خرم
محفلین
میں صرف ایک بات کہوں گا کہ قرآن فہمی کے لئے عربی جاننا نہیں کسی صاحب علم و عمل سے فیضیاب ہونا لازم ہے۔ اس دھاگہ میں نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم غیب پر مطلع کئے جانے پر کافی بات ہوئی۔ جب اللہ نے اسی قرآن میں فرما دیا کہ کوئی خشک و تر چیز اور زمین کی پہنائیوں میں چھپا ہوا کوئی دانہ تک ایسا نہیں جس کا ذکر اس کتاب مبین میں موجود نہ ہوتو باقی کیا رہ گیا؟ اس کتاب میں سب کچھ موجود ہے، آنے والے وقتوں کے حالات اور تمام سائنسی علوم وغیرہا اور یہ تمام علوم اللہ نے اپنے پاک پیغمبر صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تعلیم فرمائے۔ اگر قرآن صرف عربی معانی پر ہی مشتمل ہوتا تو "ثم ان علینا بیانہ" کی ضرورت ہی نہ تھی۔ ظاہری معانی تو قرآن کی سطح ہیں، سمندر کے موتی تو نیچے چھپے ہیں۔ ہم غلطی یہ کرتے ہیں کہ جب احادیث کو ضوالقرآن کی رو سے سمجھنے کی بات کرتے ہیں تو قرآن کے صرف ظاہری معنی کو ضوالقرآن سمجھتے ہیں۔ کسی بھی پھل کا مغز اس کا چھلکا نہیں ہوتا بلکہ چھلکے کے اندر چھپا ہوا ہوتا ہے۔ قرآن بھی ایک ایسا پھل ہی سمجھئے۔ پہلے کسی ایسے سے نسبت قائم کی جائے جو اس مغز کے ذائقے سے آشنا ہے پھر قرآن فہمی کا سفر شروع کیا جائے۔ اس کے سوا کوئی شارٹ کٹ نہیں اور اگر اختیار کرنے کی کوشش کی بھی جائے تو بھول بھلیاں ہی مقدر ٹھہریں گی۔ قرآن یقیناً غور کرنے والوںکے لئے آسان کردیا گیا ہے لیکن اس کی تعلیم کے لئے روز اول سے ہی ایک معلم کی ضرورت ہے اور ہمیشہ رہے گی کہ عظیم الشان کتاب کے معارف کی تہیں بہت گہری ہیں۔