حضرت یوسف علیہ السلام کی مثال یہاں دینا میرے خیال سے برمحل نہیں ہے کیونکہ آپ نے ان کے جس عمل کی طرف اشارہ کیا ہے وہ توریہ و تعریض ہے۔ توریہ یا تعریض اور صریح جھوٹ میں بہت فرق ہے۔ آپ کے لئے ایک آرٹیکل پیشِ خدمت ہے
http://magazine.mohaddis.com/shumara/350-222-1999-jun/3307-quran-wo-sunnat-ka-bahmi-talluq
ہو سکتا ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد آپ کے لئے یہ سمجھنا آسان ہو کہ آپ اعلیٰ حضرت کے جس عمل کو زبردستی حکمت کا نام دے رہے ہیں اسے حکمت نہیں کہا جاسکتا ہے۔ اور خاص طور پر قرآن اور حدیث کو استعمال کرتے ہوئے اور آپ کے بقول علم اور سمجھ بھی رکھتے ہوئے ایسی بات دین میں کہنے کے کیا نتائج ہیں اور اس کے بارے کتنی سختی سے حکم آیا ہے آپ یقیناً جانتے ہی ہوں گے! اس لئے آپ ان کے لئے ایسی بات کہنے سے اجتناب کریں! آپ خود اعلیٰ حضرت کے لئے مشکلات کھڑی کر رہے ہیں! کل کو کوئی بھی آپ کے ان دلائل کا حوالہ دے کر کہہ سکتا ہے کہ دیکھو دین کے معاملے میں جانتے بوجھتے یہ سب کیا گیا!!!! اب اگر اعلیٰ حضرت کی ایسی نیت نہیں تھی تو آپ نے ان کے لئے خود ہی ایک الزام تیار کر دیا ہے!!!
صرف اعلیٰ حضرت ہی امت مسلمہ میں اکیلے نہیں تھے۔ ابھی بھی نجانے کتنے ہی علماء ہیں جو زمین کی حرکت کو مغرب کی سازش قرار دیتے ہیں۔ قرآن کی آیات یا احادیث سے مادی یا دنیاوی معاملات میں نتائج اخذ کرنے میں غلطی ہوسکتی ہے اور ایسا بکثرت ہوتا ہے۔ یہ سب امتِ مسلہ میں ہی عام نہیں ہے بلکہ آپ عیسائیت، یہودیت، ہندو مت وغیرہ کے مذہبی راہنماؤں کے عقائد پڑھ لیں آپ کو سائنس سے جا بجا ٹکراؤ بہت عام نظر آئے گا۔
یہ تو پھر بہت چھوٹا معاملہ ہے اس سے زیادہ خطرناک باتیں تو وہ ہیں جو قرآن اور حدیث میں موجود عقائد سے متصادم ہیں!!!! پریشان تو ہونا سب سے زیادہ ان کے لئے بنتا ہے!!!! آپ نجانے کیوں اسے زور زبردستی حکمت کا نام دینا چاہتے ہیں؟ ارے سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اعلیٰ حضرت یہ کتاب تحریر فرما رہے تھے تو کیا کسی اپنے شاگرد یا اپنے پیروکار کے سامنے انھوں اس بات کا اعتراف کیا تھا؟؟؟؟ کیا اس بات کے شواہد کہیں آپ کو ملتے ہیں؟؟؟ اگر نہیں تو آپ اپنی طرف سے یہ سب کیسے کہہ سکتے ہیں؟؟؟؟؟ کیا آپ یا میں کسی کے ذہن کے خیالات کو اور وہ بھی ایک ایسے صاحب کے جو کہ اس دنیا میں اب نہیں رہے کیسے جان سکتے ہیں؟؟؟؟ اگر آپ ایسی بات کا دعویٰ کر رہے ہیں جو کہ اعلیٰ حضرت کے کرنے کی نیت ہی نہیں تھی تو پھر آپ کے ان دلائل کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے؟؟؟؟ اور آپ عطاری ہیں یعنی اعلیٰ حضرت کے پیروکار تو کیا یہ آپ کو زیب دیتا ہے کہ آپ اعلیٰ حضرت کے لئے وہ بات کہیں جو انھوں نے کی ہی نہیں؟؟؟؟؟
حضرت جو آپ کو آرٹیکل پیش کیا ہے نا اس کو بغور پڑھئے گا پھر حکمت اور خاص طور پر انبیاء علیہم السلام کے عمل کی مثال دیجئے گا۔ جسے آپ حکمت کا نام دے رہے ہیں وہ کسی صورت حکمت نہیں ہے۔ آپ توریہ اور تعریض پر غور و فکر کریں اور اس کی شرعی ضرورت اور استعمال کے بارے میں بھی پڑھئے۔ آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کیا فرما رہے ہیں!!!!
حضور جنگ کی بات میں نے نہیں کی ہے یہ آپ کا ہی مراسلہ ہے جس میں آپ اس حکمت کا استعمال دجل سے مقابلہ کرنے کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ جو کہا کریں نا اس پر قائم رہا کریں بلکہ ٹھرنے کی عادت بنائیے۔ یہ آپ کی کافی پختہ عادت معلوم ہوتی ہے کہ آپ جو کہتے ہیں اس کا جب اقتباس بھی لے کر آپ سے سوال کیا جائے تو آپ فرما دیتے ہیں کہ آپ نے تو یہ کہا ہی نہیں!!!!
اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شاید آپ سائنس مخالف ہیں اور سائنس کا مقابلہ کرنے کے لئے دین میں حکمت کے نام پر جھوٹ کے استعمال کا جواز فراہم کرنا چاہتے ہیں!!!!!