہوں محض حماقت و جہالت ہوگی۔۔۔
چنانچہ یہ بات واضح ہوگئی کہ نزول عیسی ابن مریم والی احادیث میں وہی عیسیٰ ابن مریم ہیں جو رسول کریم سے پہلے مبعوث ہوچکے تھے، تو ان کی تشریف آوری سے ختم النبیین کا مفہوم مجروح نہیں ہوتا کیونکہ بعثت کے اعتبار سے رسول کریم ہی آخری نبی رہیں گے۔۔۔جب کے اسکے برعکس مراد لینے سے خاتم النبیین کا مفہوم مجروح ہوتا ہے کیونکہ وہ نیا شخص تو آپ کے بعد مبعوث ہوگا جو کہ آپکی خاتمیت کے منافی ہے۔۔۔
 

رانا

محفلین
حضرت مرزا صاحب نے دعوی مسیحیت کسی کے مشورہ سے کیا؟

ابن حسن نے لکھا ہے۔
مرزا قادیانی اپنے خلیفہ حکیم نورالدین کو ایک خط کے جواب میں لکھتا ہے

"جو کچھ آنمخدوم (حکیم نور الدین) نے تحریر کیا ہےا گر دمشقی حدیث کے مصداق کو علیحدہ چھوڑ کر الگ مثیل مسیح کا دعوہ ظاہر کیا جائے تو اس میں کیا حرج ہے (مکتوبات احمدیہ مکتوب نمبر۱ ۶ بنام حکیم نور الدین ج ۵ نمبر ۲ ص ۸۵)

اس خط پر ۲۴ جنوری ۱۸۹۱ کی تاریخ درج ہے اب لوگ بتائیں کہ یہ الہام ہے کہ مرزا نے ۱۸۹۱ میں دعوہ مسیحیت کیا یا ایک ابلیسی سازش جو کہ نور الدین کے ساتھ مل کر تیار کی جارہی ہے؟

اس خط کی تاریخ ابن حسن نے خود ہی 24 جنوری 1891 درج کی ہے اور یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ اس خط میں دعوی مسیحیت کے لئے مشورہ کا ذکر ہے اور اسکے بعد پھر دعوی مسیحیت کیا گیا۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت میسح موعود علیہ السلام نے دعوی مسیحیت سب سے پہلے اپنی کتاب "فتح اسلام" میں کیا تھا۔ اگر اس خط کے مشورے کے بعد دعوی کیا ہوتا تو "فتح اسلام" کو اس خط کے بعد لکھا جانا چاہئے تھا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب "فتح اسلام" میں فرماتے ہیں:
"مسیح جو آنے والا تھا یہی ہے چاہو تو قبول کرو"۔ (فتح اسلام صفحہ 10)
فتح اسلام کے اس صفحہ کا عکس نیچے دیا جارہا ہے۔


1- فتح اسلام یا دعوی مسیحیت اس خط کی تاریخ سے بھی کم از کم دو ہفتے قبل تک چھپ کر آچکی تھی۔

2- جس خط کا ابن حسن نے ذکر کیا ہے اس سے ایک ہی صفحے پیچھے حضرت مرزا صاحب کا ایک اور خط بھی درج ہے جس پر 20 دسمبر 1890 کی تاریخ پڑی ہوئی ہے یعنی پہلے خط سے بھی کوئی سوا مہینہ پہلے کی تاریخ ہے۔ اس خط میں لکھا ہے:

"چونکہ کتاب فتح اسلام کسی قدربڑھائی گئی ہے اور مطبع امرت سر میں چھپ رہی ہے۔ اس لئے جب تک کل چھپ نہ جائے روانہ نہیں ہوسکتی۔ امید بیس روز تک چھپ کر آجائے گی۔"
(متکوبات احمدیہ جلد 5 مکتوب نمبر 60 صفحہ 82)

3- اس 20 دسمبر1890 والے خط میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ کتاب "فتح اسلام" اس وقت امرتسر کے پریس میں چھپ رہی ہے۔

ان حقائق سے واضع ہے کہ جس کتاب میں حضرت مرزا صاحب نے مسیحیت کا دعوی کیا وہ تو 20 دسمبر 1890 سے بھی پہلے پریس میں چھپ رہی تھی اور ظاہر ہے کہ چھپنے کے مراحل سے کافی عرصہ قبل لکھی گئی تھی۔ اور 24 جنوری 1891 کے خط سے بھی پہلے چھپ کر آچکی تھی۔

اب یہ کہنا کہ 24 جنوری کے خط میں مشورہ ہورہا تھا کہ دعوی مسیحیت کیا جائے ایک کھلا جھوٹ ہی تو ہے۔ کہ جس خط کو بنیاد بنایا جارہا ہے اس سے بھی ڈیڑھ ماہ قبل وہ دعوی مسیحیت پریس میں چھپنے جاچکا تھا۔ اور مذکورہ خط سے بھی پہلے چھپ کر آچکا تھا۔

جس خط کی عبارت ابن حسن نے کوٹ کی ہے اس میں تو حضرت مرزا صاحب، مولانا نورالدین صاحب کا ایک استفسار کوٹ کررہے ہیں کہ اگر آپ کے دعوی مسیحیت کو دمشقی حدیث سے الگ رکھا جائے تو کیا حرج ہے۔ دعوی مسیحیت کے لئے مشورہ دیئے جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا دعوی تو اس سے بھی پہلے کیا جاچکا تھا۔ اس کے جواب میں حضرت مرزا صاحب فرماتےہیں کہ

"جو کچھ آنمخدوم نے تحریر فرمایا ہے کہ اگر دمشقی حدیث کے مصداق کو علیحدہ چھوڑ کر الگ مثیل مسیح کا دعوی ظاہر کیا جائے۔ تو اس میں کیا حرج ہے۔ درحقیقت اس عاجز کو مثیل مسیح بننے کی کچھ حاجت نہیں۔ یہ بننا چاہتا ہے کہ خداتعالی اپنے عاجز اور مطیع بندوں میں داخل کرلیوے۔ لیکن ہم ابتلا سے کسی طرح بھاگ نہیں سکتے۔ خداتعالی نے ترقیات کا ذریعہ صرف ابتلا ہی رکھا ہے۔"
(مکتوب احمدیہ خط نمبر 61 جلد 5)

اب اس خط میں تو حضرت مرزا صاحب یہی ان کو جواب دے رہے ہیں کہ مجھے دمشقی حدیث کو الگ رکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ میں نے دعوی خدا کے کہنے پر کیا ہے۔ اگر اس میں کوئی ابتلا ہے تو اس کی مرضی۔

فتح اسلام کا وہ صفحہ جس میں دعوی مسیحیت کا ذکر ہے۔

FT10.jpg
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سب سے پہلے تو سب سے معذرت کہ یہ جوابات میں کچھ تاخیر سے دے رہا ہوں ۔درحقیقت ایک قریبی عزیز کی بیماری کی وجہ سے یہ تاخیر ہوئی اور مکمل فراغت تو مجھے ابھی بھی نہیں ہوئی ، تاہم میں رانا صاحب کے پیش کردہ اعتراضات کا جواب دینا شروع کر رہا ہوں۔
اپنی تازہ پوسٹز میں رانا صاحب نے کچھ اعتراضات میری پیش کردہ احادیث کی سند پر کیے ہیں اور جیسا کہ میں نے پہلے ہی عرض کیا تھا کہ کوئی نئی بات نہیں ۔قادیانی حضرات نے اپنی ایک پاکٹ بک بنائی ہوئی ہے، جو کہ پہلے احمدیہ پاکٹ بک کے نام سے شائع ہوتی رہی بعد ازاں اس کا نام تبدیل کر کہ مکمل تبلیغی پاکٹ بک رکھ دیا اور یہ پاکٹ بک کوئی ملک عبد الرحٰمن تھے ان سے منسوب ہے، رانا صاحب کا کارنامہ یہی ہے انہوں نے یہ اعتراضات اس پاکٹ بک سے یہاں نقل کر دیئے ہیں، بہرحال اس کا ان کو حق ہے۔لیکن اب میں امید یہ کرتا ہوں کہ وہ علم جرح و تعدیل میں بھی کچھ نہ کچھ شد بد رکھتے ہوں گے کہ جو باتیں ان سے کہی جائیں گی وہ سمجھیں گے۔
سب سے پہلے میں یہ بات بتا دوں راویان حدیث جن سے احادیث روایت کی جاتی ہیں ، ان میں شاید ہی کوئی راوی ایسا ہو جس کے بارے میں کلمات جرح نقل نہ کیے گئے ہوں بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عبد اللہ بن مبارک وہ واحد ہستی ہیں جن کے بارے میں سب متفق ہیں۔
۲۔یہ بات بھی یاد رکھی جائے کہ جرح وتعدیل میں ہمیشہ ائمہ محدثین کی اکثریت کو ہمیشہ و لامحالہ ترجیع دی جاتی ہے۔ یعنی جیسا میں نے پہلے ہی عرض کیا کہ تمام راویوں پر جرح کی گی ہے تو اس میں یہ دیکھا جائے گا کہ ائمہ کی اکثریت کا فیصلہ کیا ہے مثلا کسی راوی کو دس ائمہ ثقہ قرار دیتے ہیں اور دو یا تین ضعیف قرار دیتے ہیں تو اس راوی کا فیصلہ اکثریت کی بنیاد پر کیا جائے گا۔
۳۔ اگر کسی ایک ہی امام کے قول میں تعارض ہو تو اگر تطبیق ممکن ہو تو دی جائے گی مثلا کسی راوی کے بارے میں کہا گیا کہ کسی امام نے ایک جگہ کہا کہ وہ ثقہ ہے اور دوسری جگہ کہا کہ وہ خراب حافظہ کا مالک ہے تو اس طرح تطبیق دی جائے گی کہ وہ راوی عدالت کی بنا پر ثقہ ہے اور حافظہ اس کا کمزور ہے ۔ لیکن بصورت دیگر دونوں اقوال ساقط ہو جائیں گے۔ مثلا عبد الرحمٰن بن ثابت پر امام ابن حبان نے جرح بھی کی ہے اور اس کا کتاب الثقات میں ذکر بھی کیا ہے اس پر حافظ ذہبی نے بتا یا کہ ابن حبان کے دونوں اقوال ساقط ہو گئے۔(میزان ج ۲ ص ۵۵۲)

اس مختصر تمہید کے بعد اب میں رانا صاحب کی پیش کی گئی جرح کا جائزہ لوں گا۔

ابن حسن نے 2 عکس فراہم کئے تھے ایسی احادیث کے جن میں عیسی کی نسبت آسمان کا لفظ موجود ہے۔ ایک کنزالعمال سے اور دوسرا الاسما واصفات سے۔ اور ایک حدیث بھی پیش کی تھی۔

1- جو ابن ماجہ کی حدیث پیش کی گئی ہے معراج کی رات والی، وہ ضعیف ہے۔ اس روایت کا پہلا راوی محمد بن بشار بن عثمان البصری بندار ہے جس کے متعلق لکھا ہے
"قال عبداللہ اب محمد اب سیار سمعت عمرو ابن علی یحلف ان بندارا یکذب فیما یروی عن یحی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قال عبداللہ اب علی اب المدینی سمعت ابی و سالتہ عن حدیث رواہ بندار عن ابن المھدی ۔۔۔۔۔۔۔ فقال ھذا کذب و انکرہ اشد الانگار قال عبداللہ اب الدرونی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ترءیت یحی لا یعباء بہ ویستضعفہ قال ورءیت القواریری لا یرضاءبہ۔"
﴿تہذیب التہذیب جلد 9 صفحہ 71-72﴾

پہلی جرح راوی محمد بن بشار پر کی گئی ہے ۔کاش کہ رانا صاحب علم حدیث کے بارے میں معمولی شد بد بھی رکھتے تو محمد بن بشار جیسے عظیم امام پر یوں تنقید نہ کرتے۔ میں محمد بن بشار کا تھوڑا تعارف کرا دوں تاکہ آپ کو ان کے مرتبے کا اندازہ ہو سکتے۔ امام محمد بن بشار کا درجہ یہ ہے کہ امام ابن خزیمہ نے ان کو امام اہل زمانہ فی العلم و الاخبار کہا ہے ۔آپ امام بخاری کے اساتذہ میں سے تھے اور نہ صرف امام بخاری و مسلم بلکہ تمام مولفین صحاح ستہ نے ان کی روایات کو قبول کیا ہے اور اپنی اپنی کتب میں درج کیا ہے۔ محمد بن بشار کی ثقاہت کے لیے تو یہی کافی تھا کہ آپ شیخان کے راوی ہیں تاہم ان کے بارے میں کچھ اور اقوال ملاحظہ کیجئے۔

احمد بن عبد اللہ اعجلی کہتے ہیں : ھو ثقہ
ابو حاتم رازی کہتے ہیں : صدوق
نسائی کہتے ہیں: بندار صالح لا باس بہ
ابن حبان: کان یحفظہ حدیثہ
مسلمہ بن قاسم ، مہرانی کے حوالے سے کہتے ہیں: و کان ثقہ مشہورا
امام دار القطنی کہتے ہیں : من الحفاظ الاثبات
اس کے علاوہ بھی ان کے حق میں ایسے کلمات ملتے ہیں ۔

اب جو عبداللہ بن محمد بن سیار کا یہ قول تہذیب سے نقل کیا گیا ہے کہ وہ عمرو بن علی حلف اٹھا تے تھے کہ بندار جھوٹ بولتا تھا جب وہ یحیٰ سےروایت کرتا تھا تو عمرو بن علی کے اس قول کی کثرت کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں پھر ان ہی عبداللہ بن محمد بن سیا ر کا ایک اور قول آپ کو نظر نہیں آیا (اور آتا بھی کیسے جناب نے تو یہ قول پاکٹ بک سے نقل فرمایا ہے۔ جہاں ایسے کلمات کو ۔۔۔۔۔۔۔میں غائب کردیا جاتا ہے)
کہ ابن سیار نے کہا کہ بندار و ابو موسیٰ ثقتان، یعنی بندار اور ابو موسیٰ دونوں ثقہ تھے۔مزے کی بات یہ ہے کہ یہ قول ابن سیار کی جرح کے بالکل نیچے نقل کیا گیا ہے ۔ اب اس قول میں واضح معارضہ ہے لہذا یہ قول ساقط ہے۔

دوسری جرح آپ نے ابن مدینی سے نقل کی ہے تو جناب ذرا غور کیجئے کہ یہاں سوال بندار کے بارے میں نہیں بلکہ اس کی روایت کردہ ایک حدیث کے بارے میں ہورہا ہے یعنی (سمعت ابی و سالتہ عن حدیث رواہ بندار) اب اس حدیث کے بارے میں ان کے والد کی رائے یہ ہے کہ یہ جھوٹ ہے ۔ اب کیوں جھوٹ ہے اس کی تصریح نہیں ۔لیکن یہ حدیث درحقیقت ٹھیک ہے اور سنن نسائی ج دوئم میں یہ نقل کی گئی ہے اور یہ حدیث حسن صحیح کے درجے میں ہے ۔

تیسری جرح ابن الدورقی ( جس کوآپ نے الدورنی لکھا ہے) کے حوالے سے نقل کی گئی ہے جو یحیٰ ابن معین اور القواریری کے حوالے سے ہے ۔ اس سلسلے میں پہلی بات یہ عرض ہے کہ لا یعبا اور لا یرضہ کوئی جرح کے کلمات ہیں ہی نہیں ۔ یعنی اگر کوئی بشار کی پروا نہیں کرتا یا اس سے راضی نہیں تو کیا یہ کلمات جرح ہیں؟ اور جہاں تک ان کو ضعیف قرار دینے کی بات ہے تو اس قول کے بالکل نیچے امام ازدی کا قول ہے ( جو حسب معمول آپ کی نظروں سے نہیں گزرا ہو گا) وہ فرماتے ہیں " یحیی اور قواریری سے ایسا کوئی قول ثابت نہیں جس میں بشار کے اوپر جرح ثابت ہو۔ اب بتائیے کہ اس کے بعد کیا باقی رہ جاتا ہے۔

یہاں میں یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ تہذیب التہذب ( جو کہ مبنی ہے تہذب الکمال پر) کی ایک اور تہذیب ابن حجر نے تقریب التہذیب کے نام سے لکھی ہے یہ ایک طرح سے خلاصہ ہے تہذیب التہذیب کا اور اس کتاب میں ابن حجر نے تفصیلات کے بجائے ہر راوی کے بارے میں اپنی ایک رائے نقل کر دی ہے جو راوی ان کی نظر میں ثقہ ہے ، چاہے کیسی جرح اس کے بارے میں ہو ، اس کو وہ ثقہ لکھ دیتے ہیں ، چنانچہ تقریب التہذیب جب آپ کھولیں تو اس میں محمد بن بشار کے بارے میں صرف یہ لکھا ملتا ہے "ثقہ" اس کے علاوہ اس کے کردار و عدالت کے بارے میں کوئی جرح نہیں ،پس ثابت ہوا کہ ابن حجر جن کی کتاب تہذیب التہذیب سے جرح نقل کی گئی ہے خود ان کی نظر میں محمد بن بشار ثقہ ہیں ، اب اس کے بعد میرے خیال میں مزید کلام کی گنجائش نہیں۔

۔ اسی طرح اس روایت کا دوسرا راوی یزیدبن ہارون ہے، اس کے متعلق یحی بن معین کا قول یہ ہے کہ یزید لیس من اصحاب الحدیث لانہ لایمیز ولا یبالی عمن روی۔ ﴿تہزیب التہزیب ابن حجر عسقلانی جلد11 صفحہ 368﴾ کہ یہ راوی تو حدیث کے جاننے والوں میں سے تھا ہی نہیں۔ کیونکہ نہ یہ تمیز کرتا تھا اور نہ پروا کرتا تھا کہ کس سے روایت لے رہا ہے۔ پس یہ روایت تو ناقابل اعتبار ہے۔

اس حدیث کا دوسر راوی یزید بن ہارون ہے۔یزید بن ہارون ایک انتہائی ثقہ و صادق راوی ہے۔ان کے بارے میں اقوال دیکھئے

ابو طالب ،احمد کے حوالے سے کہتے ہیں کہ کان حافظا للحدیث
ابن مدینی کہتے ہیں : ہو من الثقات
ابن معین کہتے ہیں : ثقہ
ابو حاتم کہتے ہیں : ثقہ۔ امام صدوق، لا یسال عن مثلہ(یعنی بے مثال ہیں)
عمرو بن عون ، ہشیم سے نقل کرتے ہیں کہ ما بالمصرین مثل یزد
خود ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں ان کا ذکر اس طرح شروع کیا ہے ، احد الاعلام الحفاظ المشاہر۔
ابن سعد کہتے ہیں کان ثقہ کثیر الحدیث
ابن حبان نے ان کا ذکر "الثقات " میں کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بہت نیک بندوں میں سے تھے۔

اب آئیے یحییٰ بن معین کے قول کی طرف اور دیکھئے اسی کتاب تہذیب التہذیب میں اوپر ابن معین کا ہی قول درج ہے کہ یزید بن ہارون ثقہ تھے۔ اب ابن معین کے دونوں قول متعارض ہیں لہذا دونوں ساقط ہوئے لیکن یزید بن ہارون کی شان میں اتنے لوگ رطب اللسان ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بلا شبہ یزید انتہائی ثقہ راوی تھے۔اب ہم جب تقریب التہذیب میں ان کے بارے میں دیکھتے ہیں تو ابن حجر اپنی رائے دیتے ہیں ، ثقہ متقن عابد۔

اور پھر یہی نہیں بلکہ یہ حدیث سنن ابن ماجہ کے علاوہ مسند اما م احمد بن حنبل میں بھی دوسرے راویوں سے بیان کی گئی ہے ۔ دیکھئے مسند احمد بن حنبل میں حدیث ۳۵۵۶)۔ یعنی اسی حدیث کی تائید مسند کی ایک اور حدیث سے بھی ہوتی ہے لہذا یہ حدیث بالکل درست ہے۔

اب بات جہاں تک امام بیہقی اور کنز العمال کی ان احادیث کی ہے جس میں من السما کا لفظ آیا ہے اور ان کے رویوں پر آپ نے نقل کی ہے تو پہلے ہم امام بیہقی کی کتاب الاسما و الصفات کو دیکھتے ہیں ۔

رانا صاحب نے لکھا ہے

اول: یاد رہے کہ اس حدیث کو درج کرنے کے بعد امام موصوف نے جو الفاظ لکھے ہیں وہ جو عکس فراہم کیا گیا ہے وہاں سے پورے الفاظ دیکھے جاسکتے ہیں۔ امام موصوف اس حدیث کے بعد لکھتے ہیں:
"رواہ البخاری فی الصحیح من یحی بن بکر و اخرجہ مسلم و من وجہ آخر عن یونس و انما اراد نزولہ من السما ء بعد الرافع الیہ"۔ کہ اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے اور امام مسلم نے ایک اور وجہ سے یونس سے لیا ہے اور اس نے ارادہ نزول من السما کا ہی کیا ہے۔
امام بیہقی کہتے ہیں کہ رواہ البخاری۔ اب بخاری میں راوی اور الفاظ سب موجود ہیں مگر من السما نہیں ہے۔ پس معلوم ہوا کہ یہ حدیث کا حصہ نہیں۔ افسوس بخاری کی حدیث آپ کی نفسانی خواہشات کی تکمیل میں ناکام رہی ہے اس لئے آپ نے دوسری کتابوں کے حاشیے بخاری پر چڑھانا شروع کردیئے۔

اس کے جواب سے پہلے ذرا اپنے مرزا کی صاحب کی خبر تو لیجئے دیکھئے خزائن ج ۳ ص ۱۴۲ پر مرزا لکھتا ہے کہ مثلا صحیح مسلم کی حدیث میں جو یہ لفظ موجود ہے کہ حضرت مسیح جب آسمان سے اتریں گے تو ان کا لباس زرد رنگ کا ہو گا۔ اب کیا صحیح مسلم کی حد یث میں آپ من السما دیکھا سکتے ہیں؟
دوسری بات یہ کہ امام بیہقی کی یہ کتاب کوئی مخرج نہیں کہ کنز العمال کی طرح دوسروں کی بیان کردہ سند پر اکتفا کرے اس میں امام بیہقی اپنی بیان کردہ روایت کی مکمل سند پیش کرتے ہیں اور یہی اس روایت کی مصدق ہوتی ہے۔

تیسری بات یہ کہ کسی چیز کو سمجھنے کے لیے اول شرط عقل اور دوسر ی علم ہے ۔کیا مذکورہ بالا بات کا ترجمہ آپ کی سمجھ شریف میں نہیں آیا جو یہ لا یعنی اعتراض آپ فرما رہے ہیں ۔ یعنی امام بیہقی کہ رہے ہیں انما اراد نزولہ من السما ء بعد الرافع (سوائے اس کے نہیں کہ اس کو روایت کرنے والے کا ارادہ نزول من اسما ہی ہے کیونکہ وہ آسمانوں پر اٹھائے گئے ہیں) اور آپ فرما رہے ہیں
"اب بخاری میں راوی اور الفاظ سب موجود ہیں مگر من السما نہیں ہے۔ پس معلوم ہوا کہ یہ حدیث کا حصہ نہیں" جس بات کا جواب امام بیہقی پہلے ہی دے رہے ہیں وہی بات بطور اعتراض پیش کرنا پرلے درجے کی حماقت کے سوا اور کیا ہے؟ یعنی خود امام بیہقی کی نظر میں اور ان کی رائے میں گو کہ امام بخاری نے من السما کے الفاط نہیں لکھے لیکن ان کا ارادہ من السما کا ہی ہے۔
اب چاہے آپ امام بیہقی کی رائے سے متفق نہ ہوں لیکن بات تو امام بیہقی ہی کی سنی جائے گی وہ امام حدیث ہیں اور آپ ۔۔۔۔۔؟
نیز اس سلسلے میں بطل جلیل امام انور شاہ کشمیری صاحب کا بیان کردہ یہ نکتہ بھی ذہن میں رہے آپ فرماتے ہیں

[ARABIC]فان من له أدنى معرفة بالحديث وكتبه يعلم أن المحدثين قاطبة ولا سيما البيهقي ربما يعزو رواية لبعض المحدثين إذا أخرجها بأكثر ألفاظها ولا يشترط استيعاب ألفاظ الرواية فاذا قال المحدث رواه البخاري كان مراده أن أصل الحديث أخرجه البخاري )[/ARABIC]التصريح بما تواتر في نزول المسيح)
ترجمہ: جو کوئی احادیث و ان کی تدوین کے بارے میں معمولی شد بد بھی رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ تمام محدثین خصوصا بیہقی نسبت کر دیتے ہیں حدیث کو بعض محدثوں کی جانب جبکہ اس محدث نے اس حدیث کو اس کے اکثر کلمات سے نقل کیا ہو ، یہ مطلب نہیں ہوتا کہ حدیث کے پورے الفاظ اس محدث نے نقل کیے پس جب کوئی محدث کہتا ہے کہ اس حدیث کو بخاری نے نقل تو اس کی مراد یہ ہوتی کہ اس حدیث کی اصل بخاری میں ہے۔(نہ پورے الفاظ، گویا الفاط کی کمی بیشی ہو سکتی ہے تاہم حقیقی حدیث بخاری کی ہوتی ہے)

چنانچہ اس کی ایک مثال یہ حدیث ہے
[ARABIC]أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ , وَأَبُو عَبْدِ اللَّهِ إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ بْنِ يَعْقُوبَ السُّوسِيُّ وَأَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَاضِي , قَالُوا: ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ نا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ خَلِيٍّ , نا بِشْرُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أَبِي الزِّنَادِ , عَنِ الْأَعْرَجِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ لِلَّهِ تِسْعًا وَتِسْعِينَ اسْمًا مِائَةً إِلَّا وَاحِدًا مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ , إِنَّهُ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْرَ» رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الصَّحِيحِ عَنْ أَبِي الْيَمَانِ عَنْ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْر (السما و اصفات ج1 ص 21)[/ARABIC]

اب یہاں واضح طور پر امام بیہقی نے فرمایا ہے رواہ بخاری فی الصحیح لیکن جب ہم یہ حدیث بخاری شریف میں دیکھتے ہیں تو یہ حدیث [ARABIC]إِنَّهُ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْر[/ARABIC]َ کے بغیر ہی بخاری شریف میں بیان ہوئی ہے۔اور کوئی شخص یہ الفاظ اسی سند کے ساتھ جو امام بیہقی نے بیان کیے ہیں ، بخاری میں نہیں دکھا سکتا، حالانکہ امام بیہقی یہ بخاری شریف کے حوالے سے ہی بیان کر رہے ہیں ۔

رانا نے لکھا ہے
۲۔ دوم: اس روایت کا ایک راوی ابو بکر محمد ان اسحاق بن محمد الناقد ہے جس کے متعلق لکھا ہے "کان یدی الحفیظ و فیہ بعض التساہل" ﴿لسان المیزان حرف ۔ ابن حجر جلد 5 صفحہ 69﴾۔ کہ اس راوی میں تساہل پایا جاتا ہے۔ پس من السما کے الفاظ کا اضافہ بھی اس راوی کا تساہل ہے اصل حدیث کے الفاظ نہیں۔۔ اس طرح اس روایت کا ایک اور راوی احمد بن ابراہیم بھی صعیف ہے۔ لسان المیزان جلد 1۔
علاوہ ازیں اس روایت کا راوی یحی بن عبداللہ ہے اس کے متعلق لکھا ہے
"قال ابو حاتم۔۔۔۔۔۔ لایحتج بہ۔۔۔۔۔۔ وقال النسائی ضعیف۔۔۔۔۔ لیس بثقہ قال یحی۔۔۔۔ لیس بشئی ﴿تہذہب التہذیب جل 11 صفحہ 237-238 و میزان الاعتدال جلد 2 صفحہ 585﴾
اس روایت کا ایک اور راوی یونس بن یزید بھی ضعیف ہے۔ یہ روایت یونس بن یزید نے ابن الشہاب الزہری سے روایت کی ہے اور اس کے متعلق لکھا ہے کہ "قال ابوزرعة الدمشقی سمعت ابا عبداللہ احمد ابن حنبل یقول فی حدیث یونس عن الزھری منکرات ۔۔۔۔۔ قال ابن سعد ۔۔۔۔۔ لیس بحجتہ ۔۔۔۔۔ کان سیء الحفیظ ﴿تہذیب التہذیب جلد 11 صفحہ 451﴾
کہ امام احمد بن حنبل نے فرمایا ہے کہ یونس کی ان روایات میں زہری سے اس نے روایت کی ہیں۔ منکرات ہیں۔ ابن سعد کہتے ہیں یونس قابل حجت نہیں اور وکیع کہتے ہیں کہ اس کا حافظہ خراب تھا۔
اس کے متعلق میزان الاعتدال میں لکھا ہے کان یدلس فےالنادر ﴿میزان الاعتدال جلد 2 صفحہ 448﴾ کہ کبھی کبھی یہ تدلیس سے کام لیا کرتا تھا۔ پس اس روایت میں من السما کے الفاظ کی ایزاد بھی اس کے حافظہ کی غلطی یا تدلیس کا نتیجہ ہوسکتی ہے۔ ﴿یہی حرکت آج کے علماء بھی کرتے ہیں کہ جہاں نزول کا لفظ دیکھا ساتھ ہی آسمان کا لفظ بڑھا دیا اسی لئے ایسی حدیثوں کو خوش ہو کر پیش کرتے ہیں﴾۔

اب جہاں تک ان راویوں کا تعلق ہے تو پہلی جرح ابو بکر بن اسحاق پر ہے اور قادیانی حضرات کا یہ دعوہ ہے کہ ابو بکر بن اسحاق سے مراد ابو بکر محمد بن اسحاق بن محمد الناقد یہ بات بالکل غلط ہے یہاں یہ راوی ابو بکر احمد بن اسحاق ہیں ۔ کیا قادیانیوں کے پاس کوئی دلیل ہے کہ وہ ثابت کریں کہ ابوبکر بن اسحاق درحقیقت ابوبکر محمد بن اسحاق ہیں؟ اس کے برعکس کئی قرائن ایسے ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ یہاں جو راوی ہیں وہ ابو بکر احمد بن اسحاق ہیں ۔
۱۔لسان المیزان (ج۵ ص ۶۹) میں حافظ ابن حجر نے ان روایوں کے نام دیئے ہیں جو ابوبکر محمد بن اسحاق سے روایت کرتے ہیں اور ان میں ابو عبداللہ الحافظ (امام حاکم ) کا نام موجود نہیں ہیں ۔
۲۔ اس کے بر عکس امام ذہبی نے ابوبکر احمد بن اسحاق کے راویوں میں ابو عبد اللہ الحافظ (امام حاکم ) کا نام تحریر کیا ہے(سیر الاعلام و النبلا ج۱۵ ص۴۸۳،۴۸۴)
۳۔ امام بیہقی کی کتاب الاسما و الصافات کا ایک جدید اڈیشن جو عبد اللہ بن محمد الحاشدی نے تحقیقی و تخریج کے بعد شائع کیا ہے اس میں بھی ابوبکر بن اسحاق سے مراد ابوبکر احمد بن اسحاق کو ہی لیا گیا ہے ۔ دیکھئے حدیث نمبر ۸۹۵ اور ۴ کا حاشیہ۔

پس ثابت ہوا کہ یہاں ابو بکر بن اسحاق درحقیقت ابو بکر احمد بن اسحاق ہیں نہ کہ ابو بکر محمد بن اسحاق ، اور ابو بکر احمد بن اسحاق ایک مستند راوی ہیں۔

دوسرے نمبر پر ایک اور راوی احمد بن ابراہیم کو ضعیف قرار دیا گیا ہے ، لسان المیزان کے حوالے سے۔ اب لسان المیزان میں احمد بن ابراہیم نام کے ۱۸ راوی موجود ہیں اور رانا صاحب نے یہاں تصریح نہیں کی کہ یہ کن احمد بن ابراہیم کی بات کر رہے ہیں ۔ یہاں درحقیقت احمد بن ابراہیم بن ملحان مراد ہیں ، یہی بات عبد اللہ حاشدی صاحب نے بھی بیان کی ہے اور ، اہم بات یہ کہ امام ذہبی نے ان کویحیی بن بکیر کے ساتھیوں میں شمار کیا ہےاور یہ حدیث احمد بن ابراہیم بن ملحان، ابن بکیر سے ہی بیان کر رہے ہیں ، اور آخری بات یہ کہ احمد بن ابراہیم بن ملحان بھی ایک بڑے قوی راوی ہیں ان کی توثیق متعدد ائمہ سے مروی ہے۔

اب آئیے مزید ان دو راویوں کی طرف جن پر جرح کی گئ ہے یعنی یحییٰ بن عبد اللہ بن بکیر اور یونس بن یزید۔
اول تو یہ دونوں راوی بخاری و مسلم کے راوی ہیں یہی ان کی حجت ہے ۔یعنی بخاری و مسلم کے راوی ثقہ ہوتے ہیں ۔

دوئم یحییٰ بن عبد اللہ کے بارے جو جرح نقل کی گئی ہے یعنی نسائی ان کو ضعیف کہتے ہیں ابو حاتم لا یحتج کہتے ہیں تو اس بارے میں گذارش ہے کہ ذرا آپ سیر الاعلام النبلا کھولیے وہا ں ان کا ذکر نکلایے تو امام ذہبی کا یہ قول آپ کو یحییٰ بن عبد اللہ کے بارے میں نظر آئے گا ، یحیی قوی علم ، احادیث کے جاننے والے تھے۔۔ہم نہیں جاتنے کہ نسائی کو ان میں کیا دیکھا کہ ان کو ضعیف قرار دیا اور ثقہ نہیں مانا اور یہ جرح مردود ہے، شیخان نے ان سے استدلال کیا ہے،اور ان کی کوئی منکر حدیث نہیں جانتا جو وہ لائے ہوں۔ (سیر الاعلام و النبلا ج ۱۰ ص ۶۱۴) یحییٰ نے امام مالک سے ۱۷ مرتبہ موطا کی سماعت کی(یعنی امام مالک کے نزدیک ان کا یہ درجہ تھا کہ خود امام مالک سے ۱۷ مرتبہ موطا کہ سمع ثابت ہے) (حوالہ ، ایضا)

امام بن حجر نے تقریب میں ان کو ثقہ قراردیا ہے۔ابن حبان نے ان کا ذکر الثقات میں کیا ہے۔الساجی نے ان کے بارے میں کہا ہے صدوق راوی من اللیث۔
قصہ مختصر یہ کہ یحییٰ بن عبد اللہ کے بارے میں کلمات تعدیل ، جرح سے کہیں زیادہ ہیں ، امام نسائی انکو ضعیف قرار دینے میں مفرد ہیں اور امام ذہبی بھی ان کے اس قول کو مسترد کر تے ہیں۔

یونس بن یزید بن شیخان کے راوی ہیں اور یوں وہ بھی مستند ہیں۔ان پر جہاں جرح کی گئی وہیں ان ہی راویوں سے کلمات تعدیل بھی موجود ہیں امام احمد بن حنبل نے ان کو احفظ بحدیث الزہری من المعمر قرار دیا ہے، اور پھر امام احمد اور ابن مبارک سے یہ بھی ثابت ہے کہ وہ ان احادیث کو لکھ بھی لیا کرتے تھے (تہذیب ج۱۱ ص ۴۵۰) ایسے میں وکیع کے قول کی کیا حیثیت ہے ۔ پھر ان کو محمد بن عبد الرحیم نے علی کے حوالے سے اثبت الناس من الزہری قرا دیا ہے ، امام نسائی ان کو ثقہ کہتے ہیں ،یعقوب بن شیبہ ان کو صالح الحدیث عالم بحدیث الزہری قرار دیتے ہیں۔ابن خراش ان کو صدوق قرار دیتے ہیں،ابو زراعہ کہتے ہیں ، لا باس بہ (اس میں کوئی حرج نہیں) امام ابن حبان نے ان کا ذکر الثقات میں کیا ہے۔(تہذیب ۴۵۱)
غرض یہ کہ اگر وکیع نے کا حافظہ خراب قرار دیا ہے تو ایک کثرت نے ان کو زہری کی حدیث کا نہ صرف حافظ قرار دیا ہے بلکہ یہ بھی ثابت ہے کہ وہ ان احادیث کی کتابت بھی کیا کرتے تھے۔ ساتھ ساتھ ان کی عدالت و ثقاہت کے بھی دلائل کثرت سے موجود ہیں۔سب سے بڑھ کر یہی بات کہ وہ شیخان کے راوی ہیں اور یوں قابل حجت ہیں۔اور میزان کے حوالے سے جو جرح نقل کی گئی ہے تو جو حوالہ آپ نے دیا ہے نہ صرف وہاں بلکہ آگے پیچھے دیکھے کے باوجود یہ جرح مجھے نظر نہیں آئی ۔(آپ ذرا یہ پوری عبارت تو تحریر کیجئے اور ساتھ ہی میزان کے اس اڈیش کا بھی حوالہ دیجئے جہاں یہ جرح ملتی ہے)میزان الاعتدال جو کہ امام ذہبی کی تصنیف ہے اس میں ج ۷ ص ۳۲۰ میں یونس کے بارے میں لکھا ہے لکھا ہے کہ وہ ثقہ ہیں حجت ہیں اور ابن سعد نے جو ان کو لیس بحجہ کہا ہے تو اس قول میں ابن سعد شذ ہیں یعنی کوئی اور ان کی تائید نہیں کرتا اور یہی بات وکیع کے قول کے بارے میں بھی ہے کہ وکیع بھی اپنے سبی الحفظ کے قول میں شذ ہیں (گویا واضح طور پر امام ذہبی ابن سعد اور وکیع دونوں کے اقوال کو شاذ قرار دیتے ہوئے ان کی کمزوری ظاہر کر رہے ہیں اور خود یونس کو ثقہ کہتے ہیں)۔

یہاں یہ ساری تحقیق جو کی گئی اس کی توثیق اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ امام بیہقی کی کتاب امام عبد اللہ حاشدی نے ایڈٹ کر کہ شائع کی ہے اور اس میں اس حدیث کےتمام راویوں کو ثقہ قرار دیا ہے نیچے میں اس کا عکس پیش کر رہا ہوں۔

Pagesfrom02.jpg


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
 
جہاں تک بات کنز العمال کی حدیث کی ہے تو اس بارے میں میں پہلی بات یہ کہ صاحب کنز نے یہاں دو حوالے نقل کیے ہیں پہلا اسحاق بن بشر کا دوسرا ابن عساکر کا، تو خالی ابن عساکر کا حوالہ رد کر دینے سے آپ کا مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔
دوسری بات یہ کہ شاہ عبد العزیز کے اس قول سے آپ اگر یہ مراد لےرہے ہیں کہ ابن عساکر کی بیان کردہ تمام احادیث رد کر دی جائیں گی تو یہ آپ کی قلت فہم ہے۔احادیث کو اس طرح مختلف طبقات میں تقسیم کر دینےکا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان کتب کے درجات کی نشاہدہی ہو جائی بقیہ رہی احادیث تو ان کے بارے میں حکم کا معیار وہی ہو گا جو دیگر کتب کا ہے ، یہی وجہ ہے اسی عجالہ نافعیہ میں خود شاہ صاھب طبقہ رابعہ کی احادیث کے بارے میں یہ کہ رہے ہیں کہ اگر کسی کو ان کتب کے بارے میں تحقیق کا شوق ہو تو وہ امام ذہبی کی میزان اور ابن حجر کی لسان المیزان کی مدد سے انکے راویوں کا حال جانے۔ (ص ۹)، یہ بات اسی صور ت میں درست ہو سکتی ہے جب خالی اس طبقے میں ذکر کی وجہ سے ان کتابوں میں مذکور احادیث کو رد نہ کیا جائے بلکہ ان کی راویوں کی بھی جانچ پرکھ کی جائے اور پھر ان احادیث کو صحیح قرار دیا جائے یا مسترد کیا جائے۔یہاں مزید تفصیل کی ضرورت نہیں کہ جو صاحب علم ہیں وہ ان باتوں سے خوب واقف ہیں۔

رانا مزید لکھتے ہیں

سوم: امام بیہقی کا قلمی نسخہ پہلی مرتبہ 1328 ہجری میں چھپا ہے۔ یعنی حضرت بانی جماعت احمدیہ کی وفات کے بعد۔ اس لئے قرائن یہ بتاتے ہیں کہ مولویوں نے اس میں من السما کا لفظ اپنے پاس سے ازراہ تحریف اور الحاق زائد کردیا ہے۔ چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ امام جلال الدین السیوطی نے بیہقی سے اس حدیث کو نقل کیا ہے مگر اس میں من السما کا لفظ نہیں۔ چنانچہ وہ اپنی تفسیر درمنشور جلد 2 میں اس حدیث کو یوں بیان کرتے ہیں"
واخرج احمد و البخاری و المسلم و البیہقی فی الاسماء والصفات قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیف انتم اذا نزل فیکم ابن مریم و امامکم منکم ﴿درمنشور جلد 2 صفحہ 243﴾
امام مذکور کا باوجود اس محولہ بالا روایت کو دیکھنے کے من السما چھوڑ دینا بتاتا ہے کہ یہ حدیث کا حصہ نہیں، بعد کی ایزاد ہے۔ اور ذرا یہ بھی بتائیں کہ مرزا صاحب پر جو اوپر آپ نے کنزالعمال میں تحریف کا سراسر ناپاک الزام لگایا تھا، اب امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ پر بھی لگانے کی جسارت کریں گے؟ وہاں تو مرزا صاحب نے کہیں ذکر ہی نہیں کیا کہ یہ حدیث کنزالعمال سے لے گئی ہے لیکن یہاں امام جلال الدین سیوطی نے تو باقائد بیہقی کا حوالہ دے کر من السما کے الفاظ چھوڑے ہیں۔ لیکن اگر تعصب عقلوں کو خبط کردے تو سب کچھ ممکن ہے۔

۱۔ یہ بالکل غلط ہے کہ کتاب الاسما والصفات پہلی بار ۱۳۲۸ ھ میں چھپی(یہاں بھی جناب نے مکھی پر مکھی مارتے ہوئے اپنی پاکٹ بک سے آنکھ بند کر کہ ایک بات نقل کر دی ہے اور تحقیق کی زحمت ہی نہیں کی) اس کتاب کا ایک نسخہ جو ۱۳۱۳ ھ (۱۸۹۵۔۹۶)کا چھپا ہوا ہے وہ تو انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہے یہاں میں اس کا عکس دے رہا ہوں ذار اپنی آنکھیں کھول کر ملاحظہ فرما لیجئے

title.jpg


۲۔ اللہ رب العزت معاف فرمائیں ، مجھے ایسا لگتا ہے کہ مرزا کے تمام پیروکاروں کی سب سے پہلے عقل ہی خبط ہو جاتی ہے، اس سے بڑھ کر احمقانہ بات اور کیا ہو گی ( ویسے اس حماقت کا حقیقی فاعل تو پاکٹ بک کا منصف ہے بے چارے رانا صاحب نے تو بس وہاں سے اس کو نقل فرما دیا ہے)کہ امام بیہقی کی کتاب جو ماحذ ہے سیوطی کا جب اس میں یہ لفظ موجود ہے اور سیوطی کی کتاب میں کسی ناقل نے اگر غلطی سے یہ لفظ نہیں نقل کیا تو اس سے اصل کتاب پر کیا فرق پڑتا ہے؟؟
۲۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی کتب میں بے شمار قرآنی آیات غلط نقل کی ہیں کہیں کوئی کم کردیا کہیں بڑھا دیا تو کیا اس سے یہ نتیجہ نکالا جائے کہ نعوذ باللہ قرآن محرف ہے؟

یہ جو آپ فرما رہے ہیں کہ مرزا پر غلط الزام لگایا گیا اور سیوطی پر تحریف کا الزام کو ئی نہیں لگاتا، تو جناب بات کچھ یوں ہے کہ امام سیوطی اور مرزا کی نیتوں میں بھی تو زمین و آسمان کا فرق ہے، سیوطی نے تو کبھی نبوت کا دعوہ نہیں کیا ، سیوطی تو اس سلسلے میں اپنے نام نہاد خلفا سے مشورہ نہیں کرتے تھے کہ، اگر میں مثیل مسیح ہونے کا دعوہ کر لوں تو کیسا ہے یہ ناپاک ارادے تو مرزا کے تھے نہ ناپاک سازشیں تو مرزا کی تھیں ، سیوطی کی تو نہیں ، سو چونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ، اس حدیث کے مصداق ہی مرزا اور امام سیوطی کا اس سلسلے میں موازانہ کرنا درست ہو سکتا ہے۔پس اسی لیے امام سیوطی کی یہ بھول ہے ، جیسا کہ ان کے دیگر تساہل مشہور ہیں، اور مرزا کی یہ پکی سازش و خیانت ہے جیسا کہ اس کی کتب ایسی ہی خیانتوں سے بھری ہوئی ہیں۔
 
جواب پوسٹ نمبر ۱۰۹، ۱۱۰

رانا کہتے ہیں

دوسروں کو یہ جانتے بوجھتے ہوئے یہ دھوکا دینے کی کوشش کی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نعوذ باللہ حضرت عیسی اور حضرت یوحنا ﴿یحیی علیہ السلام﴾ کو جھوٹا ٹھہرا رہے ہیں۔ اور تمام مولوی حضرات ایسی ہی عبارات کو سیاق و سباق سے کاٹ کر عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو مرزا صاحب نے انبیاء کا انکاراورانکی توہین کی۔ میں یہ پوری عبارت سیاق و سباق کے ساتھ یہاں پیش کررہا ہوں۔ پڑھنے والے خود فیصلہ کرلیں کہ کیا مطلب نکلتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو یہ تمام باتیں یہودیوں کی طرف منسوب کرکے ان کی غلطی ظاہر کررہے ہیں کہ وہ ظاہر میں پڑھ کر ایک سچے نبی سے محروم رہ گئے اور ان کے وہ تمام اعتراض جو وہ حضرت عیسی علیہ السلام پر کرتے تھے ان کو بیان کررہے ہیں کہ وہ حضرت عیسی علیہ السلام کے انکار کے کیا کیا بہانے بنا رہے ہیں۔ لیکن مولویوں کو لگتا ہے کہ عیسائیوں کے ساتھ ساتھ یہودیوں سے بھی درپردہ ہمدردی ہے کہ پہلے تو عیسائیوں کے عقیدے کی تائید میں خلاف قرآن ان کے مزعومہ خدا کے بیٹے کو زندہ ثابت کرنے کی بھرپور کوشش رہے تھے اب یہ بھی گوارا نہیں کہ یہود کو غلط ثابت کیا جائے اور ان کو جھوٹا اور غلطی خوردہ قرار دیا جائے۔ ظاہر ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مثیل یہود والی حدیث کے مطابق یہود کے مثیلی بھائی بند جو ہوئے، ہمدردی تو ہوگی ورنہ خود بھی مارے جائیں گے۔ اب خود دیکھ لیں کہ یہ مولوی کتنی خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
"کیونکہ ایمان اُس حد تک ایمان کہلاتا ہے کہ ایک بات من وجہٍ ظاہر ہو اور من وجہٍ پوشیدہ بھی ہو یعنی ایک باریک نظر سے اُس کا ثبوت ملتا ہو اور اگر باریک نظر سے نہ دیکھا جائے تو سرسری طور پر حقیقت پوشیدہ رہ سکتی ہو۔ لیکن جب سارا پردہ ہی کھل گیا تو کون ہے کہ ایسی کھلی بات کو قبول نہیں کرے گا۔ سو معجزات سے وہ امور خارق عادت مراد ہیں جو باریک اور منصفانہ نظر سے ثابت ہوں اور بجز مؤیّدانِ الٰہی دوسرے لوگ ایسے امور پر قادر نہ ہوسکیں اِسی وجہ سے وہ امورخارق عادت کہلاتے ہیں۔ مگر بدبخت ازلی اُن معجزانہ امور سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے جیسا کہ یہودیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام سے کئی معجزات دیکھے مگر اُن سے کچھ فائدہ نہ اُٹھایا اور انکار کرنے کیلئے ایک دوسرا پہلو لے لیا کہ ایک شخص کی بعض پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں جیسا کہ باراں تختوں کی پیشگوئی جو حواریوں کیلئے کی گئی تھی اُن میں سے ایک مرتد ہوگیا۔ یہودیوں کا بادشاہ ہونے کا دعویٰ بے بنیاد ثابت ہوا۔ اور پھر تاویل کی گئی کہ میری مراد اس سے آسمانی بادشاہت ہے۔ اور یہ بھی پیشگوئی حضرت مسیح نے کی تھی کہ ابھی اِس زمانہ کے لوگ زندہ ہوں گے کہ میں پھر دنیا میں آؤں گا۔ مگر یہ پیشگوئی بھی صریح طور پر جھوٹی ثابت ہوئی۔اور پھر پہلے نبیوں نے مسیح کی نسبت یہ پیشگوئی کی تھی کہ وہ نہیں آئے گا جب تک کہ الیاس دوبارہ دنیا میں نہ آجائے مگر الیاس نہ آیا۔ اور یسوع ابن مریم نے یونہی مسیح موعود ہونے کادعویٰ کردیا حالانکہ الیاس دوبارہ دنیا میں نہ آیا اور جب پوچھا گیا تو الیاس موعود کی جگہ یوحنا یعنی یحییٰ نبی کو الیاس ٹھہرا دیا۔ تا ؔ کسی طرح مسیح موعود بن جائے حالانکہ پہلے نبیوں نے آنے والے الیاس کی نسبت ہرگز یہ تاویل نہیں کی اور خود یوحنا نبی نے الیاس سے مراد وہی الیاس مراد رکھا جودنیا سے گذر گیا تھا۔ مگر مسیح نے یعنی یسوع بن مریم نے اپنی بات بنانے کیلئے پہلے نبیوں اور تمام راستبازوں کے اجماع کے برخلاف الیاس آنے والے سے مراد یوحنا اپنے مرشد کو قرار دے دیا اور عجیب یہ کہ یوحنا اپنے الیاس ہونے سے خود منکر ہے۔ مگر تاہم یسوع ابن مریم نے زبردستی اس کو الیاس ٹھہراہی دیا۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ یہودیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کے نشانوں سے کچھ بھی فائدہ نہ اٹھایا اور اب تک کہتے ہیں کہ اُس سے کوئی معجزہ نہیں ہوا صرف مکر و فریب تھا۔ اِسی لئے حضرت مسیح کو کہنا پڑا کہ اس زمانہ کے حرام کار مجھ سے معجزہ مانگتے ہیں انہیں کوئی معجزہ دکھایا نہیں جائے گا۔ درحقیقت معجزات کی مثال ایسی ہے جیسے چاندنی رات کی روشنی جس کے کسی حصہ میں کچھ بادل بھی ہو مگر وہ شخص جو شب کور ہو جو رات کو کچھ دیکھ نہیں سکتا اُس کیلئے یہ چاندنی کچھ مفید نہیں۔" ﴿روحانی خزائن جلد 21 براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 42﴾

رانا صاحب اتنا گرم ہونے کی ضرورت نہیں ہے آپ نے اتنا زور بلا وجہ میں صرف کیا بات بہت سیدھی سی ہے میرا دعوہ ابھی بھی یہی ہے کہ یہ ساری خرافات مرزا کی اپنی بیان کی ہوئی ہے ورنہ انجیل میں کہیں ایک جگہ بعینہ ایسی عبارت نہیں موجود جو کہ مرزا نے ایک کہانی کے انداز میں بیان کی ہےا ور جس سے انبیا کی توہین باکل عیان ہے اب اگر آپ کے خیال میں یہ عبارت مرزا یہودیوں کے حوالے سے بیان کر رہا ہے تو مرزا کی بیان کردہ یہ خط کشیدہ عبارت ذرا بعینہ انجیل سے نکال کر دیکھائیے ۔درحقیت مرزا کو انیبا کی توہین کا جو شوق تھا وہ یہاں اس نے پورا کیا ہے اور بس۔

رانا مزید لکھتے ہیں۔

یعنی ان کے نزدیک ایسا کوئی واقعہ آج تک دنیا میں پیش ہی نہیں آیا!! اور بائبل محرف و مبدل ہونے کی وجہ سے قابل اعتبار ہی نہیں رہی۔ حالانکہ آپ کی تفاسیر میں بائبل ہی سے حاشیئے چڑھائے جاتے ہیںِ!! جناب بائبل بے شک محرف ہوچکی ہے لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ اس کی ایک ایک بات محرف ہوچکی ہے۔ اسطرح تو آپ کو ان پیشگوئیوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بائیبل اور انجیل میں اب تک لکھی ہوئی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ان کی اخلاقی تعلیم اب قابل عمل نہیں لیکن جو تاریخی واقعات اس میں لکھے ہوئے ہیں ان میں سے جو تاریخ کی کسوٹی پر پورے اترتے ہیں اور جو مشاہدات اور تحقیق سے درست ثابت ہوچکے ہیں اس سے کوئی کس طرح انکار کرسکتا ہے؟ لیکن آپ کیوں مانیں گے اس سے تو آپ یہود کے نقش قدم پر چلنے والے ثابت ہوتے ہیں!

پتہ نہیں آپ سچے ہیں یا آپ کا مرزا یا دونوں بقول آپ کے یہود کے نقش قدم پر چلنے والے۔ذرا اپنے مرزا کا یہ دعوہ تو دیکھئے

6-6.gif

خزائن ج 15 ص 142

اور ہماری تفاسیر کی فکر چھوڑتے ہوئے اب بتائیے کہ اس قصے کی بنیاد آپ کے مذہب کی رو سے کتب محرفہ پر رکھنا درست ہے یا نہیں؟

رانا لکھتے ہیں

لیکن چلیں آپ کو تاریخ کی جس کتاب پر بھروسا ہو، جس سورس کو آپ مستند جانتے ہوں اس سے دیکھ لیں کہ یہود کے انکار کی کیا وجہ تھی؟ اور پھر سب چھوڑیں یہود اورعیسائی تو دونوں موجود ہیں۔ عیسائیوں سے پوچھ لیں کہ ان کے مسیح کا انکار یہود نے کیوں کیا تھا؟ اگر آپ کو یہ بھی قبول نہیں کہ غیر کی گواہی نہیں ماننی۔ تو چلیں جناب یہود تو آج تک موجود ہیں۔ ان سے پوچھ لیں کہ جناب آپ نے مسیح کا انکارکیوں کیا تھا؟ اس سے بڑی گواہی اور کون سی ہوگی جو نسل در نسل یہود میں چلی آرہی ہے!!! حیرت ہے کہ ایک بات سامنے نظر آرہی ہے۔ ان کی مقدس کتب سے ثابت ہے۔ تاریخ کی ہر کتاب سے ثابت ہے۔ سب سے بڑھ کر مسیح کو ماننے والے اور اسکا انکار کرنے والے دونوں موجود ہیں۔ دونوں اس واقعے کے اس حصے پر متفق ہیں کہ انکار کی کیا وجہ تھی۔ لیکن آپ کہتے ہیں کہ یہ تو واقعہ کبھی ہوا ہی نہیں۔ وہ کوئی اور وجہ تھی جس سے یہود نے انکار کیا تھا ان یہود کو کیا پتہ کہ انہوں نے کیوں انکار کیا تھا آج کے مسلمان علماء کو اصل بات کا پتہ ہے۔ اللہ خیر!!! جب ایسے ایسے تاریخی حقائق جھٹلائے جاسکتے ہیں تو پھر بندہ کیا کہہ سکتا ہے۔ آپکی مرضی جناب آپ خوش رہیں اپنے مولویوں کے نقش قدم پر۔

ناجانے کس پیش گوئی کی بابت آپ اتنا زور قلم صرف کر رہے ہیں ، مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریرکا ؟ اگر آپ کی مراد حضرت الیاس والی پیش گوئی سے ہے اور آپ کے خیال میں یہود کے انکار کی صرف یہی وجہ تھی تواتنا اونچا اڑنے کے بجائے صرف چاروں موجودہ اناجیل سے ذرا اپنا دعوہ ثابت کر کے دکھائیے میں آُپ کے جواب کا منظر رہوں گا۔
 
جواب پوسٹ ۱۱۷
رانا لکھتے ہیں

یہ مولوی حضرات یہی کرتے ہیں۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ حیات مسیح پران کے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہیں اس لئے ان کا یہ پرانا حربہ ہے کہ وفات مسیح پر اگر کبھی بات ہوجائے تو اسے مرزا صاحب کی ذات پر اعتراضات کرکے اصل مسئلے کو الجھا دیا جائے۔ ورنہ آپ دیکھ لیں کہ وفات مسیح کے قرآنی دلائل جس کی تائید میں پورا قرآن، احادیث اور تمام عرب لٹریچر موجود ہے اس کو صرف الفاظ کی شعبدہ بازی سے غلط ثابت کیا جارہا ہے یا پھر کچھ مفسرین اور صرف "نزول" کی احادیث پر زور دیا جاتا ہے۔ قرآن کی طرف منہ کرتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں صحیح احادیث کے حوالوں کو الفاظ کے جادو سے غلط ثابت کررہے ہیں۔ سب اس بات کو نوٹ کرسکتے ہیں کہ میں نے وفات مسیح پر قرآن کی آیات پیش کیں اور ان کے معنوں کی تائید میں بھی قرآن کی آیات ہی پیش کیں اور ساتھ صحیح بخاری سے بھی ٹھوس تائیدی احادیث پیش کی اور لغت کو بھی پیش کیا اور تمام عرب لٹریچر کو تائید میں پیش کیا۔ لیکن تمام جگہ کسی ٹھوس دلیل سے ان باتوں کو رد نہیں کیا گیا بلکہ صرف سخت الفاظ استعمال کرکے (یہ سمجھتے ہیں شائد جوشیلے الفاظ استعمال کرنے سے موقف میں جان پڑجاتی ہے) اور خود ساختہ قوائد بناکر اپنی بات منوانے کی کوشش رہی ہے۔

خدا کی ذات سے ڈرئیے، قرآن پاک کی تفاسیر، احادیث اور اقوال ائمہ سے کتنی جگہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور ان کے نزول کا عقیدہ ثابت کیا گیا ہے لیکن پھر بھی یہ باتیں کرتے ہوئے آپ کو ذرا حیا نہیں آرہی؟ کیا قادیانیت کی پہلی شرط سچ و صداقت کو خیر آباد کہنا ہے؟ آپ کی ایک ایک بات کا جواب الحمد للہ یہاں دیا جاچکا ہے پھر بھی نہایت ڈھٹائی سے آپ یہ فرما رہے ہیں
میں نے وفات مسیح پر قرآن کی آیات پیش کیں اور ان کے معنوں کی تائید میں بھی قرآن کی آیات ہی پیش کیں اور ساتھ صحیح بخاری سے بھی ٹھوس تائیدی احادیث پیش کی اور لغت کو بھی پیش کیا اور تمام عرب لٹریچر کو تائید میں پیش کیا۔

اس پر تو میں یہی کہ سکتا ہوں چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد۔


مزید گل افشانی فرماتے ہیں

"قرآن نہ اس کی تصریح کرتا ہے کہ اللہ ان کو جسم روح کے ساتھ زمین سے اٹھا کر آسمان پر لے گیا اور نہ یہی صاف کہتا ہے کہ انہوں نے زمین پر طبعی موت پائی اور صرف ان کی روح اٹھائی گئی۔ اس لئے قرآن کی بنیاد پر نہ تو ان میں سے کسی ایک پہلو کی قطعی نفی کی جاسکتی ہے نہ اثبات"۔
(تفہیم القران جلد اول صفحہ 420 مطبوعہ مرکنٹائل پریس لاہور طبع اول 1951)

پھر بھی بے چارے ساری زندگی عیسی کوزندہ ثابت کرنے پر زور لگاتے رہے۔ کیا کریں بے چارے آخر حدیث میں "نزول" کا لفظ جو ہے!!!

یہاں مولانا مودودی کا حوالہ چنداں آپ کو نافع نہیں ایک تو اگر مولانا مودودی مرحوم اس مقام پر پوری طرح حقیقت کو نہیں سمجھ سکے تو اس کے برعکس ساری متداول کی تفاسیر میں اس واقعہ کی حمایت موجود ہے۔
دوئم اگر مولانا مودودی صاحب کی تفھیم کا مکمل جائزہ لیا جائے تو کئی ایسے اشارے ملتے ہیں جو اس بات کی دلالت کرتے ہیں کہ ان کا عقیدہ بھی بقیہ امت کے عقیدے سے مخلتف نہیں تھا مثلا
سورہ آل عمران آیت ۵۴ کی تفسیر میں وہ لکھتے ہیں
توفی کے اصل معنی لینے اور وصول کرنے کے ہیں، "روح قبض کرنا" اس لفظ کا مجازی استعمال ہے نہ کہ اصل لغوی معنی۔یہاں یہ لفظ انگریزی لفظ (To recall) کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔یعنی کسی عہدے دار کو اس کے منصب سے واپس بلا لینا۔ (تفہیم ج ۱ ص ۲۵۷)

یعنی وہ حضرت عیسیٰ کی موت کے قائل ہر گز نہیں۔

۲۔یہاں میں مولانا مودودی مرحوم کی تفسیر کے کچھ عکس پیش کرہا ہوں (وقت کی کم کی بنیاد پر پورا ٹائپ کرنا میرے لیے مشکل ہے)

Vol1_257.gif

Vol1_258.gif



اب ذرا غور سے پڑھیئے کہ مولانا مودودی کی نظر میں زندہ اٹھائے جانے کے مفہوم کا کم از کم احتمال تو ہے۔پھر یہی نہیں وہ صاف لکھ رہے ہیں کہ جو لوگ قرآن کی آیات سے مسیح کی وفات کا مفہوم نکالنے کی کوشش کرتے ہیں وہ دراصل یہ ثابت کرتے ہیں کہ اللہ میاں کو صاف سلجھی ہوئی عبارت میں اپنا مطلب ظاہر کرنے تک کا سلیقہ نہیں ہےاعاذنا للہ من ذلک

گویا یہاں مولانا مودودی صاف طور پر حضرت عیسیٰ کی موت سے انکاری ہیں اور رفع آسمان کے قائل ہیں اب کیسے قادیانی ان سے حجت پکڑ سکتے ہیں؟

اور اگر آپ واقعی تلاش حق کے داعی ہوئی اور محض یہاں ضد نہ کر رہے ہوتے تو جو عبار آپ نے نقل کی ہے اسی سے آگے مولانا مودودی جو کچھ کہ رہے ہیں اس پر بھی غور کرتے

Vol1_420.gif


یہاں وہ صاف کہ رہے ہیں کہ رفع سے مراد رفع درجات نہیں بلکہ کوئی غیر معمولی واقعہ ہے

نیز اس حاشے کو پورا پڑھتے جائیے اور کچھ خدا کا خوف کیجئے

Vol1_421.gif


رانا صاحب مزید لکھتے ہیں

ہت سے لوگوں کے لئے یہ بات حیرت کا موجب ہوگی کہ حدیث میں دجال کے لئے بھی نزول کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

یاتی المسیح من قبل المشرق و ھمتہ المدینۃ حتی ینزل دبراحد
(مشکوۃ کتاب الفتن باب علامات بین یدی الساعتہ و ذکر الدجال)
(کنزالعمال جلد 6 صفحہ 250)

فینزل بعض السباخ
(بخاری کتاب الفتن باب لایدخل الدجال المدینہ جلد 4 صفحہ 143 مصری)
(مشکوۃ کتاب الفتن باب علامات بین یدی الساعتہ و ذکر الدجال)

ترجمہ:
1- کہ مسیح دجال مشرق کی طرف سے مدینہ کا قصد کرکے آئے گا۔ یہاں تک کہ احد کی پیٹھ کی طرف اترے گا۔
2- مدینہ کی طرف ایک شور زمین میں اترے گا۔

مجھے پورا یقین ہے کہ اگران کا دیومالائی دجال آبھی گیا تو وہاں بھی ضد کرکے بیٹھ جائیں گے کہ نہیں جناب آپ تو دجال ہوہی نہیں سکتے وہ تو "نازل" ہوگا۔ وہ بے چارہ بہتیرا یقین دلائے گا معجزے دکھائے گا لیکن یہ اڑ جائیں گے نہیں بھائی "نزول"، نزول، نزول۔ ہم کہاں لے جائیں نزول کی حدیثوں کو۔ تم دجال نہیں ہوسکتے بھاگو یہاں سے۔ اور اگراس نے کسی طرح یقین دلا بھی دیا تو پھر ایک دوسری بات پہ اڑ جائیں گے کہ آپ احد کی پیٹھ پر مدینہ میں کیسے اتر گئے۔ احادیث میں تو یہ لکھا ہے کہ دجال مدینہ میں نہیں آسکے گا۔ لیکن آپ کیونکہ مدینہ میں آچکےہیں لہذا اب تو پکا کنفرم ہوگیا کہ آپ دجال نہیں ہوسکتے۔ اور جب وہ دجال نہیں ہوسکتا تو اس کے مقابلے کے لئے جو مسیح آئے گا اس کو بھی بھگادیں گے کہ جب دجال ہی نقلی ہے تو آپ کہاں سے تشریف لے آئے جناب۔ پہلے اصلی دجال کو تو آنے دیں۔ آپ کو غلط فہمی ہوگئی ہے۔ جائیے واپس آسمان پر جاکر استراحت فرمائیے جب اصلی دجال نازل ہوگا تو ہم آپ کو اطلاع کردیں گے اپنا کونٹیکٹ نمبر دیتے جائیے گا۔

افسوس جس دجال کو سب سے بڑا فتنہ قرار دیا گیا، جو جھوٹی الوہیت کا دعوہ کرے گا جس کے فتنے سے تمام دنیا متاثر ہوگی، ان قادیانی کے نزدیک نہ صرف وہ بے چارہ ہے بلکہ وہ گویا نعوذ باللہ کوئی نبی بھی ہے جبھی یہاں رانا نے اس کے لیے معجزات دکھانے کا جملہ استعمال کیا ہے۔ لگتا ہے کہ قادیانیوں کو بطور خاص دجال سے بڑی ہمدردی ہے۔ (دراصل ایک دجال کا قرب و محبت بھی تو حاصل ہے)

دوسری بات یہ کہ رانا صاحب غالبا آپ کا حافظہ بھی جواب دے گیا ہے ایک بات جس کا جواب آپ کو دلیل قاطع سے دیا جاچکا ہے اب اس کا دوبارہ ذکر کرنا خود کو مزید رسوا کرنے کے برابر ہے یہاں میں آپ کو یا د دلاوں

ذرا اپنی پوسٹ ۶۴ کے یہ الفاظ پڑھیئے

نزول سے تو مجھے انکار ہی نہیں۔ اور نزول اور حیات دو الگ الگ باتیں ہیں۔ نزول کی حدیثوں سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسی نازل ہوں گے۔ ان کا زندہ ہونا کہاں سے ثابت ہوگیا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ آپ کوئی ایک ہی ایسی حدیث پیش کردیتے جس میں لکھا ہوتا کہ وہ زندہ آسمان پر موجود ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ ایسی کوئی حدیث ہے ہی نہیں۔ آپ صرف نزول کی احادیث پیش کرکے یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ جیسے نزول اور حیات دونوں لازم و ملزوم ہیں۔

اور پوسٹ نمبر ۸۲ کے یہ الفاظ

اورکیا ایک بھی حدیث ایسی پیش کی ہے جس میں مسیح کے آسمان پر زندہ ہونے کا ذکر ہو؟ چلیں زندہ ہونے کا نہ سہی کوئی ایسی ہی حدیث پیش کردیں جس میں کم از کم "آسمان" سے نازل ہونے کا ہی ذکر ہو۔ لیکن آپ تو صرف نزول کی احادیث پیش کر سکے ہیں۔ بہتر ہوگا اب ذرا لفظ نزول کی بھی وضاحت کردی جائے۔ کیونکہ محمود غزنوی صاحب نے بھی ذکر کیا تھا کہ پھر ہم ان سینکڑوں احادیث کو کہاں لے جائیں جس میں نزول کا ذکر ہے۔ لیکن جناب اول تو یہ اصول ہی غلط ہے کہ احادیث پر بنا کرکے ایک عقیدہ پہلے بنا لیا جائے پھراس کے مطابق قرآن کی آیت کو معنی پہنانے کی کوشش کی جائے اور معنی بھی وہ جس کی خود قرآن و حدیث و محاورہ عرب تائید ہی نہ کرتے ہوں۔ جناب ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ قرآن کے مطابق احادیث کے معنی کئے جاتے لیکن یہاں الٹ چل رہا ہے کہ کیونکہ احادیث میں لفظ نزول ہے اس لئے ہم مجبور ہیں کہ قرآن میں لفظ آسمان کو داخل کریں۔ بھائی احادیث میں اگرآسمان کا لفظ ہوتا تو پھر بھی بندہ آپ کی بات پر کچھ غور کرتا لیکن احادیث کے ذخیرے کو بھی پورا دیکھ جائیے وہاں ایک بھی حدیث ایسی نہیں ملے بھی جس میں آسمان کا ذکر ہو(وفات کی حدیثیں البتہ بہت ہیں لیکن میں ابھی صرف قرآن سے بات کررہا ہوں وفات کی احادیث بھی انشاء اللہ پیش کروں گا)۔ البتہ نزول کا لفظ ہے۔ کسی صحیح حدیث میں حضرت عیسی کے متعلق آسمان یا زندہ کا لفظ ہرگز نہیں پایا جاتا۔ لہذا خواہ مخواہ نزول کے ساتھ آسمان کا لفظ جوڑنا دھینگا مشتی ہے۔

اب ایک بار پھر امام بیہقی کی نزول من السما والی حدیث پڑھیئے اور اس کے بعد اگر کچھ شرم باقی ہے تو اب نزول کی بات مت کیجئے گا۔
 
کنزالعمال میں درج حدیث کے انڈرلائن کئے ہوئے حصے کا ترجمہ جو ابن حسن نے کیا ہے وہ یہ ہے:
جب کوئی رمی جمار کرلے تو کوئی نہیں جانتا کہ اس کے لیے کیا (اجر) ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ اس کو پورا پورا (اجر) دے۔
اور کہا ہے کہ یہاں کوئی احمق بھی موت کا ترجمہ نہیں کرسکتا۔ کنزالعمال کا اردو ترجمہ "دارلاشاعت" نے کراچی سے شائع کیا ہے۔ اور سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ "دارالاشاعت" دیوبندی مکتبہ فکرکا ادارہ ہے۔ اس میں اس حدیث کا جو ترجمہ لکھا گیا ہے اس میں سے وہی حصہ یہاں پیش کرتا ہوں جس کا ترجمہ ابن حسن نے کیا ہے:

"جب رمی جمار (شیطان کو کنکریاں مارتا ہے) کرتا ہے تو کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے لئے کتنی نیکیاں ہیں حتی کہ اللہ تعالی اسے وفات دے دیتے ہیں اور جب آخری طواف کرتا ہے تو گناہوں سے ایسا پاک صاف ہوجاتا ہے جیسا کہ اس کی ماں نے اس کو گناہوں سے پاک جنم دیا تھا" (اردو ترجمہ کنزالعمال، شائع کردہ دالاشاعت کراچی)

اس ترجمہ کی نظرثانی مولانا مفتی احسان اللہ شائق صاحب نے کی ہے۔ اب ابن حسن صاحب پہلے ان تمام مفتی صاحبان پر حماقت کا فتوی جاری کریں کہ اللہ کے بندو تم نے یہ کیا حماقت کردی میری ساری عزت خاک میں ملادی۔ ان مفتی صاحبان کو چاہئے تھا کہ ترجمہ کرنے کے بعد ابن حسن سے بھی نظر ثانی کرالیتے۔

عزت تو ساری کی ساری اللہ کے لیے ہے ، جس کو وہ مالک چاہے عزت دے اور جس کو وہ مالک چاہے ذلیل کر دے۔الحمد للہ ہم ایک ایسے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماننے والے ہیں جو رب کے نزدیک سب سے زیادہ معززہیں ، سب سے زیادہ معزز کلام کے ساتھ ، سب سے زیادہ معزز شہر میں جو بھیجے گئے اور جن کی پیروی صدق دل سے کرنے والا اس دنیا میں بھی اورآخرت میں صاحب عزت و شرف ہو گا۔
ڈرنا چاہیے نبوت کےجھوٹے دعویداروں ، جن کو خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دجال وکذاب کہا ہے، اور ان کے پیروکاروں کو۔اور بطور خاص ڈرنا چاہیے اس کے پیروکاروں کو جو اس دنیا میں بھی ذلت کی موت مرا اور آخرت کا خسارہ تو اس کے لیے بڑھ کر ہے۔

جہاں تک بات اس ترجمہ کی ہے اور میں یہاں صرف ایک سوال کروں گا، حدیث کا زیر بحث حصہ یہ ہے،
و اذا رمی الجمار لا یدری احد ما لہ حتی یتوفاہ اللہ یوم القیامہ واذا قضی آخر طواف بالبیت خرج من ذنوبہ کیوم ولدتہ امہ۔
ترجمہ دارالشاعت: "جب رمی جمار (شیطان کو کنکریاں مارتا ہے) کرتا ہے تو کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے لئے کتنی نیکیاں ہیں حتی کہ اللہ تعالی اسے وفات دے دیتے ہیں اور جب آخری طواف کرتا ہے تو گناہوں سے ایسا پاک صاف ہوجاتا ہے جیسا کہ اس کی ماں نے اس کو گناہوں سے پاک جنم دیا تھا

اب وہ ترجمہ جو دارالاشاعت سے شائع ہوا ہے ، اس میں کوئی بتائے کہ یوم القیامہ کا ترجمہ کہاں ہے؟؟؟صاف ظاہر ہے کہ یہاں یوم القیامہ کا ترجمہ رہ گیا ہے ۔مترجم نے جب توفاہ اللہ کا ترجمہ اللہ تعالیٰ اسے وفات دے دیتے ہیں ، سے کر دیا تو ظاہر ہے کہ اب یو م القیامہ کے ترجمہ کی گنجائش ہی باقی کہاں رہ گئی ، اسی لیے مترجم نے اس کو نظر انداز کر دیا۔لیکن کیا یہ کوئی انوکھی بات ہے ، جتنی کتابیں ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کی جاتی ہیں ان میں اس طرح کی کوتاہیوں کا آنا ایک عام بات ہے خصوصا ہمارے وہاں اس طرح کی غلطیاں اور بھی زیادہ عام ہیں ۔ اب دارالاشاعت نے کنز العمال کی جلدوں کا ترجمہ مختلف مترجمین سے کروایا ہے ، مفتی احسان اللہ شائق صاحب نے ۴۶۶۲۴ ،پر مشتمل احادیث کے اس ترجمہ کی نظر ثانی و مقدمہ وغیرہ کا کام کیا ہے وہ اس کتاب کے مترجم نہیں ہیں،اس بڑے کام میں ان سے یقنا کوتاہی ہوئی ہے، لیکن حماقت کے فتویٰ کا اصل مدار تو اس بات پر ہے کہ کیا کوئی اس غلط ترجمہ کو درست سمجھتا ہے، جبکہ اصل عربی عبارت اس کی نظروں کے سامنے موجود ہے ، تو اصل احمق تو وہ ہے جو اس کو درست جانے۔مترجم نے ترجمہ میں جو غلطی کی ہے اگر اس کو حماقت کا نام دیا جائے تو اب اس یک سطری عربی عبارت کے غلط ترجمہ پر اڑنا مہا حماقت ہے ۔
اور ہاں نظر ثانی کا کام ظاہر ہے آپ تو کر نہیں سکتے کیوں کہ آپ کی نظریں جھوٹ کے ایسے عمیق سمندر میں غوطے لگا رہی ہیں جہاں سے چھٹکارا حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی سے پیشتر ممکن نظر نہیں آتا۔



لیکن اب ذرا ابن حسن کے ترجمے کو بھی دیکھ لیتے ہیں۔ جناب نے اس چیلنج کے جواب میں یہ حدیث پیش کرکے اپنی علمیت کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ جناب کیا آپ کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ چیلنج عربی زبان کے حوالے سے ہے اورمخاطب وہی علماء ہیں جو عربی زبان پر عبوررکھتے ہیںِ۔ توفی کے متعلق یہ ایک مسلمہ قاعدہ ہے کہ اگر خدا کے طرف سے یہ لفظ انسان یا کسی ذی روح کے لئے استعمال ہو تو اسکے پہلے معنی جو ذہن میں آتے ہیں وہ موت ہی کے ہوتےہیں۔ اگر کوئی دوسرے معنی کرنے ہوں تو لفظی قرائن کا ہونا ضروری ہے۔ یہ تو توفی کا پہلا اصول ہے۔ اگر آپ کو مرزا صاحب کا چیلنج قبول کرنا ہی تھا تو پہلے عربی کے قوائد ملاحظہ فرما لیتے۔ آپ نے تو ایسی ہی بات کی ہے جیسے ایک باکسرسب کو چیلنج دے کہ کوئی مجھے شکست نہیں دے سکتا۔ اور کوئی دیہاتی جاٹ جاکر اسے اٹھاکر زمین پر پٹخ دے اور کہے کہ لیں جناب شکست دے دی۔ ظاہر ہے ہر شخص اسے پاگل ہی کہے گا۔ چیلنج میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ کھیل کے قوائد کو فالو کرنا ضروری ہے۔ آپ نے یہی حرکت کی کہ عربی کے قوائد کو تہس نہس کرکے اس حدیث کو پیش کردیا۔ کیا جناب کو یہاں یوم القیامۃ کا قرینہ نظر نہیں آرہا۔ قیامت کے دن وفات دینے کے کیا معنی ہیں۔ آپ ذرا یوم القیامہ کے الفاظ ہٹا کر کوئی اورمعنی کرکے تو دکھائیں۔ یہ تو میں نے آپ کے ترجمے کو درست مانتے ہوئے وضاحت کی تھی لیکن آپ اسی ترجمہ پرنظرڈالیں جو میں اوپر پیش کرچکا ہوں۔ یہ علمی باتیں آپ کی سمجھ میں نہیں آئیں گی۔ ایک بار پھر درج کردیتا ہوں۔

"جب رمی جمار (شیطان کو کنکریاں مارتا ہے) کرتا ہے تو کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے لئے کتنی نیکیاں ہیں حتی کہ اللہ تعالی اسے وفات دے دیتے ہیں اور جب آخری طواف کرتا ہے تو گناہوں سے ایسا پاک صاف ہوجاتا ہے جیسا کہ اس کی ماں نے اس کو گناہوں سے پاک جنم دیا تھا" (اردو ترجمہ کنزالعمال، شائع کردہ دالاشاعت کراچی)

پہلے علماء سے ہی کچھ سبق سیکھ لیتے!!
ابن حسن صاحب چیلنج قبول کرنے سے پہلے اس بات پر ہی نظر ڈال لیتے کہ گذشتہ سو سال میں کسی بڑے سے بڑے عالم دین کو یہ چیلنج قبول کرنے کا حوصلہ نہیں ہوا تو آخر کیا بات تھی؟ مرزا صاحب کے وقت میں تو آپ سے بھی زیادہ عالم فاضل علماء موجود تھے لیکن ان میں سے کسی کو جرات نہیں ہوئی کہ اس حدیث کو پیش کرکے مرزا صاحب کو شکست دے دیتا۔ مولوی محمد حسین بٹالوی، مولانا ثناءاللہ امرتسری اور سب سے بڑھ کراس وقت کے تمام علماء ہند کے شیخ الامت مولوی نذیرحسین دہلوی تک خاموش رہ گئے!! اور تو اورجن کی مادری زبان عربی ہے، تمام عالم عرب خاموش رہ گیا۔ کیا وہ علم میں آپ سے کم تھے؟؟ نہیں جناب انہیں معلوم تھا کہ چیلنج کیا ہے۔ لیکن آج آپ سو سال بعد آکر یہ فرما رہے ہیں کہ وہ سب تو بدھو تھے جن کی نظر اس حدیث پر نہیں گئی۔ میں ہوں آج کا شمس العلماء جس کے سامنے مولوی نذیرحسین دہلوی جیسے علماء بھی پانی بھرتے ہیںِ!!! اورتمام عالم عرب کو تو اتنی عربی آتی ہی نہیں جتنی مجھے آتی ہے!!!

اور پھر وہی گھسا پٹا عذر تراشا ہے کہ یہ قاعدہ کہاں لکھا ہوا ہے۔ جناب اوپر لغات سے ثابت کیا گیا تھا۔ اب یہاں قرآن سے ایک آیت پیش کردیتا ہوں۔

اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَ الَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا١ۚ فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَ يُرْسِلُ الْاُخْرٰۤى اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى١ؕ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ۠۰۰۴۲

"اللہ جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور جو مری نہیں ہوتیں (انہیں) ان کی نیند کی حالت میں (قبض کرتا ہے)۔ پس جس کے لئے موت کا فیصلہ کردیتا ہے اسے روک رکھتا ہے اور دوسری کو ایک معین مدت تک کے لئے (واپس) بھیج دیتا ہے۔ یقینآ اس میں فکر کرنے والوں کے لئے بہت سے نشانات ہیں۔" (الزمر 42)

یہاں اللہ تعالی نے واضع طور پر خود ہی وضاحت کردی ہے کہ جب اللہ کسی ذی روح کی توفی کرے گا تو موت ہی مراد ہوگی سوائے اسکے کہ نیند کا قرینہ موجود ہو۔ اوراللہ تعالی نے اس آیت میں پیش کردہ قاعدہ کو پورے قرآن میں ہر جگہ استعمال کیا ہے۔ کسی ایک جگہ بھی اسکے خلاف مثال نہیں۔ یہاں تک کہ احادیث میں بھی اسکے خلاف مثال نہیں اور تمام عرب لٹریچر نظم و نثرمیں اسکے خلاف کوئی مثال نہیں۔

لیکن پھر بھی آپ کہتے ہیں کہ نہیں کہیں اور لکھا ہوا دکھاؤ تو اوپر پہلے لغت سے بھی ثابت کرچکا ہوں اب دہرانے کا فائدہ نہیں لیکن پھربھی ایک لغت سے دکھا دیتا ہوں ورنہ ہر لغت یہی بیان کررہی ہے۔

توفاہ اللہ قبض روحہ (قاموس جلد 4 صفحہ 403)
یعنی اللہ تعالی نے اس ذی روح کی توفی کی۔ یعنی اس کی روح قبض کرلی۔
اس جگہ لفظ توفی باب تفعل سے ہے۔ اللہ فاعل مذکور ہے اور ہ کی ضمیر بھی جو ذی روح کی طرف پھرتی ہے۔ اور اسکے معنی قبض روح کے کئے گئے ہیںِ۔

ایک کے بعد ایک ہرلغٍت یہی قاعدہ بیان کررہی ہے، سامنے لکھا ہوا نظر آرہا ہے لیکن آپ کہتے ہیں کہ دکھاؤ کہاں لکھا ہوا ہے؟؟؟ ایسے میں بندہ کیا کہہ سکتا ہے کہ جب سامنے رکھے ہوئے حقائق سے بھی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے کہا جائے کہ نظر ہی نہیں آرہا کہاں لکھا ہے؟؟ رفع پر بھی آپ کو لسان العرب سے قاعدہ دکھایا تھا کہ انسان کا رفع جب خدا کرے تو درجات کی بلندی مراد ہوتی ہے لیکن وہاں بھی آپ نے یہی بہانہ بنایا۔ آپ کو تو لاکھوں یہودی بھی نظر نہیں آئے اوریہی کہہ کر فارغ ہوگئے کہ کس مستند کتاب میں لکھا ہے کہ یہودیوں کا یہ مذہب ہے؟ِ؟

۱۔ یہاں کس کے بھانڈے، برتن ، پھوٹ چکے ہیں ، کس کا کھڑا کیا ہوا جھوٹ کا گھر ونداگر رہا ہے، کس کا پندار خاک میں مل رہا ہے سب ہی دیکھ رہے ہیں کچھ کہنے کی مجھے حاجت نہیں ہے۔

۲۔ لغت میں سے ایک چھوٹی سی عبارت پیش کر دینا ، کسی لفظ کے ایک معنی پیش کر دینا اور یہ چلا نا کہ تمام عرب لٹریچر سے ہم نے ثبوت پیش کر دیے، ہم نے قاعدہ پیش کر دیا، وہ عمل ہے جس سے گوئبلز (Joseph Goebbels) کی روح بھی جھوم اٹھی ہو گی۔پروپیگنڈا اگر اس کا نام نہیں تو پھر کس بلا کا نام ہے؟

۳۔ اگر مرزا و رانا کے پیش کردہ اختراعی قاعدے پر غور کیا جائے تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ خود مرزا کو بھی معلوم تھا کہ توفی کے حقیقی معنی وفات دینے کے نہیں ہیں ، ورنہ وہ سیدھا سیدھا یہ کہ دیتا کہ میرا چیلنج یہ ہے کہ توفی کے معنی صرف موت دینے کے ہیں اگر اس کے سوا کچھ اور معنی ہیں تو لغت سے دکھا دو۔ لیکن نہیں اس کو بھی پتہ تھا کہ توفی کے صرف مجازی معنی موت کے ہیں ، حقیقی معنی کچھ اور ہیں ، لہذا اس نے یہ خود ساختہ شرائط بیان کیں۔

۴۔ رانا نے جو قاموس سے حوالہ درج کیا ہے
توفاہ اللہ قبض روحہ (قاموس جلد 4 صفحہ 403)
یعنی اللہ تعالی نے اس ذی روح کی توفی کی۔ یعنی اس کی روح قبض کرلی۔

یہاں صاحب قاموس نے توفی کے ایک معنی بیان کیے ہیں ، یعنی توفی کے مجازی معنی جو کہ موت کہ بھی ہیں ،اس سے کسی کو انکار نہیں لیکن کیا صاحب قاموس نے اس عبارت کے آگے پیچھے ، اوپر نیچے کہیں یہ لکھا ہے ، بیان کیا ہے وہ قاعدہ جو رانا بیان کرتے ہیں ، کہیں صاحب قاموس نے یہ بات کہی ہے کہ یہ عربی زبان کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ توفاہ اللہ کے معنی صرف و صرف قبض روح سے کیے جائیں گئے ؟؟؟؟ لغت میں جہاں توفی کے دیگر معنی تحریر کیے گے ہیں وہیں ایک معنی موت کے ہیں جو انہوں نے اس جگہ بیان کر دیئے ہیں۔ اس میں کوئی قاعدہ کہاں سے آگیا؟؟

۵۔اگر یہ عربی کا اتنا ہی مسلمہ قاعدہ ہے ، جس کے خلاف آج تک کوئی نہیں گیا ، تو جہاں جہاں توفاہ اللہ کا لفظ موت کے معنی میں استعمال نہیں کیا گیا ، جیسا کہ قرآن کی اس آیت میں جو رانا نے اوپر بیان کی ہے(جہاں توفی کے معنی نیند کے ہیں)، اس حدیث میں جو میں نے لکھی تھی(جہاں وفاہ کے معنی پورا اجر دینے کے ہیں)، تو کیا کسی مفسر ، شارح حدیث یا نحوی نے اشارتا بھی یہ بات کہی کہ جناب عربی کا قاعدہ تو یہی ہے کہ توفاہ اللہ کے معنی صرف موت کے ہوتے ہیں لیکن اس قرینے یا اس وجہ سے مجبورا عربی کے اس عظیم قاعدے کی ہمیں یہاں خلاف ورزی کرنی پڑ رہی ہے؟؟؟؟؟
مجھے رانا کی مجبوری و بے کسی کاعلم ہے کہ وہ صریح الفاظ میں یہ قاعدہ تو نہیں دکھا سکتے چلیں میرا یہی چیلنج پورا کر دیں کہ دکھائیں کسی تفسیر سے ، کلام عرب سے، کسی حدیث سے ، شرح حدیث سے یہ بات ، اشارتا ہی دکھادیں ، کسی لغت عرب کے ماہر نے ، کسی مفسر نے، کسی محدث نے، کسی شاعر نے ، کسی ماہر صرف و نحو نے، غرض کسی بھی صاحب علم نے یہ بات کہی ہو کہا ہاں عربی کا قاعدہ تو یہی تھا کہ جہاں کہیں توفاہ اللہ کے الفاظ آئیں وہاں مراد صرف موت ہوتی ہے لیکں اس وجہ سے ، اس قرینے کی وجہ سے فلاں فلاں جگہ (جس کی اوپر میں نے نشاندہی کی ہے) اس قاعدہ کا اطلاق نہیں کیا گیا۔ رانا تا قیامت نہیں دکھا سکتے اور یہی رانا کے اس قاعدے کا من گھڑت ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔

۶۔ رانا مزید گل افشانی کرتے ہیں

چیلنج میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ کھیل کے قوائد کو فالو کرنا ضروری ہے۔ آپ نے یہی حرکت کی کہ عربی کے قوائد کو تہس نہس کرکے اس حدیث کو پیش کردیا۔

رانا کو اندازہ ہے کہ وہ کیا کہ رہے ہیں ۔رانا کے چیلنج کے جواب میں ایک حدیث میں نے پیش کی ہے یہ میرا کلام نہیں بلکہ افصح العرب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول ہے ، جن کے اوپر قرآن نازل ہوا اور نہ ان جیسا کوئی فصیح و بلیغ تھا اور نہ کوئی ہو گا۔رانا نے اس جگہ اس حدیث کی صاف توہین کی ہے۔عربی کے قواعد تو ایک طرف رہے رانا عربی کی ایک عبارت کا ترجمہ کرنے کے بھی قابل نہیں ہیں ، ترجمہ تو ایک طرف رہا ان کی قابلیت تو یہ ہے عربی کی عبارت اپنی پاکٹ بک سے یہ صحیح طور پر نقل بھی نہیں کر سکتے، حوالہ دیتے ہیں قاموس و تاج العروس کا، زندگی میں کبھی یہ لغات رانا نے دیکھی بھی ہیں؟ اور کھیل کے قواعد کی خوب کہی اگر کوئی پاگل کل کلاں کو کر کٹ کا یہ قاعدہ از خود بنا لیے کہ کیچ لینے کی صورت میں چھکا مانا جائے گا تو کیا اس احمق کا یہ قاعدہ دنیا تسلیم کر لے گی؟؟؟؟ تمام قاعدے قوانین وہی معتبر ہو تے ہیں جو متعلقہ ماہرین وضع کریں اور جن پر عملدارمد پوری دنیا کرے ( اور زبان و ادب کے معاملے تو اور بھی زیادہ پیچیدہ و نازک ہوتے ہیں) از خود اگر کوئی قاعدہ گھڑ لیا جائے تو اس کو تسلیم کرنے والا کوئی نہیں ہو گا ۔ساتھ ساتھ رانا کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ علماءاسلام ایک لمبے عرصے سے یہی جوابات ان قادیانیوں کو دیتے چلے آئے ہیں اور یہی جوابات میں نے ان کتابوں سے یہاں پیش کر دیئے ہیں اب رانا کے اندر کچھ حق کو پالینے کی جستجو ہوتی تو وہ ان کتابوں کو پڑھتے ۔ علما نے ان کے نام نہاد چیلنجز کا جواب دسیوں دفعہ دیا ہے لیکن ان کو پڑھے بغیر رانا یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ یہ جوابات اور مثالیں پہلی دفعہ بس ابن حسن ہی پیش کر رہا ہے۔ جناب ذرا اپنی بند آنکھوں کو کھولیئے اسلام کا مطالعہ قادیانی ذرائع کے علاوہ بھی کیجئے حقیقت آپ پر واضح ہوجائے گی۔

اب میں یہاں حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب کی معرکۃ الارا تصنیف سیف چشتیائی سے ایک پیرا نقل کر رہا ہوں اس جگہ حضرت پیر صاحب نے مرزا قادیانی کے اس دعوے کے چھیتڑے اڑا دیئے ہیں

"آپ ہی توفی اللہ عیسیٰ کو جو حکایت ہے عیسیٰ کی توفیٰ قبل النزول سے، کسی حدیث یا تفسیر یا قول صحابی یا لغات معتبرہ عرب سے نکال دیویں کہ فقرہ مذکورہ میں توفیٰ بمعنی موت کے ہے۔ ہم نے توفی اللہ عیسیٰ قبل النزول کے معنی حسب تصریح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و اجماع صحابہ وغیرہ کے قبض جسمی کاثابت کر دیا ہے(اور یہ ذہن میں رہے کہ مرزا قادیانی اس بات کا دعویدار ہے کہ حضرت عیسیٰ کی موت کا نظریہ وہ ہے جس کی اطلاع مرزا قادیانی سے پہلے اس امت کسی کو نہیں تھی ، یہاں تک کہ صحابہ کرام کو بھی نہیں۔ابن حسن)جس پر لغت بھی شاہد ہے کیونکہ توفیٰ بمعنی قبض کی تصریح لغت میں موجود ہے اور خصوصیت قید جسمی کی خصوص مقام سے مستفاد ہے۔اور اسی معنی کی طرف اما م فخرالدین رازی نے صحت کی نسبت کی ہے۔ انی منوفیک التوفی اخذ الشئی وافیا الیٰ قولہ رفع بتمامہ الی السماء بروحہ و بجسدہ۔ پھر اس کے بعد لکھا ہے وھو جنس تحتہ انواع بعضھابالموت وبعضھا بالاصعاد الی السماء(تفسیر کبیر) و قال ابن جریر توفیہ ہو رفعہ (ابن کثیر) اور لغت میں تصریح کی گئی کہ توفی کا اطلاق میت پر بعد تحقیق موت مجاز ہوتا ہے نہ حقیقت ۔چنانچہ تاج العروس میں ہے۔ و من المجاز ادرکتہ الوفات ای الموت و المنیۃ و توفی فلان اذا مات و توفاہ اللہ عز و جل اذا قبض نفسہ و فی الصحاح روحہ۔ اس عبارت میں توفاہ اللہ کے محاورہ کو معنی موت میں مجاز لکھا ہے(اب یہاں قادیانیوں کا دعوہ ایک بار پھر چکنا چور ہو جاتا ہے، تاج العروس میں اس جگہ صاف لکھا ہے کہ توفاہ اللہ کے معنی قبض نفس یا روح کے مجازا ٍٍہیں ۔ابن حسن)جس سے ثابت ہوا کہ فلما توفیتنی میں معنے موت کا لینا مجاز ہے۔ اور چونکہ احادیث نزول و اجماع کی رو سے ارادہ معنی حقیقی یعنی قبض کا متعین اور مجازی یعنی موت کا بغیر تقدیم و تاخیر متوفیک ورافعک میں ممتنع ہے تو قرآن اور حدیث اور اقوال صحابہ و تابعین وغیرہم لغت سے ثابت ہواکہ توفی اللہ فلانا کا محاورہ نفس قبض میں بھی مستعمل ہوتا ہے۔ مجمع البحار میں ہے وقد یکون الوفاۃ قبضا لیس بموت چنانچہ یہی سورہ انعام اور زمر کی آیات سے مراد ہے۔ اب ہم زور سے کہ سکتے ہیں کہ توفی کا استعمال حقیقۃ نفس قبض میں ہے ۔اور موت اور نیند میں مجازا۔تو ارادہ موت یا نیند بغیر قرینہ صارفہ کے جائز نہ ہو گا ۔۔۔(ص ۱۸۷، ۱۸۸)

۷۔ یہاں میں حضرت پیر صاحب کی ایک بات (احادیث متواترہ اور اجماع سے بڑھ کر کون سا قرینہ ہو گا۔سیف ص ۱۸۷)کو بنیاد بنا کر ایک بار پھر سب کے اوپر یہ واضح کر دوں کہ مرزا غلام قادیانی کا یہ دعوہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کا عقیدہ وہ عقیدہ ہے جس کی اطلاع مرزا قادیانی کے علاوہ اور امت محمدیہ میں کسی کو نہیں یہاں تک کہ حضرات صحابہ کرام کو بھی نہیں ، اس کے برخلاف قرآن مقدس، احادیث متواترہ، صحابہ، تابعین و تبع تابعین، مفسرین، ائمہ ، اور دیگر اکابرین امت محمدیہ کا پچھلے چودہ سو سال میں یہ عقیدہ چلا آرہا ہے جس پر اس امت کا اجماع بھی ہے ، کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت نہیں ہوئی اور قرب قیامت ان کا نزول ایک بار پھر آسمان سے ہو گا۔ ان اکابرین کے اس عقیدے کی تفصیل اور ان کے سیکٹروں اقوال بسلسلہ حیات حضرت عیسیٰ علیہ السلام ، حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی قدس سرہ العزیز نے اپنی زبردست کتاب تحفہ قادیانیت کی جلد سوم میں بیان کر دی ہے یہ کتا ب یہاں سے آپ حضرات ڈاون لوڈ کر کے پڑھ سکتے ہیں اور امت محمدیہ کے اس اجماع کی تفصیل دیکھ سکتے ہیں ۔ نیز ختم نبوت کی اسی ویب سائٹ(http://www.khatm-e-nubuwwat.org/Books/book.htm) سے سیف چشتائی، احتساب قادیانیت جلد دوم، قادیانی شبہات کے جوابات جلد دوم، وغیرہ کا مطالعہ بھی حیات و نزول حضرت عیسیٰ کے بارے میں بے حد مفید ثابت ہو گا۔
 
اب یہاں میں تین اور احادیث بیان کرنا چاہوں گا جن میں نزول من السماء کے الفاظ ملتے ہیں اور جو حضرت عیسیٰ کی حیات و نزول قرب قیامت کے موقف کے موید ہیں

[ARABIC]۱۔ عن أبى هريرة قال سمعت أبا القاسم الصادق المصدوق يقول یخرج اعور الدجال المسیح الضلالۃ قبل المشرو۔۔ ...ثم ينزل عيسى بن مريم عليه وسلم من السماء ۔۔۔۔[/ARABIC]۔۔۔ (یہ ایک قدرے لمبی حدیث کاکچھ حصہ ،جس سے یہ بات ثابت ہو جائے کہ آسمان سے نازل ہونے کے الفاظ دیگر احادیث میں بھی ہیں)

(کانا دجال مسیح الضالہ ، مشرق سے نکلے گا۔۔۔۔پھر حضرت عیسیٰ بن مریم آسمان سے نازل ہوں گے)
رواہ البزار ورجالہ رجال الصحیح غیر علی بن المنذر و ھو ثقہ
امام علی بن ابی بکر ہیثمی کہتے ہیں کہ اس کو بزار نے روایت کیا ہے ور اس کے سب رجال صحیح بخاری کے ہیں سوائے علی بن منذر کہ اور وہ بھی ثقہ ہیں (مجمع الزوائد ج ۷ حدیث ۱۲۵۴۳)

۲۔ تفسیر در منثور میں المائدہ آیت ۱۱۸ کے ذیل میں سیوطی نے حضرت ابن عباس سے یہ روایت تفسیر میں نقل کی ہے
[ARABIC]وأخرج أبو الشيخ عن ابن عباس { إن تعذبهم فإنهم عبادك } يقول : عبيدك قد استوجبوا العذاب بمقالتهم { وإن تغفر لهم } أي من تركت منهم ومد في عمره حتى أهبط من السماء إلى الأرض يقتل الدجال ، فنزلوا عن مقالتهم ووحدوك ، وأقروا إنا عبيد { وإن تغفر لهم } حيث رجعوا عن مقالتهم { فإنك أنت العزيز الحكيم { « [/ARABIC]
(ہبط۔ہبوطا ۔کے معنی لغت میں نیچے اترنے یا آنے کے ہیں)
"تیرے بندے اپنی گفتگو کی وجہ سے عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں(اور جو توبخشنا چاہے) اس کی عمر کو لمبا کر دیا جائے یہاں تک کہ آسمان سے زمین کی طرف اسے (یعنی حضرت عیسیٰ کو) اتارا جائے ۔وہ دجال کو قتل کرے ، پھر وہ اپنی بات کو چھوڑیں اور تیری وحدانیت کی گواہی دیں اور یہ اقرار کریں کہ ہم بندے ہیں جب وہ اپنی بات سے رجوع کرلیں تو تو انہیں بخش دے بے شک تو غالب و حکمت والا ہے۔"

[ARABIC]۳۔ وذكر الثعلبي والزمخشري وغيرهما من حديث أبي هريرة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : "ينزل عيسى بن مريم عليه السلام من السماء على ثنية من الأرض المقدسة يقال لها أفيق[/ARABIC]۔۔(الجامع لاحكام القران ،علامہ قرطبی، سورہ زخرف آیت ۶۱، ۶۲)
ترجمہ: حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے ارض مقدس کے ایک ٹیلے افیق پر نازل ہوں گئے ۔

ان کے علاوہ امام بیہقی اور کنز العمال کی دو احادیث میں پہلے ہی پیش کر چکا ہوں۔
 
جواب پوسٹ نمبر ۱۲۱ اور ۱۲۹

رانا صاحب نے یہاں ان تضادات کو دور کرنے کی کوشش کی ہے جو مرزا قادیانی نے حضرت عیسیٰ کی قبر کے حوالے سے متعدد جگہ کیے ہیں اور اس سلسلے میں کچھ اور مثالیں انبیا کرام کے حوالے سے نقل کی ہیں اب یہاں میں تفصیل میں جائے بغیر چند باتیں اختصار سے کروں گا۔

۱۔ رانا نے جتنی مثالیں نقل کی ہیں وہ دو قسم کی ہیں یا تو ان کا تعلق اس وقت سے ہے جب کہ دین کی تکمیل ہو رہی تھی اور وحی کا نزول جاری تھا۔ ایک کام اللہ کے حکم سے کیا گیا جیسا کہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کہ نماز پڑھنا پھر اللہ کے ہی حکم سے منہ کعبہ شریف کی طرف کر لیا گیا۔دوسری کا تعلق انبیا کے علم سے ہے کہ حضرات انبیا کے علم میں کوئی بات نہ تھی اب وہ یا تو اللہ سے دریافت کی گئی اللہ نے بتا دی یا پھر اللہ کے حکم کے پیش نظر انبیا نے اپنے اصحاب سے مشورہ کر لیا اور وہ کام انجام دے لیا گیا۔
یہ باتیں بالکل معمول کی ہیں تاہم ایسا کبھی نہیں ہوا کہ عقائد کی کوئی بات انبیاء نے اپنی جانب سے اٹکل پچو سے کہ دی ہو پھر اللہ نے اس کی تصحیح کی ہو کیونکہ انبیا کی شان سے یہ بات بعید ہے وہ کوئی بھی بات اپنی طرف سے گھڑ کر پیش کریں اور نہ ہی ایسا ہوا کہ اللہ نے وحی کے ذریعے کوئی بات صریحا ارشاد فرما دی ہو اور انبیا ہی وحی کو سمجھنے سے قاصر رہے ہوں (نعوذ باللہ)
اب ان مثالوں کا جو کہ رانا نے دی ہیں موازنہ ہم مرزا کے دعوہ مسیحت سے کرتے ہیں ۔

مرزا قادیانی کا دعوہ یہ تھا کہ وہ مسیح ہے اسی دعوہ کی بنیاد پر اس نے اپنی عمارت کھڑی کی اسی کی بنیاد پر اس نے تمام تعلیمات استوار کیں اسی کی بنیاد پر بعد ازاں ایک مستقل نبی ہونے کا دعوہ کردیا۔ تاہم اس دعوہ مسیحت میں ایک بڑا عبرتناک پہلو بھی پوشیدہ ہے جو اب میں بتانے جارہا ہوں۔غو رسے پڑھیئے

مرزا نے اپنی تصینف اعجاز احمدی (طبع نومبر ۱۹۰۲)میں لکھا ہے کہ

" میں نے بوجہ اس ذہول کے جو میرے دل میں ڈالا گیا حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کا عقیدہ براہین احمدیہ میں لکھ دیا ۔پس میری کمال سادگی اور ذہول پر یہ دلیل ہےکہ وحی مندرجہ براہین احمدیہ تو مجھےمسیح موعود بناتی تھی مگر میں نے اس رسمی عقیدے کو براہین میں لکھ دیا ۔ میں خود تعجب کرتا ہوں کہ میں نے باوجود کھلی کھلی وحی کے جو براہین احمدیہ میں مجھے مسیح موعود بناتی تھی کیونکر اس کتاب میں یہ رسمی عقیدہ لکھ دیا۔
پھر میں قریبا بارہ برس تک جو ایک زمانہ دراز ہےبالکل اس سے بے خبر اور غافل رہا کہ خدا نے مجھے بڑی شد ومدسے براہین میں مسیح موعود قرار دیا ہےاور میں حضرت عیسیٰ کی آمد د ثانی کے رسمی عقیدہ پر جما رہا ۔ جب بارہ برس گذر گئے تب و وقت آ گیا کہ میرے پر اصل حقیقت کھول دی جائے تب تواتر سے اس بارہ میں الہامات شروع ہوئے کہ تو ہی مسیح موعود ہے۔"(ص ۹)

اب اس عبرتناک عبارت کو ذرا غور سے دوبارہ پڑھیے، رانا صاحب دوبارہ پڑھیے

اس عبارت کے بڑے بھیانک نتائج نکلتے ہیں

یعنی بارہ سالوں تک ایک الہام مرزا پر ہوتا رہا (۱۸۸۰ سے ۱۸۹۲ تک)لیکن ۱۲ سالوں تک مرزا کو خدا کا الہام سمجھ میں نہیں آیا حالانکہ مرزا کے بقول خدا بڑی شد و مد سے اس کو یہ بتا تا رہا کہ تم ہی مسیح ہو ، کھلی کھلی وحی کی جارہی تھی مگر اس جھوٹے نبی کو خدا کی بات سمجھ میں نہیں آئی بلکہ وہ کہتا ہے اس کے برعکس میں نے ایک رسمی عقیدہ(حیات حضرت عیسیٰ کا) براہین میں لکھ دیا ۔کیا اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبر کتب میں گھڑ کر رسمی عقائد بیان کرتے ہیں؟؟ کیا اللہ ۱۲ سالوں تک متواتر جان بوجھ کر اپنے انبیا کو نعوذ باللہ غلط عقائد پر جما رہنے دیتا ہے؟؟ کیا انبیا اتنے لمبے عرصہ تک اپنی ناسمجھی کی بنا پر خدا کے دین و مذہب کی غلط تبلیغ کرسکتے ہیں ؟؟؟ کیا یہ خدا کی بات میں ایک تضاد پیش کرنا نہیں کہ ایک طرف وہ مرزا کہتا ہے کہ خدا کھلی کھلی وحی بھیجتا رہا کہ تم ہی مسیح ہو دوسری طرف خدا نے خود ہی مرزا کے ذہن پر پردہ ڈال دیا کہ وہ اس کی وحی نہ سمجھ سکے؟؟ نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ کیا جناب رانا کے پاس ان باتوں کا کوئی جواب ہے؟؟؟

اب ہم مرزا کے دعوہ نبوت کا تجزیہ ایک بار پھر کرتے ہیں۔

مرزا کی پیدائش بقول خود اس کے ۱۸۳۹ یا ۱۸۴۰ کی ہے اور اس کی موت ۱۹۰۸ میں ہوئی ۶۸، ۶۹ سال کی عمر میں ہوئی۔ ۱۸۸۰ میں براہین احمدیہ لکھی گئی دعوہ تھا کہ حضرت عیسیٰ زندہ ہیں ۔۱۸۹۱ (یا ۱۸۹۰ یا ۱۸۹۲ ؟ اس گنجلک دعوہ کی کچھ تفصیل اسی پوسٹ کے آخر میں پڑھیئے) تک مرزا اس دعوہ پر قائم رہا ۔اس وقت مرزا کی عمر ۵۱، ۵۲ سال تھی گویا اپنی زندگی کے ۵۲ سالوں تک تو وہ ویسے ہی حیات عیسیٰ کا قائل تھا۔۱۸۹۱ میں دعوہ مسیحیت کیا ۔ ۱۸۹۲ میں اس سے انکاری ہو گیا ( مجموعہ اشتہارات ، اشتہار ۳ فروری ۱۸۹۲) یعنی ایک بار پھر سابقہ روش پر لوٹ گیا اس وقت اس کی عمر ۵۳ سال ہو چکی تھی۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہاں تو ۱۲ سال تک الہام ہی سمجھ میں نہ آیا اور جب آیا تو خدا کی نافرمانی کرتا ہو ا ایک بار پھر دعوہ مسیحیت سے منکر ہو گیا؟؟؟؟؟؟؟ یہ کیسا نبی ہے جو نہ تو خدا کے الہام کو سمجھتا ہے اور نہ ہی خدا کی فرمانبرداری کرتا ہے؟؟؟


پھر یہی معاملہ حضرت عیسیٰ کی قبر کے بارے میں بھی ہے مختلف باتیں اتنی تواتر سے کی گئیں کہ عقل انسانی اس مکر پر دنگ ہو جاتی ہے۔ایک نظر ان باتوں پر ڈالتے ہیں جو مرزا نے حضرت عیسیٰ کی وفات و قبر کےحوالےسے کی ہیں


۱۔مرزا لکھتا ہے کہ حضرت عیسیٰ نے ۱۲۰ برس کی عمر پائ (اصل الفاظ ہیں کہ اس واقعہ (یعنی واقعہ صلیب) کے بعد ۸۷ برس زندہ رہے گویا ۸۷ + ۳۳ ، ۱۲۰( ست بچن ص ۱۷۶)
۲۔ حضرت عیسیٰ نے ۱۲۵ برس کی عمر میں انتقال کیا (تریاق القلوب ص ۳۷۱)
۳۔ حضرت عیسیٰ ۱۵۳ برس کی عمر میں فوت ہوئے(یہاں یہ لکھا ہوا ہے کہ حضرت عیسیٰ نے واقعہ صلیب کے بعد ۱۲۰ سال کی عمر پائی اب صلیب کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب حضرت عیسیٰ کی عمر ۳۳ سال کے قریب تھی گو یا حضرت عیسیٰ کا انتقال مرزا کے مطابق ۱۵۳ سال کی عمر میں ہوا۔ (تذکرۃ الشہادتیں ص ۲۱)

۴۔اس طرح حضرت عیسیٰ کی قبر کے متعلق لکھا کہ یہ تو سچ ہے کہ مسیح اپنے وطن گلیل میں جا کر فوت ہو گیا۔ (ازالہ اوہام دوئم ص ۴۷۳)
۵۔ پھر لکھا کہ مسیح کی قبر بیت المقدس ، طرابلس یا شام میں ہے۔( اتمام الحجہ ص ۲۴ )
۶۔ پھر لکھا کہ مسیح کی قبر کشمیر ، سری نگر محلہ خان یار میں ہے ( کشتی نوح ص ۱۸)

قادیانی صرف اس آخری بات کو درست مانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کی قبر کشمیر میں ہے گویا کہ اب یہ بات فائنل ہے کہ مرزا کو الہام ہو گیا تھا کہ حضرت عیسیٰ کی قبر کشمیر میں ہے۔ ٹھیک ہے نا۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جس سال مرزا کی وفات ہوئی یعنی ۱۹۰۸ میں اسی سال
ایک اور کتاب مرزا کی چھپی نام ہے اس کا چشمہ معرفت۔ اب اس کتاب کے ص ۲۶۱ کے حاشیے پر مرزا لکھتا ہے کہ

کتاب تاریخ طبری کے ص ۷۳۹ میں ایک بزرگ کی روایت سے حضرت عیسیٰ کی قبر کا بھی حوالہ دیا ہے جو ایک جگہ دیکھی گئی جس پر یہ لکھا ہوا تھا کہ یہ عیسیٰ کی قبر ہے ۔ یہ قصہ ابن جریر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے جو نہایت معتبر اور ائمہ حدیث میں سے ہے۔

اب یہاں یہی بات عیاں ہے نا کہ مرزا نے طبری کے بیان کو درست سمجھا ہے اور حضرت عیسیٰ کی قبر کا جو حوالہ طبری میں ہے اس کو صحیح جانا ہے۔ اور اس کی مزید توثیق اس بات سے کی ہے کہ طبری نہایت معتبر اور ائمہ حدیث میں سے ہے۔ اب جناب جب ہم طبری کی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو اس میں ایک روایت حضرت عیسیٰ کی قبر (اس پر ہم بات میں بات کریں گئے کہ اس روایت اور طبری کا حقیقی موقف کیا ہے) کی موجود ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس روایت میں حضرت عیسیٰ کی قبر مدینہ کے قریب ایک پہاڑ پر بتائی گئی ہےَ۔

عقل دنگ ہے کہ یہ کیسا نبی ہے جس کو الہام کے ذریعے بتا دیا گیا کہ حضرت عیسیٰ کی قبر کشمیر میں ہے لیکن یہ اپنی وفات سے چند روز قبل یہ کہتا ہے، اس بات کو سند بناتا ہے کہ نہیں حضرت عیسیٰ کی قبر تو مدینہ کے قریب ہے۔ الہام کو رد کر دیتاہے اور طبری کو سند بنا لیتا ہےَ؟؟؟؟

کیا یہاں بھی مرزا خدا کی بات کو نہیں سمجھ سکا، جب یہی بات تحقیق کے بعد ،ا لہام کے بعد ، جستجو کے بعد تما م پاپڑ بیل لینے کے بعد فائنل ہو گئی تھی کہ حضرت عیسیٰ کی قبر کشمیر میں ہے تو یہ اپنی موت سے چند ایام قبل طبری کو سند بنا لینے کی کیا ضرورت آگئی۔ جو کہ حضرت عیسیٰ کی قبر کو مدینہ میں بتاتا ہے اور مرزا اس بات پر آمنا و صدقنا پڑھ دیتا ہے؟؟۔
خامہ انگشت بداندان اسے کیا لکھیئے؟؟؟؟

اب حضرت عیسیٰ کی قبر کہاں ہے ،گلیل میں ، طرابلس یا شام میں ، کشمیر میں یا مدنیہ میں؟؟؟ آخر مرزا کو صحیح رپورٹ اپنے الہامات سے ملی کب؟؟۱۹۰۸ میں وفات ہوگئی اسی سال اس بات پر اعتماد کہ طبری صحیح کہتا ہے اب طبری صحیح ہے تو مرزا ئی الہام اور کشمیر والی فائنل بات غلط اور اگر کشمیر والا الہام قادیانی درست مانیں تو پھر مرزا نبی نہیں ہو سکتا کیونکہ اگر وہ اپنےکشمیر والے الہام پر خود ہی یقین نہیں کرتا اور طبری پر اعتماد کرتا ہے تو دوسروں کو کیا ضرورت ہے کہ وہ ان مرزائی الہامات کو درست مانیں ؟؟؟؟

اب مزید غور کیجئے

ست بچن طبع ۱۸۹۵ کے مطابق حضرت عیسیٰ کی عمر ۱۲۰ سال
تریاق القلوب طبع ۱۹۰۲ کے مطابق حضرت عیسیٰ کی عمر ۱۲۵ سال
تذکرۃ الشہادتین طبع ۱۹۰۳کے مطابق حضرت عیسیٰ کی عمر ۱۵۳ سال

اب اگر الہام کے ذریعے مرزا کو حضرت عیسیٰ کی عمر بتائی گئی تو اس لحاظ سے آخری ا لہام تو ۱۵۳ سال کا ہے اب رانا بتائیں کہ وہ ۱۲۰ سال کے الہام کو ہی صحیح کیوں مانتے ہیں ۱۵۳ سال کی عمر کو صحیح کیوں نہیں مانتے۔

اب معاملہ عجیب ہو گیا ہے، نہ ہی نبی خدا کے الہام کو سمجھتا ہے اور نہ ہی امتی نبی کے آخری الہام کو درست مانتے ہیں یہ کیسا مذہب ہے جہاں نبی اور امتی دونوں ہی اپنی مرضی کے مالک ہیں؟؟؟

اب نور الدین کو لکھے گئے خط کے مسئلہ کو دیکھئے جس میں مرزا نے نور الدین سے مشورہ کیا تھا کہ اگر دمشقی حدیث کے مصداق کو چھوڑ کر الگ مثیل مسیح کا دعوہ ظاہر کیا جائے تو کیا ہرج ہے ۔

اب یہاں کچھ نکات پر غور کیجئے

۱۔ مرزا نے نور الدین سے مشورہ نہیں کیا بلکہ از خود دعوہ مثیل مسیح کیا یہ بات چونکہ بقول رانا دسمبر ۱۸۹۰ کی ہے لہذا رانا یہ بتائیں کہ مرزا تو اعجاز احمدی میں کہ رہا ہے کہ بارہ برس(براہین طبع ۱۸۸۰ کے بارہ برس بعد تک یعنی ۱۸۹۲ تک) تک میں خدا کے اس الہام کو سمجھ ہی نہیں سکا کہ میں مسیح ہوں تو یہ دعوہ مثیل مسیح ۱۸۹۰ میں کیسے ہو گیا اب ان دونوں دعوں میں سے ایک ہی درست ہو سکتا ہے۔اعجاز احمدی والا جس کے مطابق خدائی الہام مرزا کو ۱۸۹۲ میں سمجھ میں آیا ،یا فتح اسلام کا جس کے مطابق خدائی الہام ۱۸۹۰ میں ہوا۔ دونوں صورتوں میں مرزا جھوٹا ہے۔

۲۔اگر خدائی الہام اعجاز احمدی کے مطابق ۱۸۹۲ میں سمجھ میں آیا تو ۱۸۹۱ میں نور الدین کو لکھا گیا خط درحقیقت ایک مشورہ ہی تھا کہ اگر میں مثیل مسیح ہونے کا دعوہ کروں تو کیسا ہے۔ کیونکہ اعجاز احمدی کے مطابق ۱۸۹۱ تک خدا ئی الہام مرزا کی سمجھ میں آیا نہیں تھا ۔ لہذا یہ خدائی حکم تو ہو ہی نہیں سکتا۔

۳۔ اگر ۱۸۹۰ میں فتح اسلام میں کیا گیا دعوہ مسیحیت درست ہے تو پھر مرزا ۳ فروری ۱۸۹۲ میں یہ کیوں کہتا ہے کہ اس عاجز کے رسالہ فتح اسلام و توضیح مرام و ازالہ اوہام میں جس قدر ایسے الفاظ موجو ہیں کہ محدث ایک معنی میں نبی ہوتا ہے یا یہ کہ محدثیت جزوی نبوت ہے یا یہ کہ محدثیت نبوت ناقصہ ہے۔ یہ تمام الفاظ حقیقی معنوں پر محمول نہیں یہاں بلکہ صرف سادگی سے ان کے لغوی معنوں کی رو سے بیان کیے گئے ہیں ورنہ حاشا کلا مجھے نبوت کا حقیقی دعوہ نہیں ہے۔۔۔۔سو دوسرا پیرایہ یہ ہے کہ بجائے لفظ نبی کے محدث کا لفظ ہر ایک جگہ سمجھ لیں اور اس کو (یعنی لفظ نبی کو) کاٹا ہوا خیال فرما لیں۔

اب یہ کیسا نبی ہے جوکہ دعوہ نبوت سے پھر گیا ہے۔ اور فتح اسلام کا جو حوالہ رانا صاحب نے دیا تھا اس کا کونڈا کر گیا؟؟؟؟

اب یہ ہیرا پھیری، یہ قلابازیاں، یہ متضاد دعوے، یہ مشورے، یہ الجھی ہوئی باتیں، یہ گنجلک الہامات کیا کسی کی سمجھ میں آتے ہیں؟؟؟
میرے خیال میں اگر کوئی صرف اسی پر ریسرچ کرنے بیٹھ جائے کہ مرزا نے جھوٹا دعوہ نبوت کب کیا اور اس میں کیا کیا قلابازیاں کھائیں کہ وہ محدث تھا ،مثیل مسیح تھا ، مسیح تھا، ، نبی تھا، ظلی نبی تھا، بروزی نبی تھا، رسول تھا ، صاحب شریعت رسول تھا وہ کیا تھا ؟؟تو اسی پر پورا پی ایچ ڈی کا تھیسس تیار ہو جائے گا۔ویسے اس کا جواب بہت سیدھا ہے کہ آنحضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اب قیامت تک کوئی نبی ، کوئی رسول ، کوئی پیغمبر نہیں آسکتا اور جو ایسا دعوہ کرے وہ کذاب ہے، جھوٹا ہے اور اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
جزاک اللہ ابن حسن صاحب۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ آپ کو اس کا بہترین اجر دے اور یہ کہ آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائے۔
 
ویلڈن اب حسن صاحب! بہت عمدہ اور دلائل سے بھر پور جوابات دیے ہیں، پڑھ کر ایمان مزید تازہ ہوگیا۔ اور ساتھ ہی میرا اس بات پر یقین اور بھی پختہ ہوگیا کہ:
اللہ ہر رانا کے لیے ایک ابن حسن ہر دور میں پیدا فرماتے ہیں۔
والسلام
 

رانا

محفلین
جناب پہلے تو یہ بتائیں کہ میں نے کب کہا ہے کہ توفی کا مطلب وفات کے علاوہ کچھ اور ہوتا ہی نہیں۔ میری وہ پوسٹ دوبارہ پڑھ لیں جس میں میں نے توفی کے چیلنج کا ذکر کیا تھا۔ آپ کو بات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا بہت شوق ہے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ جس کا ثبوت میں لغات سے دے چکا ہوں کہ توفی جب خدا کی طرف سے انسان کے لئے استعمال ہو تو وفات کے علاوہ کوئی ترجمہ نہیں کیا جاسکتا سوائے اس کے کہ کوئی لفظی قرینہ موجود ہو۔
جناب آپ کے خیال میں دالاشاعت کے مترجم نے جب توفاہ اللہ کا ترجمہ وفات کردیا تو یوم القیامہ کے ترجمہ کی ضروت ہی نہیں سمجھی۔ چلیں آپ سر تسلیم خم لیکن اس سے تو پھر وہی بات ثابت ہوئی جو کہ میں پہلے ہی لغات سے دکھا چکا ہوں کہ توفاہ اللہ جب بھی انسان کے لئے آئے گا تو ترجمہ وفات ہی ہوگا۔ ان مترجم مولانا صاحب نے اپنے عمل سے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ جو لغات میں لکھا ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ وہ یہاں وفات کی بجائے وہی ترجمہ نہیں لے رہے جو آپ لے رہے ہیں۔ یوم القیامہ کا لفظ اگر ان سے رہ بھی گیا تھا تو اسکے بغیر بھی وہ یہ ترجمہ کرسکتے تھے کہ "یہاں تک کہ اللہ اسے پورا پورا اجر دے دیتے ہیں" لیکن انہوں نے ایسا کیوں نہیں کیا۔ یہی تو چیلنج لغات عرب سے پیش کیا گیا تھا کہ جب بھی توفی کا فعل اللہ کی طرف سے انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے ایسے مواقع پر وفات کے علاوہ کوئی ترجمہ نہیں کیا جاسکتا۔ اور یہ بہت اچھا ہوا کہ ان سے یوم القیامہ کا لفظ رہ گیا یہ بھی اللہ کی حکمت ہی تھی کہ اسطرح اللہ نے آپ کو اور اس مترجم مولانا کو عملاً یہ تسلیم کرنے پر مجبور کردیا کہ لفظی قرائن کے بغیر توفاہ اللہ کا کوئی دوسرا ترجمہ کیا ہی نہیں جاسکتا۔ لیکن آپ مصر ہیں کہ بےشک آج تک کبھی ایسا نہ ہوا ہو لیکن قرآن میں حضرت عیسی کے لئے ضرور کریں گے۔

اورپیر مہر علی شاہ کا بھی حوالہ عجیب پیش کیا ہے کہ ہم نے اس آیت میں مسیح کی توفی جسم سمیت ثابت کردی ہے۔ جناب چیلنج تو یہی تھا کہ اس آیت میں توفی کا وفات کے علاوہ کوئی ترجمہ نہیں کیا جاسکتا اس کے ثبوت میں تمام عرب کی تاریخ اور تمام لٹریچر اور تمام لغات اور تمام قرآن اور تمام احادیث پیش کی گئی ہیں لیکن آپ کہیں بھی یہ ثبوت نہیں دکھا سکے کہ کبھی ایسا ہوا ہو کہ توفاہ اللہ کا ترجمہ وفات کے علاوہ کوئی اور ہوا ہو۔ الٹا تفاسیر سے یہ دکھا کر کہ جناب فلاں فلاں نے بھی اس کا ترجمہ اٹھانا کیا ہے۔ عجیب بات ہے۔ جناب اس ترجمہ کے حق میں کوئی ثبوت تو پیش کریں کہ یہ ترجمہ درست ہے جیسا ہم نے قرآن و حدیث اور لغات العرب کو پیش کردیا ہے۔ لیکن آپ کو کچھ نہیں مل رہا تو اسی زیربحث کا آیت کا ترجمہ ہی ثبوت کے طور پر پیش کئے چلے جارہے ہیں کہ فلاں نے بھی کیا ہے اور فلاں نے بھی کیا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ اس آیت کے تراجم کو ہی بطور ثبوت بھی پیش کیا جارہا ہے۔

اور یہ بھی آپ نے خوب کہا کہ آپ کی تمام باتوں کے جواب دیئے گئے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ ایک نظر اس پر بھی ڈال لی جائے۔

اول: بل رفعہ اللہ الیہ میں آپ نے رفع کے لفظ پر ضد کی کہ جناب اس کا ترجمہ جسم سمیت اٹھایا جانا ہی کیا جائے گا۔ آپ کو تمام قرآن و حدیث اور عرب لٹریچر کو بطور ثبوت پیش کرکے دکھایا کہ جناب آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اللہ کی طرف سے کسی انسان کے رفع کا ذکر ہو تو ترجمہ سوائے روحانی رفع کے کچھ اور ہوا ہو۔ جسم سمیت اٹھایا جانا تو کہیں ثابت ہی نہیں۔ لیکن آپ کو ضد تھی کہ بے شک کبھی نہ ہوا ہو لیکن اس مرتبہ ضرور ہوگا۔ پھر آپ کو لغت میں لکھا دکھایا کہ رفع اللہ کا نام ہے اور اللہ تعالی بندے کا رفع کسطرح کرتا ہے لیکن آپ باوجود اسکے کہ اپنے خودساختہ ترجمے کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہ کرسکے کہ کبھی زبان عربی میں پہلے ایسا ہوا ہو صرف الفاظ کا جادو چلانے کی کوشش کی۔ ۔ پھر لفظ رفع کا اللہ کی طرف سے بندے کے لئے استعمال کی قرآن و حدیث اور لٹریچر اور لغت سے مثالیں بھی دکھادیں اور آپ کو بھی چلینج کیا گیا کہ اتنا بڑا ترجمہ کررہے ہیں جو کہیں ثابت ہی نہیں تو کم از کم اسکی کوئی مثال ہی پیش کریں کہ اللہ بندے کا رفع کرے اور مطلب جسمانی رفع ہو۔ لیکن آپ وہی ڈھاک کے تین پات کہ اسی آیت کے ترجمے ہی مختلف جگہ سے اٹھا اٹھا کر پیش کرتے رہے۔ یعنی جو بات ثابت کرنی تھی وہی بطور ثبوت پیش کرتے رہے۔

دوم: پھر آپ کو سورہ المائدہ کی آیت 118 دکھائی گئی کہ جناب یہاں تو رفع بھی نہیں بلکہ توفی کا لفظ استعمال ہوا ہے جو تمام قران میں اللہ کی طرف سے جب بھی بندے کے لئے استعمال کیا گیا ہے تو ترجمہ سوائے قبض روح کے کچھ نہیں ہوا سوائے دو جگہ کے جہاں نیند کا ترجمہ کیا گیا جو کہ قبض روح ہی کی ایک شکل ہے جس کا خود آیت میں ہی ذکر اللہ نے کردیا۔ اور جب بھی یہ لفظ انسان کے متعلق استعمال ہو تو اسکے پہلے معنی وفات ہی کے زہن میں آتے ہیں سوائے اسکے کے لفظی قرائن موجود ہوں۔ پھر تمام احادیث اور تمام عرب لٹریچر اور لغات العرب کو پھر بطور ثبوت پیش کیا گیا کہ جناب توفی کا فعل جب بھی اللہ کی طرف سے بندے کے لئے استعمال ہو تو سوائے موت کے کوئی ترجمہ نہیں ہوتا۔ لیکن آپ پھر اڑ گئے کہ بےشک کبھی پہلے نہ ہوا ہو لیکن اس آیت میں تو ضرور ہوگا۔ یہاں تک کہ آپ کو بخاری کی حدیث سے یہ آیت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے دکھادی گئی لیکن حد ہے گستاخی کی کہ وہاں بھی انکار کردیا کہ وہ الفاظ نہیں بلکہ ملتے جلتے الفاظ ہوں گے حالانکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام کے تمام الفاظ بھی استعمال کرکے بتادیے کہ میں یہ الفاظ کہوں گا لیکن پھر گستاخی کی انتہا کرتے ہوئے ضد کی کہ نہیں قیامت کو کچھ الفاظ بدل جائیں گے۔ اب اس پر کیا کہا جائے۔ پھر آپ کے مطالبہ پر کہ یہ چیلنج کہاں مذکور ہے آپ کو لغات سے دکھادیا کہ تمام لغات نے توفاہ اللہ کو موت کے معنوں میں لیا ہے۔ لیکن آپ ایک حدیث لے آتے ہیں کہ جسکا مفصل ذکر اوپر ہوچکا ہے کہ جس میں مترجم صاحب نے بھی آخر اسی چیلنج پر صاد کیا جو لغات العرب سے پیش کیا جاچکا تھا۔ پہلے رفع پر ضد کی اور وہ ترجمہ کیا جو کبھی اللہ کی طرف سے بندے کے لئے استعمال پر نہیں کیا گیا۔ پھر توفی پر ضد کربیٹھے اور پھر وہ ترجمہ کیا جو کبھی اللہ کی طرف سے بندے کے لئے استعمال پر نہیں کیا گیا۔ تمام قرآن احادیث اور لغات العرب سے آپ کو اپنے زبردستی کے تراجم پر کوئی ثبوت نہیں ملا۔۔

سوم: پھر آپ کے سامنے سورہ ال عمران کی آیت 56 پیش کی گئی۔

اِذْ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيْسٰۤى اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَيَّ وَ مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَ جَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ١ۚ ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيْمَا كُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ۰۰۵۵

یعنی اے عیسی میں تجھے وفات دوں گا اور تیرا رفع کروں گا اور تجھے پاک کروں گا ان لوگوں سے جنہوں نے کفر کیا اور تیرے متبعین کو قیامت تک تیرے منکرین پر غالب رکھوں گا۔

اس آیت میں اللہ تعالی نے رفع اور توفی دونوں ہی الفاظ ایک ساتھ حضرت عیسی کے لئے استعمال کرڈالے۔ اب تو آپ کے لئے نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کے مصداق کوئی چارہ ہی نہیں رہ گیا تھا کہ یہاں غلط مطلب لینے کی ضد کرتے کیونکہ رفع کا ترجمہ بھی آپ جسم سمیت اٹھانے پر ضد کررہے تھے اور توفی پر بھی یہی ضد تھی کہ جسم سمیت پورا پورا اٹھا لیا۔ اب اس آیت میں آپ بری طرح پھنس گئے تھے کہ رفع اور توفی دونوں ایک ساتھ یہاں موجود ہیں۔ اب اگر وہی ترجمہ کریں تو دو مرتبہ اٹھانے کا ترجمہ کرنا پڑتا جو کسی بھی طرح ممکن نہیں ہوسکتا تھا۔ یہاں اللہ تعالی نے صرف یہی نہیں کیا کہ رفع اور توفی دونوں ایک ساتھ استعمال کیے بلکہ توفی کو رفع سے پہلے رکھا۔ یعنی آپ کے لئے غلط مطلب کرنے کے تمام راستے اللہ نے بند کردئے۔ کیونکہ اگر رفع کا لفظ توفی سے پہلے ہوتا تو آپ سے قوی امید تھی کہ یہاں آپ فورا توفی کو وفات کے معنوں میں تسلیم کرلیں گے تاکہ یہ کہہ سکیں کہ جناب پہلے رفع یعنی اٹھایا جائے گا پھر زمین پر آکر وفات ہوگی۔ لیکن اللہ تعالی نے توفی کو رفع سے پہلے رکھ کر آپ کے لئے یہ چور دروازہ بھی بند کردیا کہ وفات کے بعد جسمانی اٹھایا جانا ہوہی نہیں سکتا۔ لیکن آفرین ہے کہ آپ پر کہ پچھلی آیت میں تو آپ نے نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ میں لقمہ دینے کی کوشش کی تھی کہ وہ الفاظ قیامت میں کچھ اور ہو جائیں گے۔ لیکن یہاں آپ نے اللہ تعالی کے منہ میں لقمہ دینے سے بھی دریغ نہیں کیا کہ بس کسی طرح عیسی زندہ ہوجائیں چاہے قرانی الفاظ کو ہی کیوں نہ آگے پیچھے کرنا پڑے۔ اور آپ نے ایک انتہائی بھونڈا حربہ "تقدیم و تاخیر" کا نکالا کہ یہاں اللہ تعالی نے توفی کو رفع سے پہلے رکھ دیا ہے لیکن اصل میں رفع کے بعد توفی ہوگی۔ افسوس کہ عیسی کو زندہ کرنے کے جوش میں آپ نے قرآنی الفاظ کو بھی تختہ مشق بناڈالا۔ جس لفظ کو اللہ نے پہلے رکھا ہے کسی بندے کی کیا مجال کہ اسے کہے کہ اصل میں یہ بعد میں ہوگا۔ ایسا عقیدہ آپ ہی کو مبارک ہو جس کے لئے آپ کو کیا کیا حرکتیں کرنی پڑ رہی ہیں۔ اب یہ بتائیے کیا آپ سے اس مسئلے پر مذید بحث کی کوئی گنجائش ہے۔ جو شخص تمام لغات العرب کے بھی خلاف چلے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کو نہ مانے اور اپنا عقیدہ ثابت کرنے کے لئے قرآن کے الفاظ کو بھی آگے پیچھے سمجھنے سے دریغ نہ کرے اس سے کیا بات کی جائے۔ اسطرح تو آپ سبھی کچھ ثابت کرسکتے ہیں اور ثابت کرتے رہیں لیکن ایسا عقیدہ آپ ہی کو مبارک ہو۔

آپ نے حضرت مرزا صاحب کی کتابوں سے تضاد ڈھونڈنے پر کافی محنت کی ہے۔ اور یہ تضاد صرف تعصب کی آنکھ سے ہی نظر آسکتے ہیں۔ اور لگتا ہے کہ آپ پر دھن سوار ہے کہ کسی طرح مرزا صاحب پر اعتراض کیئے چلے جائیں چاہے کیسے ہی کیوں نہ ہوں۔ پہلے آپ نے ایک خط کا حوالہ دیا کہ اس میں مسیح ہونے کے دعوی کرنے کے لئے مشورہ کا ذکر ہے۔ پھر جب آپ کو یہ ثابت کرکے دکھایا کہ جناب دعوی تو اس خط سے بھی کافی پہلے کیا جاچکا تھا اور اس خط سے بھی پہلے چھپ چکا تھا۔ اس لئے اس خط سے مشورے کا استنباط کیا ہی نہیں جاسکتا تو آپ نے فوراً پینترا بدلا اور دوسری طرف بات لے گئے کہ جناب براہین احمدیہ تو دس سال پہلے لکھی گئی تھی اور انہوں نے کہا ہے کہ بارہ سال کے بعد میں نے دعوی کیا۔ اب اس طرح کے اعتراضات پر آپ کے بارے میں کیا سمجھا جائے۔ کہ بھائی جب دعوی چھپا ہوا موجود ہے اور فتح اسلام میں ہی لکھا ہوا بھی نظر آرہا ہے اور اسکا عکس بھی فراہم کیا گیا ہے تو پھر یہ ضد کہ جناب انہوں نے کیوں بارہ سال کہا جبکہ دعوی دس سال بعد کیا تھا۔ ایسے اعتراض تو سخت تعصب کی والوں کو ہی نظر آسکتے ہیں۔

ورنہ ایسے ہی اعتراض عیسائی اسلام پر کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ صرف ان کی تعصب کی وجہ سے ہی ہوتا ہے۔ ورنہ اس طرح کے اعتراضات کہ انہوں نے براہین احمدیہ دس سال پہلے لکھی اور بارہ سال کا ذکر کردیا اور مسیح کی قبر کا ذکر کشمیر سے پہلے کہیں اور کردیا۔ مسیح کی عمر کے متعلق انہوں نے احادیث سے ذکر کیا تھا۔ 120سال کی بھی روایت ہے اور 125 سال والی روایت کی بھی حدیث ہے۔ 153 سال والا حوالہ ہی مجھے نہیں ملا جو آپ نے دیا ہے لیکن اس کا تعلق بھی کسی الہام سے نہیں ہوگا۔ یہ بہت ہی غلط روش ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے ایک واقعے کے متعلق جو مختلف روائتیں اپنی کتب میں مختلف جگہ بیان کی ہیں آپ لوگ یہ باور کرانا چاہتے ہیں وہ سب کو ہی درست مانتے تھے۔ جس کو انہوں نے درست مانا اس کا اظہار کردیا لیکن سب کو بیان کردیا تو یہ آپ کے نزدیک جرم ہوگیا۔ کیا ایک محقق اپنی تحقیق کے دوران سارے شواہد کو زیربحث نہیں لاتا۔ اور ان میں سے کسی ایک کو اپنا لیتا ہے یا ایک سے زائد کو بھی اگر ایک سے زیادہ شواہد ایک ہی بات کو معمولی سے فرق کے ساتھ بیان کررہے ہوں۔ جیسے 120 یا 125 سال والی احادیث ہیں۔

اسی طرح مسیح کی قبر کشمیر میں ہی ان کی آخری تحقیق ہے۔ چشمہ معرفت کے حوالے سے جو طبری کا حوالہ آپ نے دیا ہے اس میں کہاں لکھا ہے حضرت مرزا صاحب بھی اس قبر والی بات کو درست مانتے تھے۔ حضرت مرزا صاحب نے تو اس روایت کا ذکر صرف ان کی موت کے ضمن میں کیا ہے کہ صحابہ بھی مسیح کو وفات یافتہ مانتے تھے اور اس کی دلیل کے طور پر انہوں نے طبری کی روایت کا حوالہ دیا ہے۔ آپ نے دھوکہ دیتے ہوئے صرف وہ الفاظ نقل کردیئے جو قبر سے متعلق ہیں اور جو اس سے پہلے حضرت مرزا صاحب وفات کی بات کررہے ہیں وہ چھوڑ دیئے ہیں۔ حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں:

"میں نے یہ بھی ایک روایت میں دیکھا ہے کہ کفار قریش نے شاہ حبشہ کو افروختہ کرنے کے لئے یہ بھی اس کے آگے کہہ دیا تھا کہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ کو گالیاں دیتے اور توہین کرتے ہیں اور ان کا وہ درجہ نہیں مانتے جو آپ کے نزدیک مسلّم ہے مگر نجاشی نے جس کو حق کی خوشبو آرہی تھی ان لوگوں کی شکایت کی طرف کچھ توجہ نہ کی ۔ مجھے تعجب ہے کہ وہی شکایتیں جو کفار قریش نے حضرت مسیح کا نام لے کر مسلمانوں کو گرفتار کرانے کے لئے نجاشی کے سامنے کی تھیں بعینہ وہ تہمتیں اس وقت کے مخالف مسلمان ہم پر کر رہے ہیں اگر ہم نے یہ کہا کہ حضرت عیسیٰ فوت ہوگئے ہیں تو اس میں ہماراکیا گناہ ہے ؟ ہمارے وجود سے صد ہابرس پہلے خدا تعالےٰ ان کی موت قرآن شریف میں ظاہر کر چکا ہے ۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم معراج کی رات میں ان کو فوت شدہ نبیوں میں دیکھ چکے ہیں ۔ عجیب تر تو یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اصحاب ان کی موت کے قائل بھی ہو چکے ہیں اور کتاب تاریخ طبری کے صفحہ ۷۳۹ میں ایک بزرگ کی روایت سے حضرت عیسیٰ کی قبرکا بھی حوالہ دیا ہے جو ایک جگہ دیکھی گئی یعنی ایک قبر پر پتھر پایا جس پر یہ لکھا ہوا تھا کہ یہ عیسی ٰ کی قبر ہے ۔ یہ قصہ ابن جریرنے اپنی کتاب میں لکھا ہے جو نہایت معتبر اور اَئمہ حدیث میں سے ہے مگر افسوس! کہ پھر بھی متعصب لوگ حق کو قبول نہیں کرتے ۔"

اب اس میں کہاں یہ لکھا ہے کہ وہ ان کی قبر کو منوانے کی بات کررہے ہیں۔ صاف لکھا ہے کہ "تمام اصحاب ان کی موت کے قائل ہوچکے تھے" اور اس قبر والی روایت کو اس بات کے لئے بطور ثبوت پیش کیا ہے۔ لیکن آپ کا تو کام ہی صرف تضاد ڈھونڈنا ہے اس طرح کی عینک آپ لگا کر دیکھیں گے تو آپ کو قرآن میں بھی تضاد نظر آئیں گے۔ لیکن آپ شوق سے تضاد نکالتے رہیں آپ لوگوں کے پاس یہی مشغلہ رہ گیا ہے۔ عجیب بات ہے کہ کشمیر میں قبر ثابت کرنے پر ان کی ایک پوری کتاب ہی "مسیح ہندوستان میں" موجود ہے جس میں بحث ہی صرف یہ کی گئی ہے وہ تو پوری کی پوری کتاب آپ کی نظروں سے اوجھل رہی اور اس روایت سے لوگوں کو مغالطہ دے رہے ہیں کہ جیسے وہ اس روایت والی قبر کو درست سمجھتے ہیں۔

یہ بھی عجیب اعتراض ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اگر یہود کے تمام اعتراض جو اناجیل میں مختلف جگہ بیان ہوئے ہیں انہیں ایک جگہ اپنے الفاظ میں بیان کردیا ہے تو جناب یہ پوری عبارت اناجیل میں دکھائی جائے؟ یہ تو کج بحثی ہے۔ ورنہ کیا جتنے اعتراضات یہود کے وہاں بیان کئےگئے ہیں وہ تمام اناجیل میں موجود نہیں ہیں؟ اب یہ کہنا کہ نہیں انہی الفاظ میں دکھایا جائے اور اکٹھا دکھایا جائے اس پر آپ سے کیا کہا جائے۔ البتہ ایسے سنجیدہ محفلین جو اس دھاگے کو تعصب کے بغیر صرف معلومات کے لئے دیکھ رہے ہیں ان سے گذارش ہے کہ وہ اناجیل کو صرف ایک سرسری نظر سے دیکھ لیں انہیں اسکے علاوہ بھی اور کافی معلومات حاصل ہونگی۔ پوری عبارت سے ظاہر ہے کہ یہودیوں کے اعتراضات کا ذکر ہورہا ہے تو تمام اناجیل سے اور یہودیوں نے انکار مسیح کے جوبھی دلائل اپنی کتابوں میں بیان کئے ہیں ان کا ذکر کیا جارہا ہے۔ جب کسی خاص ٹاپک پر کوئی مواد کسی کتاب سے نکالا جائے تو ظاہر ہے کہ اسی لئے کہ اسے اکٹھا بیان کیا جاسکے اب کوئی پاگل ہی ہوگا جو یہ کہے کہ یہ تمام مواد ایک ہی جگہ بعنیہ انہی الفاظ میں دکھاو۔

یہ مطالبہ کہ انجیل میں کہاں لکھا ہے کہ یہود کا "صرف" یہی اعتراض تھا۔ یہ بھی کج بحثی کی راہ ہموار کرنے کی ایک کوشش ہے۔ جناب میری پوسٹ نمبر 26 کے تیسرے پیرا کی تیسری سطر غور سے پڑھ لیتے تو اسکی ضرورت نہ پیش آتی۔ میں نے کب کہا کہ یہود کا "صرف" یہی ایک اعتراض تھا۔ ایسی شریف قوم تو شائد ہی دنیا میں پیدا ہوئی ہو جو اپنے وقت کے نبی پر "صرف" ایک اعتراض کرکے چپ رہ گئی ہو۔ ان کے اور بھی اعتراضات تھے مثلاً میسح نے تو آتے ہی آناً فاناً یہود کی بادشاہت قائم کردینی تھی۔ یہ ان کے سرفہرست اعتراضات تھے۔
لیکن یہاں ایک بات اور بھی گوش گذار کردینا مناسب ہے کہ جناب کو تو ان محرف و مبدل کتابوں سے دکھائی گئی یہود سے مماثلت قبول ہی نہیں۔ چلیں یہ کوئی بات نہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں یہ ذکر کیا کہ میری امت یہود کے نقش قدم پر چلے گی اور گن گن کر وہ تمام قدم اٹھائے گی جو یہود نے اٹھائے ہونگے۔ تو یہاں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کتاب کا ذکر نہیں کیا کہ فلاں کتاب سے دیکھ لینا کہ یہود کی کیا مشابہت ہے۔ اور شائد جناب اسی لئے ان کتابوں میں پائی جانے والی مشابہت کو ماننے کو تیار نہیں۔ کوئی بات نہیں۔ اس کی ضروت بھی نہیں۔ حدیث میں صرف یہود سے مشابہت کا ذکر ہے کہ میری امت یہود کے مشابہ ہوکر یہود کے نقش قدم پر چلے گی۔ اب یہ مشابہت کیسے پتہ چلے گی؟ ظاہر ہے اس کے لئے اب یہود کو دیکھنا پڑے گا۔ یہی ایک راستہ ہے۔ تو جناب آپ کو چیلنج ہے کہ کسی بھی یہودی سے مل لیں اور اس سے پوچھ لیں کہ ان کے مسیح کے انکار کی کیا وجہ تھی۔ جو وجوہات وہ بتائے ان پر غور کر لیجئے گا۔ امید ہے کہ اس سے سادہ اور آسان راستہ کوئی اور نہیں ہے مشابہت معلوم کرنے کا۔ اور جب آپ کسی یہودی سے اس بارے میں پوچھیں گے تو وہ سرفہرست جن اعتراضات کا ذکر کرے گا ان میں یہ ہوگا کہ جناب میسح کے آنے سے پہلے ایلیاہ نےآسمان سے آنا تھا وہ اب تک نہیں آیا اور مسیح نے آکر یہودیوں کی بادشاہت قائم کرنی تھی وہ بھی نہیں کی۔ اوپر میں نے ایک ویڈیو بھی شئیر کی تھی اس میں بھی یہود کو روتے ہوئے ایلیا کے آسمان سے آنے کی دعا کرتے ہوئے دیکھ لیں اور اپنے گریبان میں اس مشابہت کو ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔

پھر یہ کہنا کہ قرآن کی تفاسیر اور احادیث سے حیات مسیح کو ثابت کیا گیا ہے۔ تو جناب تفاسیر کب سے سند ہوگئیں؟ قرآن سند ہے۔ قرآن نے تو آپ کی کوئی تائید ہی نہیں کی۔ یہاں تک کہ جو معنی آپ کرنا چاہ رہے تھے ان معنوں کے حوالے سے بھی کوئی تائید نہیں کی۔ البتہ اپنے ذہن کے مطابق جنہوں نے قرآن کی تفاسیر آپ کے عقیدہ کے موافق کردیں وہ آپ نے بطور حجت پیش کردیں۔ یہ بھی عجیب ضد ہے کہ امام بخاری و مسلم تو من السما کا لفظ لکھ ہی نہیں رہے اور کوئی ارادہ ان کا ایسا ظاہر نہیں لیکن امام بیہقی کے اپنے ایک جملے پر اصرار کرکے بخاری و مسلم کے منہ میں زبردستی لقمہ دینے کی کوشش کی جارہی کہ ان کا بھی ارادہ من السما کا ہی تھا۔ عجیب بات ہے کہ بخاری و مسلم تو اس بات کا ذکر تک نہیں کررہے اور دوسرے لوگ ان کے منہ میں لقمہ دے رہے ہیں۔ یہ بھی عجیب زبردستی ہے کہ میں بخاری و مسلم میں بیان کردہ صحیح ترین روایت جس کو جانچنے کے لئے اتنی احتیاط برتی گئی کہ ایسی احتیاط کسی اور کتاب کے متعلق ثابت نہیں، اسے چھوڑ کر ایک دوسری کتاب کی بناء جس کا درجہ کہیں بعد میں آتا ہے، اس صحیح بخاری و مسلم کی روایت میں تحریف قبول کرلوں؟ صرف اس لئے کہ وہ آپ کے غلط عیقیدے کی تائید کرتی ہے۔ جبکہ امام بیہقی صاف کہہ رہے ہیں کہ یہ روایت بخاری میں بھی ہے۔ اور نہ صرف بلکہ مسلم میں بھی۔ یعنی یک نہ شد دو شد۔ اب آپ کے لئے لازم ہے کہ بخاری اور مسلم میں سے کہیں من السما کے الفاظ دکھا دیں ورنہ شرم کریں ان دو مقدس ہستیوں کے منہ میں لقمہ دینے سے۔

پھر مولانا مودودی کے اتنے عکس فراہم کرنے کی فضول محنت کی گئی ہے۔ کہ وہ بھی حیات مسیح کا عقیدہ رکھتے تھے۔ جناب میری بات کو غور سے ہی پڑھ لیتے میں نے بھی تو یہی کہا تھا کہ وہ بھی ساری زندگی اسی عقیدے پر زور دیتے رہے۔ میں تو یہ بتا رہا تھا کہ وہ کم از کم یہ تسلیم کرگئے کہ بہرحال بل رفعہ اللہ والی آیت میں کسی بات کی ٹھوس تصریح نہیں ملتی۔

پھر بار بار یہ کہنا کہ آسمان والی احادیث ہم نے پیش کردی اب لازمی ایمان لے آو یہ بھی عجیب زبردستی ہے کہ حدیث چاہےضعیف ہی ہو کیونکہ پیش کردی اس لئے ماننا واجب ہے۔ ایسی کج بحثی بھی آپ ہی کرسکتے ہیں کہ کیونکہ صرف حدیث کا مطالبہ کیا گیا تھا اب چاہے ضیعف ہو اور صحیح احادیث کے مخالف ہی ہو اور چاہے قرآن کے مخالف ہی ہو پھر بھی ضرور مانو۔ ایسا عقیدہ آپ ہی کو مبارک ہو کہ جو پہلے احادیث پر بنا کر کے رکھ لیاجائے اور پھر اسکی بنیاد پر قرآن کی آیات کو اپنی مرضی کے مطلب پہنانے کے جتن کئے جائیں۔ اب آپ کو قرآنی آیات کے ساتھ کتنی زبردستی کرنی پڑرہی ہے۔ یہاں تک بخاری و مسلم کے ساتھ بھی زبردستی کرنی پڑ رہی ہے۔ جہاں قرآن کی آہت پر کسی طرح بھی زبردستی سے کام نہیں چلا تو وہاں تقدیم و تاخیر کا حربہ بناکر قرآنی الفاظ کو آگے پیچھے کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔ ﴿3:56﴾۔ اور اس حربے کی بنیاد بھی تفاسیر پر ہی رکھی۔ حضرت عیسی کے متعلق آنے والے الفاظ جن میں ان کی کوئی خصوصیت نہیں تمام انبیاء کے لئے وہی الفاظ قرآن میں استعمال کئے گئے ہیں، تمام انبیاء سے ہٹ کر ان الفاظ کا علیحدہ معنی کرنا پڑتا ہے جو قرآن سے متصادم ہے احادیث سے متصادم ہے لغات سے متصادم ہے کہیں سے اسکی سند نہیں ملتی۔ لیکن وجہ کیا ہے کہ احادیث کی بنا پر پہلے عقیدہ رکھ لیا گیا ہے۔ اس لئے یہ سارے جتن کرنے پڑ رہے ہیں۔

اللہ کا شکر ہے کہ ہمیں اتنے جتن کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ کیونکہ ہمارے عقیدے کی بنیاد قرآن پر ہے۔ اور ہمیں قرآن کی کسی آیت کے ساتھ زبردستی نہیں کرنی پڑتی۔ بلکہ قرآن کی بنیاد پر رکھے گئے اس عقیدے کی روشنی میں نزول کی احادیث کی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے مطابق ہی بہت پیاری تشریح ہوجاتی ہے۔ جس کی تائید قرآن اور ان تمام احادیث سے ہوجاتی ہے جن میں یہی قرآنی الفاظ رفع، توفی اور نزول کے استعمال کئے گئے ہیں۔ اس لئے آپ اپنے عقیدے پر خوش رہیں۔ ہمیں تو اللہ کے فضل سے یہی قرآن پر رکھا گیا عقیدہ ہی کافی ہے۔ جو ہمیں مثیل یہود ہونے سے بھی بچا لیتا ہے جو الفاظ ہی کو پکڑ پکڑ کر خدا کے غضب کا مورد ہوگئے۔ لیکن اگر ہم آپ کی طرح عقیدہ رکھیں اور دجال اور نزول کی احادیث کو ان کے ظاہری معنوں پر محمول کرلیں تو ایک ایس دیومالائی کہانی کا خاکہ بنتا ہے جو کسی طرح بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے مطابق نہیں۔ لیکن اگر ان احادیث کی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے مطابق تعبیر کی جائے تو بہت ہی ایمان افروز پیشگوئیاں سامنے آتی ہیں۔

میں نے اپنی گذشتہ کسی پوسٹ میں یہ وعدہ کیا تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے صلیب سے بچنے کے بعد کے واقعات اور کشمیر میں آمد کے ضمن میں کچھ تاریخی حقائق اور شواہد پیش کروں گا۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اب ان کا بھی کچھ تذکرہ کردیا جائے۔ وہ میں انشاء اللہ اپنی اگلی پوسٹ میں پیش کروں گا۔ اس لئے اگلی پوسٹ ہوسکتا ہے کہ معمول سے کافی بڑی ہوجائے حالانکہ اصل مواد میں سے بہت ہی معمولی سا حصہ چنا ہے پیش کرنے کے لئے۔ لیکن امید ہے کہ جن لوگوں کو تاریخی حقائق سے دلچسپی ہے ان کے لئے یہ بہت مفید معلومات ہونگی۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top