حکمت اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ: فوز المبین در رد حرکت زمین ایک سیاسی کتاب ہے نہ کہ مذہبی یا سائنسی

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
بر سبیل تذکرہ ۔
پندرھویں صدی کے کوپرنیکس کا نویں صدی کے البطانی اور تیرھویں صدی کے طوسی علماء سے "استفادہ" ۔
پروفیسر جارج کہتے ہیں کہ کوپرنیکس کے پاس ان کتب کی اشکال میسر تھیں جس سے اس نے اپنی ذہانت سے نتائج اخذ کیے ۔
اس مراسلے کو دوستانہ سمجھا جائے کوئی اور مقصد نہیں البطانی ہو یا کوپر نیکس سب اللہ کے بندے تھے بھئی ۔
یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ یورپ کے پاس علم اندلس سے ہی ہو کر آیا۔ البتہ ہندوستانی تاریخ میں میخانے بند تھے۔
 

زیک

مسافر
بر سبیل تذکرہ ۔
پندرھویں صدی کے کوپرنیکس کا نویں صدی کے البطانی اور تیرھویں صدی کے طوسی علماء سے "استفادہ" ۔
پروفیسر جارج کہتے ہیں کہ کوپرنیکس کے پاس ان کتب کی اشکال میسر تھیں جس سے اس نے اپنی ذہانت سے نتائج اخذ کیے ۔
اس مراسلے کو دوستانہ سمجھا جائے کوئی اور مقصد نہیں البطانی ہو یا کوپر نیکس سب اللہ کے بندے تھے بھئی ۔
یہ کہانی لمبی ہے اور اس میں کافی لوگوں کا رول ہے
 

زیک

مسافر
زیک، کیا ہم یہ طے کر چکے کہ اس زمانے میں کوپرنیکس کے نظریات پر ہندوستان میں بھی اجماع ہو چکا تھا! اور یہ کہ ہمارے پاس اس زمانے کے کسی اور ہندوستانی ماہر فلکیات یا ریاضی دان کی اس موضوع پر کوئی علمی رائے موجود ہے ؟
علم فلکیات دنیا کے پرانے ترین علوم میں سے ہے اور اس پر بر صغیر میں بھی کافی کام ہوا۔ البتہ یہ علم نہیں کہ ہیلیوسنٹرم پر انڈیا میں اتفاق کب ہوا۔ اس پر کچھ تحقیق کرنی پڑے گی
 

فہد مقصود

محفلین
حکمت جھوٹ نہیں، سچ ہوتی ہے۔ جناب خضر کا موسیٰ علیہ السلام علیہ السلام کو تفصیلات نہ بتانا اور صبر کی تلقین کرنا، سیدنا یوسف کا ناپ کا پیالا چھپانا، دربار فرعون کے مومن مرد کا ایمان کو پوشیدہ رکھنا یہ سب جھوٹ نہیں حکمت مومن کی نشانیاں ہیں۔

حضرت یوسف علیہ السلام کی مثال یہاں دینا میرے خیال سے برمحل نہیں ہے کیونکہ آپ نے ان کے جس عمل کی طرف اشارہ کیا ہے وہ توریہ و تعریض ہے۔ توریہ یا تعریض اور صریح جھوٹ میں بہت فرق ہے۔ آپ کے لئے ایک آرٹیکل پیشِ خدمت ہے

http://magazine.mohaddis.com/shumara/350-222-1999-jun/3307-quran-wo-sunnat-ka-bahmi-talluq

ہو سکتا ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد آپ کے لئے یہ سمجھنا آسان ہو کہ آپ اعلیٰ حضرت کے جس عمل کو زبردستی حکمت کا نام دے رہے ہیں اسے حکمت نہیں کہا جاسکتا ہے۔ اور خاص طور پر قرآن اور حدیث کو استعمال کرتے ہوئے اور آپ کے بقول علم اور سمجھ بھی رکھتے ہوئے ایسی بات دین میں کہنے کے کیا نتائج ہیں اور اس کے بارے کتنی سختی سے حکم آیا ہے آپ یقیناً جانتے ہی ہوں گے! اس لئے آپ ان کے لئے ایسی بات کہنے سے اجتناب کریں! آپ خود اعلیٰ حضرت کے لئے مشکلات کھڑی کر رہے ہیں! کل کو کوئی بھی آپ کے ان دلائل کا حوالہ دے کر کہہ سکتا ہے کہ دیکھو دین کے معاملے میں جانتے بوجھتے یہ سب کیا گیا!!!! اب اگر اعلیٰ حضرت کی ایسی نیت نہیں تھی تو آپ نے ان کے لئے خود ہی ایک الزام تیار کر دیا ہے!!!

صرف اعلیٰ حضرت ہی امت مسلمہ میں اکیلے نہیں تھے۔ ابھی بھی نجانے کتنے ہی علماء ہیں جو زمین کی حرکت کو مغرب کی سازش قرار دیتے ہیں۔ قرآن کی آیات یا احادیث سے مادی یا دنیاوی معاملات میں نتائج اخذ کرنے میں غلطی ہوسکتی ہے اور ایسا بکثرت ہوتا ہے۔ یہ سب امتِ مسلہ میں ہی عام نہیں ہے بلکہ آپ عیسائیت، یہودیت، ہندو مت وغیرہ کے مذہبی راہنماؤں کے عقائد پڑھ لیں آپ کو سائنس سے جا بجا ٹکراؤ بہت عام نظر آئے گا۔

یہ تو پھر بہت چھوٹا معاملہ ہے اس سے زیادہ خطرناک باتیں تو وہ ہیں جو قرآن اور حدیث میں موجود عقائد سے متصادم ہیں!!!! پریشان تو ہونا سب سے زیادہ ان کے لئے بنتا ہے!!!! آپ نجانے کیوں اسے زور زبردستی حکمت کا نام دینا چاہتے ہیں؟ ارے سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اعلیٰ حضرت یہ کتاب تحریر فرما رہے تھے تو کیا کسی اپنے شاگرد یا اپنے پیروکار کے سامنے انھوں اس بات کا اعتراف کیا تھا؟؟؟؟ کیا اس بات کے شواہد کہیں آپ کو ملتے ہیں؟؟؟ اگر نہیں تو آپ اپنی طرف سے یہ سب کیسے کہہ سکتے ہیں؟؟؟؟؟ کیا آپ یا میں کسی کے ذہن کے خیالات کو اور وہ بھی ایک ایسے صاحب کے جو کہ اس دنیا میں اب نہیں رہے کیسے جان سکتے ہیں؟؟؟؟ اگر آپ ایسی بات کا دعویٰ کر رہے ہیں جو کہ اعلیٰ حضرت کے کرنے کی نیت ہی نہیں تھی تو پھر آپ کے ان دلائل کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے؟؟؟؟ اور آپ عطاری ہیں یعنی اعلیٰ حضرت کے پیروکار تو کیا یہ آپ کو زیب دیتا ہے کہ آپ اعلیٰ حضرت کے لئے وہ بات کہیں جو انھوں نے کی ہی نہیں؟؟؟؟؟

صلاحیت حکمت کی ہے جسے آپ جھوٹ سے تعبیر کر رہے ہیں۔
حکمت سے ناآشنا لوگ حکیم پر صبر نہیں کر پاتے۔ یا تو تمسخر کرتے ہیں یا پھر سوال کرتے ہیں۔

حضرت جو آپ کو آرٹیکل پیش کیا ہے نا اس کو بغور پڑھئے گا پھر حکمت اور خاص طور پر انبیاء علیہم السلام کے عمل کی مثال دیجئے گا۔ جسے آپ حکمت کا نام دے رہے ہیں وہ کسی صورت حکمت نہیں ہے۔ آپ توریہ اور تعریض پر غور و فکر کریں اور اس کی شرعی ضرورت اور استعمال کے بارے میں بھی پڑھئے۔ آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کیا فرما رہے ہیں!!!!

آپ جنگ کی بات کر رہے ہیں، یہاں ھکمت و سلامتی کی باتیں ہو رہی ہیں۔
حضور جنگ کی بات میں نے نہیں کی ہے یہ آپ کا ہی مراسلہ ہے جس میں آپ اس حکمت کا استعمال دجل سے مقابلہ کرنے کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ جو کہا کریں نا اس پر قائم رہا کریں بلکہ ٹھرنے کی عادت بنائیے۔ یہ آپ کی کافی پختہ عادت معلوم ہوتی ہے کہ آپ جو کہتے ہیں اس کا جب اقتباس بھی لے کر آپ سے سوال کیا جائے تو آپ فرما دیتے ہیں کہ آپ نے تو یہ کہا ہی نہیں!!!!

یہ میری ذاتی رائے ہے۔ اس رائے کو عام کرنا میں نے اس لیے اہم سمجھا کہ اس دور میں حکمت امام احمد رضا رحمہ اللہ تعالیٰ معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ جو بنیادی طور پر دجل کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر دیکھنا اور اسکا مقابلہ کرنا ہے۔

اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شاید آپ سائنس مخالف ہیں اور سائنس کا مقابلہ کرنے کے لئے دین میں حکمت کے نام پر جھوٹ کے استعمال کا جواز فراہم کرنا چاہتے ہیں!!!!!
 
آخری تدوین:

فہد مقصود

محفلین
چوہدری صاحب عقیدت مند تو ہم بھی ہیں، "اللہ کے فضل" سے ایک بریلوی گھرانے میں پیدا ہوا تھا اور بچپن میں جمعے کی نماز کا خاص اہتمام صرف اور صرف اعلیٰ حضرت کے مشہور و معروف و مقبول سلام کو با جماعت پڑھنے کے لیے کیا جاتا تھا۔

لیکن اندھی عقیدت کا کیا کیا جائے؟ ہم اہلِ سنت مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ انبیا و پیغمبر معصوم ہوتے ہیں یعنی غلطی نہیں کر سکتے، اہلِ تشیع اس میں چودہ معصومین کا اور اضافہ کر لیتے ہیں لیکن برصغیر میں تو لگتا ہے کہ ہر مولانا، ہر مولوی، ہر ملا ہی معصوم اور غلطی سے ماورا ہے۔ مجال ہے جو کسی کی غلطی مان لی جائے حالانکہ کسی کی غلطی ثابت ہو جانے سے اس کی عظمت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مثال کے طور پر ارسطو کے کتنے ہی نظریات غلط ثابت ہو چکے ہیں، وہ تو یہ بھی کہتا تھا کہ عورتوں کے دانت کم ہوتے ہیں، لیکن ان تمام غلطیوں کے باوجود اس کی عظمت میں کوئی فرق نہیں پڑا، لیکن یہاں کسی ایک شخص کی غلطی مان لینا گویا پورے اسلام کی توہین کر دینا ہے۔ اعلیٰ حضرت سے اگر کوئی سائنسی غلطی ہو گئی ہے تو اس کو مان لینے سے اعلیٰ حضرت کی عظمت پر کچھ فرق نہیں پڑتا لیکن اس غلطی کے کھوکھلے اور مضحکہ خیز دفاع سے لوگ اپنی اور اپنے ممدوح کی جگ ہنسائی ضرور کرواتے ہیں۔

بہت عمدہ بات کہی۔
بڑے لوگوں کو انسان کے مقام پر رکھ کر ان کی عظمت کا اعتراف کرنے اور بیک وقت ان کی غلطیوں کی نشاندہی کرنے سے ان کے مقام پر کوئی حرف نہیں آتا۔ اندھی شخصیت پرستی صرف علمی جمود پیدا کرتی ہے۔
یہاں امام مالک کا وہ قول یاد آگیا کہ جب جناب امام نے مسجدِ نبوی میں روضۂ رسولﷺ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ صرف اس قبر میں مدفون ہستی سے کوئی خطا نہیں ہوسکتی، باقی ہر انسان سے علمی غلطی ہوتی ہے۔ میری بات کو عقل کی روشی میں سمجھو اور میری کسی بات کو رسولﷺ کے مخالف پاؤ تو اسے اٹھا کے دیوار سے دے مارو۔

یہ ہوئی نا بات!
جزاکم اللہ خیراً و احسن الجزاء فی دنیا و آخرة۔۔

علماء بھی بشر ہیں۔ میں اہلحدیث کے علماء کے علم سے استفادہ حاصل کرتا ہوں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی کی ایسی بات جو قرآن اور حدیث سے متصادم ہو اس کو صرف اس لئے مانتا رہوں کہ یہ اہلحدیث ہیں۔ ایک مثال ابنِ تیمیہ کی دینا چاہوں گا۔ ان کا بہت ہی مشہور معاملہ ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں صحیح حدیث کو ضعیف ماننے کا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں آنکھ بند کر کے ان کی بات مان لوں!!! شیخ البانی نے ان کا اس سلسلے میں رد کیا ہے۔ صرف ہم عام پیروکار ہی کیا علماء میں بھی یہ ہمت ہونی چاہئے کہ اپنے بزرگوں کی غلطی کو غلطی کہنے کی ہمت رکھیں بلکہ اس کی نشاندہی بھی کریں تاکہ عوام کہیں غلطی یا کم علمی کی بدولت اس پر عمل نہ کرنے لگ جائیں۔ لیکن برصغیر میں زیادہ تر الٹ ہوتا ہے۔ ہر حال میں دفاع کیا جاتا ہے اور سب چلتا رہتا ہے۔

سارے معاملات اندھی تقلید اور عقیدتمندی میں ہی خراب ہوتے ہیں اور یہی برصغیر کا اصل مسئلہ ہے۔ اگر آج برصغیر کے علماء قرآن اور حدیث سے متصادم عقائد کا رد کھل کر کرنے لگ جائیں تو دین میں بدعنوانی ختم ہو جائے گی۔
 

سید رافع

محفلین
حضرت یوسف علیہ السلام کی مثال یہاں دینا میرے خیال سے برمحل نہیں ہے کیونکہ آپ نے ان کے جس عمل کی طرف اشارہ کیا ہے وہ توریہ و تعریض ہے۔ توریہ یا تعریض اور صریح جھوٹ میں بہت فرق ہے۔ آپ کے لئے ایک آرٹیکل پیشِ خدمت ہے

http://magazine.mohaddis.com/shumara/350-222-1999-jun/3307-quran-wo-sunnat-ka-bahmi-talluq

ہو سکتا ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد آپ کے لئے یہ سمجھنا آسان ہو کہ آپ اعلیٰ حضرت کے جس عمل کو زبردستی حکمت کا نام دے رہے ہیں اسے حکمت نہیں کہا جاسکتا ہے۔ اور خاص طور پر قرآن اور حدیث کو استعمال کرتے ہوئے اور آپ کے بقول علم اور سمجھ بھی رکھتے ہوئے ایسی بات دین میں کہنے کے کیا نتائج ہیں اور اس کے بارے کتنی سختی سے حکم آیا ہے آپ یقیناً جانتے ہی ہوں گے! اس لئے آپ ان کے لئے ایسی بات کہنے سے اجتناب کریں! آپ خود اعلیٰ حضرت کے لئے مشکلات کھڑی کر رہے ہیں! کل کو کوئی بھی آپ کے ان دلائل کا حوالہ دے کر کہہ سکتا ہے کہ دیکھو دین کے معاملے میں جانتے بوجھتے یہ سب کیا گیا!!!! اب اگر اعلیٰ حضرت کی ایسی نیت نہیں تھی تو آپ نے ان کے لئے خود ہی ایک الزام تیار کر دیا ہے!!!

صرف اعلیٰ حضرت ہی امت مسلمہ میں اکیلے نہیں تھے۔ ابھی بھی نجانے کتنے ہی علماء ہیں جو زمین کی حرکت کو مغرب کی سازش قرار دیتے ہیں۔ قرآن کی آیات یا احادیث سے مادی یا دنیاوی معاملات میں نتائج اخذ کرنے میں غلطی ہوسکتی ہے اور ایسا بکثرت ہوتا ہے۔ یہ سب امتِ مسلہ میں ہی عام نہیں ہے بلکہ آپ عیسائیت، یہودیت، ہندو مت وغیرہ کے مذہبی راہنماؤں کے عقائد پڑھ لیں آپ کو سائنس سے جا بجا ٹکراؤ بہت عام نظر آئے گا۔

یہ تو پھر بہت چھوٹا معاملہ ہے اس سے زیادہ خطرناک باتیں تو وہ ہیں جو قرآن اور حدیث میں موجود عقائد سے متصادم ہیں!!!! پریشان تو ہونا سب سے زیادہ ان کے لئے بنتا ہے!!!! آپ نجانے کیوں اسے زور زبردستی حکمت کا نام دینا چاہتے ہیں؟ ارے سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اعلیٰ حضرت یہ کتاب تحریر فرما رہے تھے تو کیا کسی اپنے شاگرد یا اپنے پیروکار کے سامنے انھوں اس بات کا اعتراف کیا تھا؟؟؟؟ کیا اس بات کے شواہد کہیں آپ کو ملتے ہیں؟؟؟ اگر نہیں تو آپ اپنی طرف سے یہ سب کیسے کہہ سکتے ہیں؟؟؟؟؟ کیا آپ یا میں کسی کے ذہن کے خیالات کو اور وہ بھی ایک ایسے صاحب کے جو کہ اس دنیا میں اب نہیں رہے کیسے جان سکتے ہیں؟؟؟؟ اگر آپ ایسی بات کا دعویٰ کر رہے ہیں جو کہ اعلیٰ حضرت کے کرنے کی نیت ہی نہیں تھی تو پھر آپ کے ان دلائل کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے؟؟؟؟ اور آپ عطاری ہیں یعنی اعلیٰ حضرت کے پیروکار تو کیا یہ آپ کو زیب دیتا ہے کہ آپ اعلیٰ حضرت کے لئے وہ بات کہیں جو انھوں نے کی ہی نہیں؟؟؟؟؟



حضرت جو آپ کو آرٹیکل پیش کیا ہے نا اس کو بغور پڑھئے گا پھر حکمت اور خاص طور پر انبیاء علیہم السلام کے عمل کی مثال دیجئے گا۔ جسے آپ حکمت کا نام دے رہے ہیں وہ کسی صورت حکمت نہیں ہے۔ آپ توریہ اور تعریض پر غور و فکر کریں اور اس کی شرعی ضرورت اور استعمال کے بارے میں بھی پڑھئے۔ آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کیا فرما رہے ہیں!!!!


حضور جنگ کی بات میں نے نہیں کی ہے یہ آپ کا ہی مراسلہ ہے جس میں آپ اس حکمت کا استعمال دجل سے مقابلہ کرنے کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ جو کہا کریں نا اس پر قائم رہا کریں بلکہ ٹھرنے کی عادت بنائیے۔ یہ آپ کی کافی پختہ عادت معلوم ہوتی ہے کہ آپ جو کہتے ہیں اس کا جب اقتباس بھی لے کر آپ سے سوال کیا جائے تو آپ فرما دیتے ہیں کہ آپ نے تو یہ کہا ہی نہیں!!!!



اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شاید آپ سائنس مخالف ہیں اور سائنس کا مقابلہ کرنے کے لئے دین میں حکمت کے نام پر جھوٹ کے استعمال کا جواز فراہم کرنا چاہتے ہیں!!!!!

آپ کا طرز تکلم علم کلام کے تابع معلوم ہوتا ہے جس کا سنت کی خیر خواہی والے کلام سے علاقہ نہیں۔ آپ کے سوالوں کی کیفیت سیدنا موسی علیہ السلام وخضر علیہ السلام کے قصے جیسی معلوم ہوتی ہے۔ آپ سوال کیے جائیں گے اور صبر نہیں کر پائیں گے۔ میں علم لدنی حاصل کرنے کے درپے ہوں اور آپ شریعت کی حدود سے نکل جانے کے خوف سے سوال کرنے پر مجبور ہیں۔

چنانچہ اگر میں ان سوالوں کے جواب دے بھی دوں تب بھی آپکی تشفی نہ ہو گی۔ سو آپ سے حتمی طور پر سوال ہے کہ کیا آپ علم لدنی سیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں؟ یہ ایک الگ دریا ہے اور اسکے پانی کا ذائقہ اس ذائقے سے مختلف ہے جو اس وقت آپ کی پیاس بجھا رہا ہے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آپ نے اس سے قبل لفظ "کوئی" کی یاد دھانی یورپ کی ترقی والی لڑی میں کرائی تھی۔ غالبا بات یہ تھی کہ سود کی وجہ مسلمانوں کا کوئی عمل قبول نہیں ہو رہا۔ اسی طرح آپ نے مرشدی عطار کے ذیل میں فرقے کے متعلق پوچھا تھا۔ یہ دونوں اور دیگر باتیں ویسی نہیں جیسی کہ آپ نے منطق کے ذریعے بیان کیں۔ ذہن تضاد نہیں سہار سکتا قلب سہار سکتا ہے۔ آپ ذہن کے مقام سے گفتگو کرتے ہیں۔ میں قلب کے مقام سے بات کرتا ہوں۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔

آپ خوب جانتے ہیں کہ دنیا میں وقت مختصر ہے۔ قیل و قال سے بہتر چیز خیر خواہی ہے۔ اس سے سوال کم ہو جاتے ہیں۔ نیت کو پہچاننا بھی ایک علم ہے۔ آپ کو خود فیصلہ کرنا ہو گا کہ شریعت کے قیل و قال اے پیدا ہونے والے خوف میں زندگی گزارنی ہے یا اللہ سے امید رکھ کر اسکا دوست بن کر بھرپور زندگی گزارنی ہے۔ مجھ سے جہاں تک ہوا اس جست کو لینے میں آپ سے تعاون کروں گا۔
 

فہد مقصود

محفلین
آپ کا طرز تکلم علم کلام کے تابع معلوم ہوتا ہے جس کا سنت کی خیر خواہی والے کلام سے علاقہ نہیں۔ آپ کے سوالوں کی کیفیت سیدنا موسی علیہ السلام وخضر علیہ السلام کے قصے جیسی معلوم ہوتی ہے۔ آپ سوال کیے جائیں گے اور صبر نہیں کر پائیں گے۔ میں علم لدنی حاصل کرنے کے درپے ہوں اور آپ شریعت کی حدود سے نکل جانے کے خوف سے سوال کرنے پر مجبور ہیں۔

چنانچہ اگر میں ان سوالوں کے جواب دے بھی دوں تب بھی آپکی تشفی نہ ہو گی۔ سو آپ سے حتمی طور پر سوال ہے کہ کیا آپ علم لدنی سیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں؟ یہ ایک الگ دریا ہے اور اسکے پانی کا ذائقہ اس ذائقے سے مختلف ہے جو اس وقت آپ کی پیاس بجھا رہا ہے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آپ نے اس سے قبل لفظ "کوئی" کی یاد دھانی یورپ کی ترقی والی لڑی میں کرائی تھی۔ غالبا بات یہ تھی کہ سود کی وجہ مسلمانوں کا کوئی عمل قبول نہیں ہو رہا۔ اسی طرح آپ نے مرشدی عطار کے ذیل میں فرقے کے متعلق پوچھا تھا۔ یہ دونوں اور دیگر باتیں ویسی نہیں جیسی کہ آپ نے منطق کے ذریعے بیان کیں۔ ذہن تضاد نہیں سہار سکتا قلب سہار سکتا ہے۔ آپ ذہن کے مقام سے گفتگو کرتے ہیں۔ میں قلب کے مقام سے بات کرتا ہوں۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔

آپ خوب جانتے ہیں کہ دنیا میں وقت مختصر ہے۔ قیل و قال سے بہتر چیز خیر خواہی ہے۔ اس سے سوال کم ہو جاتے ہیں۔ نیت کو پہچاننا بھی ایک علم ہے۔ آپ کو خود فیصلہ کرنا ہو گا کہ شریعت کے قیل و قال اے پیدا ہونے والے خوف میں زندگی گزارنی ہے یا اللہ سے امید رکھ کر اسکا دوست بن کر بھرپور زندگی گزارنی ہے۔ مجھ سے جہاں تک ہوا اس جست کو لینے میں آپ سے تعاون کروں گا۔

حضور آپ میرے طرزِ عمل پر سو بار انگلی اٹھائیں، مجھے سنت کے خلاف جانے کا کہیں بلکہ ہزار بار ثابت کریں مجھے بالکل بھی اعتراض نہیں ہوگا لیکن آپ سے ہاتھ جوڑ کر ایک درخواست ہے میں بہت گناہگار انسان ہوں میرے طرزِ عمل کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے طرزِ عمل کی مثال نہ دیں۔ کہاں ایک نبی اور کہاں مجھ خطا کار کی حرکتیں؟؟؟ مجھے سو بار بے صبرا کہیں لیکن یہ نہ کریں۔ اپنے لئے کوئی بھی مثال دیں میرے لئے نہیں۔ ہاتھ جوڑ کر درخواست کرتا ہوں آئندہ ایسا نہ کیجئے گا.

علم لدنی کے بارے میں تو میں یہ جانتا ہوں

(72) علم لدنی کی تشریح | اردو فتویٰ

آپ فرمائیے کہ آپ علم لدنی سے کیا مراد لیتے ہیں؟ ویسے مجھے اندازہ ہے کہ آپ کیا بتائیں گے لیکن پھر بھی شرکاء محفل کے علم میں اضافہ کے لئے میں چاہوں گا کہ آپ خود ہی بتا دیں :)

حضور جس کو آپ خوف کا نام دے رہے ہیں نا یہ دین کے اندر رہنے کا نام ہے اور میں اس میں بخوشی رہنا پسند کرتا ہوں۔ یہ ایک جہدِ مسلسل ہے حق اور سچ کی تلاش کی اور یقین جانیے مجھے اس میں بہت مزہ آتا ہے۔

البتہ میں چاہوں گا کہ یہ جو آپ اللہ کا دوست بننے اور شریعت کے قیل و قال میں فرق بتا رہے ہیں اسے ذرا وضاحت سے بیان کر دیں۔ کیا شریعت کے قیل و قال کے بغیر اللہ کا دوست بننا ممکن ہے؟؟؟
 
آخری تدوین:

فہد مقصود

محفلین
بالکل بھی عجیب بات نہیں ہے۔ جب آپ اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ قرآنی آیات سے زمین کا گھومنا ثابت کیا جا سکتا ہے، تو پھر اگر کوئی عالم دین اس کے برعکس انہی قرآنی آیات سے ثابت کر دیتا ہے تو اسے بھی ماننا پڑا گے۔ تب آپ جدید مغربی سائنس کا حوالہ دے کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ صحیح وہی ہے جو سائنس کہہ رہی ہے۔

بھائی صاحب یہاں معاملہ قرآن سے ثبوت فراہم کرنے سے زیادہ آگے کا ہے۔ جیسے اوپر ایک بھائی صاحب نے پیروکاروں کے دعویٰ کا ذکر کیا کہ اعلیٰ حضرت ہر علم میں یکتا تھے یہ مسلمانوں کی اکثریت سے بہت ہی مختلف معاملہ ہو جاتا ہے۔ ذرا یہ ویڈیو ملاحظہ کریں۔ آپ کو کچھ اندازہ ہو جائے گا۔

 

محمد وارث

لائبریرین
نیوٹن کے پہلے قانون کے مطابق کائنات کا ہر جسم اپنے inertia پر چلتا ہے۔ اس انیرشیا کی تین اقسام ہیں:
۱۔ ساکن: جب تک کسی جسم پر کوئی بیرونی قوت اثر نہ ڈالے وہ ساکن ہی رہتا ہے
۲۔ متحرک: جب تک کسی متحرک جسم پر کوئی بیرونی قوت اثر نہ ڈالے اس کی رفتار تبدیل نہیں ہو سکتی
۳۔ سمتی: جب تک کسی متحرک جسم پر کوئی بیرونی قوت اثر نہ ڈالے اس کی سمت تبدیل نہیں ہو سکتی

اس اٹل طبیعیاتی قانون کے مطابق زمین کا گردش کرنا اس پر پائے جانے ہر جسم کو ایک جیسا انیرشیا فراہم کرتا ہے۔ یوں جب سیٹلائٹ یا موسمیاتی غبارے کرہ ارض سے باہر نکل جاتے ہیں اور ہوا کی مزاحمت یعنی فکرشن ان پر اپنا اثر نہیں ڈال سکتی۔ تو یہ زمین کی گردش کے ساتھ جیو اسٹیشنری یعنی ایک جگہ ٹکا ہوا مدار حاصل کر لیتے ہیں:
FEB18-DB0-E32-D-4179-A680-C1-D07685-BD6-C.png

Newton's Law Of Inertia (Definition, Examples And Lot's More)
امام صاحب کے رسالے کے عنوان میں چونکہ "ردِ حرکتِ زمین" کے الفاظ ہیں اس لیے لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ کتاب صرف زمین کی حرکت کے رد میں ہے۔ کتاب کو اگر ایک نظر ہی دیکھا جائے (گو زبان انتہائی دقیق ہے اس وجہ سے کہ اس میں عام سائنسی ٹرمز کے دقیق عربی مترادفات لکھے گئے ہیں جن سے اب شاید کوئی بھی مکمل آشنا نہ ہو) تو علم ہو جائے گا کہ امام صاحب نے اس کتاب میں تمام بدیہی سائنسی نظریات کا رد بھی فرمایا ہے، جیسے کششِ ثقل، centrifugal force یا centripetal force وغیرہ ان سب کا رد اور انکار کیا گیا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اور جو لوگ سمجھتے ہیں کہ امام احمد رضا کی کتاب سر سید احمد کی کتاب کے خلاف لکھی گئی تھی ان کے لیے عرض ہے کہ سر سید احمد خان نے تو خود زمین کی حرکت کے ابطال (رد) میں ایک رسالہ لکھا تھا، یہ 1848ء کا قصہ ہے جب سر سید احمد خان ابھی "سر" نہیں ہوئے تھے۔ پس ثابت ہوا کہ امام احمد رضا کی کتاب سر سید کی کتاب کے خلاف نہیں ہے کیونکہ سر سید کی اپنی کتاب زمین کے حرکت کے رد میں ہے۔

آرکائیوز پر سر سید احمد کے مختصر سے رسالے کا ربط:

"قولِ متین در ابطالِ حرکتِ زمین"
 

سید رافع

محفلین
اپنے لئے کوئی بھی مثال دیں میرے لئے نہیں۔
دین خیر خواہی کا نام ہے۔ جو اپنے لیے پسند کریں وہی میرے لیے پسند کریں۔ کتابوں سے پیدا ہونے والا خوف اور ہوتا ہے جبکہ اللہ کا اور ہوتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام آپکے قلب کے لیے تسکین کا باعث ہیں۔

علم لدنی کے بارے میں تو میں یہ جانتا ہوں

(72) علم لدنی کی تشریح | اردو فتویٰ

آپ فرمائیے کہ آپ علم لدنی سے کیا مراد لیتے ہیں؟
جب آپ نے بتا دی تو کافی ہے۔

ویسے مجھے اندازہ ہے کہ آپ کیا بتائیں گے لیکن پھر بھی شرکاء محفل کے علم میں اضافہ کے لئے میں چاہوں گا کہ آپ خود ہی بتا دیں :)
آپکے لیے علم لدنی یہ ہے کہ صبح جیسے نماز پڑھتے ہیں پڑھ لیں۔ پھر قریبی جماعت اسلامی کے دفتر جائیں۔ علیک سلیک کریں اور قلب میں جگہ دیے بغیر جماعت کے موجودہ مقاصد کی بابت دریافت کریں۔ وہاں سے ڈاکٹر اسرار احمد کی تنظیم اسلامی کے دفتر کی راہ لیں۔ وہاں بھی یہی عمل دہرائیں۔ ظہر قریبی بریلوی مسلک کی مسجد میں پڑھیں۔ امام و موذن صاحب سے مصافحہ کریں اور پانچ پانچ سو روپے ہدیہ کریں۔ مسجد سے نکل کر ڈاکٹر طاہر القادری کے منہاج کے دفتر کی راہ لیں۔ وہاں بھی وہی عمل دوہرائیں کہ ان لوگوں کے مقاصد دریافت کریں۔ ان سے خوارج سے متعلق کتاب خرید لیں یا انٹرنیٹ کا لنک دریافت کریں۔ حالانکہ آپ یہ سب معلومات خود انٹرنیٹ سے حاصل کر سکتے ہیں۔ عصر قریبی دیوبندی مسجد میں ادا کریں۔ اگر نماز کا وقت نہ ہوا ہو تو درود شریف صلی اللہ تعالیٰ علی محمد میں مصروف رہیں۔ نماز ادا کریں۔ امام و موذن سے مصافحہ فرمائیں اور امام صاحب سے علم لدنی سے متعلق دریافت کریں۔ حالانکہ آپکو معلوم ہے۔ مغربین قریبی امام بارگاہ میں ادا کریں۔ جانے سے قبل انٹرنیٹ سے شیعہ نماز کا طریقہ سیکھ کر جائیں۔ بعد از نماز امام صاحب سے نہجہ البلاغہ کے صحیح ترین ایڈیشن کے متعلق پوچھیں۔ گھر آ کر پہلے انجینیر علی مرزا کو آدھا گھنٹا دیکھیں اور پھر ڈاکٹر ذاکر نائک کو ایک گھنٹہ دیکھیں۔ آخر میں صحیح مسلم کا باب الفتن پڑھ کر سو جائیں۔ بقیہ زندگی جیسے آج گزارتے ہیں گذاریں۔

حضور جس کو آپ خوف کا نام دے رہے ہیں نا یہ دین کے اندر رہنے کا نام ہے اور میں اس میں بخوشی رہنا پسند کرتا ہوں۔ یہ ایک جہدِ مسلسل ہے حق اور سچ کی تلاش کی اور یقین جانیے مجھے اس میں بہت مزہ آتا ہے۔
دوسروں کی سلامتی پر زک پڑتی ہے۔ اگر ابھارا گیا تو قوم کی سلامتی پر زک آئے گی۔

البتہ میں چاہوں گا کہ یہ جو آپ اللہ کا دوست بننے اور شریعت کے قیل و قال میں فرق بتا رہے ہیں اسے ذرا وضاحت سے بیان کر دیں۔ کیا شریعت کے قیل و قال کے بغیر اللہ کا دوست بننا ممکن ہے؟؟؟
جی ہاں۔ اپنے گھر کی چھت یا کسی گوشے میں یا قبرستان یا کسی پہاڑ یا کسی سمندر کے کنارے ایسی جگہ کھڑے ہوں جہاں تنہائی میسر ہو۔ اپنے ذہن کو دیکھیں کہ کس چیز سے خوف کھا رہا ہے؟ کسی کتاب، کسی دلیل، کسی عالم وہ کیا شئے ہے جو آپ کو خوف میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔ خوف کا اپنے قلب کی نیت سے موازنہ کیجیے۔ نیت اللہ سے ڈرنے کی نہیں پائیں گے۔ اب اپنے اعصاب کو ہر روز اس ڈر و خوف سے آزاد کرنے میں لگائیں جو اللہ کے لیے نہیں ہے۔ ہر شئے کا علاج اسکی ضد سے ہے۔ سو الٹ کام کر کے خوف سے آزاد ہوں۔ چاہے برادری بھائی کا ہو، دلیل یا عالم کا ہو یا معاشرے اور روایات کا ہو۔ یاد رکھیں جست لمبی نہ ہو۔ شریعت کے اندر ہو۔ حواس برقرار رہیں۔ معاش و صحت برقرار رہے۔ امید رکھیں کہ اللہ ظالم نہیں ہے۔ جو جو خوف اللہ کے لیے نہیں ہے جب اس سے نجات پائیں، یعنی برعکس عمل کر لیں تو جان لیں کہ اللہ کتنا مہربان ہے کہ اس نے کوئی پکڑ نہیں کی۔ اللہ کا شکر ادا کریں۔ یوں اللہ کے دوست بن جائیں۔
 
جس سے سب تشویش صاف ہو جائے گی۔
آپ کے اس جملے سے میں اپنا نقطۂ نظر واضح کر دیتا ہوں۔
کہ الحمد للہ مجھے اس حوالے سے کوئی تشویش نہ ہے اور نہ ہی ایسی تشویشات پالنے کا شوق۔
جن علوم پر میرا مطالعہ اتنا نہیں کہ میں اپنی رائے دے سکوں، اور نہ میرے پاس اتنا وقت ہے کہ میں محض اپنی رائے دینے کے لیے ان علوم کو پڑھوں، اور نہ میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ ہر معاملہ میں اپنی رائے دوں، تو بھلا مجھے تشویش کیوں لاحق ہو گی؟ :)
جو لوگ ان علوم کے ماہر ہیں، یا جو ان علوم پر مہارت کا دعویٰ رکھتے ہیں، وہ اپنا کام کر چکے ہیں یا کر رہے ہیں۔ میری کوشش رہتی ہے کہ اپنا وقت اپنی ذمہ داریوں اور ان امور پر ہی صرف کروں جہاں مفید ثابت ہو سکوں۔ بحث در بحث، لایعنی و لاحاصل مباحث کو دور سے سلام ہے۔ :)
 

سید رافع

محفلین
سید صاحب، گو حکمت والی بات مکمل ہضم نہیں ہو پارہی اور شاید اس میں بھی زیادہ قصور میرے ناقص انداز فکر و سوچ کا یے، کہ معاملات کو اس پہلو پر کم ہی پرکھا۔ لیکن ایک بات وثوق سے کہوں گا کہ بہت عرصے بعد سوشل میڈیا پر کسی کو انتہائی مدلل گفتگو کرتے پایاہے۔ یقیناً آپ کو اپنا خیال اور فکر خوبصورت انداز میں بیان کرنے کا ہنر آتا ہے۔ ماشاءاللہ۔

عبد القیوم صاحب، حکمت والی بات کے لیے کم از کم ملفوظات اعلی حضرت اور الدولۃ المکیۃ بالمادۃ الغیبیۃ جو کہ 8 گھنٹے میں تحریر کی گئی پڑھنا ہو گی۔ اب کی بار ذہن میں یہ رکھیں کہ ایک ایسے عالم کو پڑھ رہا ہوں جو وَمَكَرُواْ وَمَكَرَ اللّهُ وَاللّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِين سے آراستہ ہے۔ امید ہے کہ حکمت کے باب میں افاقہ ہو گا۔ جہاں تک میری مدلل گفتگو کا سوال ہے تو میں کون اور میری اوقات کیا۔ حالانکہ مجھے اردو نثر لکھنا نہیں آتی لیکن میں اصل میں پرمزاح تحریر لکھنے کا عادی تھا۔ یہ دلیل بھری تحریر ویسے بھی میرے ذہن پر بھاری ہوتی ہے۔ اتنی استعداد اور قابلیت نہیں ہے۔ میں جلد ہی پرمزاح تحریریں لکھ کر اپنی اصل زمین کی طرف واپس آوں گا۔ مجھے آپکی قصہ چہار درویش جدید بہت اچھی لگی تھی۔ ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا تھا۔ دوستوں سے شئیر کی تو انکو بھی بہت مزا آیا۔ میں بھی ایسی تحریریں لکھنا پسند کرتا ہوں۔ باقی اللہ کی مرضی۔
 

سید رافع

محفلین
آپ کے اس جملے سے میں اپنا نقطۂ نظر واضح کر دیتا ہوں۔
کہ الحمد للہ مجھے اس حوالے سے کوئی تشویش نہ ہے اور نہ ہی ایسی تشویشات پالنے کا شوق۔
جن علوم پر میرا مطالعہ اتنا نہیں کہ میں اپنی رائے دے سکوں، اور نہ میرے پاس اتنا وقت ہے کہ میں محض اپنی رائے دینے کے لیے ان علوم کو پڑھوں، اور نہ میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ ہر معاملہ میں اپنی رائے دوں، تو بھلا مجھے تشویش کیوں لاحق ہو گی؟ :)
جو لوگ ان علوم کے ماہر ہیں، یا جو ان علوم پر مہارت کا دعویٰ رکھتے ہیں، وہ اپنا کام کر چکے ہیں یا کر رہے ہیں۔ میری کوشش رہتی ہے کہ اپنا وقت اپنی ذمہ داریوں اور ان امور پر ہی صرف کروں جہاں مفید ثابت ہو سکوں۔ بحث در بحث، لایعنی و لاحاصل مباحث کو دور سے سلام ہے۔ :)

آپ کی بات مجھے اچھی لگی۔ اس معاملے میں جلد آپ اپنے ساتھ پائیں گے کہ مفید زندگی گزاریں اور اپنی حد میں رہیں۔ :) حد کو پہچانا ایمان کی نشانی ہے۔
 
آخری تدوین:
اور جو لوگ سمجھتے ہیں کہ امام احمد رضا کی کتاب سر سید احمد کی کتاب کے خلاف لکھی گئی تھی ان کے لیے عرض ہے کہ سر سید احمد خان نے تو خود زمین کی حرکت کے ابطال (رد) میں ایک رسالہ لکھا تھا، یہ 1848ء کا قصہ ہے جب سر سید احمد خان ابھی "سر" نہیں ہوئے تھے۔ پس ثابت ہوا کہ امام احمد رضا کی کتاب سر سید کی کتاب کے خلاف نہیں ہے کیونکہ سر سید کی اپنی کتاب زمین کے حرکت کے رد میں ہے۔

آرکائیوز پر سر سید احمد کے مختصر سے رسالے کا ربط:

"قولِ متین در ابطالِ حرکتِ زمین"

مراسلہ اول میں سید صاحب نے کسی کتاب کا ذکر نہیں کیا تھا۔ بلکہ
دشمن بھی ایسا جو اپنوں کے روپ میں سر سید بن کر روز جزا و سزا، میدان حشر و نشر ، شیطان و جن الغرض اسلام کی عمارت کی ایک ایک اینٹ زمین پر پٹخ دینا چاہتا ہو۔

ایسے میں یہ بھی سوچا جا سکتا ہے کہ امام احمد رضا صاحب نے سرسید صاحب کے رسالے کے مقابلے میں اپنا رسالہ لکھا تاکہ علم کے متلاشی سرسید کے رسالے سے مرعوب ہو کر ان کے دیگر نظریات کو بھی من وعن قبول نا کرنا شروع کردیں۔
 
عبد القیوم صاحب، حکمت والی بات کے لیے کم از کم ملفوظات اعلی حضرت اور الدولۃ المکیۃ بالمادۃ الغیبیۃ جو کہ 8 گھنٹے میں تحریر کی گئی پڑھنا ہو گی۔ اب کی بار ذہن میں یہ رکھیں کہ ایک ایسے عالم کو پڑھ رہا ہوں جو وَمَكَرُواْ وَمَكَرَ اللّهُ وَاللّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِين سے آراستہ ہے۔ امید ہے کہ حکمت کے باب میں افاقہ ہو گا۔
سید صاحب بہت شکریہ۔ انشاء اللہ وقت نکال کر ضرور پڑھوں گا۔
 
آپکے لیے علم لدنی یہ ہے کہ صبح جیسے نماز پڑھتے ہیں پڑھ لیں۔ پھر قریبی جماعت اسلامی کے دفتر جائیں۔ علیک سلیک کریں اور قلب میں جگہ دیے بغیر جماعت کے موجودہ مقاصد کی بابت دریافت کریں۔ وہاں سے ڈاکٹر اسرار احمد کی تنظیم اسلامی کے دفتر کی راہ لیں۔ وہاں بھی یہی عمل دہرائیں۔ ظہر قریبی بریلوی مسلک کی مسجد میں پڑھیں۔ امام و موذن صاحب سے مصافحہ کریں اور پانچ پانچ سو روپے ہدیہ کریں۔ مسجد سے نکل کر ڈاکٹر طاہر القادری کے منہاج کے دفتر کی راہ لیں۔ وہاں بھی وہی عمل دوہرائیں کہ ان لوگوں کے مقاصد دریافت کریں۔ ان سے خوارج سے متعلق کتاب خرید لیں یا انٹرنیٹ کا لنک دریافت کریں۔ حالانکہ آپ یہ سب معلومات خود انٹرنیٹ سے حاصل کر سکتے ہیں۔ عصر قریبی دیوبندی مسجد میں ادا کریں۔ اگر نماز کا وقت نہ ہوا ہو تو درود شریف صلی اللہ تعالیٰ علی محمد میں مصروف رہیں۔ نماز ادا کریں۔ امام و موذن سے مصافحہ فرمائیں اور امام صاحب سے علم لدنی سے متعلق دریافت کریں۔ حالانکہ آپکو معلوم ہے۔ مغربین قریبی امام بارگاہ میں ادا کریں۔ جانے سے قبل انٹرنیٹ سے شیعہ نماز کا طریقہ سیکھ کر جائیں۔ بعد از نماز امام صاحب سے نہجہ البلاغہ کے صحیح ترین ایڈیشن کے متعلق پوچھیں۔ گھر آ کر پہلے انجینیر علی مرزا کو آدھا گھنٹا دیکھیں اور پھر ڈاکٹر ذاکر نائک کو ایک گھنٹہ دیکھیں۔ آخر میں صحیح مسلم کا باب الفتن پڑھ کر سو جائیں۔ بقیہ زندگی جیسے آج گزارتے ہیں گذاریں۔
:nerd::nerd:
سنا تھا کہ دو کشتیوں کا مسافر کہیں کا نہیں رہتا پر آپ تو پانچ سات کشتیوں میں ایک ہی دن سوار کرانا چاہتے ہیں۔ اور پھر آخر میں پڑھنا بھی باب الفتن ہے۔
۔۔۔

یہ پورا پیراگراف لطف دے گیا۔ نشہ مزید دو آتشہ ہوتا کہ کہیں راہ میں گیارہویں شریف کا لنگر بھی آفر کرتے اور بابا جی خادم حسین رضوی سے بھی فیض کا موقع ملتا۔ :)
 

سید رافع

محفلین
:nerd::nerd:
سنا تھا کہ دو کشتیوں کا مسافر کہیں کا نہیں رہتا پر آپ تو پانچ سات کشتیوں میں ایک ہی دن سوار کرانا چاہتے ہیں۔ اور پھر آخر میں پڑھنا بھی باب الفتن ہے۔
۔۔۔

یہ پورا پیراگراف لطف دے گیا۔ نشہ مزید دو آتشہ ہوتا کہ کہیں راہ میں گیارہویں شریف کا لنگر بھی آفر کرتے اور بابا جی خادم حسین رضوی سے بھی فیض کا موقع ملتا۔:)

یہ انکےکے لیے علم لدنی کا سفر تھا، آپ کو سفر کی ضرورت ہی نہیں۔ :) سفر کے بعد وہ بقیہ زندگی جس کشتی میں آج گزارتے ہیں اسی میں ہی گذاریں گے۔ انکو اس سفر سے آ لینے دیں اگلے سفر کا مینو مل کر طے کرتے ہیں۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
مراسلہ اول میں سید صاحب نے کسی کتاب کا ذکر نہیں کیا تھا۔ بلکہ


ایسے میں یہ بھی سوچا جا سکتا ہے کہ امام احمد رضا صاحب نے سرسید صاحب کے رسالے کے مقابلے میں اپنا رسالہ لکھا تاکہ علم کے متلاشی سرسید کے رسالے سے مرعوب ہو کر ان کے دیگر نظریات کو بھی من وعن قبول نا کرنا شروع کردیں۔
چلیں کسی معاملے میں تو امام احمد رضا صاحب نے سر سید احمد کی تائید کی، ظاہر ہے سر سید کی کتاب پہلے کی ہے! :)
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top